ایک شاعرہ نے کہا تھا :
ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے
آئے تو سہی، برسرِ الزام ہی آئے
نہ جانے شاعرہ کا اشارہ کس کی طرف تھا ، لیکن اگر جناب عمران خان کو محبوب مان لیا جائے اور شریف برادران نا خواستہ طور پر ان کے محب قرار دییے جائیں ، تو یہ شعر اپنی پوری معنویت کے ساتھ جلو ہ گر نظر آئے گا ۔آئے روز شریف برادران جناب عمران خان کے الزامات کی زد میں ہیں ، اسی لیے شریف برادران کے مُحِبّ و جا ں نثار جناب پرویز رشید نے طنز کے طور پر انہیں ''الزام خان ‘‘کا نام دیا اور آج ایک اور صاحبِ قلم نے اشارتاً ''الہام خان‘‘کا نام دیا ہے کہ انہیں فوراً ہی دھاندلی کا الہام ہو جاتا ہے ، سوہماری سیاست میں ٹھہراؤ کا آنا بظاہر دشوارنظر آتا ہے ۔ پاکستان کے ابتدائی عشروں کے سیاست دان وضع دار لو گ تھے اور سیاسی اختلافا ت میں وضع داری کو قائم رکھتے تھے ، نواب نصرا للہ خان نے ساری زندگی حِزبِ اختلاف کا کر دار ادا کیا ، مگر زبان و بیان کو ہمیشہ قابو میں رکھا ۔
ایسا لگتا ہے کہ جناب عمران خان کے لیے 2018ء کے انتخابات تک انتظارنہایت دشوار ہے اور وہ کسی بڑے بریک تھرو کے انتظار میں ہیں ، جس سے نظام درہم برہم ہو جائے اور موجودہ نحیف و نزار جمہوریت کی بساط بھی لپیٹ دی جائے ۔ لگتا نہیں ہے کہ اس سے کم پر ان کی آتشِ انتقام بجھ سکے گی، اس سے کسی کو غرض نہیں ہے کہ ملک کے مفاد میں کیا ہے اور اس کے بعد پردۂ غیب سے جو برآمد ہو گا، اس میں وطنِ عزیز کے لیے خیر مستور ہے یا شر؟ ماضی کا تجربہ تو انتہائی نا خوش گوار ہے ۔ ہمارا آزاد الیکٹرونک میڈیا بھی بالعموم اسی خواہش کا اسیر ہے ۔ دوسری جانب شریف برادران اپنی روش کو بدلنے کے لیے بالکل تیار نہیں ، وہ قومی ترجیحات طے کرنے کے لیے اپنی پارٹی سمیت کسی کی شراکت کے روا دار نہیں ہیں ،وہ اللہ تعالیٰ کی سنّتِ توحید کا مظہر بننا چاہتے ہیں۔
جناب شہباز شریف کی فعالیت ، چابک دستی اور ہر دم چوکس رہنے کی صلاحیت کے سب معترف ہیں ، بعض لوگ کرپشن کی باتیں کرتے ہیں ، لیکن کوئی ایسے واضح شواہد ہمارے علم میں نہیں آئے ، حقیقتِ حال اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے ۔ لیکن ان کی ذاتی فعالیت ایک فعال اور شفاف نظام کا متبادل نہیں ہو سکتی۔ ترقی یافتہ ممالک کے نظامِ ریاست کی اعلیٰ کارکردگی کا انحصار کسی فردِ واحد کی فعالیت یا دیانت پر نہیں ہوتا ، بلکہ وہ حسنِ کارکردگی اداروں کی فعالیت ، دیانت و امانت اور شفّافیّت کی مرہونِ منت ہوتی ہے ۔ حال ہی میں شریف خاند ان سے ہمدردی رکھنے والے ایک صاحبِ قلم نے بھی انہیں اس طرف متوجہ کیا ہے ، لیکن شاید شریف برادران کے پاس لکھے ہوئے حروف کو پڑھنے کی فرصت نہیں ہے ،مخلصانہ مشوروں کو قبول کر کے ان پر عمل پیرا ہونا تو دور کی بات ہے۔ شاید ان کا مزاج تمام اختیارات کو اپنی ذات میں مرکوز کرنے کا ہے ،لیکن ایک شخص نہ تمام معاملات کی جزئیات کو دیکھ سکتا ہے اور نہ ہر جگہ موجود ہو سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات وہ سرکاری مناصب پر فائز افسران کو عُجلت میں معطل کر دیتے ہیں یا منصب سے معزول کر دیتے ہیں اور اسی سبب بیورو کریسی اُ ن کے ساتھ چلنے میں دشواری محسوس کرتی ہے ۔
حکمرانی کے اسی شعار کے سبب مسلم لیگ ن کے پارلیمینٹیرین بھی اپنے آپ کو بے مصرف سمجھتے ہیں اور عوام میں پھیل کر ان کا دفاع کرنے کے لیے اپنے آپ کو آمادہ نہیں کر پاتے اور نہ ہی انہیں بر سرِ اقتدار خاندان سے ملنے کے آزادانہ مواقع ملتے ہیں کہ وہ لوگوں کی شکایات کو ان تک پہنچا سکیں ۔ منتخب نمائندوں کا احساسِ محرومی تو صوبہ خیبر پختونخوا کے حکومتی نظام میں بھی ہے ، لیکن وہاں بعض شعبوں میں قدرے بہتری آئی ہے ۔ مثلاً سرکاری تعلیمی اداروں میں اساتذہ بالعموم ڈیوٹی پر موجود نظر آئیں گے ، کیونکہ انہوں نے نگرانی کا ایک نظام قائم کر دیا ہے اورڈیوٹی سے مدّتوں رُخصت لیے بغیر غائب رہنے کا سلسلہ کافی حد تک ختم ہو گیا ہے ۔ اسی طرح سرکاری اسپتالوں کی کارکردگی میں بہتری آئی ہے اور عملے کو ڈیوٹی پر موجود رہنے کا پابند بنا دیا گیا ہے ۔ جناب عمران خان کا دعویٰ ہے کہ پولیس کو ایک آزاد اور قانون کے سامنے جوابدہ ادارے کی شکل دے دی گئی ہے اور پولیس افسران کی تعیناتی ، تبادلے اور ترقی یا تَنَزُّلی میں سیاسی اثر و رسوخ کو ختم کر دیا گیا ہے ، ان کا یہی دعویٰ محکمہ ٔ مال کے بارے میں بھی ہے اور دیہی معاشرے میں محکمۂ مال کی بہت اہمیت ہے ۔ ہمارے پاس ایسے قطعی شواہد نہیں ہیں کہ اس دعوے کو کلی طور پر رَد یا قبول کیا جائے ، لیکن اگر اِن اداروں میں جزوی یا مُعتَدبِہْ تبدیلی بھی آجائے ، تو ہمارے شعارِ حکمرانی میں یہ بسا غنیمت ہے ۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے شدید دباؤ کے سبب وزیرِ اعظم جناب نواز شریف کادیگر چھوٹی جماعتوں کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی پرانحصارہے اور اُس کا گزشتہ دورِ حکمرانی کوئی بہت دور کی بات نہیں ہے ۔ ا س لیے احتساب کا ایسا بے رحم نظام قائم ہونا دشوار ہے ، جو بلا امتیاز سب کو شکنجے میں کس دے ۔ پیپلز پارٹی اسی لیے نہ چاہتے ہوئے بھی حکومت کی حمایت جاری رکھنے اور اس کے خلاف عدمِ استحکام کی سازشوں کو ناکام بنانے پر مجبور ہے ۔ کراچی یا صوبۂ سند ھ میں بعض اداروں یا افراد پر جو ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے ، حکومتِ سندھ اس پر احتجاج کرتی ہے ، چیں بجبیں ہوتی ہے اور اسے اپنے اختیارات میں نا روا مداخلت سے تعبیر کرتی ہے ۔حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ اس میں کسی حد تک وزیرِ اعظم بھی بے بس ہیں یا کم از کم ان کی آشیر باد کے بغیر یہ سب کچھ ہو رہا ہے ۔
حکومتِ سندھ کے لیے رینجرز کے بجائے کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں کو کنٹرول کرنا اب یقینا دشوار ہے ، لہذا وہ سندھ سے رینجرز کی بے دخلی کی متحمل نہیں ہو سکتی ،ورنہ کراچی اور سندھ کے شہری علاقے ایک بار پھر شدید بدنظمی ، بے امنی اور فساد کا شکار ہو جائیں گے ۔ رینجرز سے ایم کیو ایم کو بھی شکایات ہیں ، لیکن انہوں نے امن و امان کے قیام ، بھتہ خوری اور اِغوا برائے تاوان کے انسداد اور ٹارگٹ کلنگ کو کنٹرول کرنے میں نمایاں کارکردگی دکھا ئی اور اب اس حقیقت کا انکار کسی کے لیے بھی آسان نہیں ہے ۔ اسی لیے ایم کیو ایم بھی آپریشن کی دو ٹوک مخالفت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ، ان کا شکوہ اورشکایت یہ ہے کہ انہیں زیادہ نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ان کی جائز شکا یا ت کا ازالہ کرنے کی کوئی نہ کوئی تدبیر ضرور ہونی چاہیے ۔ لیکن کسی خرابی میں جس کا زیادہ حصہ ہو گا، اس کا زیادہ متاثر ہو نابہر حال نا گزیر ہے ۔
مسلم لیگ ن کی حکومت کے لیے نندی پور پاور پروجیکٹ یقینا خِفّت کا سبب بنا ہے، اگر کرپشن کے الزام سے صرفِ نظر بھی کردیا جائے تو بھی ان کی عُجلت پسندی نے یہ دن دکھا ہی دیا ہے۔ اسی طرح قطر سے ایل این جی کی در آمد پر تسلسل کے ساتھ انگشت نمائی ہو رہی ہے کہ اس کے معاہدے کی تفصیلات کو صیغۂ راز میں کیوں رکھا جا رہا ہے ۔ قوم جاننا چاہتی ہے کہ ہمارے ہاں Liquefied یعنی مائع شکل میں تبدیل کر کے جو قدرتی گیس (LNG) در آمد کی جا رہی ہے ، اس کی قیمت کیا ہے اور یہ کہ اس کی قیمت کا عالمی مارکیٹ میں قیمتوں سے تناسب کیا ہے ، کم ہے یا زیادہ ؟۔ اگر کم ہے تو اسے حکومت کی اعلیٰ کار کردگی اور سودا بازی کی مہارت کے طور پر کیوں نہیں پیش کیا جاتا اور اگر خدا نخواستہ زیادہ ہے تو اس کا سبب کیا ہے ؟۔حکومت بعض اوقات مسائل کو ہلکا یا کم اہم گردانتے ہوئے جواب دینا اور وضاحت کرنا ضروری نہیں سمجھتی، لیکن یہی چھوٹی چھوٹی باتیں جمع ہوتے ہوتے بڑا مسئلہ بن جاتی ہیں اور پھر حکومت کو ناقابلِ تلافی سیاسی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اپنی ساکھ و اعتبار (Credibility) کا نقصان اٹھا نا پڑتاہے ۔ لاہور کے حالیہ ضمنی انتخابات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ حکمرانوں کی خوش فہمیاں کبھی کبھی انہیں لے ڈوبتی ہیں ، کیونکہ یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ لاہور مسلم لیگ ن کی مٹھی میں ہے اور کوئی لاہور کے حق ِ نمائندگی کو ان سے چھین نہیں سکتا ۔اس حقیقت کے باوجود کہ لاہور میں بے انتہا ترقیاتی کام ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں ، عوام کے مزاج کا کچھ پتا نہیں چلتا کہ کب روٹھ جائیں اور رُخ پھیر دیں ۔