"MMC" (space) message & send to 7575

طلارَجُل

میں لمحۂ موجود کے شعلہ بار مسائل پر بروقت بہت کم لکھتا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا الیکٹرانک میڈیا اتنا طوفان اٹھا دیتا ہے کہ ہر سُو ایک ہی طرح کی ہاہا کار مچی ہوتی ہے، جس سے لوگ اُکتا سے جاتے ہیں۔ پھر اذیت ناک مظاہر کو تواتر وتسلسل کے ساتھ دکھانا بجائے خود اذیت پسندی کا مظہر بن جاتاہے اور لگتا ہے کہ ہمدردی کی آڑ میں اس سے لطف اندوز ہوا جارہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ماہر کالم نویس بھی اپنا حصہ ڈالنا ضروری سمجھتے ہیں ، الغرض موضو عات کم ہیں اور مقابلہ سخت، لہٰذا سب کی مجبوری سمجھ میں آتی ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف بعض اقوال منسوب ہیں جو حدِّ شہرت کو پہنچے ہوئے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ:''کفر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے، ظلم کی نہیں‘‘، مجھے اپنی کم علمی کا اعتراف ہے کہ مجھے آج تک اس کا کوئی حوالہ نہیں ملا، میںنے قُمّ سے فارغ التحصیل ایک فاضل عالمِ دین سے بھی گزارش کی کہ اس کا حوالہ فراہم کر دیں ، لیکن تاحال انتظار ہے۔ دوسرا قول میں نے 1958-59ء میں اپنی آٹھویں جماعت کی عربی کی کتاب میں پڑھا تھا کہ حضرت علی ؓ کا فرمان ہے:''رِجال‘‘ (آدمی)تین قسم کے ہوتے ہیں:''ایک مرد کامل کہ جو خود بھی ''صاحب الرائے‘‘ اور ''صائب الرائے‘‘ ہو اور دوسرے اہلِ فکر ونظر سے درپیش معاملات میں مشورہ بھی کرتاہو‘‘۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''(مسلمانوں کے) اہم معاملات باہمی مشاورت سے طے ہوتے ہیں‘‘(الشوریٰ:38)۔ اور رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:''جس سے مشورہ لیاجائے، وہ امین ہوتاہے‘‘(سنن ترمذی :2822)۔ یعنی اسے مشورہ پوری دیانت داری سے دینا چاہیے تاکہ مشورہ لینے والا نقصان اور معاملے کے برے انجام سے محفوظ رہے۔ لہٰذا اسے دھوکا دہی ، فریب، بدنیتی اور بدخواہی سے کام نہیں لینا چاہیے۔ اُسے اُس اعتماد کی لاج رکھنی چاہیے جو مشورہ لینے والے نے اس پر کیا ہے۔ ایسا شخص مرد کامل ہوتاہے ، اﷲتعالیٰ کی توفیق اس کے شاملِ حال ہوتی ہے اور اس کے کسی فیصلے یا اقدام کی کامیابی کے امکانات غالب ہوتے ہیں ۔ 
دوسرے شخص کے دو حال ہیں ایک یہ کہ وہ خود تو یقینا ''صائب الرائے‘‘ ہوتاہے، لیکن کسی فکرِ سلیم کے حامل دوسرے شخص سے مشورہ نہیں لیتا، کیونکہ وہ ''عُجبِ نفس‘‘ کا نفسیاتی مریض ہوتاہے۔ اُسے اپنی ''راستیٔ فکر‘‘ پر ایمان کی حدتک یقین ہوتاہے، لہٰذا وہ کسی دوسرے ''صاحبِ نظر‘‘ سے مشاورت کرنا یا کسی کے خدا واسطے کے مشورے پر کان دھرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتا ہے ۔ اس کا دوسرا حال یہ کہ وہ خود تو ''صائب الرائے‘‘ نہیں ہوتا، لیکن کسی دوسرے فکرِ سلیم کے حامل شخص سے مشورہ کرلیتاہے۔ یہ شخص ''نصف رَجُل‘‘(آدھا آدمی ) ہے اور اس کے کسی اقدام کی کامیابی یا ناکامی کے امکانات برابر ہوتے ہیں ۔ 
تیسرا شخص ''لارَجُل‘‘ ہے، یعنی یہ شخص انسان کہلانے کا حق دار نہیں ہے، بقولِ شاعر ؎
بس کہ مشکل ہے ہر اک کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
یہ وہ شخص ہے کہ جو خود بھی عقل سے فارغ ہے اور کسی دوسرے صاحبِ نظر سے مشورہ لینا بھی شایانِ شان نہیں سمجھتا ۔ ایسے شخص کے کسی بھی فیصلے یا اقدام کے نتائج تباہ کن ہوسکتے ہیں۔ اﷲتعالیٰ ایسی صورتِ حال سے ہمیں اپنی پناہ میں رکھے۔جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس قول کا حوالہ بھی مجھے نہیں ملا اور میں نے بعض دیگر علماء سے بھی رابطہ کیا ، مگر تاحال ان کی علمی مدد بھی نہیں مل سکی، لیکن ان دونوں اقوال میں معنویت بہر حال موجود ہے، اگر کسی کا دیدۂ دل وا ہو، تو وہ ان سے رہنمائی حاصل کرکے اپنی اصلاح کرسکتاہے۔ اگر وہ کسی اختیار واقتدار کے منصب پر فائز ہے ، تو ملک وقوم کو اپنے فیصلوں اور اقدامات کے تباہ کن نتائج سے محفوظ رکھ سکتاہے۔
رسول اللہ ﷺ نے ایسی صورتِ حال کے بارے میں متنبہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:''اﷲتعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھاتا کہ اپنے بندوں میں سے (اچانک اسے) اٹھا لے ، لیکن وہ علم کو اس طرح اٹھاتا ہے کہ علمائِ حق اٹھتے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ جب کوئی عالمِ حق باقی نہیں رہتا، تو لوگ جاہلوں کو اپنا سربراہ بناتے ہیں، پھر (کسی درپیش مشکل صورتِ حال میں) ان سے رہنمائی طلب کی جاتی ہے اور وہ جہالت پر مبنی رائے دیتے ہیں، سوا پنا بھی بیڑا غرق کرتے ہیں اور دوسروں کوگمراہ کردیتے ہیں‘‘(بخاری:100)۔ 
پس مقام غور ہے کہ ہمارا ''نظمِ اجتماعی‘‘ کس ڈگر پر چل رہا ہے۔ ایک تو ہم کو لہو کے بیل کی طرح فوجی حکمرانی اور جمہوریت کی باریوں میں نامعلوم منزل کی طرف رواں دواں اور سرگرداں رہتے ہیں اور ہمارا الیکٹرانک میڈیا نہایت ہوشیاری اور ماہرانہ فنکاری سے لوگوں کو اپنی قوم وملک کے مستقبل کے بارے میں تشکیک میں مبتلا رکھنا چاہتاہے ، ایسے حالات میں اُن کی دکان کی رونقیں توبلاشبہ قائم رہتی ہیں ، لیکن ملک کا ستیاناس ہوجاتاہے۔ بیرونی سرمایہ کاری کا آناتو عالم بیداری میں خواب دیکھنے کے مترادف ہے۔ اندرونی سرمایہ بھی محفوظ مقامات ومواقع کی تلاش میں بیرونِ ملک پرواز کرجاتاہے، اگر ہمارے مقدر میں قیادت وسیادت کے لئے رِجالِ کامل نہیں ہیں ،تو اے کاش! کہ ہمارے ملک کو چلانے والے ''نصف رَجُل‘‘ہی ہوتے، تب بھی کوئی آس قائم رہتی اور ہم مکمل ناکامی سے محفوظ رہتے۔
اہلِ نظر اس فکر میں ہمیشہ کُڑھتے رہتے ہیں کہ اصلاح احوال کی بھی کوئی تدبیر ''اے چارہ گراں، ہے کہ نہیں‘‘۔ ہمارے وزیراعظم بھی اپنی راستیِ فکر کے نفسیاتی عارضے میں ضرور مبتلا ہیں ۔ ہم نے اپنے کالم میں ایک سے زائد بار انہیں متوجہ کیا ہے کہ پارلیمانی جمہوریت میں ان کے اقتدار کا اصل منبع پارلیمنٹ کے دونوں ایوان ہیں، لہٰذا انہیں قومی اسمبلی اور سینٹ سے زیادہ فاصلے اختیار نہیں کرنے چاہئیں اور نظامِ اقتدار میں جو اہم سیاسی جماعتیں ہیں ، اُن کی قیادت سے اہم امور میں اجتماعی طور پر یا فرداً فرداً مناسب وقفوں سے مشاورت ضرور کرنی چاہیے، تاکہ فیصلوں اور اقدامات میں سب کی آراء کو ممکن حدتک سمویا جاسکے۔ اس سے اجتماعیت کا صرف ظاہری تأثر ہی پیدا نہیں ہوگا بلکہ حقیقی اور معنوی طور پر محسوس بھی ہوگی۔ہم بحیثیتِ ملک وقوم مشکل حالات سے دوچار ہیں اور سیاسی رہنماؤں کارویہ بھی مثبت ، تعمیری اور باہمی تعاون پر مبنی ہونا چاہیے، صرف صاحبِ اقتدار کو بند گلی میں پہنچانے کی خواہش ہر وقت غالب نہیں رہنی چاہیے۔ 
راوی بیان کرتے ہیں کہ:'' میں نے رسول اللہ ﷺ سے اﷲتعالیٰ کے اس ارشاد کے بارے میں پوچھا کہ:''جب تم خود راہِ راست پر ہوتو کسی کا گمراہ ہونا تمہارے لئے ضرر رساں نہیں ہے‘‘ (یعنی کیا ہم دوسروں سے لا تعلق ہوجائیں) ۔ آپ ﷺ نے فرمایا:''تم نیکی کی دعوت دیتے رہو اور برائی سے روکتے رہو‘‘ ۔( لیکن جب حالات کا بگاڑ اس حدتک پہنچ جائے کہ)تمہیں لگے کہ( ذمے دارلوگوںکے) ضمیروں پر بخل غالب ہے اور(حق وباطل کی تمیز کے بغیر) اپنی ہر بات میں نفسِ اَمّارہ کی پیروی کی جارہی ہواور ہر شخص (دلیل حق سے بے نیاز ہوکر) اپنی رائے کو حرفِ آخر سمجھتا ہواور تمہیں اندیشہ ہو کہ کسی خطرناک صورتِ حال سے دوچار ہوجاؤگے ،تو پھر دوسروں کو چھوڑو اور اپنی اصلاح کی فکر کرو۔اس کے بعد صبر کا دامن تھام لو ، ایسی مشکل صورتِ حال میں صبر واستقامت کا دامن تھامے رہنا ، آگ کے انگارے کو مٹھی میں لینے کے مترادف ہے، سوجو ایسے حالات میں خیر پر ثابت قدم رہے ، اسے پچاس افراد کے برابر اجر ملے گا ، صحابہؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اﷲ علیک وسلم! کیا اس دور کے پچاس افراد کے برابر؟، آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، تمہارے پچاس افراد کے برابر‘‘(سنن ترمذی:3058)۔ 
عربی زبان کے کلاسیکل ادب میں جن چار کتابوں کو عربی زبان کے ستونوں ، اساس اور حجت کادرجہ حاصل ہے، ان میں سے ایک ابوالعباس المبرد کی ''الکامل فی الادب واللغۃ والتاریخ‘‘ ہے۔ اس میں لکھا ہے:''جب تمہیں کوئی اہم مسئلہ درپیش ہوتو(عجلت میں کوئی فیصلہ نہ کرو بلکہ) رات بھر اس کے ممکنہ مثبت ومنفی نتائج پر غور کرو (تاکہ تم جان سکو کہ اس اقدام کے فوائد زیادہ ہوں گے یا نقصانات؟ ) اورہمیں اس رائے سے اللہ کی پناہ میں آنا چاہیے۔ جس پر عمل درآمد کے بعد ندامت اٹھانی پڑے‘‘۔کاش کہ حال ہی میں لاہور میں جو سانحہ رونما ہوااس کی بابت فیصلہ کرنے اور اسے رو بہ عمل لانے سے پہلے سوبار سوچا جاتا، تو حکومت کو اتنی رسوائی اور ندامت کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں