امیرِ جماعتِ اسلامی جناب سراج الحق صوبۂ خیبر پختونخوا کی اسمبلی سے سینٹ کے امیدوار ہیں۔انہوں نے اپنے انتخابی کالج کے ووٹروں کوبھیڑ بکریوں سے تشبیہ دیتے ہوئے سینٹ کے انتخاب کو ''مویشی منڈی‘‘ سے تعبیر کیا، حالانکہ مصلحت کا تقاضا یہ تھاکہ وہ سینٹ کے انتخاب تک انتظارکرتے،پھر اپنا غصہ نکالتے،مگر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:'' اورانسان بہت جلدباز ہے،(الاسراء:11)‘‘۔ اس پر صوبۂ خیبر پختونخوا کی اسمبلی میں احتجاج کیاگیااوربعض ارکانِ اسمبلی نے اسے اپنی توہین پر محمول کرتے ہوئے شدید غم وغصے کا اظہار کیا۔ حالانکہ ہارس ٹریڈنگ کی اصطلاح ایک عرصے سے استعمال ہورہی ہے،مگر اس پرتو کسی کی جبیں پر شکن نہیں آئی۔ شاید اس لئے کہ ''اسپِ تازی‘‘ کا بہر حال ایک نام ہے اور اسی لئے گُھڑ سوار کو شہسوار کہا جاتاہے،یہ نام کسی نے ہاتھی یا اونٹ پر سوارہونے والے کو بھی نہیں دیا،حالانکہ یہ قامت وجسامت اورطاقت میں گھوڑے سے آگے ہیں اوران پر سواری بھی کی جاتی ہے،مگر گھوڑے کی بات ہی کچھ اور ہے۔ ویسے تو قرآن مجید نے بتایا کہ انسان جب اپنے مقام سے گِرجاتاہے تو وہ چوپایہ تو درکنار، چوپایوں سے بھی بدتر ہوجاتاہے،ارشادِ باری تعالیٰ ہے:''بلاشبہ ہم نے جہنَّم کے لئے بہت سے ایسے جنّ اور انسان پیداکئے،جن کے دل ہیں مگر وہ ان سے (حق کو) سمجھتے نہیں،اُن کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں،اُن کے کان ہیں جن سے وہ (حق کی آواز) کوسنتے نہیں، وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بڑھ کر گمراہ،(الاعراف:179)‘‘۔
جناب عمران خان کا دعویٰ تھا کہ باقی ساری سیاسی جماعتیں غیر جمہوری ہیں اورخاندانی اثاثہ ہیں،جبکہ ان کی جماعت جمہوری ہے،یونین کونسل، صوبے اور وفاق کی سطح تک باقاعدہ انتخابات ہوئے ہیں اور لگتاتھا کہ ان کا اپنی جماعت پر کنٹرول بہت مضبوط ہے،لیکن سینٹ کے انتخابات کے موقع پر ان کا اضطراب قابلِ دید ہے۔ اب اُن کا مطالبہ ہے کہ خفیہ بیلٹ کی بجائے ہاتھ کھڑے کرا کے فیصلہ کیا جائے تاکہ ہارس ٹریڈنگ اور ضمیرفروشی کا خاتمہ ہو۔ اس سے یہ بھی پتا چلا کہ ہمارے سیاست دان آئین وقانون سے کتنے نابلد ہیں کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن کے بقول انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ سینٹ کا انتخابی شیڈول جاری ہونے کے بعد انتخابی قواعد میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی، مزیدیہ کہ سینٹ کا انتخاب متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہوتاہے اور ایک سے زائد ترجیحی ووٹ ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ سینٹ کے ووٹوں کی کاؤنٹنگ بھی کافی ٹیکنیکل ہوتی ہے۔ ماضی میں ایسا بھی ہواکہ ایک امیدوارکو پہلے ترجیحی ووٹ تین ملے اور اس کے مقابل دوسرے امیدوار کوپہلا ترجیحی ووٹ ایک ہی ملا، لیکن دوسرے اور تیسرے ترجیحی ووٹوں کی زیادہ تعداد کی بناپر مجموعی پوائنٹس میں پہلے ترجیحی تین ووٹوں والا ہار گیا اور ایک والا جیت گیا، لہٰذاشو آف ہینڈزسے اس پیچیدہ عمل کا مکمل ہونا کافی مشکل ہے۔
مسلم لیگ (ن) او رتحریکِ انصاف کی قیادت کاچونکہ اپنے ارکانِ اسمبلی کے ساتھ برتاؤ شاہانہ انداز کا ہے، ارکان کی حیثیت سیاسی مزارعین اور ہاریوں جیسی ہے،اس لئے پارٹی قیادت کا اپنے ارکان پر اعتماد متزلزل ہے اور جناب عمران خان کو مصلحت کا شکار ہونا پڑا اور اپنے اصولی موقف سے تنزل اختیار کرنا پڑا، یہی وجہ ہے کہ بعض تبصرہ نگارکہیں صراحت کے ساتھ اور کہیںاشارات و کنایات میں طنز وتعریض کررہے ہیں اور جیسا کہ سننے میں آرہا ہے کہ ضمیر کے جو دام لگ رہے ہیں، وہ ناقابلِ تصور ہیں، اس سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ ملک میں کالے دھن کی کتنی بہتات ہے کہ جہاںچاہو اور جس کرنسی میں چاہو اپنے دام وصول کر لو۔
الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری جناب کنور دلشاد نے اس مسئلے کو اور بھی پیچیدہ بنا دیا ہے کہ شوآف ہینڈ زکی صورت میں ضمیر کے فیصلے کی بجائے امیر کا فیصلہ نافذ ہوگا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پارٹی لیڈر براہِ راست خریدار سے یکمشت قیمت وصول کرلے اور ارکانِ اسمبلی کا سودا بھی ہوجائے، مگر ان کے ہاتھ کچھ نہ آئے۔ یہ صورتِ حال پہلی صورت سے بھی زیادہ استحصال پر مبنی ہوگی کہ بکے کوئی اورقیمت کسی اور کو ملے۔ اس وقت جناب آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن دور بیٹھ کر تماشا دیکھ رہے ہیں اور متاثرین کے زخموں پر ہلکا ہلکا نمک بھی چھڑک رہے ہیں، کیونکہ ان کی حمایت کے بغیر مجوزّہ 22ویں ترمیم کا پارلیمنٹ سے پاس ہونا عملاً مشکل نظر آرہا ہے ، کیونکہ مسلم لیگ (ق) کا وزن بھی ممکنہ طور پر ان کے پلڑے میںہی پڑے گا۔
یہ چند مظاہر ''مشتے نمونہ از خروارے‘‘ ہیں۔ اصل المیہ بحیثیتِ مجموعی ہمارا اخلاقی زوال ہے۔ کیونکہ جب کسی قوم ، ملک وملت اور سماج میں زوال آتا ہے، تو وہ ہمہ جہت اور ہمہ گیر ہوتاہے۔مستثنیات تو ہر جگہ ہوتے ہیں، لیکن معاشرے کی مجموعی تصویر اور قومی کردار کی عکاسی اکثریت سے ہوتی ہے اور یہ انتہائی بھیانک ہے۔ کیونکہ جب ہماری قومی وعلاقائی سیاسی جماعتیں اپنی ساخت میں ہی جمہوری نہیں ہیں، تووہ ملک میں حقیقی جمہوریت کہاں سے لاسکتی ہیں۔ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ جناب شہباز شریف کسی حدتک فعّالیت کا مظاہرہ کرتے ہیں،لیکن یہ بھی آمرانہ طرزِ حکومت کی ایک صورت ہے کہ انہیں اپنے یا اپنے فرزند یامعدودے چند افراد کے سوا کسی پر اعتبار نہیں ہے ، اس کو نظام کی فعّالیت اور شفافیت سے تعبیر کرنا زیادتی ہوگی۔ جہاں مشاورت نہ ہو وہاں تمام تر اخلاصِ نیت اور راستی ٔ عمل کے باوجود سب کچھ بہتر نہیں ہوسکتا۔ دونوں برادران پر تسلسل کے ساتھ یہ اعتراض کیا جاتاہے کہ ان کا تمام تر انحصاراپنی برادری،لاہور یاسنٹرل پنجاب پر ہے، جنوبی پنجاب کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، ان کے حُجم اور استحقاق کے مطابق عہدوں اور وسائل کی تقسیم نہیں ہورہی، حالانکہ اٹھارہویں ترمیم میں صوبوں کو وسائل کی تقسیم میں آبادی کے تناسب کے ساتھ ساتھ کسی حدتک پسماندگی کا بھی اعتبار کیا گیا ہے، تو کیا صوبے کے اندر اس کا اعتبار نہیں ہوناچاہئے۔ اسی طرح بالعموم صوبۂ خیبر پختونخوا کا وزیر اعلیٰ پشاور ، مردان یا بنوں سے ہوتاہے ، اسی لئے صوبے کا اسی فیصد ترقیاتی بجٹ اسی علاقے پر صرف ہوتاہے، کسی حدتک شاید مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق صاحب اپنے لئے کوئی حصہ نکال لیتے ہوں۔ ایم ایم اے کی حکومت سے لے کر موجودہ حکومت تک کے تمام سالوں کے سالانہ ترقیاتی بجٹ کا ریکارڈ دیکھ لیجئے، حقائق آپ کے سامنے آجائیں گے۔ ڈی آئی خان اور ہزارہ ڈویژن کا حصہ شاید آٹے میں نمک کے برابر ہو، کیونکہ یہاں کے ارکانِ صوبائی اسمبلی ذاتی مفادات پر قناعت کرکے اپنے علاقائی مفادات کو قربان کردیتے ہیں۔ پختونخوا سیکریٹریٹ میں بالعموم تمام محکموں کے سیکریٹریزاورسینئر بیوروکریٹس بھی سینٹرل پختونخوا کے اضلاع سے تعلق رکھتے ہیں،ا لّا ماشاء اللہ۔ سو ہمارا وطنِ عزیز کسی عادلانہ نظام اورمُسلّمہ جمہوری روایات کے مطابق نہیں چل رہا بلکہ ہر جگہ قیادت کا یا ایک طبقے یا مخصوص اضلاع کا تسلُّط ہے۔
سویہ کہناکافی حدتک بجا ہے کہ پاکستان میں تعلیم اور صحت کی طرح سیاست بھی ایک منفعت بخش صنعت ہے، پیسہ لگاؤ اورپیسہ بناؤ ہماری سیاست کا ماٹو ہے، آج کل سراج الحق صاحب بھی اسی کا رونا رو رہے ہیں ۔ ارتکازِ اختیارات کا یہی کلچر ہے کہ وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں یعنی فاٹا کو جمہوری حقوق نہیں دئیے جارہے، انہیں وہ آئینی وقانونی حقوق حاصل نہیں ہیں جو پاکستان میں دیگر تمام صوبوں کے شہریوں کو حاصل ہیں۔ حالانکہ ریفرنڈم کراکے وہاںکے باشندوں کی اکثریت کی خواہش کے مطابق اسے الگ صوبہ بھی بنایا جاسکتا ہے اور صوبۂ خیبر پختونخوا میں بھی ضم کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ پاکستان کی پوری تاریخ میں آپ نے کبھی نہیں دیکھا ہوگاکہ فاٹاکے منتخب ارکانِ اسمبلی یا سینیٹرزوفاقی حکومت کے خلاف گئے ہوں یااپوزیشن کا حصہ بنے ہوں ،کیونکہ ان کے مسائل ووسائل صدر اور گورنر خیبر پختونخوا کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں یایوں کہئے کہ وہ وفاق کے محتاج رہتے ہیں،لہٰذا وہ وفاق کے خلاف کھڑے ہو کر اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔ اے این پی 2013ء کا انتخاب بے انتہا کرپشن کی وجہ سے ہاری ہے، ورنہ انہوں نے تو سنٹرل خیبرپختونخوا میں پیسہ پانی کی طرح بہایا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ جناب امیر حیدر ہوتی نے تو مردان میں ہر مسجد کو اور غالباً مدارس کو بھی دل کھول کر پیسے بانٹے ہیں ، جس طرح دوماہی وزیر اعظم جناب راجا پرویز اشرف نے اپنے حلقۂ انتخاب کے پیروں کو بھی نواز ا، لیکن کرپشن کی وجہ سے مارکھاگئے۔
الغرض سارے مسائل کی بنیادہمارا مجموعی زوال اور اخلاقی کمزوریاں ہیں ۔ نمائندوں کی اکثریت اگر کرپٹ ہے ، تو حضور والا! یہ جمہوریت کا دیا ہوا تحفہ ہے ، کیا ہم بحیثیتِ ووٹر کرپٹ نہیں ہیں ، کیا ہمارا ووٹر پردے کے پیچھے ووٹ کی پرچی پر مہر لگاتے وقت اپنے آپ کو اللہ کی عدالت میں جوابدہ سمجھتے ہوئے امیدوار کی دیانت وامانت کو معیاربناتا ہے، ہرگز نہیں،اُس وقت چند مستثنیات کے سوا ہمارے رائے دہندگان کی غالب اکثریت کی ترجیحات کچھ اور ہوتی ہیں۔
پس کسی ہمہ گیر داخلی اور فکری انقلاب کے بغیر ہم کسی بڑی اور جوہری تبدیلی کی توقع نہیں کرسکتے ، یہ حقیقت پسندی نہیں ہے۔ ببول کا درخت لگا کرانگور کی تمنا عبث ہے۔