دھرنوں کی روایت ہمارے ملک میں کافی پرانی ہے ، اسے مجلسِ وحدت المسلمین نے ایک نیا رنگ دیا اور اپنے مطالبات کے حق میں بیک وقت کئی مقامات پر دھرنے دئیے۔اسلام آباد کے موجودہ دھرنے یقینا پاکستان کی تاریخ کے طویل ترین دھرنے ہیں، عالَمی ریکارڈ کے اعتبار سے بعض لوگ اس دعوے کوچیلنج کررہے ہیں، لیکن تعداد کے اعتبار سے شاید یہ سرِفہرست ہوں۔ ان دھرنوں نے ہماری تاریخ اور سیاسی رُجحانات کو نیا رخ دیا ہے۔ ہمیں کسی کے مافی الضمیرکا تو علم نہیں ہے، لیکن ظاہری شواہد، علامات اور دعووں کی حدتک کہا جاسکتا ہے کہ یہ دھرنے اپنے مطلوبہ اور مزعومہ مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ثابت نہیں ہوئے، اس کے ظاہری اور پوشیدہ اَسباب پر شاید طویل عرصے تک بحث ہوتی رہے گی۔
لیکن یہ دعویٰ بھی درست نہیں ہے کہ یہ دھرنے مکمل طور پر ناکام ہیں، ان کی کامیابی کی متعدّد جہات بھی موجود ہیں ۔ میڈیا نے ان دھرنوں اور ان کی قیادت کو بے پناہ اور بے مثال کوریج دی، اس کے محرکات پر بھی بحث ہوتی رہے گی۔ میڈیا کی اپنی حرکیات اور ترجیحات ہوتی ہیں اور الیکٹرانک میڈیا کے درمیان غیرتعمیری مسابقت بھی ایک مسئلہ ہے۔ پھر میڈیا کے لوگ بھی اسی سرزمین کی پیداوار ہیں اور ان کی اپنی ترجیحات اور تعصبات بھی یقینااثرانداز ہوتے ہیں۔ یہاں میں لفافے کی اصطلاح اور بے پناہ سرمائے کے اثرات سے صَرفِ نظر کرتا ہوں، کیونکہ جس چیز کے بارے میں ٹھوس شواہد نہ ہوں، تو محض ظاہری قرینوں یا اَفواہوں پر مبنی بات کرنا قرینِ مصلحت نہیں ہے۔
ان دھرنوں نے ریاست ، حکومت اور اشرافیہ کو کمزور کیا، قانون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی توقیر تقریباً ختم ہوگئی اور یہ ملک وقوم کے لئے ایک ناخوشگوار صورتِ حال اور بہت بڑی وارننگ ہے۔ جس ملک میں قانون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حرمت قائم نہ رہے، اسے لاقانونیت اور اَنارکی کے سیلاب سے بچانا مشکل ہوتاہے۔ یہ دھرنے کسی دوسرے مناسب مقام پر بھی ہوسکتے تھے اور موجودہ تناظر میں میڈیا کی کوریج ایسی ہی رہتی ، لیکن حسّاس مقام اور ریڈ زون میں ان دھرنوں نے ریاست کو عالَمی سطح پر بے توقیر کیا ، بعض غیر ملکی سربراہوں کے دورے بالخصوص پاکستان کے روایتی دوست اور ہمسایہ ملک چین کے صدر کا دورہ منسوخ یا ملتوی ہوا۔ ان دھرنوں سے یہ سوال بھی پیدا ہوا کہ ایک ایسی ریاست جس کی پارلیمنٹ، ایوانِ صدر، وزیراعظم ہاؤس اور سیکریٹریٹ ، سپریم کورٹ اور حسّاس مقامات محفوظ نہیں ہیں، تو اس کے بارے میںعالَمی برادری کے اس خدشے کو کیوں نہ اہمیت دی جائے کہ یہ ملک ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کا اہل نہیں ہے، جبکہ ہمارے بعض حسّاس مقامات پر پہلے بھی دہشت گردوں کے حملے ہوتے رہے ہیں۔
ان دھرنوں میں زیادہ عزیمت واستقامت کا ثبوت توپاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں نے دیا، لیکن میڈیا نے قیادت کے اعتبار سے جناب عمران خان کو زیادہ ترجیح دی، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ حلقہ جاتی انتخابات اور پارلیمانی نظام میں اپنی حیثیت منواچکے ہیں اور اپنے آپ کو مستقبل کا وزیراعظم سمجھ رہے ہیں ، جب کہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب کا اکاؤنٹ اس شعبے میں خالی ہے۔ہوسکتا ہے کہ ان کی خواہش صدارتی نظام ہو اور وہ اپنے جوہرِ خطابت کے بَل پر اپنے آپ کو ایک طاقت ور حریف سمجھتے ہوں ، لیکن تاحال ملک پارلیمانی نظام کے تحت چل رہا ہے اوراس کا نظامِ انتخاب حلقۂ انتخاب کی بنیاد پرہی ہوتاہے اور اس میں سیاسی جماعتوں کی مجبوری قابلِ انتخاب (Electables)ہوتے ہیں، سوائے اس کے کہ کسی قیادت یا سیاسی جماعت کی مقبولیت کی غیر معمولی لہر چل جائے اور قائد یا جماعت کے نام پر لوگ گمنام یا بے نام لوگوں کو بھی ووٹ دینے پرآمادہ ہوجائیں۔اگر دونوں اصحابِ دھرنا کا آپس میں کوئی معاہدہ ہے تو الگ بات ہے، ورنہ اپنا اکاؤنٹ کھولنے کے لئے ڈاکٹر صاحب کو دھرنوں کی سیاست سے ہٹ کرقریہ بَہ قریہ ، کوبہ کو والی سیاست اپنانی پڑے گی۔
پہلے تو اہلِ دھرنا کی غزل کا مَطلع اور مَقطع وزیر اعظم کا استعفیٰ ہی تھا، لیکن شاید کسی حدتک انہوں نے حقائق کا اِدراک کرلیا ہے اور آج شاہ محمود قریشی صاحب کا بیان نظر سے گزرا کہ مجھے انتخابات 2018ء سے پہلے نظر آرہے ہیں۔ اس تناظر میں لاہور اور کراچی جیسے عام جلسوں کا انعقاد محلِ نظر ہے ، کیونکہ ان جلسوں پر بے پناہ وسائل خرچ ہوتے ہیں اور عام انتخابات کے انعقاد سے پہلے انتخابی تحریک چلانا سمجھ سے باہر ہے، جبکہ میڈیا کے ذریعے ویسے ہی ان کا پیغام گھر گھر پہنچ رہا ہے ۔ مزید یہ کہ ساری سیاسی کشمکش کا مرکز پنجاب ہے ، باقی تین صوبے اپنے حال پر صابر وشاکر ہیں۔ شہری اور دیہی سندھ خواستہ وناخواستہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ کراچی میں جناب عمران خان کا خطاب حدِّ ادب کے اندر تھا اور لگتا ہے کہ انہوں نے اس حقیقت کا عملاً اعتراف کرلیا ہے۔ پختونخواکے ووٹر کسی کے ساتھ بندھے نہیں رہتے، وہاں تبدیلی آتی رہتی ہے اور ابھی اندازہ نہیں کہ آئندہ وہ اپنی نمائندگی کا اعزاز کسے عطا کریں گے، وہاں تحریک انصاف خود مرحلۂ امتحان میں ہوگی۔
موجودہ صورتِ حال میں اگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت جاری وساری بھی رہتی ہے، تو سابق خود اعتمادی کی کیفیت باقی نہیں رہے گی ، انہیں ہر لمحے بے رحمانہ تنقید اور مزاحمت کا سامنا کرنا ہوگا اور بیوروکریسی بھی پژمردہ اور اعتماد سے عاری رہے گی، کیونکہ اب اس نئی اپوزیشن نے بیوروکریسی کو بھی اپنے نشانے پر رکھا ہواہے ، اگرچہ یہ شِعار ملک کے لئے نیک شگون نہیں ہے، پس ایسے حالات میں کسی انتظامیہ سے بہتر حکمرانی یا آئیڈیل ڈیلیوری کی توقع عبث ہے۔ پارلیمنٹ نے اپنے مفادہی میں سہی بلاشبہ حکومت کو وقتی طور پر سہارادیا ہے، توانائی بخشی ہے اور اس کی پشت پناہی کی ہے، لیکن اب وہ درونِ خانہ اس کا صلہ اور انعام بھی چاہیں گے اور ریاست وحکومت کے وسائل میں اپنے حصے کے طلبگار ہوں گے، لہٰذا موجودہ حکمرانوں کو اپنی سابق روش کو بدلنا ہوگا، ورنہ ان کی مشکلات میں اضافہ ہوتا رہے گا۔
ضرور ت اس اَمر کی ہے کہ جلداَزجلد بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کی منتخب قیادت کو وسیع اختیارات سونپے جائیں اور انہیں بجٹ میںاستحقاق کے مطابق حصہ دیا جائے تاکہ وہ اپنے آپ کو اقتدار میں برابر کے حصے دار سمجھیں اور ذمے داری میں بھی برابر کے شریک ہوں۔ حالیہ سیاسی حالات نے بتایا کہ اب ہمارے ملک میں وہی طبقہ، گروہ یا سیاسی جماعت حکومت اور عوام کی توجہ کا مرکز ہوگی ، جس کے پاس نظام کو مفلوج کرنے کی صلاحیت موجود ہے ، مستقبل میںاس رَوِش کو انتہاپسند گرو ہ بھی اختیار کرسکتے ہیںاور سب کو معلوم ہے کہ ان کے پاس صلاحیتِ فساد وانتشار سب سے زیادہ ہے۔ ان کے پاس ایک زیادہ ہیجان انگیز اور جذبات کو مشتعل کرنے والا نعرہ جہاد اور نفاذِ شریعت کا بھی ہے اور اب یہ ایک عالَمی رجحان بھی بن چکا ہے ۔ ہمارا خطہ ہی نہیں، مشرقِ وسطیٰ بھی اس آگ میں جل رہا ہے اور حال ہی میں ایمن الظواہری کا اعلان سامنے آیا کہ انہوں نے القاعدہ کا سیٹ اپ انڈیا میں بھی قائم کرلیا ہے ،سو اس کا ردِّ عمل بھی ہمیں برداشت کرنا ہوگا، بس صورتِ حال یہی ہے کہ: ''کرے کوئی اور بھرے کوئی‘‘۔