"MMC" (space) message & send to 7575

تیشۂ قلم

ایک فاضل کام نگار نے مجھ ناچیزپر ''تیشۂ قلم‘‘چلایا، وہ لکھتے ہیں: ''پشاور پبلک آرمی اسکول کے دو مہینے بعد مفتی منیب الرحمن فرماتے ہیں کہ مدرسوں کی اصلاح میں حکومت سے تعاون نہیں کریں گے۔ حکومت ان مدرسوں کی نشاندہی کرے جہاں سے دہشت گردی ہوتی ہے۔ صاحب آپ بھی تو ان شعبوں کی نشان دہی کریں جہاں آپ کو اصلاح سے گریز ہے۔ معلوم تو ہو کہ آپ کو ریاست کی درون مدرسہ رسائی پر اعتراض ہے یا آپ مدرسوں میں موجود شدت پسندی کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں۔ کیا مدعا یہ ہے کہ معصوم بچوں کو تنگ نظری کا درس دینے سے نہ روکا جائے‘‘۔
اس پر میں نے ان کی خدمت میں بذریعہ ای میل یہ مکتوب ارسال کیا: ''آپ کا یہ حق ہے کہ کسی کے نظریات سے اور موقف سے اختلاف کریں، لیکن مجھ کم علم کے نزدیک کسی پر بہتان باندھنا اور غلط بات منسوب کرنا کسی بھی درجے کی اخلاقیات میں رَوَا نہیں ہے۔ آپ نے اپنے کالم میں لکھا ہے: ''پشاور آرمی پبلک اسکول کے دو مہینے بعد مفتی منیب الرحمن فرماتے ہیں کہ مدرسوں کی اصلاح میں حکومت سے تعاون نہیں کریں گے۔ حکومت اُن مدرسوں کی نشاندہی کرے، جہاں سے دہشت گردی ہوتی ہے‘‘۔ میں نے کسی موقع پر بھی نہیں کہا کہ ہم مدرسوں کی اصلاح میں حکومت سے تعاون نہیں کریں گے۔ ہم ہمیشہ یہ کہتے رہے کہ حکومت جو اصلاح چاہتی ہے، اُس کے لئے ''اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان‘‘ کی قیادت کو اعتماد میں لے، جو چیز تعلیم کے مفاد میں ہو گی، اس میں ہم مکمل تعاون کریں گے‘‘۔
وزیر داخلہ جناب چوہدری نثارعلی خان نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ 90 فیصد مدارس صحیح ہیں، صرف 10 فیصد مدارس میں انتہاپسندی یا دہشت گردی ہے۔ ہم نے یہ مطالبہ کیا کہ اس طرح کا مبہم بیان قانوناً، اخلاقاً اور شرعاً درست نہیں ہے۔ آپ اُن مدارس کی فہرست جاری کریں، ہم حکومت کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ آپ نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں نشاندہی کروں توگزارش یہ ہے کہ یہ میرا منصب نہیں ہے، نہ میرے پاس حکومتی وسائل ہیں اور نہ ہی ایجنسیوں کی معلومات تک میری رسائی ہے، یہ سب وسائل حکومت کے پاس ہیں، لہٰذا ذمہ داری بھی اُسی کی ہے۔
ہاں! میں یہ آپ کو یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ تنظیم المدارس اہلسنّت پاکستان سے ملحق کسی مدرسے میں اس طرح کی کوئی چیزنہیں اور نہ ہی کبھی کوئی الزام لگا ہے۔ ہمارے ادارے کھلی کتاب کی طرح ہیں اور آپ جب چاہیں آپ کو ان اداروں کا معائنہ کرایا جا سکتا ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ کالم نگاروں کی ضرورت یا مجبوری ہوتی ہے کہ اظہار خیال کے لئے کوئی موضوع ملے، میں خود بھی کالم لکھتا ہوں، لیکن نہایت ادب کے ساتھ صرف اتنی گزارش ہے کہ غلط بات منسوب نہ کیجئے اور یہ میرا جائز حق ہے۔
جب مبہم انداز میں یہ بھی تو کہا جاتا ہے کہ صحافیوں میں کالی بھیڑیں ہیں، بلیک میلر ہیں، لفافہ چلتا ہے وغیرہ وغیرہ‘ تو مجھ عاجز کی طرح تب آپ کا مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ چند کھوٹے سکوں کی خاطر سب کو بدنام نہ کیجئے، جن کی طرف اشارہ ہے، اُن کا نام بتایئے۔ میں آپ کی طرح ادیبِ شہیر اور ماہر قلمکار نہیں ہوں، اگر میرے لب و لہجہ میں کوئی بات آپ کی طبع نازک پر ناگوار گزرے، تو پیشگی معذرت قبول فرمائیے۔
ہم سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ ہم اپنی صفوں میں سماج دشمن عناصر کی نشاندہی کریں، تو حضور والا! اِس سنتِ مبارَکہ کا آغاز آپ اپنے شعبے سے فرما دیجیے اور غلط عناصر کی نشاندہی کر دیجیے، شاید آپ کی جرأت و جسارت کو دیکھ کر اوروں کو بھی حوصلہ ہو جائے۔ کاش کہ اخبار میں چھپا ہوا ہر لفظ مصدَّقہ ہوتا اور تحقیق کے بعد شائع کیا جاتا، لیکن کیا ایسا ہوتا ہے؟ اسی لئے ہمارے علمِ معانی میں خبر کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ: ''خبر وہ ہے، جو صدق اور کذب دونوں کا احتمال رکھتی ہے، تاوقتیکہ تحقیق سے اس کا صدق یا کذب متعین نہ ہو جائے‘‘۔
میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ اب ہمارے معاشرے میں بزعم خویش خطا سے مبرّا یا تو اسٹوڈیوز میں بیٹھے ہوئے اینکر پرسن ہیں یا بعض فاضل کالم نگار، جنہوں نے ازخود یہ حق حاصل کر لیا ہے کہ جو بات چاہیں کسی کی طرف منسوب کر لیں یا کوئی بھی مفروضہ قائم کرکے ''تیشۂ قلم‘‘ ہاتھ میں لیں اور اسے نشانِ عبرت بنا دیں یا زبان کا ''نشتر‘‘ چلائیں اور اس کے پرخچے اڑا دیں۔ کس کی مجال جو آپ سے حساب طلب کرے، کیونکہ حالات نے آپ کو خود ہی مُدّعی، خود ہی گواہ اور خود ہی منصف بنا دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد تو یہ ہے: ''اے اہلِ ایمان! جب تمہارے پاس کوئی شخص کوئی (غیر مصدّقہ) خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم لاعلمی میں کسی پر چڑھ دوڑو اور پھر تمہیں اپنے کئے پر پچھتانا پڑے‘‘ (الحجرات:06)۔ اور رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: ''کسی کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات کو (بلاتحقیق ہر ایک سے) بیان کرتا پھرے‘‘ (صحیح مسلم:05)
جن صاحب نے میرے بارے میں اظہار خیال کیا ہے‘ اس منصب کے حاملین سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے شعبے میں رُجحان ساز (Trend Setter) کا کردار ادا کریں گے اور اچھی روایات قائم کریںگے تاکہ ہم جیسے طالبِ علم بھی اُن سے رہنمائی حاصل کریں۔ ہمیں میڈیا کی مجبوریوں کا علم ہے، مسابقت کا دور ہے، خبروں کے حصول میں مقابلہ ہے، خبر نہ ملے تو گھڑ لی جاتی ہے۔ اسی لئے میں آج کل ٹیلی فون پر کوئی Comments دینے سے حتی الامکان اجتناب کرتا ہوں، کیونکہ ہم کہتے کچھ ہیں اور اگلے دن اخبار میں اس کے برعکس نظر آتا ہے۔ جس خبر کو فاضل کام نگار نے اپنے تبصرے کی بنیاد بنایا، میں اُس وقت بازار میں تھا، شور میں آواز سمجھ نہیں آ رہی تھی اور رپورٹر نے خود مجھے کہا کہ آواز واضح نہیں ہے‘ میں پھر بات کروں گا، لیکن پھر انہوں نے اپنی خواہش کو خبر بنا کر چھاپ دیا کیونکہ اب خبر وہی رہ گئی ہے، جس سے آگ لگے یا بدگمانی پیدا ہو اور پھر متعلقہ شخص کس کس کے آگے اپنی صفائی بیان کرتا پھرے گا۔ اسی لئے میں اخبارات اور ٹی وی کے رپورٹر سے کہتا ہوں کہ اپنا سوال لکھ دیں، میں تحریری جواب آپ کو دے دوں گا اور خدا را! اُس میں تحریف نہ کرنا۔
پس میری آخر میں پھر گزارش ہے کہ کسی شخص کے موقف پر رائے زنی سے پہلے، اُس کے صِدق و کِذب کا تعیّن فرما لیں، اُس کے بعد یہ آپ کا حق ہے کہ دلائل سے اُس کا رَد کریں، اس سے اتفاق کریں یا اختلاف کریں۔ جن حضرات کا یہ سوئِ ظنّ ہے کہ مدارس کے طلبہ ہر جگہ جبر اور خوف کے ماحول میں رہتے ہیں، انہیں اندھیرے میں رکھا جاتا ہے، ہو سکتا ہے کہیں ایسا ہوتا ہو لیکن ہر جگہ بلکہ اکثر جگہ ایسا نہیں ہوتا۔ تمام پاکستانیوں کی طرح ہر طالبِ علم کے پاس دو نہیں تو ایک موبائل فون ضرور ہوتا ہے اور میرا طالبِ علم اُس کے استعمال کے طریقے مجھ سے بہتر جانتا ہے اور اس کی خوب مہارت رکھتا ہے۔ میں تو ٹیلیفون کال سن لیتا ہوں یا کسی کو کال کر لیتا ہوں یا زیادہ سے زیادہ Text Message کر لیتا ہوں جسے ہمارے ہاں SMS کہا جاتا ہے، سو بہتر یہ ہے کہ ہم اللہ کے اس حکم پر عمل کریں کہ: ''اے اہلِ ایمان! بہت سے گمانوں سے بچو! بے شک بعض گمان (یعنی ظنِّ سُوء) گناہ کا ( باعث ) ہوتے ہیں‘‘ (الحجرات:12)۔ اور یہ کہ ''مومنوں کے بارے میں حسنِ ظنّ رکھو‘‘۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں