ہماری خودمختار اور دانش سے معمور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں چند دن یمن کے مسئلے پر بحث اور تقریری مقابلہ جاری رہا اور بالآخر اُن کی اجتماعی دانش کے بطن سے ایک مُتفقّہ قرارداد منظور ہوئی، اُس پر غالب کے الفاظ میں یہی تبصرہ کیا جاسکتا ہے ؎
بک رہاہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے، خدا کرے کوئی
ہمارے ارکانِ پارلیمنٹ جب آسمان کی طرف نظریں اٹھا کر تقریر فرماتے، تو یمن کے مسئلے میں فریق نہ بننے اور مصالحت کنندہ کا کردار ادا کرنے کے موضوع پر پُر جوش خطاب فرماتے ، پھر جب نظریں نیچے کرتے تو انہیں حرمین شریفین کی تقدیس اور سعودی عرب کی دوستی اچانک یاد آجاتی اور اس کا اعادہ کرتے ، کئی دن پر محیط ساری بحث اسی تضاد کی آئینہ دار ہے۔ اُس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہمارے حکمران طبقے میں سے اکثر کے کاروباری معاملات اور مالی مفادات سعودی عرب اور امارات سے جڑے ہوئے ہیں، تو وہ اِن سے صَرفِ نظر کیسے کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی لاکھ پاکستانی اس خطے میں روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں اور بعض کے کاروبار کا دائرہ بہت پھیلا ہوا ہے۔ ہمارا سرمایہ دار طبقہ بھی اپنے سرمائے کو پاکستان سے زیادہ دبئی میں محفوظ اور نفع بخش سمجھتا ہے، اسی لیے جناب عمران خان کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ دو سالوں میں چار ارب تیس کروڑڈالر پاکستان سے دبئی منتقل ہوچکے ہیں۔ ایسے میں اس کھلے سیشن کی کیا ضرورت تھی، زیادہ بہتر ہوتاکہ مختلف سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں کو بند کمرے میں بریفنگ دی جاتی اور حکمتِ عملی طے کی جاتی یا کم ازکم پارلیمنٹ کامشترکہ اجلاس In Cameraہوتا۔یہ کیا ہوا کہ ایک ہاتھ سے پھول اور دوسرے ہاتھ سے کنکر پھینکا جائے۔
سوال یہ ہے کہ ایک طرف آپ اپنی حکومت کو یمن کے مسئلے میں غیر جانبدار رہنے اور مصالحت کار کا رول ادا کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں اور دوسری جانب ہر مشکل وقت میں سعودی عرب کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا دعویٰ کررہے ہیں اور حرمینِ طیبین اور سعودی عرب کے دفاع کو اپنی قومی اور ملّی ذمّے داری قرار دے رہے ہیں، ان دونوں باتوں میں واضح تضاد ہے۔ سعودی عرب میں کوئی داخلی خلفشار نہیں ہے، نہ ہی تاحال سعودی عرب پر کسی بیرونی ملک نے حملہ کیا ہے، سارا تنازع یمن میں چل رہا ہے، جہاں داخلی بغاوت اور قتل وغارت کا بازار گرم ہے۔ سعودی عرب یہ سمجھتا ہے کہ حوثی باغیوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے اوریمن کے داخلی خلفشار میں ایران ملوّث ہے ،یہ ساری بغاوت اور مسلّح قتل وغارت یمن میں اقتدار پر قبضے کے لیے ہے اور سعودی عرب نہیں چاہتا کہ ایک عرب ملک میں ایران کی حامی (Pro-Iran) حکومت قائم ہو۔
اسی بناپر سعودی عرب نے یمن میں بمباری اور فضائی حملے شروع کررکھے ہیں اور اِسی مہم کے لیے اُسے پاکستان کی فوجی مدددرکار ہے، جس میں ہمارے وزیرِ دفاع کے بیان کے مطابق دفاعی ساز وسامان(میزائل، طیارے وغیرہ) بھی مطلوب ہے اور پاکستان کی مسلّح افواج کی محض اَخلاقی نہیں،عملی مدد بھی درکار ہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ سعودی عرب نے اپنا مُدّعا کھل کر بیان کیا ہے اور اس میں کوئی ابہام نہیں رکھا، سارے کا سارا ابہام ہماری حکومت اور ہماری مجموعی پارلیمانی قیادت کے ذہنوں میں ہے کہ وہ ہر حال میں سعودی عرب کے ساتھ کھڑابھی رہنا چاہتے ہیں اور ایران کے حوالے سے اپنی پوزیشن غیرجانبدار بھی دکھانا چاہتے ہیں۔ اسی کو فیس سیونگ کہتے ہیں یا زیادہ واضح الفاظ میں اسے ''منافقت‘‘ سے تعبیر کرسکتے ہیں ، یعنی ہم قومی اعتبار سے اتنے کمزور ہیں کہ کوئی واضح موقف اختیار نہیں کرپارہے۔ ایسے حالات میں بعض اوقات بلکہ اکثر اوقات ایسا ہوتاہے کہ ہم تنازع میں ہر فریق کا اعتماد کھو بیٹھتے ہیں اور مشکوک وناقابلِ اعتبار قرار پاتے ہیں۔ اس حوالے سے ایران کی پالیسیوں اور اَقدامات میں کوئی ابہام نہیں ہوتا۔
سعودی عرب میں فوج ہمیشہ پسِ منظر میں رہی اور منظر پر نظر نہیں آئی، لیکن جب معرکۂ کارزار گرم ہوجائے، تو خواستہ ونخواستہ فوج کو منظر پہ آنا پڑتاہے، چنانچہ آج (بروزہفتہ) صبح ٹیلی ویژن پر سعودی عرب کی مسلّح اَفواج کے سربراہ کا بیان اور اپنے فوجی افسران سے خطاب دکھایا جارہا تھا کہ ہم پاکستان کی مسلّح افواج کو اپنے ساتھ کھڑا دیکھنا چاہتے ہیں۔ دراصل ہمیں ہر مشکل میں سعودی عرب پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور وہاں سے مدد مل بھی جاتی ہے، لہٰذا ''پیٹ کھائے اور آنکھ شرمائے‘‘ والا معاملہ ہے، کیونکہ اپنی نااہلی کی وجہ سے ہم اپنے ملک کو خود کفیل نہیں بنا پائے اور دوسروں پر انحصار کا سلسلہ تاحال ختم نہیں ہوا۔
تاحال سعودی عرب پر کسی بیرونی طاقت نے حملہ نہیں کیا اور نہ ہی مستقبلِ قریب میں اس کے امکانات ہیں۔ ہماری نظر میں جو مسئلہ ہمیں اور پوری اُمّتِ مسلمہ بطورِ خاص مشرقِ وسطیٰ کو دَرپیش ہے، وہ غالباً ایران کی مشرقِ وسطیٰ میں نفوذ اور تسلّط کی خواہش ہے اور اتفاق سے اس کے لیے حالات بھی سازگار ہیں۔ اسی لیے وہ امریکہ اور یورپ کے ساتھ ایٹمی معاہدہ کرکے عالمی پابندیوں سے جلد از جلد نکلناچاہتاہے تاکہ مشرقِ وسطیٰ میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکے اور اپنے آپ کو برتر (Dictating)پوزیشن میں لے آئے۔ غالباً ایرانیوں کے ذہن کے کسی نہ کسی گوشے میں ماضی کی سلطنتِ فارس (Persian Empire)کا تصور موجود ہے، جیسے ترک لاکھ سیکولر بنیں ، لیکن ان کے ذہنوں سے سلطنتِ عثمانیہ کا عہدِ شباب کیسے محو ہوسکتاہے، اس لیے انہوں نے عثمانیوں کی جانب سے فتحِ قسطنطنیہ کے تخیُّلاتی منظر کو مجسّم صورت میں دکھانے کے لیے ایک عظیم الشان فلمی منظر نامہ (Panorama) بنایا ہے، جو انسان کو مسحور کردیتا ہے۔ اس کو دیکھ کر ترک نوجوانوں میں اپنی عظمتِ رفتہ کو پانے کے لیے ایک برقی رو دوڑ جاتی ہوگی۔ ایسا ہی ایک منظرنامہ عراق کے سابق صدر صدام حسین نے عراق میں بنوایا ہے۔
عراق میں شیعہ حکومت قائم ہے، شام کی نُصَیری حکومت کو بچانے میں تاحال ایران کامیاب رہا ہے۔ لبنان میں اس کا اثر ونفوذ بہت زیادہ ہے۔ سعودی عرب اور کویت کے تیل والے علاقوں میں غالب شیعہ آبادی موجود ہے اور وہ بھی اب اپنے مذہبی شِعاریعنی ماتمی مجالس اور جلوس نکالنے لگے ہیں۔ سو مسئلہ بڑا گمبھیر ہے، اتنا سطحی نہیں ہے، جتنا ہماری پارلیمانی قیادت یا حکومت نے سمجھ رکھا ہے اور نہ ہی جلد یا بہ آسانی ختم ہونے والا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں تمام تر تعصبات سے بالاتر اور خالص قومی مفاد اور ترجیحات کو طے کرنے والی مجالسِ فکر (Think Tank)موجود نہیں ہیں، جو طویل المدت حکمتِ عملی اور قومی پالیسی کے خطوط متعین کریں اور قومی قیادت انہیں رُوبہ عمل لائے۔ حکمرانوں کی ترجیحِ اوّل اپنے اقتدار کے دورانیے (Tenure)کی تکمیل ہوتی ہے، ایسے میں پاکستان کی طویل المدت قومی ترجیحات ثانوی حیثیت اختیار کرتی جاتی ہیں۔
اس کے برعکس دولت کی فراوانی کی وجہ سے بحیثیتِ مجموعی سعودی سہل پسند ہیں۔ انہیں دوسروں کے جذبات اور احساسات کی کوئی خاص پروا نہیں ہوتی، کیونکہ وہ سمجھتے ہیںکہ سب کو ان کی ضرورت ہے ، انہیں کسی کی ضرورت نہیں ہے۔ ایئرپورٹ پرامیگریشن کے موقع پر اس صورتحال کا مشاہدہ ملک میں داخل ہونے والا ہر غیر ملکی مسافر بخوبی کرتاہے۔ سو سعودی حکومت کو اپنے سرکاری اہلکاروں کی تربیت کا اہتمام کرنے کی ضرورت ہے۔
سعودی عرب اور امارات کے نقطۂ نظر سے اُن کے لیے تشویش اور پریشانی کا ایک اور زاویہ یہ ہے کہ انہیں مشرقِ وسطیٰ میں ایرانی نفوذ اور تسلّط کا حقیقی یاموہوم خطرہ دَرپیش ہے۔ سعودی عرب کا مسئلہ یہ ہے کہ اُن کی فوج میں یمنی کافی تعداد میں ہیں اور یمن کے ساتھ تنازع طول پکڑنے کی صورت میں یمنی جوانوں کے ذہنوں میں منفی جذبات پیدا ہوسکتے ہیں۔ یہ بشری تقاضا ہے۔ سعودی عرب اگر چاہے تو پاکستان سے تازہ دم جوانوں یا ریٹائرڈ فوجیوں کو بھرتی کرسکتا ہے، لیکن سعودیہ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ چند سالوں کے کنٹریکٹ پر تو ملازم رکھ لیتا ہے، لیکن مستقل بنیادوں پر نہیں رکھتا۔ گزشتہ دو سالوں میں سعودیہ سے پاکستانیوں سمیت کافی غیر ملکی کارکنوں کو نکالا جاچکا ہے اور وہاں مزدوروں کی قلّت بھی موجود ہے، لیکن اہلیت ، استعدادِ کار اور قابلیت سے قطعِ نظر ہر ادارے میں سعودیوں کو جبری ملازمت دینے کا جو قانون ہے، اُس کی وجہ سے بھی اداروں کی استعدادِ کار میں فرق واقع ہوتاہے۔