یادش بخیرچوہدری شجاعت حسین صاحب خاندانی روایت کے علمبردار، وضع داراور شریف النفس انسان ہیں۔ اخلاق سے گری ہوئی بات نہیں کرتے، سنا ہے کہ ان کا دل اور دستر خوان دونوں بڑے وسیع ہیں، اگرچہ ہمیں اس سے فیضیاب ہونے کا موقع نہیں ملا۔ سیاسی اعتبار سے انہیں اسٹیبلشمنٹ کا جڑواں بھائی (Twin)یا ہمزاد کہا جاسکتا ہے۔ وہ عوامی لیڈر نہیں ہیں ، بلکہ ان میں یہ اہلیت وصلاحیت ہے کہ ضرورت کے وقت اسٹیبلشمنٹ کو قابلِ انتخاب (Electables)تلاش کرکے فراہم کرسکتے ہیں اور ان کے کام کو آسان بنا سکتے ہیں۔ ان کی زبان اگر کہیں پھسل بھی جائے توان کے پاس اپنے کلام کے شارح اور قادرالکلام شخصیت مشاہد حسین سید صاحب کی صورت میں موجود ہیں ، جو کڑاکے نکال کر ایک طرف ہوجاتے ہیں ۔ یہ دانش مولانا فضل الرحمن صاحب کے ہاں بھی موجود ہے کہ وہ اپنے منہ سے نکلی ہوئی کسی بات کو ، جو فتنہ برپا کرسکتی ہے، پکڑ کر نہیں بیٹھ جاتے اور نہ ہی اپنی جماعت کے ترجمانوں کو اس کے دفاع کی ڈیوٹی پر لگاتے ہیں، بس خاموشی سے سائیڈ لائن ہوجاتے ہیں ۔ انہوں نے کتے کی شہادت پر بھی یہی طریقہ اختیار کیا اور مشکل سے بچ نکلے۔ اس کے برعکس جناب سید منور حسن کے منہ سے اینکر پرسن نے گھیر گھار کر ایک جملہ نکلوایا اور پھر پوری جماعت کی اعلیٰ قیادت اس کے دفاع میں لگ گئی اوروکیلِ صفائی بن گئی ، جس کا ماحصل مزید سیاسی نقصان کے سوا کچھ نہ تھا۔
ہم شاہد ہیں کہ چوہدری برادران'' تحفظ نسواں ایکٹ ‘‘پاس کرانے کی حمایت میں نہ تھے،انہوں نے دو بار مجھے اور مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کو کراچی سے بلایا اور ملک کے دیگر علاقوں سے بھی چند چیدہ چیدہ علماء کو بلایا کہ کسی طرح سے اس مسئلے کی کوئی قابلِ قبول صورت نکل آئے۔ اس وقت کے اٹارنی جنرل جناب مخدوم علی خان اور سیکرٹری قانون منصور احمد صاحب بھی مکالمے میں شریک ہوئے ۔ ایک قابلِ قبول طریقۂ کار وضع کیا گیا، اس پر ہم سب کے اور چوہدری پرویز الٰہی صاحب کے دستخط بھی ہوئے، مگر اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف حبیب جالب کے اس شعر کے حقیقی مصداق بنے ہوئے تھے ؎
تم سے پہلے ، وہ جو اک شخص، یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
بالآخر صدر جنرل پرویز مشرف صاحب نے 2006ء میں اپنی تابع فرمان قومی اسمبلی سے جبراً یہ ایکٹ پاس کروالیا، پھر بھی چوہدری شجاعت حسین صاحب نے کہا کہ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ اس میں کوئی بات خلافِ شریعت ہے، تو ہم اس میں ترمیم کروائیں گے، ورنہ استعفیٰ دے دیں گے ۔ دوسری نشست میںمجوزہ ترمیم کے طریقۂ کار پر بھی اتفاق ہوا لیکن چوہدری برادران کا بس نہ چلا۔اب ان کے پاس دو ہی راستے تھے کہ کرسی اقتدار کو بچائیں یا شریعت کی خاطر اقتدار کی قربانی دے دیں۔ انہوں نے پہلی صورت کو ترجیح دی اور تقریباً ہر سیاست دان کا شِعار یہی ہوتاہے۔
گزشتہ دور میں جب چوہدری برادران نے جناب آصف علی زرداری کا حلیف بننے کا فیصلہ کیا، تو لاہور سے اسلام آباد کی ایک فلائٹ میں ہماری نشستیں ساتھ ساتھ تھیں اور چوہدری اعتزاز احسن بھی ہمارے ہم سفر تھے۔ میں نے چوہدری شجاعت حسین سے کہا کہ اگر کوئی ایسا کمپیوٹر ہو کہ ماؤس آپ کے دل پہ رکھیں، تو دل کی بات کمپیوٹر کی اسکرین پر آجائے، تو مجھے یقین ہے کہ کمپیوٹر اسکرین پر یہی آئے گا کہ یہ فیصلہ آپ نے دل سے نہیں کیا ،بلکہ مجبور ہوکر کیا ہے، کہنے لگے: ''یہ بات درست ہے، مگر ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں تھا‘‘۔
چوہدری اعتزاز احسن نے کہا:پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے ووٹروں کا ''شریکہ‘‘ہے ،اگر امیدوار مسلم لیگ کا ہوگا تو پیپلز پارٹی کا ووٹر یا تو مخالف امیدوار کو ووٹ دے گا یاپھر گھر پر آرام کرے گا اور یہی مسلم لیگ کا ووٹر کرے گا۔ اسے پشتو میں'' عزیز ولی ‘‘یا ''پختون ولی‘‘ کہتے ہیں، عربی میں ''ابنائِ اَعمام‘‘ کی رقابتیں اور عداوتیں اسی جذبے پر مبنی ہوتی تھیں۔ضمناً مجھے یاد آیا کہ ایک بار میں نے مولانا عبدالمالک سے پوچھا کہ جماعتِ اسلامی کے نظریات مسلکِ دیوبند سے ملتے جلتے ہیں، اس کے باوجود کیا وجہ ہے کہ علمائِ دیوبند اہلسنت سے بھی زیادہ جماعت سے نفرت کرتے ہیں بلکہ 1970ء کے عشرے کی ابتدا تک تو تبلیغی جماعت کے اسٹال پر بھی ایک کتابچہ رکھا ہوتا تھا ، جس کا عنوان تھا :''مودودی پر سو علماء کا فتوائے تکفیر‘‘۔ اس کے برعکس علمائِ اہلسنت کے مولانا مودودی کے ساتھ علمی اختلافات تو رہے ، لیکن اس درجے کا فتویٰ عائد نہیں کیا۔مولانا عبدالمالک نے کہا:''یہ عزیز ولی ہے، یعنی علمائِ دیوبند کو یہ صدمہ تھا کہ مولانا مودودی نے ان کے بندے شکار کرلئے ‘‘،واﷲ اعلم بالصواب۔
ایک مصرع ہے :''لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا‘‘۔ مجھے اس بات پر حیرت ہوئی کہ پاکستان عوامی تحریک کے قائد جناب ڈاکٹرمحمدطاہرالقادری کے انقلابی کارواں میں جو پہلا قافلہ لندن تک پیش قدمی کرکے شامل ہوا ، وہ چوہدری صاحبان کا ہے،اس کا سبب یہ ہے کہ بادی النظر میں چوہدری برادران اور انقلاب ایک دوسرے کی ضد ہیںیا ہوسکتا ہے ہماری یہ رائے کم علمی پر مبنی ہو اور چوہدری برادران کی'' قلبِ ماہیّت‘‘ہوچکی ہو اور وہ اچانک انقلابی ہوگئے ہوں ، سیاست کی دنیا میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
دوسری سراپا اضطراب شخصیت جناب عمران خان کی ہے۔ ان کے نعرے ''سونامی‘‘اور ''جنون‘‘ دیہاتی اور مزدور پیشہ لوگوں کی سمجھ میں آجاتے ہوں ، تویہ ان کی سیاسی کرامت ہوگی ۔ ہم نے تو پہلی بارجاپان کے سمندری طوفان کے موقع پر ''سونامی‘‘ کی اصطلاح سنی تھی کہ سمندر کی تہ میں طاقت ور زلزلوں کے نتیجے میں یہ طوفان اٹھتا ہے اور تباہی مچا دیتا ہے، بعد میں امریکہ میں معمول کے سمندری طوفان آئے ، جنہیں بالترتیب''قطرینہ ‘‘اور ''سینڈی‘‘ کا نام دیا گیا ۔لگتاہے پاکستان تحریک انصاف والوں کو بھی وقتاً فوقتاً گدگدی ہوتی ہے اور دل میں شوق سا اٹھتا ہے کہ انقلابی کارواں کا حصہ بن جائیں ، مگر کیفیت کچھ یوں ہوتی ہے کہ ؎
ارادے باندھتا ہوں ، سوچتا ہوں ، توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے
ہم عملی سیاست کے کھلاڑی نہیں ہیں ، لیکن ہمارا خیال ہے کہ جناب عمران خان کی میوزک سے مخلوط آدھے گھنٹے یا گھنٹے کی خطابت جناب ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی چار چار گھنٹے کی شعلہ بار خطابت کے سمندر میں تحلیل ہوجائے گی اور ان کا گراف نیچے آجائے گا، کیونکہ کاروانِ انقلاب کا قائد ایک ہوتاہے ، سیاسی اتحاد اس سے مختلف چیز ہے ۔ جہاں تک ہماری کراچی کی ایک سیاسی جماعت کا تعلق ہے ، تو سیاسی نجومیوں اور کاہنوں کی نپی تلی رائے یہ ہے کہ اس کے رہنما صرف اپنے ساتھ ہوتے ہیں ، البتہ اگر کوئی چیز ان کے مقاصد کے حصول میں ممد ومعاون ہوتو مناسب حدتک ''بَک اَپ‘‘کرسکتے ہیں ۔
ہم صرف یہ دعا کرسکتے ہیں کہ پاکستان کی خیر ہو ، جیسے تیسے پاکستان کے حالات کسی ڈگر پر چلتے رہیںاور نظمِ اجتماعی میں تسلسل کی کوئی روایت قائم ہو، ورنہ بے یقینی کی کیفیت سے حکومت بھی لرزتی رہے گی اور معیشت، جو پہلے ہی مشکلات کا شکا ر ہے ، مزید ابتری سے دوچار ہوجائے گی۔ اسٹیبلشمنٹ نے حکومتی معاملات پر کافی حدتک کنٹرول حاصل کرلیا ہے اور اُس کے لئے یہی مفید ہے کہ نظام اس کی مرضی کے مطابق چلتا رہے اور ناکامیوں کی کالک کسی اور کے چہرے پر ملی جاتی رہے ۔ ملکی حالات بالخصوص داخلی سلامتی کے معاملات اس قدر گمبھیرہیں کہ براہِ راست اقتدار کو ہاتھ میں لینا شاید لمحۂ موجود میں اُن کے اور ملک وقوم کے مفاد میں نہ ہو۔ حکومت اوراقتدار چیز ہی ایسی ہے کہ اس کی خواہش کوئی بھی کرسکتا ہے اورجب سیاست دان ایک دوسرے کا تیا پانچا کرنے میں مشغول ہوں ، اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے یہ آئیڈیل صورتِ حال ہوتی ہے، مگر ملک کے لئے نہیں ۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر شریف برادران سے گلوخلاصی ہوجائے تو پاکستان مسائل کی دلدل سے نکل آئے گا، کاش کہ ایسا ہوجائے۔ لیکن 1999ء سے 2007ء تک وہ اقتدار اور ملک دونوں سے باہر تھے۔ لیکن ہم اُس دور کے مسائل کوبھی آج تک بھگت رہے ہیں،سو ان پست تر اہداف سے بالا تر ہوکر کوئی قابلِ عمل، دیر پا اور قابلِ یقین حل کسی کے پاس ہے، تو ازراہِ کرم اس کی رہنمائی فرمائیں۔