مانا کہ ترقیٔ درجات (Rating) رہنمایانِ سیاست وصحافت کی ضرورت ہے ،مُسابَقت (Competetion)اُن کی مجبوری ہے اور قبولِ عام(Popularity) ہونااُن کی خواہش ہے ،اِن خواہشات وحاجات کے حصول کے لئے وہ جہاں تک جاسکتے ہیں، ضرور جائیں ۔اپنے دل میں خواہشات پالنا ہرایک کا حق ہے، غالب نے کہاتھا : ؎
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دَم نکلے
بہت نکلے مرے ارماں، لیکن پھر بھی کم نکلے
لیکن بصد اَدب گزارش ہے کہ : لِلّٰہ !پاکستان پررحم فرمایئے ۔ ہم ایک خود ملامتی (Self Blaming)قوم بنتے جارہے ہیں اور دنیا کے سامنے اپنی رسوائیوں کو مُشتہر کرنا ہمارا مَن پسند مَشغلہ ہے، یہی ہماری ہیڈلائن نیوز اور بریکنگ نیوز ہوتی ہیں۔
کوٹ رادھا کشن کا واقعہ بلاشبہ انتہائی تکلیف دہ ہے اور اذیّت ناک ہے ،یہ بلااختلاف ایک سنگین انسانیت دشمن جرم ہے اور اسلام کی مُسلّمہ تعلیمات واَقدار کے خلاف ہے،اِن جیسے واقعات سے عالمی سطح پر پاکستان کی رُسوائی ہوتی ہے ۔لیکن ہم اِس طرح کے واقعات کو ایک خاص رُخ دے دیتے ہیں کہ گویا پاکستان میںغیر مسلموں کے خلاف کوئی نفرت انگیز مُہِم جاری ہے اور یہ اُسی کا شاخسانہ ہے ،حاشاوکَلّا ایساہرگزنہیں ہے ۔یہ اُسی طرح کا انسانیت دشمن جرم ہے ،جیسااُس سے چند دن پہلے واہگہ بارڈر پر رُونما ہوا اور ایک خودکُش یا ریموٹ کنٹرول بم بلاسٹ کے ذریعے ساٹھ سے زائد افراد کو موت کی نیند سلادیاگیا۔ درجنوں شدید زخمی زیرِ علاج ہیں۔اگریہ بے قصور انسانوں کو آتشیں اسلحہ سے بھسم کرنا نہیں تو اورکیاہے ؟۔
پس میری گزارش ہے کہ اس طرح کے تمام سانحات کو پاکستان کے تناظر میں اور ایک پاکستانی قوم کی حیثیت سے دیکھاجائے اور بیان کیا جائے ،ایک خاص رُخ دینا ہمارے لئے مزید رسوائی کی بات ہے۔ 20فروری 2013ء کو اسلام آباد میںاُس وقت کی ''وفاقی وزارتِ قومی ہم آہنگی ‘‘ کے زیراہتمام ایک'' قومی کانفرنس برائے بین المذاہب ہم آہنگی ‘‘کا انعقاد ہواتھا ،جس میں مسلمانوں کے تمام مکاتبِ فکر اور پاکستان میں موجود دیگر مذاہب کے نمائندے شریک ہوئے اور ایک متفقہ اعلامیے کی منظوری دی ۔
22فروری2013ء کو ایوانِ صدر اسلام آباد میں اُس وقت کے صدرِ پاکستان جناب آصف علی زرداری کی صدارت میں منعقدہ اختتامی اجلاس میں یہ اعلامیہ جاری ہوا اور اِس کا انگلش وژن وزارت کے سیکریٹری جناب اعجاز چوہدری اور اُردومتن میں نے پڑھ کر سنایا ۔الحمدللہ اِس کے انگلش اور اردو متن کی تیاری میں میرا بھی کردار تھا ۔اُس وقت سٹیج پراِس وزارت کے وفاقی وزیرجناب پال بھٹی اور وزیرِ مملکت جناب اکرم گِل دونوں موجود تھے اور دونوں کا تعلق مسیحی برادری سے ہے ۔اُن کے علاوہ جناب جسٹس(ر)رانا بھگوان داس بھی موجود تھے۔ اِن سب نے اِس کی حمایت کی ۔
اِس اعلامیے کی پہلی شِق میں یہ قراردیاگیاتھاکہ اقلیت کی اصطلاح کوترک کیاجائے ،کیونکہ اقلیت ایک اضافی اصطلاح ہے،پاکستان میں آبادی کے تناسب کے اعتبار سے اگر مسیحی اقلیت میں ہیں،تو ہندوستان میں مسلمان اقلیت میں ہیں ۔کسی بھی چیز کی تعداد اپنے مقابل کے اعتبارسے اقلیت یا اکثریت بنتی ہے اور یہ نسبت بدلتی رہتی ہے ۔پس ہم سب پاکستانی ہیں اور تمام غیر مسلم بھی ہماری ہی طرح پاکستانی ہیں اور ہماری ریاست میں جان ومال اور آبروکے تحفظ کے اعتبارسے سب کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ جوبھی پاکستانی شہری ایسا غیر قانونی جرم کرے گا، جس سے سزائے موت لازم آئے ،تو اُس کی جان قانون کی نظر میں مباح ہوجائے گی۔ لیکن سزاکو نافذ کرنا ریاست وحکومت کا دائرۂ اختیار ہے، افراد یا گروہوںکا نہیں ہے ،اس میں مسلمان اور غیر مسلم دونوں کے اَحکام برابر ہیں۔
ہم کئی دہائیوں سے فساد اور دہشت گردی کا شکار ہیں اور اِس کا نشانہ مختلف اوقات میں مذہب ومسلک کی تمیز کے بغیر تمام پاکستانی شہری حتیٰ کہ ہماری مُسلح اَفواج اور قومی سلامتی کے اداروں کے اہلکار بھی بنتے رہے ہیں۔بھارت سے ہماری دو باقاعدہ جنگیں ہوئیں، لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ کا افرادی نقصان تعداد اورمعیار ہراعتبار سے اُن دونوں جنگوں سے زیادہ ہے، پس اِس قومی نقصان کو مسالک اور مذاہب کے خانوں میں نہیں بانٹنا چاہیے، بلکہ اِسے پوری قوم اور ملت کا نقصان سمجھنا چاہیے ۔
بدقسمتی سے ہماری ہاں لاقانونیت برداشت کی آخری حدوں کو بھی عبورکرچکی ہے اور حالیہ سیاسی خَلفِشارنے اِس لاقانونیت کے رُجحان میں اور اضافہ کردیاہے۔ اور ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ غیریقینی صورتِ حال آگے کہاں تک جائے گی؟ اورہماری قوم کی قیادت کے دعوے داروں کو اِس کی سنگینی کا احساس کب ہوگا اور وہ اِس انتشار ،لاقانونیت اور بے یقینی کا حل نکالنے کے لیے کب سرجوڑ کر بیٹھیں گے ؟۔سَرِ دَست تو وہ ایک دوسرے کوزیر کرنے اور ایک دوسرے کی تذلیل و تحقیر میںمصروفِ عمل ہیں اوریہ اُن کا محبوب مَشغلہ بن گیاہے ،خواہ اِس میں ملک وقوم کا وقار پامال ہی کیوں نہ ہو، یہ ہمارا قومی المیہ ہے اور سیاسی قیادت کا غیر ذمہ دارانہ رَوِیہ ہے۔ امریکہ کے 2000ء کے صدارتی انتخاب میں بے قاعدگیوں کا انکشاف ہوا اورجارج بش کا انتخاب مشکوک اور مُشتبہ نظر آنے لگا اور مسئلہ طول پکڑنے لگا ،تو ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی اُمیدوار الگور نے یہ اِدراک کرتے ہوئے شکست تسلیم کرلی کہ اِس سے اُن کے ملک کی رسوائی ہورہی ہے ،لیکن ہمارے ہاں شخصی اَنا (Ego)کے بت اتنے بلند ہیں کہ اُن کے آگے قومی، ملکی اور ملّی وقار ہیچ نظر آتاہے ۔
سوہمیں مسائل کو سمجھنے اور اُن کی تعبیر کا انداز (Approach) بدلناہوگا اور قوم جو پہلے ہی مُنقسم ہے ،اُسے مزید تقسیم دَرتقسیم کا سلسلہ روک کر اصل مسئلے کی طرف سنجیدگی سے توجہ دینا ہوگی اوروہ ہے لاقانونیت کا راج اور قانون کی حکمرانی کا فقدان۔اِس کلچرکے فروغ میں تمام طبقات کا حصہ بقدرِ جُثَّہ ہے ۔کیا یہ امر واقعہ نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں اعلیٰ عدلیہ کی بحالی کے لیے ایک مثالی تحریک برپاہوئی اور بالآخر کامیابی سے ہمکنار ہوئی ۔مگر وکلاء برادری جو اِس تحریک کے سرخیل اور مُقدِّمۃُ الجیش تھے اور سمجھاجارہاتھا کہ وُکلاء عدلیہ اور قانون کی حکمرانی کے لئے نمونۂ عمل اور رول ماڈل ہیں، مگر بدقسمتی سے بعدمیں اِسی طبقے سے عدلیہ اور قانون کی بے حرمتی کے مُتعدد واقعات رُونما ہوئے ،جنہوں نے پوری قوم کو حیران کردیا اورہمارے حددرجہ قابلِ احترام سینئروکلاء بھی ندامت محسوس کرنے لگے اور سرپکڑ کر بیٹھ گئے ،اس رُجحان کو مزید مہمیز سیاسی قیادت نے عطاکی ۔
بہت سے لبرل طبقات ان مواقع پر چھری کانٹے تیز کرکے قانونِ تحفظِ ناموسِ رسالت کے پیچھے پڑجاتے ہیں کہ اِس قانون کا استعمال غلط ہو رہا ہے ۔ہم بھی کہتے ہیں کہ ملک میں کسی بھی قانون کا استعمال غلط نہیں ہونا چاہیے ،قانون کو شخصی یا گروہی عداوت اورجذبۂ انتقام کی تکمیل کے لیے آلۂ کار نہیں بنانا چاہیے۔ مگر ہمارے ملک میںکیا صرف اِسی قانون کا استعمال غلط ہوتاہے، باقی قوانین کا غلط استعمال نہیں ہوتا ،توکیا پوری نظامِ آئین وقانون کی بساط محض اِس الزام پر لپیٹ دی جائے گی کہ اِن کا استعمال غلط ہورہاہے یا غلط استعمال کو روکنے کے لیے آئین وقانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کوئی تدبیر یا حکمتِ عملی اختیارکی جائے گی ۔
ماضی میں ممتازمسیحی رہنماؤں سے ہمارے مذاکرات ہوتے رہے ہیں اوروہ اِس بات سے اِتفاق کرتے رہے ہیں کہ مذہبی مُقدَّسات (Sacreds)کی ،خواہ وہ شخصیات ہوں یا الہامی کُتب وشعائر ہوں، بے حُرمتی نہیں ہونی چاہئے ۔لہٰذا اصولی طورپر اُنہیں اِس قانون سے کوئی اختلاف نہیں ہے ،لیکن اِس کا غلط استعمال نہیں ہوناچاہئے ،ہمیں بھی اِس سے سوفیصد اتفاق ہے۔ اِس مسئلے میں خرابی کی بنیادی وجہ اِس کے ضابطۂ کارمیں سابق صدر جناب جنرل پرویز مُشرف کی طرف سے تبدیلی ہے۔ اُنہوں نے یہ قرار دیاکہ جب تک ایس پی کی سطح کا افسر مطمئن نہ ہو ،اِس کی ایف آئی آر درج نہ کی جائے۔سب جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں عام آدمی کی رسائی ایس ایچ او تک مشکل ہے ،ایس پی تو بہت دورکی بات ہے، اس لئے ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ ایف آئی آر درج نہ ہونے کی صورت میں لوگوں نے قانون کو ہاتھ میں لینا شروع کردیا۔ اس مسئلے کاحل یہ ہے کہ ایف آئی آر کو آسان کردیاجائے ،ملزم قانون کی حفاظتی تحویل میں چلاجائے گا ۔ اُس کا ٹرائل براہِ راست وفاقی شرعی عدالت میں کیاجائے اور عدالت کم ازکم وقت میں اس کا فیصلہ کرے۔اگرملزم بے قصورہے تو اُسے رہاکردیاجائے اور اگر قصوروار ہے تو قانون کے مطابق اُسے سزادی جائے ۔