اہلِ ایمان کے لئے دعا حکمِ ربانی ہے، سنتِ انبیائِ کرام اور رُسُلِ عِظام علیھم الصلوٰۃ والسلام ہے۔ دعا اسی طرح روحانی سبب ہے، جس طرح دوا ایک مادّی اور ظاہری سبب ہے۔ نہ ہر دوا کی تاثیر یقینی اور قطعی ہے اور نہ ہر طبیب کے علاج کا مؤثر ہونا لازمی اور ضروری ہے، اگر ایسا ہوتا تو کوئی مریض لقمۂ اَجَل نہ بنتا اور نہ کوئی مریض شفا یاب ہوئے بغیر رہتا، کسی کی مہلتِ حیات دراز ہوجاتی ہے اور کسی کو شفا مل جاتی ہے اور کسی کے لئے نتیجہ اس کے برعکس ہوتاہے۔ آپ کسی بھی اسپتال میں چلے جائیں ، دونوں مناظر آپ کو مل جائیں گے۔ معلوم ہوا کہ دوا اور طبیب اسباب ہیں اور اسباب کی اثرآفرینی خداوندِ مسبّب الاسباب کے قبضہ وقدرت میں ہے اور اس کی حکمت ومشیت کے تابع ہے۔ اسی طرح دعا بھی ایک روحانی سبب ہے، اس سے ایک تو دعا کرنے والے کو روحانی تسکین ملتی ہے ، اپنے خالق سے روحانی اور قلبی رشتہ مستحکم ہوتاہے اور دعا اس بات کا مظہر ہے مختارِ مطلق اور سب کا مالک اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ بعض صورتوں میں دوا کے بے اثر ہونے کی وجہ سے لوگوں نے طبیب سے رشتہ توڑ دیا ہو اور دوا کا استعمال ترک کردیا ہو، تو پھر اللہ کی ذات سے رشتہ کیوں توڑا جائے؟۔
دوا اور دعا میں فرق یہ ہے کہ اگر دوا بے اثر ہوگئی ، تو اس پر خرچ کیا ہوا سارا سرمایہ خاک ہوا اور ساری محنت رائیگاں گئی ، لیکن دعا اگر ظاہری طور پر بندے کے معیار اور خواہش کے مطابق اثر نہ بھی دکھائے ، تب بھی اس کا روحانی اوراُخروی فائدہ یقینی ہے۔ یہی سبب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دعا کا حکم فرمایا ہے ،دعا کی قبولیت کا وعدہ فرمایا ہے اور اس کی برکات کوبیان فرمایا ہے۔احادیثِ مبارَکہ میں یہ بھی آیا کہ دعا اللہ کے پاس امانت ہے اور اس کا ثمر اگر دنیا میں نہیں ملا تو آخرت میں یقینا ملے گا ۔ میں نے کئی روشن خیال حضرات کی تحریریں پڑھیں کہ مسلمان کس سیارے کی مخلوق ہیں اور کس عہد میں جی رہے ہیں کہ کسی سواری یا ہوائی جہاز پر بیٹھو ، تو پہلے دعا مانگو۔ کیا اللہ کی ہستی کے منکرین ، ملحدین، کفار اور مختلف دیگر مذاہب کے ماننے والے اس دعا کے پڑھے بغیر جہاز نہیں اڑاتے اور ان کے جہاز منزل پر نہیں پہنچتے ؟۔پس معلوم ہوا کہ اصل قدرت سائنس اور ٹیکنالوجی کی ہے ، تو سوال یہ ہے کہ جو آج سائنس اور ٹیکنالوجی میں دنیا میں قیادت کے منصب پر فائز ہیں ، کیا ان کے منصوبے ناکام نہیں ہوتے ، کیا ان کے جہاز کبھی بھی کریش نہیں ہوتے، کیا انہیں کبھی بھی خلافِ توقع نتائج کا سامنا کرنا نہیں پڑتا ؟ اگر ان ناکامیوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی پر ان کے ایمان کو متزلزل نہیں کیا ، تو کیا اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے بے پایاں قدرت واختیار اوراس کی قضا وقدر پر کسی ناکامی کی صورت میں مومن کا ایمان متزلزل ہوجانا چاہئے؟۔ کیا اللہ کی ذات پر ہمارا ایمان اتنا بھی قوی اور محکم نہیں ہے ، جتنا کسی ملحد کا سائنس اور ٹیکنالوجی یا اپنی دانش اور وسائل پربھروسا ہے۔
لہٰذامومن کو حکم ہے کہ کسی نیک مقصد کے لئے حسبِ توفیق ظاہری اسباب کو بھی اختیار کرے، لیکن اسباب کے مؤثر ہونے کے لئے خداوندِمسبّب الاسباب کی قدرت اور تقدیر پر یقین رکھے ۔اگر اس پر کوئی ہمیں رجعت پسند یا دقیانوسی قرار دیتا ہے، تو یہ الزام ہمیں قبول ہے۔یہ تو کسی نے نہیں کہا کہ اللہ کی ذات سے دعائیں مانگنے والے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں ، بے عملی ، تساہل اور کم ہمتی کو اپنا شِعار بنالیں۔دعا کا تو مقصد ہی یہی ہے کہ تمام تر دستیاب اسباب کو اختیار کرنے کے بعد ان کی اثرآفرینی کے لئے اللہ تعالیٰ سے رجوع کیا جائے۔ یہاں ہمارے پاس گنجائش نہیں ہے کہ دعا کے موضوع پر ساری آیات واحادیث نقل کی جائیں ، بس یہ چند تمہیدی کلمات کافی ہیں ۔
آج کل بڑی تعداد میں لوگ عازمِ سفر ہیں ، سفر کہیں کا بھی ہو اور مقصدِ سفر کوئی بھی ہو، سواری پر بیٹھتے وقت یہ دعا مسنون ہے:پہلے تین مرتبہ اﷲاکبر کہے ، پھر یہ کلماتِ دعا پڑھے :''پاک ہے وہ ذات جس نے اس سواری کو ہمارے لئے مسخر کردیا ، حالانکہ ہم اس پر (اپنی طاقت سے) قابو پانے والے نہ تھے اور ہمیں اپنے رب ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے، (الزخرف: 13-14 )‘‘۔ اس کے بعد یہ دعا مانگے:''اے اللہ! ہم تجھ سے اس سفر میں نیکی اور تقوے کی توفیق مانگتے ہیںاور ایسے عمل کی سعادت جو تجھے پسند ہے۔ اے اللہ!اس سفر کو ہمارے لئے آسان فرمادے اور اس کی مسافت کو ہمارے لئے لپیٹ دے۔ اے اﷲ! سفر میں بھی تو ہی ہمارا رفیق ہے اور پیچھے گھر کا نگہبان بھی توہی ہے۔ اے اللہ! میں سفر کی دشواریوں اور کوئی غمناک صورتِ حال پیش آنے اور پیچھے مال اور اہل میں کوئی بری تبدیلی آنے سے تیری پناہ چاہتاہوں۔اور جب سفر سے لوٹ کر آئے تو یہ دعا پڑھے:ہم (سلامتی کے ساتھ) واپس لوٹنے والے ہیں ، اللہ سے توبہ کرنے والے ہیں ، اس کی عبادت کرنے والے ہیں اور اپنے رب کی حمد کرنے والے ہیں ،(صحیح مسلم:1342)‘‘۔
اسی طرح جب آپ سفر پہ روانہ ہوں تو ''بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ کے ساتھ ''سورۃ ُ الکافرون، النّصر ، الاخلاص، الفلق اور النّاس‘‘ پڑھ کر آخر میں ایک بار پھر ''بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ پڑھ لیں ۔ اگر راستے میں کوئی خوف وخطر ہو ، تو ''سورۃ القریش‘‘ پڑھ لیا کریں ۔گھر سے نکلتے ہوئے یہ دعا پڑھا کریں:''اﷲ کے نام سے اور میں اللہ پر ایمان لایا اور میں نے اللہ پر توکل کیا اور برائی سے پھیرنے والا اور نیکی کی طاقت عطا کرنے والا اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے‘‘۔'' اے اﷲ!ہم اس بات سے تیری پناہ چاہتے ہیں کہ ہم لغزش کھائیں یا کوئی ہمیں لغزش دے، ہم راہِ راست سے بھٹک جائیں یا کوئی ہمیں بھٹکا دے، ہم کسی پر ظلم کریں یا کوئی ہم پر ظلم کرے ، ہم کسی پر زیادتی کریں یا کوئی ہم پر زیادتی کرے، (کتاب ادعیۃ الحج والعمرۃومایتعلق بھما: علامہ قطب الدین حنفی)‘‘۔''آیۃ الکرسی‘‘ کی بکثرت تلاوت کریںاور اگر کوئی چیز گم ہوجائے تو یہ دعا پڑھیں:''اے قیامت کے دن لوگوں کو جمع کرنے والے ، بیشک اللہ وعدے کے خلاف نہیں فرماتا، میرے اور میری گمشدہ چیز میں ملاپ فرمادے‘‘۔ کسی مقام پر اترے تو یہ دعا مانگے:''اے اللہ! اس بستی میں اور یہاں کے رہنے والوں میں جو خیر ہے ، وہ ہمیں عطا فرمااور اس بستی میں اور یہاں کے رہنے والوں میں جو شر ہے، اس سے ہمیں امان عطا فرما‘‘۔سلامتی کے ساتھ گھر واپس آنے کے لئے یہ دعا مانگے: ''بے شک جس نے آپ پر قرآن فرض کیا ہے ، وہ آپ کو لوٹنے کی جگہ (مکہ مکرمہ) ضرور واپس لائے گا،(القصص:85)‘‘۔
حج مشقت کا سفر ہے ۔ قدیم زمانے میں مشقت موسم کی شدّت وحِدّت ، سفر کی صعوبت، پیدل یا جانوروں کی سواری اور راحتوں کی کمی کی صورت میں تھی۔ اب وہ ساری صعوبتیں ختم ہوچکی ہیں ، اﷲتعالیٰ نے بے شمار راحتیں مقدر فرمادی ہیں ، ہوائی جہاز کامختصر دورانیے کا سفر ہے، سواریاں ائیرکنڈیشنڈ ہیں ، اسی طرح حجاجِ کرام اور مُعتمِرین کی رہائش گاہیں بھی ایئر کنڈیشنڈ ہیں، حرمین طیبین بھی انتہائی پرآسائش اور ایئر کنڈیشنڈ ہیں ، لیکن اس کے باوجود ہجومِ انسانی کی صورت میں مشقت کا عنصر آج بھی موجود ہے ۔ جدّہ ایئر پورٹ پر کافی دیر تک امیگریشن کے لئے قطار میں کھڑا ہونا پڑتا ہے، منیٰ، مزدَلِفہ اور عرفات آنے جانے کے لئے کافی وقت گاڑیوں میں گزارنا پڑتا ہے، رمیِ جمرات اور قربان گاہ کی مشکلات ہیں ۔ طواف ، سعی اور نمازوں کے لئے آمدورفت کے وقت دھکم پیل سے گزرنا پڑتا ہے، بعض صورتوں میں حادثات بھی ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں ہمارے لوگ عُمّالِ حکومت ، معلمین اور سرکاری کارکنان کے رویوں کی شکایت کرتے رہتے ہیں اور اپنا وقت غیبت میں گزارتے ہیںاور اس سے حاصل کچھ بھی نہیں ہوتا۔ بہتر ہے کہ اس کے بجائے اپنا وقت تلبیہ، دعاؤں، ذکر واذکار، تسبیحات ودرود اور تلاوت میں گزاریں تاکہ ذہن اللہ کی ذات کی طرف متوجہ رہے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرم ﷺ کی بارگاہ میں حضوری کا تصور غالب رہے ، یہی روحِ عبادت ہے۔