ہماری سیاسی حرکیات (Dynamics)کوئی بہت زیادہ پختگی کی مظہر نہیں ہیں ، زیادہ تر ہم سطحی سوچ کے حامل ہوتے ہیں یا اپنی خواہشات اور تعصبات کے اسیر۔ عصبیت نظریات پر بھی اثر انداز ہوتی ہے اور انسان کو معروضی انداز میں تجزیہ کرنے کے قابل نہیں چھوڑتی ۔ اگر ہم اپنے الیکٹرانک اور بطورِ خاص پرنٹ میڈیا کا گہری نظر سے جائزہ لیں تو اس کے مظاہر ہمیں واضح طور پر نظر آئیں گے ۔ جس قیادت کی ہم تائید و حمایت کرتے ہیں، اس کی کمزوریوں کی جانب اسے متوجہ کرنے اور اصلاح پر آمادہ کرنے کی بجائے ہم ان کی من مانی تاویلات کرتے ہیں اور جس سے ہمیں نفرت ہے ، اس کی اچھائی کو بھی بیک جنبشِ قلم نظر انداز کر دیں گے ، حالانکہ سب جانتے ہیں کہ ہم ایک ایسے اخلاقی اور نظریاتی تنزل کے دور میں رہ رہے ہیں جہاں خیرِ کل بلکہ خیر غالب کا بھی کسی ایک قیادت میں ملنا دشوار ہے ، سوائے اس کے کہ ہم خیرِ محض یا خیرِ قلیل پر کفایت کریں اور بشری استطاعت کی حد تک اصلاح کی کوشش کریں اور ہمارے پاس دستیاب قیادت کا جو اثاثہ ہے ، اس کی صلاحیتوں کو صحیح رخ پر موڑنے کی کوشش کریں ۔
مولانا فضل الرحمٰن ایم کیو ایم کے ساتھ مذاکرات کے لیے ان کے ہیڈ کوارٹر نائن زیر و آئے ، تو میڈیا نے بتایاکہ ان کی جماعت کے بعض لوگ اس پر شدید ناراض ہیں ۔ سب کو معلوم ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کی سیاست مجرّد نظریات پر مبنی نہیں ہے ، ان کی سیاست زمینی حقائق سے جڑی رہتی ہے ، وہ اس دور کے ایک ماہر اور ذہین سیاست دان ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ نظام میں اپنا حصہ ضرور لینا چاہیے اور اگر کبھی وہ '' حصہ بقدر جُثّہ ‘‘سے زیادہ لے لیتے ہیں ، تو یہ اُن کی سودا بازی کی مہارت یا فریقِ ثانی کی ضرورت اور مجبوری کا نتیجہ ہوتا ہے ۔ مولانا کا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ وہ معاملات کو Point of no return تک نہیں لے جاتے ، ہمیشہ مکالمے کی گنجائش رکھتے ہیں اور بلاوجہ اپنے حکومتی حلیف کے لیے مسائل پیدا نہیں کرتے، یعنی وہ وضع داری کو قائم رکھتے ہیں اور ٹوٹا ہوا تعلق دوبارہ جوڑتے وقت جب دوسرے فریق کا سامنا ہو تو شرمندگی نہیںاٹھانی پڑتی ۔ جناب عمران خان کے حوالے سے مولانا کا رویہ ذرا منفرد ہے اور اس کا سبب ایک تو خود خان صاحب کا رویہ ہے اور دوسرا یہ کہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی وجہ سے مولانا کا سیاسی نقصان زیادہ ہوا ہے ۔
اس کے برعکس ایم کیو ایم کا شعارِ سیاست الگ ہے ، وہ بیک وقت نظام میں حصہ بھی لینا چاہتے ہیں اور حزب ِ اختلاف کی سیاست بھی کرنا چاہتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ حکومت میں ان کے سیاسی حلیف نظام میں حصہ دینے کے باوجود زک اٹھاتے رہتے ہیں اور دل ہی دل میں کڑھتے ہیں کہ جب روز ان کے کوسنے اور شکایات ہی سننی ہیں ، تو بہتر ہے کہ یہ اپوزیشن ہی میں رہیں ، اگر حکومت میں شریک رہتے ہوئے بوجھ ہی بنے رہنا ہے ،تو ایک دوسرے کے لیے دلوں میں جگہ پیدا ہونا دشوار ہے ۔ سیاسی اخلاقیات کا تقاضا یہ ہے کہ جب حکومت کا حلیف بنے تو صرف مفادات نہ سمیٹے بلکہ حکومت کی ناکامی کا اپنے حصے کا بوجھ بھی اٹھائے اور کسی حد تک دفاع بھی کرے ۔ایم کیو ایم کے حضرات اپنی پوزیشن کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے رہتے ہیں کہ ہم حکومت میں شریک ہیں اقتدار میں نہیں ،اب ظاہر ہے کہ اقتدار پراختیار تو غالب فریق ہی کا رہے گا ۔ ایم کیوایم کے لیے لمحہ ٔ موجود کا یہ نہایت مشکل سوال ہے کہ اپنے سیاسی کلچر میں تبدیلی کیسے لائے تاکہ دوسروں کو انہیں اپنے ساتھ ملا کر چلنانسبتاً آسان اور قابلِ قبول ہو جائے ۔ ہاں !ایم کیو ایم کا ایک جائز مسئلہ بااختیار اور با وسائل شہری حکومت ہے اور ہمارے نظم ِ اجتماعی کو اس کا کو ئی نہ کوئی حل تلاش کرنا ہوگا ، ورنہ یہ کشمکش چلتی ہی رہے گی اور صوبۂ سندھ اور پورے ملک کو بے یقینی حالات سے نجات نہیں ملے گی ۔ ایم کیو ایم کے قائدین کو مغلوب الغضب ہو کر اور جوشِ خطابت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اپنا موقف پیش کرنے کی بجائے ٹھہراؤ اور دلائل کے ساتھ اپنا موقف پیش کرنا چاہیے ۔ ہم نے عالمی مدبرین (Statesmen) کو ہمیشہ پر سکون اندازاور پراعتماد لہجے میں گفتگو کرتے ہوئے دیکھا ہے، وہ الفاظ کا چناؤ نہایت احتیاط کے ساتھ کرتے ہیں اور الفاظ کی فضول خرچی کی بجائے کم از کم الفاظ سے اپنا موقف بیان کرتے ہیں ، انگریزی کا مقولہ ہے :
''Less Spoken Less Committed‘‘ یعنی جتنا کم بولوگے ، اتنی ہی گرفت کم ہو گی اور جتنا زیادہ بولوگے اتنا ہی زبان کی لغزش اور فکر کی کجی کے امکانات زیادہ ہوں گے ۔
ہمارے ہاں جناب عمران خان نے سیاسی خِلافیات میں بے مروّتی کا کلچر رائج کیا ، یہی وجہ ہے کہ انہیں کسی کل جماعتی اجتماع یا اپنے مخالف سیاسی رہنماؤں کے ساتھ بیٹھنے میں تکدُّر (Displeasure) اوراِ نقباض محسوس ہوتا ہے ۔ انہیں اور ان کے جان نثاروں کو سوچنا چاہیے کہ بالفرض اگر کل انہیں اقتدار مل جاتا ہے ، تو انہیں بھی اہم قومی مسائل میں اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے لیے دوسروں کے تعاون کی ضرورت ہوگی ۔اور اب تو ملک کے معروضی حالات یہ بتاتے ہیںکہ کسی ایک قومی جماعت کے لیے چاروں صوبوں میں اور مرکز میں بلا شرکتِ غیرے حکومت بنانے اور چلانے کے مواقع کم ہی دستیاب ہوں گے ، لگتا ہے کہ مینڈیٹ متفرق ہی آتا رہے گا اور مل جل کر نظام کو چلانے میں ہی سب کا مفاد ہے اور ملکی و ملی مفاد کا تقاضا بھی یہی ہے ۔
چونکہ جناب عمران خان اپنے حریفوں پر نہایت تکرار کے ساتھ خاندانی سیاست کا طعن کرتے رہے ہیں ، اس لیے اپنی بیگم کو سیاسی میدان میں اُتارنے کے بعد دباؤ برداشت نہ کر سکے اور جلد ہی رَجعت اختیار کرلی ، گویا یہ طعن اُن پر بیک فائر ہو گیا ، حالانکہ یہ ہمارے خطے کی سیاست اور عالمی سیاست میں کوئی غیر معمولی چیز نہیںہے ۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ یہ فرض کر لیا گیا کہ پی ٹی آئی کا اُمیدوار جیت رہا تھا اور محترمہ ریحام خان کے سبب ہار گیا ، حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے ، مخالف امیدوار بابر نواز کے والد جناب اختر نواز بھی ماضی میں یہاں سے الیکشن جیت چکے ہیں اور روایتی طور پر بھی اس علاقے کے لوگ مسلم لیگی ذہن کے ہیں ۔ لہٰذا اس امکان کو بھی رد نہیں کرنا چاہیے کہ ہو سکتا ہے محترمہ کی انتخابی مہم کی وجہ سے شکست کا مارجن کچھ کم ہو گیا ہو ، لیکن خان صاحب کو دباؤمیں آ کرفوری فیصلہ کرنا پڑا ۔
یہ ایسا ہی ہے کہ مانسہرہ کی قومی اسمبلی کی نشست این اے 21-پر فیض محمد خان مرحوم کے انتقال کے بعد کیپٹن صفدر نے جب ضمنی الیکشن لڑا اور کم مارجن سے ہارگئے، تو اسلام آباد اور لاہور کے مسلم لیگ ن کے ہمدرد کالم نگاروں نے اس کا سبب یہ بیان کیا کہ اپنے رشتہ دار کو ٹکٹ دینے کی وجہ سے ن لیگ ایک سیٹ سے محروم ہوگئی ۔ اسی زمانے میں ایک میٹنگ میں جناب شہباز شریف سے ملاقات ہوئی ، تو میں نے انہیں بتایا کہ میری نظر میں یہ تجزیے درست نہیں ہیں ۔ 1970ء کے انتخابات میں خان عبدالقیوم خان مانسہر ہ اور ہری پور سے جیتے تھے اور اس کے بعد پہلی مرتبہ مسلم لیگ کا ووٹر پارٹی بنیاد پر متحرک ہوا ہے ، کیونکہ 1985ء سے 2008ء تک کے انتخابات میں جو لوگ اس سیٹ پر جیتتے آئے تھے، ان کی اپنی خاندانی Standingبھی تھی ، یعنی وہ سیاسی اصطلاح میں جُزوی طور پر قابل انتخاب (Electables) لوگ تھے ، پارٹی کی حمایت مل گئی اور وہ جیتتے رہے ، لیکن کیپٹن صفدر نے پہلی بار مسلم لیگ کا ووٹ بینک دریافت کیا اور جمع کیا ،چناچہ 2013ء میں وہ یہاں سے جیت گئے ۔
یہ چند سطور میں نے اس لیے لکھی ہیں کہ جناب عمران خان کو اپنے آپ اور اپنے حامیوں کو سیاسی میدان میں تھکا تھکا کر بے حال نہیں کرنا چاہیے ، اپنی اور ان کی توانائیوں کو بچا کر رکھنا چاہیے تاکہ وہ تازہ دم ہو کر 2018ء کے انتخابات میں میدان میں اتریں ۔ اس وقت ان کے اور پوری قوم کے فائدے میں یہی ہے کہ ملک کو اندرونی دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں حتمی اور قطعی کامیابی کی منزل سے ہم کنا ر کیا جائے ، ا س کے نتیجے میں ملک کے معاشی حالات میں بھی کسی حد تک نمایاں بہتری آسکتی ہے اور اگر 2018ء تک ملک کی اقتصادی ریل پٹڑی پر رواں دواں ہو جاتی ہے ، تو آپ کو بھی بصورتِ اقتدار اس کی رفتار تیز کرنے میں آسانی ہو سکتی ہے اور شاید کچھ فیض آپ لوگوں تک بھی پہنچا سکیں ، ورنہ معاشی لحاظ سے ابتر اور امن و امان کے لحاظ سے فساد زدہ پاکستان کسی کے حق میں بھی مفید نہیں ہوگا ، خاص طور پر آپ کے حق میں جبکہ آپ کے مزاج میں اجتماعیت اور مل کر چلنے کا رجحان دوسروں کی بہ نسبت کم ہے ۔