رسول اللہ ﷺ نے خواب میں دیکھا کہ ان شاء اللہ آپ امن وعافیت کے ساتھ مکہ میں داخل ہوگئے ہیں۔ قرائن سے معلوم ہوتاہے کہ یہ خواب 06ھ کا ہے اور اس کی بابت آپ نے صحابۂ کرام کو آگاہ فرما دیا تھا۔ اور آپ ﷺ اسی سال کم وبیش چودہ سو صحابۂ کرام کے ساتھ عمرے کے لئے روانہ ہوئے ، مگر حدیبیہ کے مقام پر مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں کو روک لیا اور پھر مسلمانوں کوایک معاہدے کے نتیجے میںعمرہ اداکئے بغیر احرام کھول کرواپس جانا پڑا۔اس معاہدے سے مسلمانوں میں اضطراب پیدا ہوا ، یہاں تک کہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا:''کیا آپ نے یہ نہیں کہا تھا کہ ہم حرم کا طواف کریں گے؟‘‘۔آپ ﷺ نے جواب دیا: ''کیا میں نے یہ کہا تھا کہ اسی سال طواف کریں گے ‘‘۔
اس خواب کا ذکر اللہ تعالیٰ نے ان کلماتِ مبارکہ میں فرمایا:''بے شک اللہ نے اپنے رسول کے سچے خواب کو سچ ثابت کردیا ، ان شاء اللہ تم ضروربالضرور بے خوف وخطر ہوکر اپنے سروں کو منڈاتے اور بال کترواتے ہوئے مسجد حرام میں داخل ہوگے، (اس طرح کہ) تمہیں کسی کا خوف نہیں ہوگا،(الفتح:27)‘‘۔
معاہدۂ حدیبیہ میں قبائلِ عرب کو یہ آپشن دیا گیا تھا کہ وہ اپنی آزادانہ مرضی سے کفار مکہ اور مسلمانوں میں سے جس کے چاہیں حلیف بن جائیں ۔ چنانچہ بنو خزاعہ مسلمانوں کے حلیف بن گئے اور بنو بکر کفار کے حلیف بن گئے۔ پھر ایک مرحلے پربنوبکر نے بنو خزاعہ پر چڑھائی کردی اور مشرکین مکہ نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنوبکر کا ساتھ دیا اور بنو خزاعہ کا قتل عام کیا۔ عمروبن سالم خزاعی نے چالیس افرادکے ہمراہ مدینہ طیبہ آکر کفار مکہ کی عہد شکنی اور مظالم کی رسول اللہ ﷺ کو اطلاع دی۔
رسول اللہ ﷺ نے کفار مکہ کو اپنی شرائط پیش کیں: بنو خزاعہ کے مقتولین کی دیت ادا کریں ، بنو بکر سے دوستی کا معاہدہ ختم ،ورنہ معاہدۂ حدیبیہ سے اعلانِ برأ ت کریں ۔ کفار مکہ نے عجلت میں معاہدوں کو ختم کرنے کا اعلان کردیا ۔ بعد میں کفار مکہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور معاہدے کی بحالی پر آمادہ ہوئے ، اس غرض سے ابو سفیان مدینہ منورہ گیا،اور اپنی بیٹی ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچا ۔بستر پر بیٹھنے ہی لگا تھا، کہ ام حبیبہ نے بستر لپیٹ دیا۔ ابو سفیان نے اس پر حیرت کا اظہار کیا تو ام المومنین نے کہا: ''یہ بستر رسول اللہ ﷺکا ہے اور ُتو ناپاک ہے۔ اس لئے میں برداشت نہیں کرسکتی کہ تو رسول اللہ ﷺ کے بستر پر بیٹھے‘‘۔ الغرض ابو سفیان کا مشن ناکام رہا۔
رسول اللہ ﷺ08ھ ماہِ رمضان المبارک کو دس ہزار صحابۂ کرام کی معیت میں مکہ کی طرف روانہ ہوئے ۔ جب مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے تو رسول اللہ ﷺ اور صحابۂ کرام روزے سے تھے۔ کُدَید یا کُراعُ الغمیم کے مقام پر پہنچے تو صحابۂ کرام ؓگرمی اورپیاس سے نڈھال ہوچکے تھے۔ آپ ﷺ نے پانی منگوایا ، سب کے سامنے کجاوے پر رکھا اور پیا۔ اس کے بعد بھی چند لوگ روزے پر قائم رہے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''یہ نافرمان ہیں ، یہ نافرمان ہیں‘‘۔ رسول اللہ ﷺ کو اللہ عزّوجلّ نے غیر معمولی طاقت سے نوازا تھا، آپؐ تو افطار کئے بغیر کئی دن تک صومِ وصال (Continuous Fasting)بھی رکھتے ہیں۔آپؐ کا یہ عمل صحابۂ کرام ؓکے لئے رخصتِ شرعی کے بیان کے لئے تھا۔ اور نبی ﷺ جو فعل رخصت شرعی کے بیان یا تشریع کے لئے فرمائیں ، وہ آپ کے لئے واجب کا حکم رکھتا ہے۔ اسی طرح ''مَرُّالظھران‘‘کے مقام پر پڑاؤ ڈالا گیا، تو روزے دار صحابہ نڈھال ہو کر گرنے لگے اور دوسرے اُن پر سایہ کرنے لگے، جب کہ جنہوں نے رخصت شرعی اور سنتِ مصطفی ﷺ پر عمل کرتے ہوئے روزہ چھوڑ دیا تھا، وہ خیمہ تاننے لگے ، کھانے پکانے کے انتظام میں مشغول ہوئے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''آج روزہ نہ رکھنے والے روزہ رکھنے والوں پر اجر میںسبقت لے گئے‘‘۔چونکہ یہ سفرِ جہاد تھا اور مجاہد کو حالتِ جنگ میں ریڈالرٹ اور ہائی الرٹ یعنی دشمن کے مقابلے میں ہر وقت تیار رہنا پڑتا ہے کہ کسی بھی وقت دشمن سے ٹکراؤ ہوسکتا ہے، اس لئے خاص حالات کے احکام عام حالات سے جدا ہوتے ہیں ۔
رسول اللہ ﷺ نے جنگی حکمتِ عملی کے تحت صحابۂ کرامؓ کو حکم دیا کہ چاروں طرف پہاڑوں پر پھیل جاؤ، اپنے خیمے تان دو اور اپنی اپنی جگہ آگ روشن کرو تاکہ دشمن پرہیبت طاری ہوجائے اوروہ مسلمان مجاہدین کی کثیر تعداد سے مرعوب ہوجائیں ۔
ابو سفیان ،حضرت عباس کی امان لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا۔ آپ ﷺ نے نہ صرف یہ کہ امان عطا کی بلکہ بحیثیت سردار اُس کی عزت نفس کا بھی پاس رکھا اور فرمایا:''جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو، اسے امان ہے‘‘۔ آپ ﷺ کی قیادت میں لشکر آگے بڑھا تو حضرت سعد نے نعرہ لگایا:''آج گھمسان کے رن کا دن ہے، آج کعبہ کی حُرمت حلال ہوجائے گی، آج اللہ قریش کو ذلیل کردے گا‘‘۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ''سعد نے جھوٹ کہا، آج تو رحمت کا دن ہے، آج اللہ کعبے کی عظمت کو ظاہر فرمائے ، آج کعبہ کو غلاف پہنایا جائے گا، آج اللہ قریش کو عزت عطا فرمائے گا‘‘۔
آپ ﷺ نے اپنی ناقۂ مبارکہ ''قَصویٰ‘‘ پر سوار تھے ۔ کعبۃ اللہ میں مشرکین نے 360بت سجا رکھے تھے ۔ رسول اللہ ﷺ اپنی لاٹھی کے اشارے سے گراتے جاتے تھے اور یہ پڑھتے جاتے تھے:''حق آگیا اور باطل چلا گیا، بے شک باطل نے (انجامِ کار) مٹنا ہی تھا۔ باطل نہ کسی چیز کو پیدا کرتاہے اور نہ کسی چیز کو لوٹاتاہے‘‘۔الغرض آپ ﷺ نے حرم مقدس کو بتوں اور کفروشرک کی ہر نشانی سے پاک کیا۔ پھر آپ بابِ کعبہ پر کھڑے ہوئے اور تمام لوگ آپ کی نگاہِ کرم کے منتظر تھے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ''اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، کوئی اس کا شریک نہیں ، اس نے اپنا وعدہ (جو خواب کے عالم میں دکھایا تھا، عمل کی دنیا میں ) سچ کر دکھایا‘‘۔امام احمدؒ کے الفاظ یہ ہیں :''تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے جس نے اپنا وعدہ سچ کردکھایااور اس نے اپنے عبدِ مکرم کی مدد فرمائی اور اس نے تنہا(باطل کے تمام) لشکروں کو شکست دی‘‘۔آپ نے کہا: ''اے قریش! تمہارا کیا خیال ہے اور تمہارا کیا گمان ہے؟ ‘‘ ۔ انہوں نے جواب دیا:''ہم اچھا گمان رکھتے ہیں ، آپ نبی کریم ؐہیں ، کرم والے بھائی اور بھتیجے ہیں اور آپؐ(جو چاہیں) وہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں ‘‘۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''میں وہی کہتاہوں ، جو میرے بھائی یوسف نے کہا تھا: آج تم پر کوئی مواخذہ نہیں ، اﷲتمہاری مغفرت فرمائے ، وہ سب سے بڑا رحم فرمانے والا ہے، جاؤ تم سب آزاد ہو۔ وہ (مایوسی کے عالم سے ایسے نکلے )جیسے(حیات نو پاکر) قبروں سے نکلے ہوںاور وہ اسلام میں داخل ہوگئے ‘‘۔
پھر رسول اللہ ﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا:''سنو! بیت اللہ کی خدمت (تولیت) اور حاجیوں کو پانی پلانے کے شرف کے سوا جاہلیت کا ہر سودیا خونی انتقام یا خاندانی تفاخر یا ناجائزمالی مطالبات ،میں ان سب کو اپنے دونوں قدموں تلے پامال کررہا ہوں (یعنی ان کا خاتمہ کر رہاہوں) اور پہلا خون میں (اپنے خاندان کے ایک فرد) ربیعہ بن حارث کا معاف کرتاہوں ‘‘۔آگے چل کر آپ نے فرمایا:''ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قبیلوں اور خاندانوں میں بانٹ دیا تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک تم میں سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے معزز وہ ہے، جو سب سے بڑا متقی ہے، بے شک اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا ، خبر رکھنے والا ہے‘‘۔
وہ لوگ جنہوں نے آپ ؐکے صحابہ ؓپر طرح طرح کے مظالم ڈھائے، ظلم وستم کی کتاب کا کوئی حربہ نہیں جو آپ ؐپر نہ آزمایا گیا ہو، آپؐ کے (معاذاللہ!) قتل کی منصوبہ بندی کی، آپؐ کو اور آپ کے صحابہ ؓکو ہجرت پر مجبور کیا۔ مدینہ منورہ میں بھی آپؐ کو چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ آج وہ آپؐ کے رحم وکرم پر تھے، اُن سب کے کرتوت اور مظالم اُن کے ذہنوں میں تازہ تھے۔ آپؐ نے پوچھا: بتاؤ تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟۔ انہوں نے جواب دیا:''آپ کرم فرمانے والے بھائی اور بھتیجے ہیں‘‘۔ آپؐ نے فرمایا:''جاؤ آج تم سب آزاد ہو، تم سے ماضی کے مظالم کی کوئی باز پرس نہیں ہوگی‘‘۔ ان ''طُلَقاء‘‘ میں وحشی بھی تھا ، جس نے سید المرسلینؐ کے عزیز ترین چچا حضرت حمزہ کا کلیجہ چبایا تھا اور اسے اپنے گلے کا ہار بنایا تھا۔ اس اُمّت کے فرعون ابوجہل کا بیٹا عکرمہ بھی ، صفوان بن امیہ بھی تھا۔ چند گستاخانِ نبوت کے سوا سب کو معاف کردیا، سب کی توبہ قبول کی اور مشرف بہ اسلام کیا۔
اس چشم فلک نے اللہ کی زمین پر عفوعام کی اس سے بڑی کوئی مثال نہیں دیکھی۔ یہ صرف رحمتہً لِلعٰلَمین ﷺ کے شانِ کریمی اور رحمت عام کا مظہر اَتمّ تھا۔