1990ء کے عشرے سے دینی مدارس وقتاً فوقتاً اہلِ کرم کی توجہات وعنایاتِ خصوصی کا مرکز رہے ہیں ، انہیں پنجابی زبان کے الفاظ میں ''بندے دا پُتر‘‘بنانے کی مساعیِ جمیلہ ہوتی رہیں، لیکن بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ ہم ''کندۂ ناتراش‘‘ لوگوں کو مرکزی دھارے (Mainstream)میں لانے کی پاکیزہ خواہشات کا اظہار ضرورہوتا رہا۔ لیکن ہر بار مذاکرات کے کئی ادوار کے بعد ''دوچار ہاتھ جب کہ لبِ بام رہ گیا‘‘ کا مرحلہ جب قریب آتا دکھائی دیتا ، تو اچانک لڑی ٹوٹ جاتی ۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد امریکہ وحدانی سپر پاور بن گیا اور اس نے ماضی کے فرعونوں کی طرح ''اَنَا وَلَاغَیْرِیْ‘‘ (یعنی اب حکم صرف میرا چلے گا) کا ناقوس بجایا۔ پھر 9/11کے بعد تو گویا دنیا ہی بدل گئی ۔ ساری حقیقتیں ، وفاوجفا اور بقا وفنا کے سارے پیمانے بدل گئے۔ چنانچہ اچانک امریکہ پر آشکار ہوا کہ کائنات میں رونما ہونے والی ہر برائی اور ہر فساد کا منبع پاکستان کے دینی مدارس ہیں ، حالانکہ 9/11کے واقعے میں مبینہ طور پر جو لوگ شریک تھے، نہ وہ پاکستانی تھے ، نہ پاکستان کے مدارس سے تعلیم یافتہ تھے ، بلکہ امریکہ کے جدید اداروں سے اعلیٰ تعلیم کے حامل تھے۔
اسی طرح یہ بھی فرض کر لیا گیا کہ دینی مدارس کے نصاب میں کہیں نہ کہیں کوئی خرابی ہے ، لہٰذا اس کی اصلاح کے منصوبے بنائے جانے لگے، وہ نصاب ِتعلیم جو ''درسِ نظامی‘‘ کے نام سے موسوم ہے، آج سے تقریباً پونے تین سو سال قبل ملا‘ نظام الدین سہالوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ، جن کا عہد 1677ء سے8 174ء تک ہے، اُس وقت مختلف اسلامی وعربی علوم وفنون کی دستیاب کتب سے مرتب کیا تھا۔ اس کے بعد سے اس میںحذف(Deletion) واضافہ(Addition)اور ردوبدل ہوتارہاہے، لیکن چونکہ اس کی اساس وہی ہے، اس لئے یہ نسبت قائم رہی۔ میں اپنے علماء سے کہتا رہتاہوں کہ آپ اسے ''اسلامی علوم‘‘ کا نام دیں ،جیسے یونیورسٹیوں میں ''اسلامک لرننگ‘‘اور ''اسلامک اسٹڈیز ‘‘ کے شعبے قائم ہیں، لیکن جو نام زبان پر چڑھ جائے، وہ آسانی سے نہیں اترتا۔
یہ نصاب ایران عراق جنگ ، جہادِ افغانستان ، سوویت یونین کے خاتمے اور 9/11کے واقعات سے پہلے کسی کی توجہات کا مرکز نہیں تھا، لیکن اب عالم یہ ہے کہ اس سے توجہ ہٹتی ہی نہیں۔ فطری طور پر یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ اگر اس نصاب میں کوئی خرابی ہو تی، تو اسے 1970ء کے عشرے کے اواخر سے بہت پہلے آشکارا ہوجاناچاہئے تھا،لیکن ایسا نہیں ہوا۔اس نصاب کی تشکیلِ اوّل کے بعد 1857ء کی جنگ آزادی لڑی گئی،ترکی میں خلافتِ عثمانیہ کے زوال پر تحریک ِ احیائِ خلافت چلی، تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان کے سیاسی معرکے برپا ہوئے ، مگر یہ نصاب اُن ادوار میں زیرِ بحث نہیں آیا۔
یہ درست ہے کہ بعض مدارس جہادِ افغانستان کے لئے تحریکی مراکز بنے،مولانا سمیع الحق اس پر اب بھی عَلانیہ طور پر فخر کرتے ہیں ، کیونکہ ہماری ریاست اور امریکہ کی قیادت میں عالمی استعماری قوتیں، عالمِ اسلام وعالمِ عرب اس جہاد کی پشت پر تھا۔ اس کے نتیجے میں وہ قومی دھارا تو کیا عالمی دھارے کا حصہ بنے، اس دور میں وہ محبوبِ عالم تھے ، ہیروتھے، منظورِ نظر تھے، وہ انٹر نیشنلائز ہوگئے اور ان کی ساری معلومات ہمارے ریاستی اداروں کے پاس یقینا ہوں گی ۔ مگر غضب یہ ہوا کہ جہاد کایہ جنّ جسے ہماری ریاست اور عالمی امریکی استعمار اپنے جس ریموٹ کنٹرول (یعنی غیبی اشاروں) سے چلانا چاہتے تھے، شایدوہ ریموٹ کنٹرول لنک (رابطہ) کہیں ٹوٹ (Disconnect)گیااورچیلے گرو کی گرفت سے آزاد ہوگئے۔ سوا صل مسئلے کی جڑ پکڑنے اور ٹوٹے ہوئے رابطہ کو جوڑنے کی بجائے مدارس کی دہائی شروع کردی گئی ۔ ہماری حکومتیں تو Yes Ministerاور His Master's Voiceکا کردار ادا کرتی ہیں ، لہٰذا عقل کو استعمال کرنے کی گنجائش کم ہی ہوتی ہے۔ اب بھی یہی ہوا کہ چلے تھے دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھیڑنے، مگر بیچ میں کہیں سے مدرسہ رجسٹریشن اور ریگولیشن کی گرہ آگئی اور پھر اکیسویں آئینی ترمیم میں ''مذہب ومسلک کے نام پر دہشت گردی ‘‘ کو نشان زد ہ یعنی Highlightکرنا ضروری قرار پایا۔
مدارس کو چھیڑنے اور مذہب ومسلک کو سرنامہ بنانے کا فائدہ مولانا فضل الرحمن کو ہوا،وہ سیاستِ دوراں کے ماہر ہیں، انہوں نے بروقت اسے Exploitکیا اور اب خوف زدہ حکمران انہیں منانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ایک طرف وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف مولانا کو منانے میں مصروف ہیں اور دوسری جانب وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان مولانا قاری محمد حنیف جالندھری کے تعاقب میں ہیں اور وفا کی یقین دہانیاں کرارہے ہیں ، اب یہی کہا جاسکتا ہے کہ ع:''چرا کارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی‘‘۔
دہشت گردی بجائے خود ایک عنوان ہے ، اپنے مفہوم میں واضح ہے ، بہتر ہوتا کہ صرف اسے عنوان بنایاجاتا، خواہ یہ مذہب ومسلک کے نام پرہو یا لسانیت، علاقیت ، اور صوبائیت کے نام پرہو یا کسی اور نام پر ۔ کیا حکومت کے دعوے کے مطابق پی ٹی وی ،پارلیمنٹ اور پرائم منسٹر سیکریٹریٹ پر چڑھائی مذہب کے نام پر ہوئی تھی کہ اراکین پارلیمنٹ کو آمد ورفت کے لئے عقبی دروازوںاور محفوظ راستوںکی ضرورت محسوس ہوئی۔
اسی لئے ''اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان ‘‘ کی قیادت نے وزیر داخلہ کے اِس بیان کی مذمّت کی ہے کہ:''90فیصد مدارس صحیح ہیں ، صرف دس فیصد مدارس دہشت گردی یا انتہاپسندی میں ملوث ہیں ‘‘۔ حضوروالا! دس فیصد ، پانچ فیصد اور دو فیصد کا ڈرامہ یا''بعض مدارس‘‘ کا عنوان چھوڑئیے!۔ اگر آپ کے پاس ثقہ معلومات ہیں ،تو اُن مدارس کی فہرست ثبوت وشواہد کے ساتھ جاری کریں ، اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کی قیادت آپ کے ساتھ کھڑی ہوگی، کسی دہشت گرد کی مُدافع (Defender) نہیں بنے گی، خواہ یہ دہشت گردی ادارے کی ہو یا افراد کی۔
اپنے لئے تو آپ کا موقف یہ ہے کہ اگر قومی انتخابات میں دھاندلی منظم طور پر ، پالیسی کے تحت اور اداروں کی سطح پر کی گئی ہے، تو مجوزّہ جوڈیشل کمیشن کو بحیثیتِ مجموعی قومی انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے کر کالعدم قرار دینے کا اختیار ہوناچاہئے۔ اور اگر کہیں دھاندلی مقامی امیدواروں اور افراد کی سطح پر ہوئی ہے ، ریاستی اور حکومتی نظام اس میں ملوّث نہیں تھا، تو پھر اسے Case To Caseدیکھنا ہوگا اور معمول کے عدالتی نظام کے ذریعے ان تمام مقدمات کے فیصلے ہوں گے ، سو اپنے لئے ایک معیار اور دینی مدارس کے لئے دوسرا معیار، یہ شِعارِ انصاف نہیں ہے۔ تمام مدارس میں ایک خوف کی فضا پیدا کرنے، جسے پنجابی زبان میں ''تھر تھلی مچانا‘‘کہا جاتاہے، بلاسبب سات پشتوں کی معلومات پر مبنی پرفارمے بھروانے کا کام بے نتیجہ اور بے فیض ثابت ہوگا اور اس کے منفی نتائج برآمد ہوں گے۔ انگریزی کا محاورہ ہے:''More Pious than the pope‘‘، یعنی پوپ سے بھی زیادہ پارسا بننے کی کوشش کرنا ، کل رات مجھے رحیم یار خان سے ایک صاحب کا ٹیلی فون آیاکہ ڈی سی او صاحب نے تمام علماء کو جمع کرکے وارننگ دی ہے کہ اذان سے پہلے لاؤڈ اسپیکرپر صلاۃ وسلام پڑھنا اب ممنوع ہے، اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔ لگتا ہے ہماری شاطر بیوروکریسی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے لئے نت نئے مسائل پیدا کرنے اور نان ایشوز کھڑے کرنے میں مصروف ہے، اس کا نتیجہ مزید انتشار کے سوا کچھ برآمد نہیں ہوگا۔
یہ ایسا ہی ہے کہ مذہبی جذباتیت سے آنکھیں بند کرکے بعض حضرات کو اچانک ایک سابق گورنر یاد آگئے۔ لبرل دانشوروں سے انتہائی معذرت کے ساتھ گزارش ہے کہ کیا ہر شخص نہیں جانتا کہ ناموسِ رسالت ہر مسلمان کے لئے ایک انتہائی جذباتی مسئلہ ہے، اسے چھیڑ کر اصل ہدف سے صرفِ نظر کرنا انتہائی درجے کی بے بصیرتی اور بے تدبیری ہے۔ کیا حال ہی میں برسوں بعد پیرس میں توہینِ رسالت پر مشتمل کارٹون چھاپنے والے ادارے پر حملہ آور لوگ پاکستان یا پاکستانی مدارس سے تعلق رکھتے ہیں، اب تک توان کا تعلق الجزائر سے بتایا گیا ہے ۔اخبارات سے معلوم ہوا کہ کوپن ہیگن (ڈنمارک) کے اُس رسالے کے مدیر، جس نے کافی عرصہ پہلے توہینِ رسالت پر مبنی کارٹون شائع کئے تھے ،اعلان کیا ہے کہ آئندہ وہ توہینِ رسالت کے کارٹون شائع نہیں کرے گا۔ مثالیت پسندی اور عقلیت پسندی (Rationality)کے تقاضوں کا ادراک ہمیں بھی ہے ، لیکن زمینی حقائق سے بالکل آنکھیں بند کرلینابھی معقولیت کی علامت نہیں ہے ۔ ایک ہی وقت میں تمام مسائل کو خلط ملط نہ کیا جائے، مناسب ہوگا کہ یکسوئی کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف برپا جنگ کو انجام تک پہنچایا جائے، خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ اس کے بطن سے مسائل کا ایک انبار جنم لے اور ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنے کا یہ آخری حربہ بھی ناکامی سے دو چار ہوجائے ۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ انواع واقسام کے مسائل چھیڑ کر قوم میں اختلافات کو ابھارنے اور تفریق سے مسلح افواج کو وہ غیرمشروط حمایت نہیں مل پائے گی جس کی اس وقت اشد ضرورت ہے۔لہٰذا کچھ لوگوں کو قومی تاریخ کے اس ہم موڑ پر ''جفائے وفا نما ‘‘ سے احتراز کرناچاہئے۔