حضرت اُویس بن عامر مُرادی قَرَنی رضی اللہ عنہ یمن کے رہنے والے ہیں ، ان کے قبیلے کا نام ''مُراد‘‘ ہے اور ذیلی شاخ ''قَرن‘‘ ہے۔حضرت اُسَیر بن جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:''حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس اہلِ یمن کی امداد آئی ،آپ نے اُن سے پوچھا، کیا تم میں اُویس بن عامر ہیں؟، (نشاندہی پر) آپ اُن کے پاس آئے اور پوچھا : کیا آپ اُویس بن عامر ہیں؟، انہوں نے کہا: جی ہاں! انہوں نے پوچھا : آپ کا تعلق قبیلۂ مراد اور اس کی (ذیلی شاخ) قَرن سے ہے؟، انہوں نے کہا: ہاں! آپ نے پوچھا: کیا آپ کو بَرَص کی بیماری تھی ، پھر آپ اُس سے شفایاب ہوگئے اور صرف ایک درہم کے برابر نشان باقی رہ گیا؟، انہوں نے کہا : ہاں!آپ نے پوچھا : کیا آپ کی والدہ ہیں؟، انہوں نے کہا : ہاں!حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے سنا: تمہارے پاس اہلِ یمن کی امداد کے ہمراہ اُویس بن عامر مُرادی قَرنی آئیں گے، اُن کو برص کی بیماری تھی ، تو اللہ نے انہیں شفا عطا فرمائی، بس صرف ایک درہم کے برابر نشان باقی رہ گیا، اُن کی والدہ ہیں، جن کے ساتھ اُن کا سلوک بہت اچھا ہے، (وہ مستجاب الدعوات ہیں) اگر وہ (کسی بات کے بارے میں) اللہ کی قسم کھا کر (یہ کہہ دیں کہ یوں ہے) تو اللہ تعالیٰ انہیں قسم میں سرخرو فرما دے گا(یعنی اُن کی قسم سچی ثابت ہوگی)، اگر تم سے ہوسکے کہ اُن سے اپنے لیے دعائے مغفرت کراسکو تو ضرور کرانا، ( حضرت عمر نے ان سے کہا:) میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائے مغفرت کریں ، تو حضرت اُویس نے (ان کی فرمائش پر) اُن کے لیے دعائے مغفرت کی،(صحیح مسلم:2542)‘‘۔
ایک روایت میں صراحت کے ساتھ ہے کہ حضرت اُویس قَرنی رضی اللہ عنہ نے اپنے بدن پر سے برص کے داغوںکے ازالے کے لیے اللہ سے دعا کی، تواللہ تعالیٰ نے اِس مرض سے انہیں شفا عطا فرمائی۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے کہا:میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سناکہ وہ ''خیر التّابعین‘‘ ہیں(یعنی تابعین میں سب سے افضل ہیں)۔بعض علماء نے حضرت سعید بن مُسیَّب کو اور بعض نے حضرت حسن بصری کو افضل التّابعین قرار دیا ہے، ان میں تقابل مقصود نہیں ہے، سب دین میں اعلیٰ مرتبے کے حامل ہیں،دراصل مختلف شخصیات کو اپنی اپنی جگہ صاحبِ فضیلت ہونے کے ساتھ ساتھ بعض شعبوں میں اختصاص کا درجہ حاصل ہوتاہے، جیسے حضرت سعید بن مُسیَّب علومِ شرعیہ یعنی تفسیر وحدیث وفقہ میں اعلیٰ مرتبے کے حامل تھے ، حضرت اُویس قَرنی پر حُبِّ الٰہی اور حُبِّ رسول اللہ ﷺ کا غلبہ تھااور وہ مستجاب الدعوات تھے۔ مشہور محدِّث امام یحییٰ بن شرف نووی نے کہا: حضرت اُویس قرنی کی بابت رسول اللہﷺ کی بشارت آپ کا معجزہ ہے۔
حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت اویسِ قرنی کو رسول اللہﷺ کی بعثتِ مبارَکہ کا علم ہوچکا تھا اور وہ آپ پر ایمان بھی لے آئے تھے، لیکن ماں کی خدمت میں مشغول ہونے کی وجہ سے وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر صحابیت کا شرف حاصل نہ کرسکے اور اس کی توجیہ ہم یہ کرسکتے ہیں کہ شاید اُن کے علاوہ اُن کی والدۂ ماجدہ کی خدمت کے لیے کوئی موجو د نہ تھا اور وہ اُن کی خدمت کی محتاج تھیں۔ حدیث میں یہ صراحت نہیں ہے کہ بعد میں جب وہ گئے تو اُن کی والدۂ ماجدہ انتقال فرما چکی تھیں یا نہیں؟۔ اگروہ حیات تھیں، تو ممکن ہے کہ حضرت اُویس کو اُن کی خدمت کے لیے کسی کو مقرر کر نے کے اسباب دستیاب ہوچکے ہوں یا پھر وہ حجِ فرض ادا کرنے کے لیے آئے ہوں۔ فقہائِ کرام نے لکھا ہے کہ حجِ فرض کی ادائیگی کے لیے ماں باپ کی اجازت لے کر جانا افضل اور مستحب ہے لیکن عدمِ اجازت کی بنا پر حج کو ترک نہیں کرسکتے۔ رسول اللہ ﷺ کی حضرت اُویس قرنی کے بارے میں یہ بشارت کہ اگر وہ کسی بات کی قسم کھا لیں ، تو اللہ تعالیٰ انہیں سرخرو فرما دے گا، اِس کی تائید میں یہ حدیث بھی موجود ہے:'' بہت سے پراگندہ حال بندے ایسے ہیں کہ لوگ انہیں اپنے دروازے سے دھتکار دیں، (لیکن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اُن کی مقبولیت کا عالَم یہ ہے کہ) اگر وہ کسی بات کے بارے میں اللہ کی قسم کھالیں، تو اللہ تعالیٰ انہیں سرخرو فرماتاہے،(صحیح مسلم:2622)‘‘۔ روایت میں ہے کہ :''حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت اُویس قرنی سے کہا کہ میں کوفے کے حاکم کے نام آپ کے لیے ایک خط لکھ دیتا ہوں، انہوں نے کہا:(اس کی ضرورت نہیں) مجھے گمنام اور کمزور لوگوں میں رہنا پسند ہے، اگلے سال جب حضرت عمر نے ایک یمنی حاجی سے ان کا حال دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ میں انہیں اِس حال میں چھوڑ کر آیا ہوں، اُن کا مکان بوسیدہ تھا، سازوسامان بہت کم تھااوررہن سہن تنگی کا تھا۔ بتایا جاتاہے کہ وہ گمنام رہنا پسند کرتے تھے اور جذب کی کیفیت میں رہتے تھے۔
حضرت اویس قرنی کے بارے میں بعض روایات ہیں کہ جب انہوں نے غزوۂ اُحد میں حضورکے دودندانِ مبارَک کے ٹوٹنے کا سنا تو فرطِ عشق میں اپنے سارے دانت توڑ دئیے کہ نہ جانے آپﷺ کے کون سے دندانِ مبارک ٹوٹے ہیں، ایک جگہ تو یہ بھی پڑھنے کو ملا کہ ان کے ٹوٹے ہوئے دانت پھر صحیح سالم نکل آئے ، انہوں نے پھر توڑے اور ایسا سات بار ہوا۔ یہ روایت کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے اور نہ ہی یہ عشقِ مصطفی ﷺ کا وہ معیار ہے، جو شریعت کو مطلوب ہے۔ اگر محبتِ مصطفی ﷺ کا معیار یہی ہوتا تو صحابۂ کرام جو محبتِ رسول میں اپنی جانیں نچھاور کررہے تھے، ضرور مشابہتِ رسول کی خاطر اپنے دانتوں کو توڑ دیتے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پس وہی قرینۂ عشقِ رسول مقبول اور پسندیدہ ہے، جوشریعت کے اصولوں کے مطابق ہو اور شریعت کی رو سے اپنی جان یا کسی عضو کو تلف کرنا جائز نہیں ہے۔ ہمارے ہاں شعرائِ کرام ان مضامین پر پُردرد اشعار تخلیق کرتے ہیں اور خوش گُلو نعت خواں حضرات درد بھرے انداز میں انہیں پڑھتے ہیں اور عوام ان پر نوٹ نچھاور کرتے ہیں، اس سے ان کی محبتِ رسول کے تقاضے پورے ہوجاتے ہیں، لیکن یہ تینوں طبقات اتنے دانا ضرور ہوتے ہیں کہ اپنے دانتوں کو نہیں توڑتے۔
حضرت علامہ محمد بن عبداللہ الخطیب التبریزی نے ''تذکرۂ اُویس قرنی ‘‘ کے ضمن میں یمن کی بابت بھی احادیث ذکر کی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''اے اللہ! ہمارے شام اور ہمارے یمن میں برکتیں عطا فرما، صحابہ نے عرض کی کہ نجد کے بارے میں بھی دعا فرما لیجیے،آپ نے پھر فرمایا: اے اللہ! ہمارے شام اور ہمارے یمن میں برکتیں عطا فرما، صحابہ نے دوبارہ اور ایک روایت کی رو سے سہ بارہ نجد کے بارے میں متوجہ فرمایا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: وہاں زلزلے آئیں گے، فتنے برپا ہوں گے اور قرنِ شیطان(یعنی شیطان کے حامی ومددگار) طلوع ہو گا، (بخاری:7094)‘‘۔ رسول اللہ ﷺ نے اہلِ یمن کے بارے میں یہ بھی فرمایا: ''تمہارے پاس اہلِ یمن آئیں گے ، وہ بڑے نرم دل ہیں، ایمان یمانی ہے اور حکمت یمانیہ ہے، (بخاری:4388)‘‘۔ نرم دلی رسول اللہ ﷺ کی پسندیدہ خصلت ہے، اللہ عزّوجلّ کا ارشاد ہے:''سو یہ رحمتِ باری تعالیٰ ہی کا فیضان ہے کہ (اے رسول!)آپ مسلمانوں کے لیے نرم دل ہیںاور اگر آپ تُند خو اور سخت دل ہوتے ، تو وہ ضرور آپ کے گردوپیش سے منتشر ہوجاتے،(آل عمران:159)‘‘۔ (۲):''اللہ نے بہترین کلام نازل کیا ہے، جس کے مضامین ایک جیسے ہیں، اس کلام (کی جلالت سے) اُن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں، پھر ان کے جسم اور ان کے دل اللہ کے ذکر کے لیے نرم ہوجاتے ہیں، (الزمر:23)‘‘۔ اس کے برعکس یہود کے بارے میں فرمایا:'' پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہوگئے، سو وہ پتھروں کی طرح بلکہ اُن سے بھی زیادہ سخت ہیں اور بے شک بعض پتھر پھٹ جاتے ہیں تواُن سے پانی نکل آتا ہے اور بے شک بعض پتھراللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں،(البقرہ:74)‘‘۔ قرآن کے اس ارشاد کا مقصد یہ ہے کہ سنگ دل انسان کے دل سے ایمان اور ہدایت کے سَوتے نہیں پھوٹتے اور وہ قبولِ حق سے محروم رہتے ہیں۔
آج وہی اہلِ یمن جن کے لیے رسول اللہ ﷺ نے برکت کی دعائیں فرمائی تھیں اور ان کی نرم دلی کی تعریف فرمائی تھی، خاک وخون میں لتھڑے ہوئے ہیں، خانہ جنگی کا شکار ہیں، نیچے سے بھی اُن پر گولے برس رہے ہیں اور فضا سے بھی اُن پر بمباری ہورہی ہے، دعا کریں اِس حالتِ زار سے اللہ انہیں جلد نجات عطا فرمائے۔