ہمارا قومی مزاج جذباتیت،عدمِ توازن، خواہشات اور مفروضات کا غیر معقول امتزاج ہے، ہم حقیقت پسندی سے کوسوں دور خوابوں کی دنیا میں رہنا چاہتے ہیں ۔ہماری محبتیں اور نفرتیں بلبلوں کی طرح ابھرتی اور بیٹھتی رہتی ہیں ۔ کرکٹ ہمارے قومی مزاج کا صحیح عکاس اور آئینہ دار ہے۔ ایک وقت تھا کہ ہم ہاکی کے بے تاج بادشاہ تھے، اولمپک ، ورلڈکپ اور ایشین کپ کی چیمپین شپ کا تاج ہمارے سر پر سجا ہواتھا، چیمپینزٹرافی پر ہمارا اجارہ تھا، بلکہ چمپینز ٹرافی کے محرک ہی ہم تھے۔ ہر کھلاڑی سپرسٹار تھااور ان کی جگہ لینے والے (Challenger) بھی قطار میں موجود تھے۔ اُس وقت کے انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کے صدر رینی فرینک نے کہا تھا کہ: ''دنیا کی کسی ٹیم میں ایک ہاکی آرٹسٹ ہے ، کسی میں دو، کسی میں تین اور کسی میں چار پانچ آرٹسٹ ہیں ،لیکن پاکستانی ٹیم میں گیارہ کے گیارہ کھلاڑی آرٹسٹ ہیں‘‘ ۔ مگر پھر بوجوہ کامیابی ہم سے روٹھ گئی اور ایک ایک کرکے سارے اعزازات ہم سے چھن گئے ۔ آج ہاکی کے شعبے میں ہماری صورتِ حال یہ ہے کہ : ع:''ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے‘‘۔ یہی صورتِ حال اسکواش کی تھی ، برسہا برس تک جہانگیر خان اور جان شیر خان اسکواش کے آسمان پر آفتاب بن کر چھائے رہے، پھر یہ شمع ایسی گُل ہوئی کہ آج تک روشن نہ ہوسکی۔ مگر ہم نے ہاکی اور اسکواش اسٹارز کو وہ مقام کبھی نہیں دیا، جو کرکٹ اسٹارز کو دیتے رہے ہیں ۔ دراصل سارا مسئلہ ٹیلیویژن اسکرین کی جادو گری اور کشش کا ہے۔
کرکٹ چونکہ ہمارے آقاؤں کا کھیل رہا ہے، اس نے برطانیہ میں جنم لیا اور پھر جہاں جہاں ان کی نوآبادیات (Colonies)یا مفتوحہ ممالک تھے، وہاں رائج رہا، جیسے پاکستان ، بھارت ، بنگلہ دیش، سری لنکا، جنوبی افریقہ، زمبابوے ، ویسٹ انڈیز ، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیاوغیرہ۔ آئرلینڈ اور کینیڈا بھی اس میں کبھی کبھار شامل ہوتے رہے ہیں اور تازہ ترین اینٹری افغانستان کی ہے۔ متحدہ عرب امارات کی ٹیم حال ہی میں وجود میں آئی، لیکن یہ وہاں کے عرب شہریوں پر مشتمل نہیں ہے بلکہ پاک وہند ہی کے نوجوان ہیں ، جن کے خاندان وہاں روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں ۔
کرکٹ میںہم نے بحیثیتِ ٹیم کبھی کبھی جوہر دکھائے، کبھی نہ کبھی تمام کرکٹ کھیلنے والے ممالک کی ٹیموں کو ہرایا، کئی کھلاڑیوں نے کچھ انفرادی ریکارڈ بنائے،کبھی کبھار ایشیا کپ اور ایک بار 1992ء میں عمران خان صاحب کی قیادت میں ون ڈے ورلڈکپ بھی جیتا، لیکن ہماری کارکردگی (Performance) کبھی بھی غیر معمولی (Outstanding)نہیں رہی کہ ایک ہی لائن میں ہر حریف کو روندتے چلے گئے ہوں ، ایسی کارکردگی ماضی میںویسٹ انڈیز، برطانیہ اور آسٹریلیا کی ٹیمیں دکھاتی رہی ہیں ۔ اس بار ورلڈکپ میں نیوزی لینڈ کی ٹیم فائنل تک ناقابلِ شکست رہی ۔ انڈیااور سری لنکا کی ٹیمیں بحیثیتِ مجموعی ہم سے قدرِ بہتر رہی ہیں ۔ 1992ء کے ورلڈکپ میں ہمارا آغاز انتہائی مایوس کن اور قابلِ رحم تھا، لیکن اہم مراحل میں قدرت کی مدد شاملِ حال رہی، کافی کریڈٹ عمران خان صاحب کی قیادت کو بھی جاتاہے اور اللہ کے فضل سے ہم بھی ایک بار'' کرکٹ ورلڈکپ ‘‘کے چیمپین بن گئے۔ اسے عربی محاورے میں ''رَمیۃٌ مِّنْ غَیرِ رامٍ‘‘ یعنی ''اتفاقاًکسی اناڑی کے تکے کا غیر متوقع طور پر نشانے پر لگ جانا‘‘کہاجاتاہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے تو دہشت گردی کے الزام کی وجہ سے پاکستان پر سرخ دائرہ لگادیا گیا، اس میں انڈیا کا کردار سب سے زیادہ ہے۔ چند برسوں سے ہم متحدہ عرب امارات یعنی دوسرے ممالک کی سرزمین پر کرکٹ کی ہوم سیریز کھیل رہے ہیں اور یہ شاید کرکٹ کی تاریخ کی انوکھی مثال ہے۔
مندرجہ بالا سطور تو تمہید کے طور پر لکھی گئی ہیں ۔ مقصد یہ ہے کہ کرکٹ کے حوالے سے ہم ہمیشہ تضادات کا شکار رہتے ہیں ۔ کھلاڑیوں کے سلیکشن پر ہمیشہ ماہرین اور اناڑیوں کا اختلافِ رائے سامنے آتاہے۔ کوئی تسلسل کے ساتھ کاکردگی نہیں دکھا رہا ہوتا، لیکن اگر اسے سلیکشن میں نظر انداز کردیا جائے، تو میڈیا ماضیِ بعید کی پرفارمنس کا حوالہ دے کر آسمان سر پر اٹھا لیتاہے، لہٰذا کرکٹ بورڈ اور سلیکشن کمیٹی کی دیانت یا اقرِبا پروری اور ذاتی پسند وناپسندسے قطعِ نظر انہیں بہت سے فیصلے دباؤ میں کرنے پڑتے ہیں ۔ سب سے پہلے تو یہ کہ الیکٹرانک میڈیا ٹورنامنٹ کے آغاز سے پہلے ہی قوم کو ایک خُمار میں مبتلا کرتا ہے، بلند بانگ دعوئے کیے جاتے ہیں ، نہایت بلند وبالا توقعات قائم کی جاتی ہیں ، لگتا ہے چنددنوں کی بات ہے ہمارے شہباز اور شاہین فاتحِ عالم بن کر لوٹیں گے۔ قوم کو سچ نہیں بتایا جاتا، نہ ہی قومی ٹیم کی امکانی صلاحیت اور استعداد(Potential)کو پیش نظر رکھ کر بحث کی جاتی ہے۔ بس ہمیشہ کسی انہونی ، جادوئی اور کرشماتی کارکردگی کی آس قوم کو دلائی جاتی ہے، یہ الیکٹرانک میڈیا کے سماں باندھنے کی پیشہ وارانہ مہارت اور کثیر الاقوام صنعتی وتجارتی کارپوریشنوں کی تشہیری مہم جوئی کی مشترکہ مہم (Joint Venture)ہوتی ہے، بس پیسے کا کھیل ہے ، پیسہ پیسے کو کھینچتا ہے، لیکن زیادہ پیسہ کم کو کھینچ لیتاہے، پیسے میں یہ کمال ہے کہ لوگوں کو جس کے سحر میں چاہے، مبتلا کردے۔
اگر ٹیم کی کارکردگی بہتر نہ ہو، جیساکہ اکثر ہوتاہے، تو پھر خود تراشیدہ ہیروں اور سپرسٹارز کو عرش سے فرش پر پٹخ دینے میں ایک لمحے کی دیر نہیں لگتی۔ آنِ واحد میں ہیرو زیرو ہوجاتے ہیں اور پھر ان کے خوب چیتھڑے اڑائے جاتے ہیں، اس موقع پر ''محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہوتاہے‘‘ کا فارمولا روبہ عمل لایا جاتاہے۔ سو ایک انتہاسے دوسری انتہا کا سفر پل بھر میں طے ہوجاتاہے۔ آنکھیں طوطے کی طرح پھیردی جاتی ہیں ، کیونکہ اصل مقصد کسی کی عقیدت یا محبت ونفرت نہیں بلکہ کاروباری مفاد ہوتاہے اور کھلاڑی ہوں یا ماہرین کٹھ پتلی کے طور پر استعمال ہوتے ہیں ۔
یہ کہنا بجا ہوگا کہ کرکٹ کا خُمار اور کرکٹر سے انتہائی محبت اور انتہائی نفرت ہمارے قومی مزاج کا آئینہ دار ہیں۔ ہم حقیقت پسند نہیں ہیں ، خواہشات پر مبنی بڑی بڑی توقعات باندھتے ہیں اور جب ہماری خواہشات اور خوابوں کا تراشا ہوا آئینہ کرچی کرچی ہوتاہے، تو آپے سے باہر ہوجاتے ہیں۔ اگر حقیقت پسندانہ نظر سے دیکھا جائے تو ہماری ٹیم کسی بھی مرحلے میں ورلڈ چیمپین نظر نہیں آرہی تھی۔ کوارٹر فائنل تک پہنچ پائی ، یہی اس کی پرفارمنس اور کارکردگی کی معراج تھی۔ آسٹریلیا یا نیوزی لینڈ کی طرح ہماری ٹیم کسی بھی مرحلے میں تسلسل کے ساتھ غیرمعمولی کارکردگی کی حامل نظر نہیں آئی، ہماری ٹیم کے اکاؤنٹ میں صرف ایک سنچری ہے، جبکہ یہ سنچریز اور ڈبل سنچریز کا ٹورنامنٹ تھا، ٹیموں کے مجموعی رن ماضی کے تمام ورلڈ کپ ٹورنامنٹس سے زیادہ تھے۔ اگر انصاف پسندی سے جائزہ لیا جائے تو اس ٹورنامنٹ میں کوئی بڑا اپ سیٹ نہیں ہوا، فائنل میں وہی دو ٹیمیں پہنچیں، جن کی کارکردگی میں تسلسل تھا اور جووکٹری اسٹینڈ پر کھڑی ہونے کی میرٹ پر حق دار نظر آتی تھیں،بس آخر میں کسی ایک کو تونمبر دو پر رہنا تھا، سو وہ ہوا۔
مزید یہ کہ کسی بھی میچ کا فیصلہ اکیڈمک بنیادوں پر اور کاغذی زائچوں پر نہیں ہوتا، بلکہ میچ والے دن آن دی گراؤنڈٹیم کی پرفارمنس پر ہوتاہے۔ خوامخواہ بلند وبالا توقعات قائم کرکے اور مصنوعی سماں باندھ کر کھلاڑیوں کو دباؤ میں لایا جاتاہے اور وہ خود اعتمادی کھو بیٹھتے ہیں ۔ ہماری ٹیم نے کسی ایک میچ میں بھی حتّٰی کہ چھوٹی ٹیموں کے خلاف بھی غیر معمولی اسکور نہیں کیا، تو پھر واویلا کس بات کا۔ کرکٹ بورڈ کے مسند نشیں اچھے ہوں یا برے، کسی کو پسند ہوں یا ناپسند ، دیانت دار ہوں یا خائن ، اہل ہوں یا نااہل ،میدان میں کارکردگی دکھانا کھلاڑیوں ہی کاکام ہوتا ہے، باقی سب باتیں وزنِ شعر کے لیے ہوتی ہیں۔ کرکٹ اور کرکٹ بورڈ میں پیسہ بہت ہے اور کوئی بھی شعبۂ حیات ہو، اسے دیانت وامانت کے اوسَط قومی معیار پر ہی پرکھنا چاہیے، اگر کہیں مستثنیات ہوںاور غیرمعمولی دیانت وامانت کے حامل اِکّا دُ کّا افراد مل جائیں، تو اسے نظام کی پیداوار نہیں، بلکہ قدرت کا غیرمعمولی عطیہ سمجھنا چاہیے۔ ویسے کرکٹ میں وقت کا ضِیاع بہت ہے اور یہ عیاشی متموّل اور مُرفَّہُ الحال اقوام ہی کو زیب دیتی ہے اور انہی کے لیے سازگار ہے، ہمیں سستے اور کم وقت والے مشاغل ڈھونڈنے چاہئیں۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم ٹی وی اسکرین کے سامنے جمے ٹکٹکی باندھ کر ورلڈ کپ کے میچ دیکھتے رہے ہیں، ہم مزدور لوگ اس عیاشی کے متحمل نہیں ہوسکتے، نہ ہی ایسی کشش دل میں محسوس ہوتی ہے، پس ٹیلیویژن اسکرین کے ٹکر، خبرنامے کی جھلکیوں اور اخبارات کی سرخیوں سے جو معلومات ملتی ہیں ، وہی چند دانے پوری دیگ کا حال بتانے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔