پروفیسر حفیظ تائب مرحوم نے بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں ایک استغاثہ بصورتِ نعت پیش کرکے عرض کیاتھا:
سچ میرے دور میں، جرم ہے، عیب ہے
جھوٹ فنِّ عظیم، آج لاریب ہے
ایک اعزاز ہے، جہل و بے راہ روی
ایک آزار ہے، آگہی یانبی!
عربی زبان میں ایک لفظ ''جہل ‘‘ ہے ، جس کے معنی ہیں:''لاعلمی، نادانی‘‘ اور ایک ''تجاہُل‘‘ ہے ، جس کے معنی ہیں:''جان بوجھ کرنادان بننا‘‘، اسے انگریزی میں آپ To Feign Ignoranceکہہ سکتے ہیں، جیسے ایک بینا کے جان بوجھ کر اندھا بن جانے کو'' تَعامی ‘‘ اور ایک جعلی شاعر یعنی بے معنی تُک بندی کرنے والے کو ''مُتشاعر‘‘ اور تصوف کا لبادہ اوڑھ کر لوگوں کو اپنے دامِ تزویر میں پھنسانے والے کوحضرت سید علی ہجویری رحمہ اللہ تعالیٰ نے ''مُسْتَصْوِفْ‘‘کہا ہے۔الغرض ہمارے عہد میں سچ بولنا جرم ہے اور سچ سننے کا کوئی روادار نہیں ہے، اکثر نے بالعموم متنازع معاملات میں ایک پوزیشن اختیار کررکھی ہے، اس کے محرّکات کا ہمیں علم ہونا ضروری نہیں ہے اور نہ ہی کسی کے بارے میں ثبوت وشواہد کے بغیر بدگمانی کرنا جائز ہے، ذاتی پسنداورناپسند بھی ہوسکتی ہے اور ہر ایک کے اپنے ترجیحی دلائل بھی ہوسکتے ہیں ۔
ہمارا ملک گزشتہ چار ماہ سے ایک بے یقینی اور سیاسی تناؤ کی کیفیت سے دوچار ہے۔ سیاسی کشمکش کا اصل سبب 2013ء کے قومی انتخابات میںدھاندلی کا الزام ہے اور اِسی کے سبب دھرنوں اور جلسوں کا سلسلہ جاری وساری ہے۔ صرف ڈاکٹر محمدطاہر القادری صاحب کا نعرہ انقلاب کا تھا، لیکن انہوں نے اپنے دھرنوں کے تجزیے اور نتائج کے بعد انہیں موقوف کردیا اور باندازِ دگر اپنی سیاسی تحریک جاری رکھنے کا اعلان کیا اورمروّجہ انتخابی نظام میں شمولیت کو بھی برسبیلِ تَنَزُّلْاختیار کرلیا، اِس کا مطلب ہے اپنے اصولی موقف میں تھوڑی نرمی پیدا کرکے حالات سے مطابقت پیدا کرنا۔ سو بے نتیجہ تصادم کی راہ پر مسلسل چلتے رہنے کے مقابلے میں یہ ایک دانشمندانہ بات ہے۔آج کل اُن کی طبیعت ناساز ہے، ہم اُن کی جلد صحت یابی کے لئے دعا گو ہیں۔
اس عرصے میں اس موضوع کے حوالے سے ہمارے ٹیلی ویژن چینلوںپر بے شمار سیاسی مباحثے بھی ہوئے اور قومی اخبارات میں کالموں کا شمار ہی مشکل ہے۔ اس پر ایک اعلیٰ درجے کا پی ایچ ڈی ہوناچاہئے کہ آیا جو لوگ ہماری رہنمائی کے منصب پر فائز ہیں، وہ خود یکسو ہیں ، اُن کا کوئی وژن ہے، انہیں اپنی سَمت کا پتاہے یا اندھیری راہوں میں نامعلوم منزل کی طرف بگ ٹُٹ دوڑے چلے جارہے ہیں۔ہمارے اہلِ قلم ، جنہیں معاشرے کا باشعور طبقہ سمجھا جاتاہے، مختلف کیمپوں میں منقسم ہیں اور خود بھی یکسو نہیں ، جو ہمیں عشروں سے جمہوریت کا درس دے رہے ہیں اور بقول غالب ان کی کیفیت کچھ یوں ہے ؎
دردِدل لکھوں کب تک؟، جاؤں اُن کو دکھلادوں
انگلیاں فِگار اپنی، خامہ خوں چکاں اپنا
یعنی جمہوریت کے فضائل لکھتے لکھتے ان کی انگلیاں زخمی ہوچکیں اور قلم سے خون ٹپک رہا ہے، لیکن وہ جب تبدیلی اور انقلاب کی حمایت کرنے لگے اور امپائر کی انگلی اٹھنے کی باتیں ہونے لگیں،چوک میں کھڑے ہوکر استعفیٰ کا مطالبہ تکرار در تکرار کے ساتھ ہونے لگا، تو جمہوریت کو عقیدے کا درجہ دینے والوںمیں سے بھی اکثر غیبی تبدیلی کی آس لگابیٹھے اور اپنی تمام تر علمی اور فکری کاوشیں اس مہم کی پُرجوش تائید میں صرف کرتے رہے ۔ سوہم خوابوں کی دنیا میں جینے والے لوگ ہیں، حقائق کا سامنا کرنے والے نہیں ہیں ، خواب بھی ایسے جن کی تعبیر کبھی نصیب نہ ہو۔
ہم نے شروع ہی میں عرض کیا تھا کہ جو لوگ نظامِ جمہوریت کے تسلسل کے خواہاں ہیں ، انہیں نظام کے میکنزم کو استعمال کرناچاہئے اور اسی حوالے سے دباؤ ڈالنا چاہئے ، لیکن شروعات ہی جب استعفے کے مطالبے اور امپائر کی انگلی اٹھائے جانے سے ہوئیں ، تو انجام واضح تھا۔ سراج الحق صاحب نے بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا، بلکہ وہ ان حالات سے ایک طرح سے محظوظ ہوتے رہے اورایک آدھ مطالبہ متناسب طرزِانتخاب کا اپنی طرف سے تبرک کے طور پر بھی شامل کردیا، یہ جانتے ہوئے کہ سینٹ میں حکومت کے پاس کوئی قانون (Act) پاس کرانے کے لئے سادہ اکثریت بھی نہیں ہے، آئینی ترمیم تو بہت دور کی بات ہے۔ جس کے لئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی دو تہائی اکثریت کی تائید وتوثیق لازمی ہوتی ہے اوریہ کسی باوقار جامع متفقہ سیاسی معاہدے کے بغیر ممکن نہیں ہے، اس کے لئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں موجود تمام جماعتوںکے رہنماؤں کو آن بورڈ لینا اور ان کی حمایت حاصل کرنا ناگزیر ہے۔ حال یہ ہے کہ آپ سب کو برا بھلا کہہ رہے ہیں ، سیاست اور اخلاقیات کو ایک دوسرے کی ضد بنا دیا گیا ہے اور نفرتوں کا گراف اس درجے پر پہنچا دیا گیا ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ ایک مجلس میں بیٹھنے اور آنکھیں چار کرنے میں یقینا ہچکچاہٹ محسوس ہوگی، براہِ راست رابطہ کے فقدان کی وجہ سے بھی معاملات طوالت کا شکارہوجاتے ہیں۔ دوسرے اور تیسرے درجے کے رہنماؤں پر مشتمل کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں، جو ہدایات کہیں اور سے لیتے ہیں اور ان کے پاس حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہوتااور معاملات مزید الجھاؤ کاشکار ہوتے چلے جاتے ہیں۔
مسائل کا حل یہ ہے کہ ہم خواہشات اور مفروضات (Assumptions)کی دنیا سے نکلیں اور حقائق کا سامنا کریں ، آئین وقانون کی تحدیدات کا بھی ادراک کریں، قانون سازی کے میکنزم کو ذہن میں رکھیں اور اصل ہدف آئندہ نظام انتخابات کی شفّافیت ، اعتبار اور بہتری ہونی چاہئے۔ کچھ تو سپریم کورٹ آف پاکستان آگے بڑھی اورسیاسی رہنماؤں نے بھی ذرا سی سنجیدگی دکھائی توباہمی مشاورت اور مفاہمت سے چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کی منزل قریب آگئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں کوئی مسئلہلایَنحل نہیں ہوتا، بس نیت میں اخلاص ہونا چاہئے اور سَمت (Direction)درست ہونی چاہئے۔
وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار کو ٹیلیویژن پر یہ کہتے سنا کہ ''میثاقِ جمہوریت‘‘ کی طرح قومی سطح پرایک ''میثاقِ معیشت‘‘ بھی اتفاقِ رائے سے طے ہوناچاہئے تاکہ قومی سیاست اور معیشت ایک طے شدہ ٹریک پر چل پڑیں اور آئندہ کوئی بھی سیاسی جماعت برسراقتدار آئے ، وہ ماضی کا نوحہ پڑھنے اور جاری نظام کی شکست وریخت کرنے کی بجائے اسے آگے بڑھائے، یہ نہ ہو کہ ع ''ہرکہ آمد عمارت نوساخت‘‘ والا معاملہ ہو۔پاکستان اسٹیل اور دیگر قومی اداروں کو دیمک لگ چکا ہے اور قومی ٹیکسوں کی آمدنی جو ملکی ترقی پر صرف ہونی چاہئے، وہ اِن اداروں کو ''آکسیجن ‘‘ فراہم کرنے پر صرف ہورہی ہے اور ان کی حقیقی بحالی اور اِ حیاء کی منزل روز بروز ناممکن ہوتی چلی جارہی ہے۔جناب رضا ربانی اور جناب سراج الحق ایسے اداروں کی نجکاری کی نہایت شدت سے مخالفت کررہے ہیں۔ لہٰذا ہمارا مخلصانہ اور پُرزور مشورہ ہے کہ قومی ادارے اِن دونوں معزز صاحبِ بصیرت رہنماؤں کے سپرد کئے جائیں اور اگر یہ اپنی دانش اور انتظامی صلاحیت سے اِن اداروں کی بحالی کے مشن میں کامیاب ہوجائیں تو یہ بہت بڑی قومی خدمت ہوگی ، اس کامیابی پر انہیں قومی اعزازات سے نواز ا جائے ۔
ریل کے ذریعے سفر کرنے والے لوگوں سے معلوم ہواہے کہ جو ٹرینیں یعنی نائٹ کوچ ، شالیمار اور بزنس ٹرین پرائیویٹ کنٹرول میں دی گئی ہیں، ان کے آمدورفت کے نظام الاوقات میں بہت بہتری آئی ہے اور ٹرینوں میں مسافروں کے لئے خدمات اور سہولتوں کا معیار بھی بہتر ہوا ہے، کوئی ہمیں بتائے کہ اِس سے ریاست وحکومت اور قوم کو کیا نقصان ہوا ہے اور آیا بلاجواز کسی ملازم کو نکالا گیا ہے؟۔پس ہمارے حکمرانوں اور رہنماؤں کو حقیقت پسند بننا چاہئے اور نصف النہار کو شبِ دیجور قرار دینے سے حقیقتیں تبدیل نہیں ہوتیں۔ اور اگر کسی کے پاس اس کے برعکس معلومات ہوں تو ازراہِ کرم ہمیں مطلع فرمائیں تاکہ ہماری رائے اگر غلط معلومات پر مبنی ہے تو ہم اپنی رائے پر نظرِ ثانی کرسکیں، کیونکہ غلط موقف پر اَڑے رہنا ہٹ دھرمی کہلاتا ہے۔
ہمارے تضادات کا عالَم تو یہ ہے کہ ایک ہی جلسے کے حاضرین کی تعداد کے بارے میں مختلف دعوے اور تخمینے میڈیا میںپڑھنے اور سننے کو ملتے ہیں ، بعض اوقات یہ تعداد مختلف دعووں کے مطابق دس پندرہ ہزار سے شروع ہوتی اور ایک دو لاکھ سے متجاوز ہوجاتی ہے اور کسی کو بھی اپنے دانستہ جھوٹ یا غلط بیانی پر ندامت نہیں ہوتی۔