ہم کالم نگاری کے میدان میں نووارد ہیں ، اردو محاورے کے مطابق جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں ۔نہ جانے روزنامہ 'دنیا‘ کے گروپ ایڈیٹر جناب نذیر ناجی صاحب کے ذہن میں یہ خیال کیسے آیا کہ انہوں نے مجھے کالم لکھنے کی فرمائش کی، میں نے بھی کچھ تردد کے بعداس پیشکش کو قبول کر لیا۔ ہم اپنے مزاج کے اعتبار سے طالبِ علم ہیں ،لہٰذا یہ سوچ کرحامی بھر لی کہ کچھ سیکھنے کا موقع ضرور ملے گا۔ امام احمد رضا قادریؒ کو اُن کے چند عقیدت مند احباب نے ایک ایسی نعت لکھنے کی فرمائش کی جس میں کئی زبانوں کو ایسی مہارت کے ساتھ یکجا کردیا گیاہوکہ اشعار کا آہنگ، وزن اور تسلسل قائم رہے اور معنوی ربط بھی ٹوٹنے نہ پائے؛ چنانچہ انہوں نے ''لَمْ یَأْتِ نَظِیْرُکَ فِیْ نَظَرٍ‘‘ والی مقبولِ عام نعت لکھی اور اس میں عربی، فارسی ، اردو ، ہندی اور پُوربی زبانوں کو خوبصورت انداز میں منظم کیا اور مَقطع میں فرمایا ؎
بس خامۂ خامِ نوائے رضا، نہ یہ طرز میری نہ یہ رنگ میرا
ارشادِ اَحبّا ناطق تھا، ناچار اس راہ پڑا جانا
ہمارے پاس تو زبان وبیان کی مہارت اور مطالب ومعانی کا وہ ذخیرہ نہیں ، جو امام احمد رضا قادریؒ کے پاس تھا ، لیکن اپنا توشہ دان خالی ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے ، اس راہ پر چل پڑے۔ اس میںجو Feedbackیعنی قارئین کے تاثرات ملتے ہیں ، ان میں تحسین بھی ہوتی ہے اور بعض اوقات تنقید بھی، اس سے بہت فائدہ ہوتاہے ۔
بعض روشن خیال دانشوروں کی نظر میں ہم جیسے لوگ تنگ نظر ہوتے ہیں اور ہمارا فہمِ دین بھی ناقص ہے۔ اس کا اظہار کبھی دبے لفظوں میں اور کبھی برملا ہوتاہے۔ہمارے ایک فاضل مہربان جو تجربہ کار اینکرپرسن، کالم نگار، تجزیہ نگار اور معروف لکھاری ہیں۔ ان کے عطا کردہ اصول کے مطابق قرآن کے معانی ومطالب کی تعبیر وتشریح ہر عہد کے''نظمِ اجتماعی‘‘ کا دائرۂ اختیار ہے اور اُس عہد کے لئے قرآن کی وہی تعبیر حُجت ہے،جو ''نظمِ اجتماعی‘‘ طے کرلے۔انہوں نے ''خلافتِ راشدہ‘‘ کو بھی یہی حیثیت (Status)عطا کی ہے اور جناب غلام احمد پرویز نے منصبِ نبوت کو یہ حیثیت دی تھی۔
عہدِحاضر میں ہمارا ''نظمِ اجتماعی‘‘ کیا ہے؟۔ کم وبیش ستاون مسلم ممالک ہیں ، جہاں کی اکثریتی آبادی مسلمان ہے اور حکومت کا نظم مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے۔ ان ممالک کے طرزِ حکومت میں ملوکیت ہے یا آمریت۔ چند ممالک میں‘ جہاں کسی حدتک جمہوریت ہے، وہ بھی اپنے دستوری میثاق کے اعتبار سے سیکولر ہیں ۔ دستوری نہاد اور میثاق کے اعتبار سے صرف پاکستان اور ایران اسلامی جمہوری ریاستیں ہیں ۔
پاکستان کے'' نظمِ اجتماعی‘‘ میں قانون سازی کااختیار پارلیمنٹ کو حاصل ہے ۔ اسلامی فہم کے حوالے سے پارلیمنٹ کی جو دانش، اہلیت اور ترجیحات ہیں ، انہیں ہمارے فاضل دوستوں سمیت ہر کوئی بخوبی جانتا ہے۔ اسی طرح مصائب ومشکلات کا مقابلہ کرنے ،قوم کو بے امنی اور دہشت وفساد کے بحران سے نکالنے کے لئے جو جرأت وہمت درکار ہے ، آیاوہ ہمارے حکمرانوں میں موجود ہے؟، اس سے بھی ہر ایک بخوبی واقف ہے۔
توکیاہم قرآن کی تعبیروتشریح کا مقدّس فریضہ اِس پارلیمنٹ کو تفویض کرنا چاہتے ہیں؟۔اور آج کے ''نظمِ اجتماعی‘‘ کو ''عہدِ صدیقی اور عہدِفاروقی‘‘ کے ''نظمِ اجتماعی‘‘ کے مماثل قرار دینا چاہتے ہیں، کیا یہ سوچ منصفانہ ہے؟۔ہمارے ایک پختہ کار سیاست دان، ماہر آئین وقانون اور سابق وزیر قانون جناب ایس ایم ظفر نے حال ہی میں کہا ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ اب چار عناصر ترکیبی پر مشتمل ہے: (1) پارلیمنٹ (2) سول و ملٹری بیوروکریسی (3)اعلیٰ عدلیہ نے بھی اپنی جگہ بنالی ہے،بلکہ جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور میں عدلیہ سب پر حاوی(Dominant) ہورہی تھی (4)ان کے بقول ہماری اسٹیبلشمنٹ کاایک اہم عنصر آزاد الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا بھی بن چکا ہے۔ہماری رائے میں اب ایک اور غالب عنصرطالبان کی صورت میں اپنے آپ کو منوا چکا ہے، کسی کو اس رائے سے اختلاف ہے ،تو یہ اس کا حق ہے۔ان کے حوالے سے اب حکمران اور سیاست دان ہی نہیں ، ہمارا آزاد میڈیا بھی کافی حدتک ادب کے دائرے میں آتاجارہا ہے اور جارحانہ لب ولہجہ بدل رہا ہے،سویہ ہے ہمارا نظمِ اجتماعی ۔ سیکولرازم کیاہے،اس پر تفصیلی بحث درکار ہے ۔
لیکن کیا یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح نہیں ہے کہ سیکولرازم کی داعی ریاستوں کا''نظمِ اجتماعی‘‘ اسی پر استوار ہے کہ وہ اپنی اجتماعی فلاح کے لئے کسی الہامی ہدایت کے محتاج نہیں ہیں اور نہ ہی وہ اسے قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ان کانظریہ یہی ہے کہ انسان کی اِجماعی یا اکثریتی فکر اپنی صلاح وفلاح کے لئے جو بھی لائحہ عمل تجویز کرے، وہی درست ہے ۔ آج مغرب میں اسی بنیاد پر ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت دے دی گئی ہے، ان کے نظم میں دو مرد یا دو عورتیں باہم شادی کرسکتے ہیںاور قانونی طور پر ایک شادی شدہ جوڑے کی حیثیت سے رہ سکتے ہیں ، نہ یہ کوئی عیب ہے، نہ عار ہے ، بلکہ افتخار ہے ۔
جب تنقید کی جاتی ہے تو ہمارے دانشور کہتے ہیں ، آپ میدانِ عمل میں آئیں اور جمہوری انتخابات کے ذریعے نظام کو اپنے کنٹرول میں لیں اور اپنی پسند کے منہاج پر چلائیں۔ لیکن کیا ہمارے یہ فاضل دانشور دل پر ہاتھ رکھ کریہ بتائیں گے کہ رائج الوقت جمہوری اور انتخابی عمل کے ذریعے وہ خود ایوانِ اقتدار میں پہنچ سکتے ہیں؟ یقینا ان کا جواب نفی میں ہوگا۔ پھر دو ہی راستے رہ جاتے ہیں کہ یا تو انتہا پسند گروہ پیدا کئے جائیں اور ان کے آگے ریاست سپرانداز ہوجائے یا ریاست کوئی ایسی صورت پیدا کرے کہ وہ مسلمانوں کے اجماعی یا اکثریتی نظریات کا احترام کرے اور انہیں اپنے اجتماعی نظام میں حکیمانہ انداز میں جذب کرے تاکہ معاشرے کو موجودہ شکست وریخت اور انتشار سے نجات مل سکے۔
تحریکِ طالبان پاکستان کے لوگ جس مکتبۂ فکر کے علماکا احترام کرتے ہیں اور ان کو اپنا استاذ اور مرشد تسلیم کرتے ہیں، ان میں سے ایک متوازن فکر رکھنے والے عالم سے میں نے پوچھاکہ آپ کے اکابر علما پاکستان کے اندر طالبان کی دہشت گردی کی کارروائیوں کے خلافِ اسلام بلکہ خلافِ انسانیت اور باطل ہونے کے بارے میں دو ٹوک موقف کیوں نہیں اختیار کرتے؟۔ انہوں نے بتایاکہ ہمارے لئے مشکلات ہیںاور یہ آسان کام نہیں ہے۔ ہمارے نوجوان علما اور طلبہ کی ایک بھاری تعداد طالبان کے اس نظریے کی قائل ہوتی جارہی ہے کہ نظام کے اندررہتے ہوئے اس ملک میں نفاذِ شریعت ہمیشہ ایک خواب ہی رہے گا اور یہ خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا۔
اب تو وزیرِ دفاع نے بھی یہ کہہ دیا ہے کہ اگر طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے زیر و آپشن بھی ہو ،تو ہم اسی کو ترجیح دیں گے۔ اور مولاناسمیع الحق صاحب پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ مذاکرات سوبار ناکام ہوں،تب بھی مذاکرات ہی واحد آپشن ہے،ہم آپریشن کے متحمل نہیں ہوسکتے، یعنی اسے Affordنہیں کرسکتے۔ مذاکرات کے پہلے دور کے بعد حکمران اور حکومتی مذاکراتی ٹیم مہر بہ لب ہیںاور قوم کو جو بھی معلومات مل رہی ہیں ، وہ طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے ذریعے ہی مل رہی ہیں۔
ہمارے بہت سے فاضل دانشور تکرار کے ساتھ اس بات کابھی دعویٰ کرتے ہیں کہ قائدِ اعظم پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے اور ان کاویژن یہی تھا۔تحریکِ پاکستان اور قائدِ اعظم کے ویژن پر جو محققین اتھارٹی کا درجہ رکھتے ہیں، وہ اس کا جواب دلائل سے دیتے رہتے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے 67سال بعداس طرح کی بحثیں قوم میں فکری انتشار کا سبب بن رہی ہیں ۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا قائدِ اعظمؒ یا مسلم لیگ کی کسی بھی درجے کی قیادت نے تحریکِ پاکستان کے دوران کبھی ایک بار بھی برملایہ کہا کہ ہم ایک سیکولر ریاست قائم کرنے جارہے ہیں، مسلمان تو اس نعرے کو سن کر تحریکِ پاکستان کے ہمنوا بنے تھے کہ: پاکستان کا مطلب کیا؟لاالٰہ الا اﷲ!
قائد اعظمؒ کی شخصیت پر اس حدتک تو سب کا اتفاق ہے کہ وہ صاف گو انسان تھے،جھوٹ اور منافقت سے کوسوں دور تھے اور ان پر کسی مخالف نے بھی مکروفریب کا الزام نہیں لگایا۔اگر ان کی منزل سیکولر پاکستان ہوتی، تووہ قوم کوکبھی بھی تاریکی میں نہ رکھتے۔