"MMC" (space) message & send to 7575

روزے کے متعلق قارئین کے اہم سوالات

محترم عبدالقدوس درانی صاحب لکھتے ہیں:''آپ کے آج 2جولائی روزنامہ دنیا کے کالم میں دو مقامات کو بندہ سمجھ نہیں پایا اور تناقض محسوس کیا ہے۔(1)''کان میں دوا یا تیل ٹپکانے یا دانستہ پانی ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، کیونکہ کان سے معدے یا دماغ تک کوئی مَنفَذْ( Route)یا سوراخ نہیں ہے اورعبداللہ بن عباس اور عکرمہ رضی اللہ عنہما کا قول ہے:''روزہ بدن میں کسی چیز کے جانے سے ٹوٹتا ہے، کسی چیز کے خارج ہونے سے نہیں ٹوٹتا،(بخاری)‘‘۔
مذکورہ بالا عبارت میں کہا گیا ہے کہ کان میں دوا یا تیل ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا اور دلیل قول ابن عباس رضی اللہ عنہ کہ روزہ بدن میں کسی چیز کے جانے سے ٹوٹتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کان میں دوا داخل ہی کی جاتی ہے تواس دلیل کے مطابق روزہ ٹوٹ جانا چاہئے۔ 
دوسرا آپ نے موقف یہ لیا ہے کہ کسی بھی قسم کا انجکشن لگانے سے روزہ ٹوٹ جاتاہے اور تائید کے لئے ڈاکٹر وھبہ الزوحیلی کی عبارت کا ترجمہ دیا ہے حالانکہ اس سے یہ مدعا ثابت نہیں ہوتا، اس میں تو صرف یہ ہے کہ اگر رگوں میں خون لگائے گا توروزہ ٹوٹ جائے گا۔ براہِ کرم وضاحت فرما کر ممنون فرمائیں ‘‘
(1)کالم توجہ سے پڑھنے کا شکریہ ۔ عبداللہ بن عباس اور عکرمہ رضی اللہ عنہما کے قول کا حوالہ دینے کا مطلب یہ تھا کہ علم تشریح الاعضا (Anatomy)کے تمام ماہرین کا اس پر اتفاق ہے کہ کان سے معدے یا دماغ تک کوئی سوراخ نہیں ہے اور ہمارے فقہائِ کرام کاکان میں دوا یا تیل ٹپکانے سے روزہ ٹوٹنے کی رائے اس پر موقوف تھی کہ کان کے اندر کوئی ایسا منفذ (Route)یا سوراخ ہے، جس سے دوا یا تیل معدے یا دماغ تک پہنچ جاتے ہیں ۔ پس اصول تبدیل نہیں ہوا، لیکن وہ مسئلہ جس طبی معلومات پر مبنی تھا ، وہ غلط ثابت ہوئی ، لیکن اصول پر قائم رہتے ہوئے ''عدم فساد صوم‘‘ کا مسئلہ درست ہے اور لوگوں کو مسئلہ اسی طرح بتانا چاہئے تاکہ بلاوجہ وہ عُسر میں مبتلا نہ ہوں۔ عبداللہ بن عباس وعکرمہ رضی اللہ عنہما کے قول کا پہلا حصہ ہے کہ بدن کے اندر کوئی چیز جانے سے روزہ ٹوٹتا ہے، تو جب کان میں بدن کے اندر کسی چیز کے جانے کا کوئی راستہ یا سوراخ ہی نہیں ہے ، تو دوا ، تیل یا پانی کوئی بھی چیز اندر نہیں جاسکتی، اس لئے روزہ ٹوٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں تو عرصۂ دراز سے یہ مسئلہ لکھ رہا تھا، لیکن چند سال پہلے دارالعلوم کراچی کے مفتیانِ کرام نے اپنی متفقہ رائے اور دستخطوں سے یہ فتویٰ جاری کیا، جو البلاغ میں چھپ چکا ہے۔
(2)انجکشن کے مفسدِ صوم ہونے کے حوالے سے علامہ غلام رسول سعیدی کی مفصل تحقیق پڑھ لیں ،(شرح صحیح مسلم، ج:3، ص:1154-1158 ) ۔ 
ڈاکٹر وھبہ زوحیلی کا موقف ضمناً ہمارے لئے مفید ہے غذا یا دوا کہ رگ یا پٹھے کے ذریعے خون یابراہِ راست معدے یا دماغ تک نہیں پہنچتی ، لیکن اُن کا فساد صوم کا قول اس بات کی دلیل ہے، کہ اس سے معنوی طور پر وہی مقصد حاصل ہوتاہے، جو معدے میں غذا یا دوا کے پہنچنے سے حاصل ہوتاہے۔
محترم محمد عمر بٹ صاحب لکھتے ہیں:''میرے لئے یہ شاندار معلومات ہیں، اللہ تعالیٰ آپ کو اس طرح کی مزید معلومات دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ معدے کی بیماری کی وجہ سے الٹی کرنی پڑی، تو کیا مجھے اس روزے کی قضا کرنی پڑے گی‘‘۔ 
جواباً گزارش ہے کہ چونکہ آپ نے جی متلانے کی وجہ سے اس دباؤ سے نکلنے کے لئے الٹی کی ، تویہ استقاء(یعنی بہ تکلف الٹی کرنے) کے زمرے میں آتی ہے، اس لئے آپ کا روزہ فاسد ہوگیا اور آپ کو رمضان المبار ک کے بعد اس کی قضا رکھنی ہوگی۔
محترم محمد فیصل صاحب لکھتے ہیں:''آپ نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ آنکھ میں دوا ڈالنے سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے۔ تومیرا آپ سے سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص آنکھ کے ایسے مستقل مرض میں مبتلا ہو کہ آنکھ میں دن کے دوران دوا کے قطرے نہ ڈالنے سے اس کی آنکھ کی بینائی زائل ہوسکتی ہے ، جیسے آنکھ پر انتہائی دباؤ کا ہونا، اس مرض میں آنکھ میں دوا کے قطرے نہ ڈالے جائیں تو آنکھ ضائع ہوجاتی ہے۔ اس طرح کے مریض کے بارے میں کیا ہدایات ہیں؟، کیونکہ ایسا مریض کسی صورت میں دوا کے قطرے نہیں چھوڑ سکتا، کیا وہ روزے نہ رکھے اور فدیہ دے۔ میں نے کچھ مفتی صاحبان سے پوچھا تو انہوں نے کہا روزہ رکھیں اور دوا کے قطرے آنکھ میں ڈالتے رہیں ۔ اب آپ سے فتویٰ چاہتا ہوں کہ کیا کروں؟۔
(2)اگر کوئی اپنی جاب کی وجہ سے دائمی مسافر ہو کہ اس کے تین دن راولپنڈی میں ہوں اور چار دن لاہور میں ، تووہ کیا کرے(یعنی روزہ رکھے یا چھوڑے)۔ قرآن وسنت کی روشنی میں وضاحت کریں ‘‘۔
(1)آپ کے پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ جب تک آپ کو آنکھ کی اس بیماری سے نجات نہیں مل جاتی ، آپ دائمی مریض ہیں اور معذور ہیں ، آپ روزہ چھوڑ دیں اور فدیہ دیں ۔میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ جن مسائل کے بارے میں معاصر علمائِ کرام وفقہائِ عظام و مفتیانِ کرام کا اختلاف ہو،تو یہ اجتہادی مسائل ہیں، جس عالم ، مفتی یا فقیہ پر آپ کا اعتماد ہو، اس کے فتوے پر عمل کریں ۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن مفتی محمد ابراہیم قادری ( جو ثقہ فقیہ ہیں )، مفسر ومحدّث شیخ الحدیث علامہ غلام رسول سعیدی اور میر ا موقف یہی ہے ، جو میں نے لکھ دیا ہے۔ مولانا مفتی وقار الدین رحمہ اﷲتعالیٰ کا موقف بھی یہی ہے،(وقار الفتاویٰ، جلد:2،ص:429)۔
(2)دوسرا مسئلہ متفق علیہ ہے ، لاہور یا راولپنڈی جہاں آپ کا مستقل قیام ہے، جب آپ وہاں ہوں گے، تو روزہ رکھیں گے۔ اپنے اقامتی شہر سے باہر جائیں گے تو آپ کو سفر میں روزے چھوڑنے کی رخصت ہے اور یہ رخصت اللہ تعالیٰ نے قرآن میں دی ہے۔ ''اور جو تم میںسے بیمار ہے یا حالتِ سفر میں ہے، تو (بیماری یا سفر کے عذر کی بنا پر رمضان کا روزہ چھوڑ سکتا ہے)، مگر بعد میں چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرنی ہوگی... آگے چل کر فرمایا:''اور اگر تم (سفر میں) روزہ رکھ لو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے،(بقرہ:185)‘‘۔ لہٰذا اگر آپ سفر کے دوران روزہ رکھ سکتے ہیں ، تو بہتر یہی ہے، مگر اگر مشقت کا سامنا ہو تو آپ روزہ چھوڑ سکتے ہیں ۔ لیکن قضا بہر حال لازم ہے، یہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا صریح حکم ہے ، یہ کوئی اجتہادی مسئلہ نہیں ہے اور نہ اس کے بارے میں دو آراء ہیں ۔ 
مولانا یاسر رحمان لکھتے ہیں:
(1)اگرکوئی پاکستان سے رمضان شروع کرکے سعودی عرب گیا اور ابھی اُس کے اٹھائیس روزے ہوئے ہیں کہ وہاں عید ہوگئی ، اب وہ اُن کے ساتھ عید کرے یا اپنا روزہ رکھے؟۔
جواب:آپ وہاں عید کے دن روزہ چھوڑ سکتے ہیں ، کیونکہ حدیث پاک میں ہے:''جس دن وہ لوگ روزہ رکھیں ، تم بھی روزہ رکھو اور جس دن وہ عید منائیں ، تم بھی عید مناؤ۔ لہٰذا آپ ان کے ساتھ عید کرلیں اور پھر اپنے ایک روزے کی قضا کرلیں۔
(2)ایک شخص نے سعودی عرب میں رمضان کا آغاز کیا اور جب پاکستان پہنچا توا س کے تیس روزے پورے ہوچکے تھے ، لیکن یہاں روزہ تھا۔ وہ کیا کرے‘‘؟۔
آپ تیس روزے پورے ہونے پرروزہ چھوڑ بھی سکتے ہیں اور روزہ رکھ بھی سکتے ہیں ، اس صورت میں مندرجہ بالا حدیث کی روشنی میں آپ کے حق میں مہینہ 31دن کا ہوجائے گا۔
عائشہ نے سوال کیا کہ عورت کے ایام مخصوص میں جو نمازیں چھوٹ جاتی ہیں ، ان کی توقضا نہیں ہے، تو روزے کی قضا کیوں ہے؟۔
جواب:یہ عقلی مسائل نہیں ہیں، یہ ''تعبُّدی‘‘ مسائل ہیں ، یعنی اﷲ عزّوجلّ اور اس کے رسول مکرم ﷺ نے جیسے حکم دیا ہے، بندگی کا تقاضا یہ ہے اسے مِن وعَن (As it is)قبول کر لیاجائے ۔ اگر اس کی حکمت ہماری سمجھ میں آتی ہے تو یہ ہماری سعادت ہے ، ورنہ ہمارے ذہن کی نارسائی ہے۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:''معا ذہ بیا ن کر تی ہیں کہ میں نے حضر ت عائشہ رضی اللہ عنھا سے پو چھا کہ اس کا کیا سبب ہے کہ حا ئضہ عو رت روز ہ تو قضا ء کر تی ہے نما ز قضا ء نہیں کر تی، حضرت عا ئشہ نے پو چھا کیا تو حر وریہ (خوارج میں سے) ہے؟ میں نے عر ض کیا کہ میں حر وریہ نہیں ہوں محض جا ننا چا ہتی ہو ں ، آپ نے فرما یا کہ حیض کے ایا م میں ہمیں روزوں کی قضا ء کا تو حکم دیا جا تا تھا لیکن نما ز کی قضا ء کا حکم نہیں دیا جا تا تھا،(صحیح مسلم:747)‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں