"MMC" (space) message & send to 7575

متفرقات

این اے 125کافیصلہ
لاہور میں قومی اسمبلی کے حلقہ 125 کے ریٹرننگ افسر اور ان کے ماتحت عملے کی غفلت کے سبب جو انتخابی بے ضابطگی ہوئی ، اس کی بنا پر الیکشن ٹربیونل نے اس حلقے کا انتخاب کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو اس حلقے میں نئے انتخابات کا حکم دیا ہے۔ ٹربیونل کے فاضل جج نے فیصلے میں لکھا کہ خواجہ سعدرفیق کی بددیانتی اور دھاندلی یا عملے پر اثرانداز ہونا ثابت نہیں ہوا۔لہٰذا یہ فیصلہ کچھ اس نوعیت کا محسوس ہوتا ہے کہ جج ملزم سے کہے کہ آپ پر قتل کاجرم ثابت تو نہیں ہوا، لیکن چونکہ قتل بہرحال ہوا ہے، لہٰذا آپ کو سولی پر لٹکایا جاتاہے۔اس کے برعکس چونکہ مخالف امیدوار حامد خان صاحب جیتنے والے امیدوار کی طرف سے دھاندلی کا ارتکاب ثابت نہیں کرسکے، اس لیے اس لحاظ سے انہیںپورا فائدہ نہیںدیا گیا کہ انہیں منتخب قرار دیا جائے، یوں‘ بوجوہ یہ فیصلہ دلچسپی کا حامل ہے۔
لیکن کہا جاسکتا ہے کہ کسی حدتک چوری ثابت ہوگئی، لہٰذا اب اُس کا کھوج لگانا چاہیے اور اگر یہ کام کسی منصوبہ بندی کے تحت ہوا ہے تو قدموں کے نشانات پر چل کر اصل منصوبہ ساز تک پہنچنا چاہیے۔ یہ تب ہوسکتا ہے کہ ریٹرننگ آفیسر اور ماتحت عملے یعنی پریذائڈنگ افسران سے جواب طلبی کی جائے اور منصوبہ ساز اور منصوبے کو روبہ عمل لانے والوں کا تعین کرکے اُن سے قانون کے مطابق سلوک کیا جائے۔ اگر قانون اس سلسلے میں خاموش ہے تو اس کے لیے قانون سازی کی جائے۔ اس طرح آئندہ انتخابی عملے کی بدعنوانیوں کا سدِّباب ہوسکے گا، ورنہ یہ ساری کا وش بے نتیجہ ثابت ہوگی۔
سردست تونئے جاری کردہ آرڈی نینس میں بھی جوڈیشل کمیشن کے پاس اختیارات محدود ہیں۔ انہیں ازخود پورے قومی انتخابات کو کالعدم قرار دینے کا اختیار حاصل نہیں۔ جوڈیشل کمیشن کو صرف ایک طرح سے Facts Findingsیعنی حقائق معلوم کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے بفرضِ محال اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ سپریم کورٹ کا جوڈیشل کمیشن اس نتیجے پر پہنچ جاتا ہے کہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت منظم انداز میں دھاندلی کرکے 2013ء کے قومی انتخابات میں من پسند نتائج حاصل کیے گئے ہیں اور کسی خاص فرد یا جماعت کو فائدہ پہنچایا گیا ہے، تو حکمرانوں اور حزب اختلاف کا اگلا لائحہ عمل کیا ہوگا۔ یہ نہ ہو کہ اس کے بعد ایک نئے بحران کا سامنا کرنا پڑے، بقول منیر احمد نیازی ؎
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا ، تو میں نے دیکھا
تحریکِ تحفظِ حرمینِ طیبین
پاکستان میں ماشاء اللہ منظم انداز میں''تحفظِ حرمینِ طیبین‘‘ کی تحریک چلی، مختلف جماعتوں اور تنظیموں کی طرف سے اس عنوان پر سیمینار، کانفرنسیں اور ریلیاں منعقد ہوئیں ۔تادمِ تحریر آخری ریلی جمعیت علمائِ اسلام کی تھی، جس سے مولانا فضل الرحمن نے آخری خطاب کیا۔ اس کے تین عنوانات تھے: (1)تحفظِ مدارس،(2)پاکستان کو لبرل اور سیکولر بننے سے روکنااور(3)تحفظِ حرمینِ طیبین۔
سعودی عرب کی وزارتِ مذہبی امور کے مشیرجناب ڈاکٹر عبدالعزیز العمّار اور امامِ حرم جناب شیخ خالد الغامدی نے بھی اس تحریک کو مہمیز لگانے کے لیے خلافِ معمول کافی وقت صرف کیا اور نتیجہ خیز مہم چلائی، ٹیلیویژن کے میڈیا کا بھی ماہرانہ استعمال کیا۔ بعض مواقع پر امامِ حرم نے سفارتی حدود سے تجاوزبھی کیا اور کہا: ''یمن کے بحران کے حوالے سے پاکستانی پارلیمنٹ کی قراردادپاکستانی مسلمانوں کے جذبات کی ترجمان نہیں ہے‘‘۔ ذرا سوچیے! پاکستان کی کوئی بڑی سے بڑی سیاسی یا مذہبی شخصیت سعودی عرب میںجاکر اگرایسا بیان دے کہ:'' سعودی حکومت کی فلاں پالیسی سعودی عرب کے عوام کی صحیح ترجمان نہیں ہے‘‘، تو کیا وہاں اسے تحسین کی نظر سے دیکھا جائے گا؟۔پس حرمِ مقدّس میں دینی احترام کے منصب پر فائز شخصیات کوقدرے احتیاط سے کام لیناچاہیے۔ ہماری پارلیمنٹ جیسی بھی ہے، ہمارے دستوری نظام میں اُسی کے پاس قوم کی نمائندگی کا حق ہے۔اگر پاکستان کی بڑی شخصیت سعودی عرب میں جا کر یہ بیان دے کہ مصر میں مذہبی نظریات کی علم بردارجماعت ''الاخوان المسلمون‘‘ کی منتخب حکومت کو معزول کرنے میں جنرل سیسی کی مدد کرنا اور اسے اربوں ڈالر کی مدد فراہم کرناوہاں کے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے، کیاایسے کسی تبصرے اور تجزیے کی سعودی عرب میںپذیرائی کی جائے گی۔مجھے اُن کی رائے سے سوفیصد اتفاق ہے کہ گلہ شکوہ اپنوںہی سے ہوتاہے، لیکن اس کا اظہار براہِ راست حاکمِ وقت سے یا سفارتی ذرائع سے بہتر ہوتاہے۔آخر میں بصد ادب یہ گزارش ہے کہ پاکستان میں تو ماشاء اللہ ریلیوں ، کانفرنسوں اور سیمیناروں کی کم ازکم سلور جوبلی تو ہوچکی ہوگی۔ ایسی ہی عظیم الشان ریلیاںاگر اَئمۂ حرمین ِطیبین کی قیادت میں مکۂ مکرمہ اور مدینۂ منورہ میں بھی نکال لی جائیں ،تو پوری اُمّتِ مسلمہ کے جذبات کی ترجمانی کا روح پرور اور ایمان افروز نظارہ دیکھنے کو ملے گا۔
گوادر کاشغر کوریڈور
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے روایتی حلیف ملک چین کی جانب سے پاکستان میںتقریباً 46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری باہمی دوستی کا بین الاقوامی سطح پر ایک مثالی مظہر ہے، بیک وقت کسی ترقی پذیر ملک میں اتنی بڑی سرمایہ کاری کی مثال ماضی قریب میں ہمارے علم میں نہیں ہے، اسی لیے بھارتی ذرائع ابلاغ میں اس پر انتہائی ناپسندیدگی اور تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ چونکہ یہ پیکج ترقیاتی منصوبوں کی صورت میں ہے، اس لیے اس سے تعلیم یافتہ نوجوانوںکے ساتھ ساتھ ہنر منداور غیر ہنر مند مزدور طبقے کے لیے بھی روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور ان منصوبوں کو خام مال فراہم کرنے والی بعض صنعتوں (مثلاً سٹیل، سیمنٹ، سٹون کرشنگ، ٹرانسپورٹیشن وغیرہ) کے لیے بڑے مواقع پیدا ہوں گے۔ اگر حسبِ توقع یہ منصوبے پایۂ تکمیل تک پہنچ گئے، تو پاکستان عالمی تجارتی مرکز بن سکتا ہے اور وسط ایشیا ئی ریاستوں کے لیے عالمی تجارت کا ایک متبادل روٹ وجود میں آئے گا، وہ ان کی عالمی تجارت کے لیے نیاگیٹ وے بن جائے گا، اس سے اِن ریاستوں کا رشین فیڈریشن پر انحصار ختم ہوجائے گا۔
ان منصوبوں کی تکمیل سے پاکستان معاشی خود کفالت کی جانب پیش قدمی کرپائے گا، لیکن اس سے جن دوستوں اور دشمنوں کے مفادات پر ضرب پڑے گی، وہ ان منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے ہرحربہ آزمائیں گے اور ان منصوبوں کی تکمیل میں مقامی مزاحمت کار پیداکیے جائیں گے۔ لہٰذا پاکستانی مسلمان سورۃ الفیل دعا کی نیت سے بکثرت پڑھا کریں اور یہ دعا بھی پڑھاکریں :اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ تَدْمِیْرَھُمْ فِیْ تَدْبِیْرِھِمْ ،اے اللہ! ان کی چالوں میں اُن کے لیے ہلاکت کے اسباب مقدر فرما اور: اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ وَنَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ، اے اللہ! ہم ان دشمنوں کے شر سے تیری پناہ میں آتے ہیں اور تجھے ان کی گردنوں پر مسلّط کرتے ہیں۔
لیکن قومی معاملات اور بین الممالک معاہدات پر راز داری کا پردہ نہیں ہونا چاہیے، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا براہِ راست کریڈٹ حکومتِ وقت اور حکمران جماعت ہی کو جاتاہے، لیکن معاہدات بہرصورت ممالک اور اقوام کے درمیان ہوتے ہیںاور ان کا مالی بار قوم وملک ہی کو اٹھانا ہوتاہے‘ لہٰذا قومی نمائندوں یا کم ازکم پارلیمانی جماعتوں کی قیادت کو ان معاہدات کی ضروری تفصیلات کے بارے میں علانیہ یا اگر کوئی مصلحت رازداری کاتقاضا کرتی ہے، تو پس پردہ بریفنگ لازماً دینی چاہیے کہ ان کی ادائیگی کا طریقۂ کار کیا ہوگا، یہ Build, Operate, Transferیعنی BOT کی بنیاد پر ہوں گے یاان کی ادائیگیوں کا طریقۂ کار کچھ اور ہوگا ۔
اسی طرح روٹ کے بارے میںبھی غلط فہمیوں یا جائز خدشات کا ازالہ ہوناچاہیے اور یہ کہ اصل منصوبہ کیا تھا، اس میں تبدیلی ہوئی ہے یانہیں، اگر ہوئی ہے تو اس کا سبب ہماری حکومتِ وقت کی ترجیحات ہیں یا چین کی خواہشات۔ نیز اگر کوئی تبدیلی عمل میں آتی ہے تواس کے پیچھے کیا حکمت کارفرما ہے ۔ سیاسی رہنماؤں کو بھی ہر مسئلے کو منفی پروپیگنڈے کی نذر نہیں کرنا چاہیے ، ایسا نہ ہوکہ دوست ملک کی قیادت حیرت واستعجاب کے عالم میں یہ کہنے پر مجبور ہوجائے کہ پاکستان عجب ملک اور پاکستانی عجب قوم ہیںکہ ان کی مدد کرنا بھی اپنے آپ کو مشتبہ بنانا ہے۔ اسی طرح کی لغو اور لایعنی بحث اُس وقت بھی چھیڑی گئی تھی، جب زَرِ مبادَلہ کے بحران سے نمٹنے کے لیے سعودی عرب نے ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد دی تھی۔
پسِ تحریر: روزنامہ دنیا میں ''زاویۂ نظر‘‘ کے عنوان سے میرے ہفتہ وار دو کالموں کی اشاعت کاسلسلہ اکتوبر 2013ء سے شروع ہوا اور الحمدﷲ تاحال جاری وساری ہے۔ اکتوبر 2013ء تا مئی 2014ء کے کالموں پر مشتمل پہلا مجموعہ ''آئینہ ایام‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں ''رضا فاؤنڈیشن‘‘ لاہور نے شائع کیا ہے، انشاء اللہ العزیز دوسری جلد بھی اسی ماہ طبع ہوکر منظر عام پر آجائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں