انگریزی زبان کا ایک محاورہ ہے :''Blessing in Disguise‘‘،فارسی میں اِس سے ملتا جلتا محاورہ ہے :'' عَدُوّ شَرّے برانگیزد،مراخیرے دراں باشد ‘‘،میں اختصار کے ساتھ اِسے ''خیرِ مستور ‘‘سے تعبیر کرتاہوں۔اِس سے مراد یہ ہے کہ ایسے امر یا واقعے کا ظہور پذیر ہونا جو بادی ُ النظر (Prima Facie)میں شَر نظر آتا ہے ،لیکن انجامِ کار اُس میں سے خیر کی صورت نکل آتی ہے ۔حامد میر صاحب پر قاتلانہ حملے کے سانحے اور اُس کے فوری بعد ''جیو‘‘ کے رَدِّ عمل سے ایک مُتنازِع صورت پیداہوئی ۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ اِس رَدِّ عمل میں حَدِّ اعتدال سے تجاوز ہوا اور پھر اُس کے رَدِّعمل میں ہمارے دفاعی اور انٹیلی جنس اداروںکے حق میں ایک لہر چل پڑی اور جنگ/جیو کے ادارے اور اس کے مالکان پر غداری کے فتوے صادر ہونے لگے۔ہمارے پاس کوئی ایسا Parameter یعنی پیمانہ یا معیار نہیں ہے ، جس کے ذریعے یہ جان سکیں کہ اچانک یہ لہر بے اختیار اور غیر ارادی طورپر چل پڑی اور افراد ،اداروں،تنظیموں اور جماعتوں کے دل میں ہمارے دفاعی اورحساس اداروں کے حق میں جذبات کا ایک لاوا پھٹ پڑا یا اِس کے پیچھے کچھ غیبی اور نادیدہ قوتوں کی منصوبہ بندی ہے ۔اِس کے بارے میں موقف اور دَعوے مُتَضاد ہیں ، لیکن یہ امرِ واقعہ ہے کہ اس طرح کی صورتِ حال اس سے پہلے پیدا نہیں ہوئی۔جب ''ذرا سوچئے!‘‘ کے عنوان سے حدود قوانین کے خلاف مہم چلائی جارہی تھی ، تو میرے دل میں تمنا تھی کہ مذہبی جماعتیں میدانِ عمل میں آئیں کیونکہ یہ خالص دینی مسئلہ تھا، لیکن کوئی بھی میدانِ عمل میں نہ آیا، حالانکہ اس وقت متحدہ مجلسِ عمل کے پاس ایک مؤثر پارلیمانی قوت بھی تھی۔ اسی طرح جب ''پڑھنے لکھنے کے سوا پاکستان کا مطلب کیا؟‘‘ والا سلوگن سامنے آیا تو دینی قوتیں مکمل طور پر بے حس اور غیر متعلق رہیں ، لیکن اب ماشاء اللہ! یہ متحرک ہوگئی ہیں، تو انہیں مبارک ہو۔
ٹیلی ویژن چینلز میں رقابت ، کاروباری و پیشہ ورانہ مسابقت اورکسی نہ کسی دَرجے میں باہمی مُنافرت کا جذبہ پہلے سے موجود تھا اورلگتا ہے کہیں نہ کہیں یہ چنگاری سُلگ رہی تھی کہ اِس سانحے کے نتیجے میں شعلۂ جوّالہ بن کر پھٹ پڑی ۔رَوَادَاری ،وَضع دَاری اور حیا کا عُنصرپسِ منظر میں چلا گیا اورایک سلسلہ چل پڑا جو اَب تک جاری ہے ۔کہیں حُبِّ علی کے تحت جذبات بے قابو ہوئے اور کہیںاِس کا سبب بغضِ معاویہ تھا ۔
پاکستان میں پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینلزکا سلسلہ اچانک نمودار ہوا اورتھوڑے ہی عرصے میں دسیوں ادارے قائم ہوئے اور میدانِ عمل میں آگئے ، اس لئے ارتقا کی جو فطری رفتار ہوتی ہے کہ غلطیاں ہوتی ہیں ، اصلاح ہوتی ہے اور اس طرح تجرباتی دور سے گزرتے گزرتے ادارہ جاتی اور پیشہ ورانہ بلوغت (Professional Maturity)کی منزل کو پالیتے ہیں ، یہاں ایسا نہیں ہوا، بلکہ ایسا لگا کہ پیدا ہوتے ہی بالغ ہوگئے۔ اپنے شعبے کی پیشہ ورانہ تعلیم وتربیت حاصل کرنے کاتو موقع ہی نہ آیا، خودہی متعلم اور خودہی معلّم بن گئے۔
ہمارے پرنٹ میڈیا یعنی مطبوعاتی صحافت میں قیام ِپاکستان سے پہلے اور بعد کے اَدوَار میں کافی رگڑا لگتا تھا، گھِسنا پڑتا تھا، سینئر زکی ڈانٹ سننی پڑتی تھی ، معاشی ریل پیل اور بلیک میلنگ کا تو تصور ہی نہیں تھا۔ درزی کے شاگرد کی طرح ''کاکا‘‘ بن کر پہلے کاج بنانا اور بتدریج سلائی کرنا سیکھناپڑتا اور آخری مراحل میں کٹنگ کی نوبت آتی اور اس میں برسوں لگتے تھے ۔ معاشی تنگی کا تو زندگی بھر کا ساتھ ہوتا، سوائے چند خوش نصیب سینئر اور غیرمعمولی قابلیت کے حامل حضرات کے ، بالعموم حالت پتلی رہتی، اس لئے صحافت ذریعۂ معاش سے زیادہ مشن کے طورپر اختیار کی جاتی۔ زبان وبیان کا بڑا خیال رکھا جاتا۔ اخبارات اور ریڈیو پاکستان کا دور تہذیب وثقافت کا دور تھااور اب لگتا ہے کہ پی ٹی وی کاابتدائی دور بھی بساغنیمت تھا، مگر اس کے بعد چل سو چل ، نہ ہدف معلوم نہ منزل کا پتا، نہ سَمت کا تعین ، بس آنکھیں بند کرکے بگٹٹ دوڑے چلے جارہے ہیں ۔ اینکر پرسن کے نام پر جو مخلوق مُنَصَّۂ شہود پر آئی ہے، اپنی مثال آپ ہے۔ کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ اچانک سامنے والے کا گریبان پکڑ کر چانٹے مارنا شروع کردیں گے۔
اگر اداروں کا قیام اور اِرتقا فطری رفتار سے ہو تو کسی حد تک توازن بھی قائم رہتاہے اور Check & Balanceکا نظام بھی مربوط اور منضبط ہوتاچلاجاتاہے ،لیکن ہمارے یہاں ایسا نہیں ہوا ۔عدلیہ کی آزادی کی مثالی تحریک کے نتیجے میں وُکلاء اور میڈیا بے قابو ہوتے چلے گئے اور ایک دہشت کی فضاقائم ہوگئی ۔ ''پاکستان الیکٹرانک میڈیاریگولیٹری اتھارٹی‘‘ کی صورت میں ایک Regulatorیعنی قواعدوضوابط کے بندھن میں باندھے رکھنے والا ادارہ تو وجود میں آیا لیکن ایک بدمست ہاتھی کو ایک رسّی کے ساتھ آپ باندھے رکھنا چاہیں تو ہاتھی آگے آگے ہوگا اوررسی یاتو ہاتھ سے چھوٹ جائے گی یا رسی پکڑنے والے کوہاتھی کے پیچھے پیچھے گھسٹتے ہوئے چلناپڑے گا،یعنی ریگولیٹراتھارٹی پیچھے ہوگی اور Regulated Bodyآگے آگے ،یہاں بھی یہی ہوا ۔غیر محسوس انداز میں میڈیا ،وکلاء اور عدلیہ کا ایک دوسرے کے پُشت پناہ ہونے کا تاثر بھی پیداہوا ۔
یہ بھی ہواکہ کسی ذہنی اورعملی تربیت حاصل کئے بغیر لوگ ٹیلی ویژن اسکرین پر آگئے ،تنقید اور تنقیص واہانت میں کوئی فرق باقی نہیں رہا ۔آپ نے اکثر دیکھاہوگاکہ بہت سے اسٹوری بنانے والے رپورٹر ایسے چڑھائی کرتے ہیں کہ لگتاہے پاکستان میں سب سے بڑی طاقت اوردہشت کے حامل یہی ہیں ۔یہ طاقت زبان ،کیمرہ اوراسکرین کی مدد سے حاصل کرلی گئی ۔ جو اینکر جتنا اپنے مہمان یا مخاطَب پرچڑھائی اور سینہ زوری کرے ،وہ اتناہی طاقت ور اورمقبول قرار پاتاہے ،اب یہ اُن کی مرضی رہی ،کسی کو اپنی صفائی میں بولنے کا حق دیں یا اسے سلب کرلیں ۔توازن بھی نہ رہا، جانب داری کا تاثر بھی پیداہوا ،کسی کے آگے دس بیس منٹ تک سرنگوں ہوکر اُن کے پُر جوش خطابات سنے اور سنائے جائیں اورکسی کو ڈیڑھ جملہ بولنے کی بھی اجازت نہ ہو۔ ہمیں آج تک اِس کی کوئی حکمت یا راز سمجھ میں نہیں آیا ،ٹی وی مباحثہ اور یکطرفہ خطاب کا فرق بھی ملحوظ نہ رکھاگیا ،جواینکر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھاہے،سب کچھ اُسی کے دائرۂ اختیار میں ہے ۔ یہ بھی زبانِ خلق سے سُننے کو ملتاہے کہ کون کس کا بندہ ہے اور کون کس کے ایجنڈے پر کارفرما ہے اور یہ کہ اب یہ لوگ کروڑ پتی اور ارب پتی بن گئے ہیں ۔لیکن اب صورتِ حال یہ ہے کہ یہی چینل ایک دوسرے کے بھی بخیے اُدھیڑ رہے ہیں ۔
اس تمام صورتِ حال سے جو''خیرِ مستور‘‘ برآمد ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ سب ،حتّٰی کہ گھر والے(یعنی میڈیا والے) اب خود کہنے لگے ہیں کہ بس بہت ہوچکا، Enough is enough، اب اس سارے نظام کو ضابطے میں لائیے۔ اب اس مسئلے کا حل کسی ایک ادارے کو بندکرنا یا اسے رگڑا لگانا نہیں ہوناچاہئے، اس کی بھی ضرور سرزنش کی جائے، مناسب تادیبی کارروائی بھی عمل میں آنی چاہئے تاکہ احساس ہو کہ کارکردگی پر نظر رکھنے والی کوئی آنکھ اور حدود کی پاس داری کرانے والا کوئی دماغ اور قانونی قوت بھی ہے۔ مگر اصل ہدف پورے نظام کی درستی ہونا چاہیے۔ اسی طرح اپنی دینی، ملّی اور تہذیبی اقدار کی روشنی میں حیا اور شرافت کا بھی کوئی کم ازکم معیار لازمًامقرر ہوناچاہئے۔ میرے نزدیک اداروں کی حُرمت سے بھی بڑھ کر اصول واقدار، دینی وملّی وتہذیبی روایات کی پاس داری اور ریاست ومملکت اور ملکی وقومی وقار کو ترجیح اول ملنی چاہئے، کیونکہ اداروں کی حرمت بھی اسلام اور پاکستان کی مرہونِ منت ہے۔
1970ء کے عشرے تک پاکستان کے اخبارات میں ''زنا‘‘کا لفظ نہیں چھپتا تھا، رپورٹنگ اتنی محتاط ہوتی تھی کہ لکھا جاتا:'' قابلِ اعتراض حالت میں پایاگیا‘‘، اب حال یہ ہے کہ این جی او کی بیگم صاحبہ نیوز چینل پر ایک لڑکی کو بٹھا کر اس سے بیان دلوا رہی ہوتی ہیں کہ اس کے ساتھ کس نے زیادتی کی ۔ اس داستان کو کامن روم میں ماں باپ ، بیٹا بیٹی ، بہن بھائی، الغرض پورا خاندان ، جن میں نوعمر بھی ہوتے ہیں ، دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اب اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے پورے نظام کی اصلاح نہایت دیانت داری اور حکمت ودانش سے کی جائے اور ضوابط مُبہم(Ambiguous) نہ ہوں بلکہ بالکل واضح اور Self Spokenاور ایسے ہوں کہ اُن کی تطبیق کی جاسکے گی۔