سانحۂ پشاور کے بعد سیاسی جماعتوں، مذہبی تنظیموں اور مختلف سطح کے رہنماؤں کے ردِّعمل اور بیانات کا سلسلہ جاری ہے، یہ ہمارے ہاں کی رسم ہے۔ اخبارات کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ماضی کے مقابلے میں ان کے صفحات کی تعداد بھی زائد ہے، لہٰذا انہیں اپنے صفحات پُر کرنا ہوتے ہیں اور جماعتوں، تنظیموں اور رہنماؤں کو اپنی حاضری لگوانا ہوتی ہے ۔بعض کی طرف کنایات میں اشارے کئے جاتے ہیں ، تو انہیں اپنی صفائی پیش کرنی ہوتی ہے اوراپنی پوزیشن واضح کرنا ہوتی ہے، یہی صورتِ حال الیکٹرانک میڈیا کی ہے ۔ بعض حضرات کے مذمتی بیانات تو کسی سانحہ کے رونماہونے کے فوراًبعد اتنی جلدی جاری ہوتے ہیں کہ جیسے پہلے سے کمپیوٹر میں Feedتھے، بس Clickکرنے کی دیر تھی، اسی لئے ایک شہید بچے کی ماں نے جناب عمران خان سے کہا کہ:''ان مذمتی بیانات سے ہمیں آگ سی لگ جاتی ہے اور گِھن آتی ہے‘‘۔
صورتِ حال چونکہ انتہائی حساس ہے، اس لئے اصل مسئلے سے نظریں چرا کر گریز کے حیلے اختیار کئے جاتے ہیں اور یہ سارا کام محض وقت گزاری (Time Passing)یا وقتی دباؤ سے نکلنے کے لئے ہوتاہے تاوقتیکہ کوئی اور سانحہ یا المیہ پیش آجائے اور پھر اس دَرپیش مسئلے سے توجہ ہٹ جائے۔ جہاں تک اس سانحے کے ذمّے داران کا تعلق ہے، اُن پر ان مذمّتوں اور ملامتوں کاکوئی اثر نہیں ہوتا، بلکہ وہ تواپنے ہاتھوں سے برپا کئے ہوئے اِن مظالم کا جشن مناتے ہیں ،انہیں اپنے انتقام سے تعبیر کرتے ہیں ،نہایت ڈھٹائی کے ساتھ ان کا کریڈٹ لیتے ہیںاور دہشت گردی کے ان دہلا دینے والے واقعات کی ذمے داری قبول کرتے ہیں ۔ لہٰذا ہماری یہ ساری کاوشیں ایک طرح کی خود کلامی یا اپنی ـپوزیشن کی وضاحت، ذاتی تسکین اور اشک شوئی کی حدتک محدود رہتی ہیں۔
جو لوگ اس میدان میں مصروفِ عمل ہیں، ان کی ذہن سازی نہایت مہارت سے کی گئی ہے اور اس طرح کے ردِّ عمل سے ان کی سوچ میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔عربی کے کلاسیکل شاعر، ابو الطیب احمد بن حسین الجعفی جو متنبی کے نام سے مشہور ہیں ، کے دیوان کا پہلا شعر ہے ؎
عَذْلُ الْعَوَاذِلِ حَوْلَ قَلْبِی التَّائِہٖ
وَھَوَی الْاَحِبَّۃِ مِنْہُ فِیْ سَوْدَائِہٖ
یعنی محبوب سے محبت کرنے پر جو لوگ ملامت کرتے ہیں، اُن کی ملامت میرے دل کو دور سے چھو کر گزر جاتی ہے اور محبوب کی محبت دل کے اندر رہتی ہے اور اُس پر اِس ملامت کا کچھ اثر نہیں پڑتا ۔ ان لوگوں کا خیال تھا کہ دل میں جو ایک سیاہ منجمد خون ہے، وہی دل کا جوہر ہے اور کسی چیز کی محبت یا نفرت کا نقش اسی میں ثبت ہوتا ہے اور اس تک کسی کی ملامت یا طعن کا کوئی اثر نہیں پہنچتا ، اسی مفہوم کا ایک شعر اردو شاعر کا بھی ہے ؎
چاہت میں کیا دنیا داری ، عشق میں کیسی مجبوری
لوگوں کا کیا ، سمجھانے دو، اُن کی اپنی مجبوری
اصل مسئلہ جس پر بحث کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ یہ جنگ جو ہمارے ملک کے اندر برپا ہے اور جس کا نشانہ امریکا یا اہلِ مغرب نہیں ہیں،بلکہ ہمارے دفاع اور سلامتی کے ادارے، دفاعی تنصیبات، قومی اَملاک ، مسلّح افواج کے افراد اور عام بے قصورلوگ ہیں ۔یہ سوال میں نے اس لئے اٹھایا کہ اس طرح کے سانحات کے بعد ہمارا میڈیا اشارات و کنایات میں حکمران مذہب کو اس کا سبب قرار دیتے ہیں، یعنی ان دہشت گردوں کی ذہن سازی کے پیچھے بعض مدارس یا مذہبی محرکات ہیں۔توبنیادی سوال یہ ہے کہ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟کیا یہ لوگ ریاست کے باغی ہیں؟، اگر اس کاجواب اثبات میںہے، تو پھر ان کی سرکوبی کے بارے میں دو آراء نہیںہونی چاہئیں، بلکہ پوری قوم کااجماع ہوناچاہئے کہ یہ ہمارے قومی ، ملکی اور ملّی دشمن ہیں اور ان کے بارے میں کسی رُو رعایت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ تمام مسالک کے سرکردہ علماء، جو اپنے اپنے مسالک میں مسلّم ہیں اور اتھارٹی کا درجہ رکھتے ہیں ،پارلیمانی جماعتوں کی طرح ان سب سے کہاجائے کہ ایک جگہ بیٹھ کرریاست سے متحارب عناصر کے بارے میں تعیین کے ساتھ ایک حتمی اوردو ٹوک فتویٰ جاری کریں۔انفرادی واقعات پر تو کہہ دیا جاتاہے کہ یہ غیرانسانی وغیراسلامی فعل ہے اور حرام ہے ، لیکن اس جنگ کی اصولی حیثیت کی وضاحت نہیں کی جارہی ، بلکہ ایک طرح سے مسلّح اَفواج اور ان سے متحارب (Combatant) مسلّح گروپوں کو برابر کے فریق کی حیثیت دی جاتی ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
''اور اگر مومنوںکے دو گروہ باہم جنگ کریں تو ان میںصلح کراؤ ، پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے پر زیادتی کرے، تو زیادتی کرنے والے گروہ سے جنگ کروحتیٰ کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع کرلے، پس اگر وہ رجوع کرلے ،توان میں عدل کے ساتھ صلح کراؤ اور انصاف سے کام لو، بے شک اللہ انصاف سے کام لینے والوں کو پسند فرماتاہے،(الحجرات:9)‘‘۔اس آیت میں قرآن نے ''بَغْیُ‘‘ کا کلمہ ارشاد فرمایا ہے اور اسی سے ''باغی‘‘ آتاہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''عنقریب فتنے ہوں گے ، سنو جو شخص اس اُمّت کی جمعیت کو توڑنے کا ارادہ کرے، تو خواہ وہ کوئی بھی ہو ، ان کو تلوار سے ماردو،(صحیح مسلم:1852)‘‘۔
ہماری سیاسی اور مذہبی قیادت ان سانحات کا جائزہ ایک دوسرے سے جدا کرکے یعنی Case to Caseلیتی ہے اور اظہارِ افسوس اور ملامت ومذمّت کرکے اس سے بری الذمّہ ہوجاتی ہے،کیونکہ قیادت کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ اس کے لئے اس طرح کے سانحات کے دباؤ سے باہر آنے کے لئے کوئی آبرومندانہ صورت نکل آئے، جسے آج کل Face Savingکہا جاتاہے۔ مسئلے کی جڑ کو کوئی بھی چھیڑنا نہیں چاہتااور نہ ہی بِھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنا چاہتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض سیاست دانوں پر بھی انتہا پسند گروہوںکے ساتھ تعلق کا الزام لگایا جاتاہے یا اس حوالے سے طعن کیا جاتاہے۔سو مسئلے کی جڑ یہی ہے کہ اس جنگ کی شرعی حیثیت طے کی جائے اور یہ کہ آیا ریاست سے بر سرِ پیکار عناصر باغی اور واجب القتل ہیں ؟، تاوقتیکہ وہ ریاست کے آگے سر نگوںہوجائیں اور غیر مشروط اطاعت قبول کرلیں، تو پھر ان کے ساتھ مصالحت کی گنجائش پیداہوسکتی ہے۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ماضی میں یہ دریافت کرچکے ہیں کہ اُن لوگوں سے کن علماء کا تعلق ہے اور اُن کے ساتھ استادی شاگردی یا پیری مریدی کا تعلق کس کا ہے۔ اُس وقت تو اِن علماء نے کہا تھا کہ یہ ہمارے بچے ہیں اور ان حضرات نے بھی اس تعلق کو تسلیم کیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہونے والے مسلح افواج کے افراد کو شہید کہنے میں بعض حضرات کو تردُّد ہے، ہم اس مسئلے کو طنز وتعریض یا سیاست بازی کی نظر کردیتے ہیں اور اس کی سنگینی کو محسوس نہیں کرتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ابتدا میں یہ جنگ پاکستان کی نہیں تھی ، امریکا نے اِسے جبراً پاکستان پر مسلّط کردیا اور اب اِس سے نکلنا پاکستان کے لئے دشوار ہورہا ہے، تو لازم ہے کہ اس کی شرعی حیثیت (Legal Status)کوطے کیا جائے۔
مولانا عبدالعزیز مجموعی صورتِ حال کے تناظر میں ایک Non Issueہے اور یہ مسئلے کی سنگینی کا رخ پھیر دینے اور عوام کے مشتعل جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی ایک صورت ہوسکتی ہے۔ ممکن ہے کہ مولانا عبدالعزیز کا تحریکِ طالبان پاکستان یا ان کے کسی ذیلی گروپ سے کوئی تعلق ہو یا ہمدردی کا رشتہ ہو، لیکن مولانا عبدالعزیز اپنے مکتبۂ فکر کے غیر متنازع اور مسلّم رہنما نہیں ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ان پر طعن وتشنیع کے تیر برسانے پر کسی مکتبۂ فکر نے بڑے پیمانے پر غم وغصے کا اظہار نہیں کیا ۔اس کا فائدہ تو یہ ہوا کہ جن تیروں کا رخ کسی اور جانب ہوناچاہئے تھا، مولانا عبدالعزیز نے اپنے آپ کو پیش کرکے انہیں نشانہ بننے سے بچالیا اور کچھ وقت گزرنے کے بعد ماضی کی طرح یہ جذبات بھی تحلیل ہوجائیں گے۔
تحریکِ طالبان افغانستان کی جدّوجہد کوایک اعتبار سے جائزقرار دیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے ملک کو قابض غیر ملکی افواج کی گرفت سے آزاد کرانا چاہتے ہیں، جب کہ تحریکِ طالبانِ پاکستان کے لئے یہ جواز موجود نہیں ہے۔ تحریکِ طالبانِ افغانستان اور تحریکِ طالبانِ پاکستان کے درمیان ربط وتعلق بھی ایک چیستان اور معمّہ ہے۔ تحریکِ طالبانِ افغانستان پاکستان میں رونما ہونے والے بہت سے واقعات سے لاتعلقی کا اعلان کرتی ہے، لیکن بحیثیتِ مجموعی تحریکِ طالبانِ پاکستان سے ان کا اعلانِ لاتعلقی ریکارڈ پر نہیں ہے، یہی صورتِ حال القاعدہ کے حوالے سے درپیش ہے ۔
تحریکِ طالبانِ افغانستان کے ہمدردوں سے جب کبھی تبادلۂ خیال کا موقع ملا، تو وہ کہتے ہیں کہ عورتوں اور بچوں کومارنا ، سکولوں اور تعلیمی اداروں کو جلانااور بلا تمیز پبلک مقامات پر دہشت گردی کی کارروائیاں کبھی ان کا شِعار نہیں رہا، وہ صرف اپنے ہدف کو نشانہ بناتے ہیں، تو پھر فطری طور پر یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ جب امیر ایک ہے، توان کو کنٹرول کرنے کی ذمّے داری کس پر عائد ہوتی ہے ۔