"MMC" (space) message & send to 7575

اصل کی طرف مراجعت

عربی کا مقولہ ہے : ''کُلُّ شَیئٍ یَرْجِعُ اِلیٰ اَصْلِہٖ‘‘یعنی ہر چیز اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے ۔یہ اصول ہم پاکستانیوں پر پوری طرح صادق آتا ہے ۔ ہم سعودی عرب میں ہوں ، متحدہ عرب امارات میں ہوں ، یورپ‘ امریکہ یا کینیڈا ‘آسٹریلیا اور جاپان میں ہوں ، الغرض! جہاں کہیں بھی ہوں بالعموم وہاں کے قواعد و ضوابط اور ملکی قوانین کے احترام کے ساتھ ساتھ ان کی پابندی کرتے ہیں ۔ اس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ، نیم خواندہ ، ناخواندہ ، معاشی اعتبار سے خوش حال یعنی اَپر کلاس ، مڈل کلاس اور لوئر کلاس ، تمام طبقات برابر ہیں ۔ ان سب طبقات میں مقامی قوانین کے حوالے سے کوئی بہت زیادہ نمایاں فرق نہیں ہوتا ۔ چند مستثنیات ہر جگہ ہوتی ہیں ، مگر کسی قوم یا طبقے کے بارے میں رائے اکثریت کی بنیا د پر قائم ہوتی ہے ۔ 
گہرائی اور گیرائی کے ساتھ جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ بیرونِ ملک مقامی قوانین کا احترام اور اَقدار کی بالا دستی ہماری جِبِلّت کا مظہر نہیں ہے‘ بلکہ یہ وہاں کے نظام کی خوبی ہے کہ قانون شکن عناصر تعزیر سے بچ نہیں پاتے ، انہیں بہر حال قانون کے شکنجے میں کس دیا جاتا ہے ۔ جزا و سزا کا فلسفہ وہاں اپنے ثمرات دکھاتا ہے ۔ یہ چند تمہیدی کلمات میں نے اس لیے تحریر کیے کہ ہماری سیاست میں تازہ شمولیت (Entry)جناب چوہدر ی محمد سرور کی ہے، ہم اسے قومی سیاست میں ایک خوش گوار اضافہ سمجھ رہے تھے ، لیکن مشہور مقولہ ہے :''ہر کہ در کانِ نمک رفت نمک شُد ‘‘ یعنی جو بھی نمک کی کان Salt Mine) (میں گیا‘ وہیں تحلیل ہو کر رہ گیا ۔ 
چوہدری محمد سرور صاحب برطانیہ میں پاکستانی نژاد ایک کامیاب تاجر اور سیاست دان بنے۔ وہ اسکاٹ لینڈ سے برطانوی دارالعوام 
(House of Commons)
کے رکن منتخب ہوئے ۔ میں نے پہلی بار انہیں بر منگھم‘ یو کے میں ایک مذہبی تقریب میں دیکھا ۔ وہاں کے مسلمان سیاست دان مذہبی کانفرنسوں اور سیمیناروں میں بڑے شوق سے شرکت کرتے ہیں ، کیونکہ اس سے انہیں وہاں کی مسلم کمیونٹی میں اپنے تعارف اور نمود (Exposure)کا موقع ملتا ہے اور یہ ان کے لیے بسا غنیمت ہے ۔ پھر ان کی شان میں ایک مشہور کالم نگار کا افسانوی انداز میں ایک نثری قصیدہ پڑھا اور ان کے بارے میں ایک اچھی رائے قائم ہوئی ۔ 
لیکن جب وہ برطانوی شہریت چھوڑ کر پاکستانی سیاست کا حصہ بنے تو مذکورہ بالا محاورے کے تحت برطانوی سیاست اور معاشرت کی خوبیوں کو ترک کر کے اصل پاکستانی بن گئے اور اپنی اصل کی طرف مراجعت میں بالکل تاخیر نہیں کی۔ ان کے بارے میں ذہن میں جو رائے قائم ہوئی تھی وہ کافور ہو گئی۔ ماضی کے اعتبار سے وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ وابستگی رکھتے تھے ۔ مگر جب انہوں نے اپنے ذہن میں پاکستانی سیاست میں نفوذ کا زائچہ بنایا تو موزوںمسلم لیگ لگی ۔ جناب ِ نواز شریف کی جلا وطنی کے عرصے میں انہوں نے نواز شریف صاحب سے قربت حاصل کی اور ان کے وزیراعظم بننے کے بعد پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا گورنر بن کر وہ تشریف لائے‘ مگر جلد ہی گور نر ہاؤس پنجاب کے 'بیت الجن‘ میں قیام کے دوران اختیارات نہ ملنے کے سبب گورنر ہاؤس میں مضطرب اور بے قرار رہنے لگے ۔ 
یہ اُن کی سیاست کا پہلا تضاد تھا ۔ وہ سیاست میں نو وارد نہیں تھے ، سیاسی اصطلاح میں امّ البر لیمان (Mother of Parliament)کا رکن ہوتے ہوئے انہیں آئینی تقاضوں اور دائرہ ٔ اختیارات کا بخوبی علم ہوگا ۔ انہیں یقینا معلوم ہو گا کہ برطانیہ کی ملکہ ٔ مُعَظّمہ اگر چہ آئینی اعتبار سے ریاستِ برطانیہ کی سربراہ ہیں ، لیکن ان کے پاس کوئی انتظامی اختیارات (Executive Powers)نہیں ہیں ۔ اسی طرح انہیں گور نرپنجاب کا حلف اٹھانے سے پہلے یقینا یہ بھی معلوم ہو گا کہ گورنر صوبے کا آئینی سربراہ ہو تاہے اور اس کے پاس انتظامی اختیارات نہیں ہوتے ۔ پہلے ہمارے ہاں گورنروں کے پاس یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر زکے تقرر کے اختیارات تھے ، کیونکہ گورنر صوبے کے اندر ریاست کے تحت قائم یونیورسٹیوں کا چانسلر ہوتا تھا ، لیکن ہمارے وزرائے اعلیٰ نے یہ اختیارات گورنروں سے سلب کر لیے ۔ پس وزیرِ اعلیٰ کے ساتھ باہمی اعتماد اور مشاورت سے تو وہ کسی شعبے کے اختیارات غیر رسمی طور پر استعمال کر سکتے تھے ،لیکن مسلم لیگ ن والوں کو یہ اشتباہ ہو گیا کہ چوہدری محمد سرور صاحب پی ٹی آئی اور پی اے ٹی سے روابط قائم رکھے ہوئے ہیں ، تو ان کا محتاط ہونا فطری عمل تھا ۔ 
چنانچہ بے اعتمادی کی اس فضا میں انہیں جلد گورنر شب سے استعفیٰ دے کرگورنر ہاؤس کو خیر باد کہنا پڑا ۔ ان کا یہ اقدام اَخلاقی اعتبار سے درست تھا ،کیونکہ جس نظام یا جماعت کے ساتھ ان کی ذہنی قربت نہ رہے ، باہمی اعتماد قائم نہ ہو اور شکوک و شبہات جنم لینے لگیں تو اس کے باوجود منصب پر چمٹے رہنا بے توقیری کی بات ہوتی ہے ۔اس کے بعد انہوں نے اپنی من پسند جماعت پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی اور اس جماعت کے بہت سے سابقین پر فوقیت (Supersession)حاصل کرتے ہوئے ایک ہی جست میں چیف آرگنائزر بن گئے۔ سیاست میں ایسا اچانک عروج برطانوی نظامِ سیاست میں حاصل نہیں ہو سکتا تھا، ایسے سیاسی کرشمے پاکستان ہی میں ممکن ہیں ۔ظاہر ہے اس میں ان کے سیاسی پسِ منظر ، سرمائے اور پاکستان میں برادری کے ممکنہ فوائد کا بھی عمل دخل تھا ۔ 
پاکستانی سیاست میںلاہور کے ضمنی انتخابات میں کارکنوں کی تربیت اور پولنگ ایجنٹ کی حیثیت سے انہیں آگہی دینا یقینا ایک اچھا اور قابلِ تحسین عمل تھا ‘ لیکن ناکامی کو کھلے دل سے تسلیم نہ کرنا یہ اُن کی برطانیہ میں سیاسی تربیت کی نفی تھی اور پاکستانی اصل کی طرف مراجعت کا ایک اور شاہکار تھا۔پہلے تو انہوں نے ووٹر ز لسٹ میں تبدیلیوں کا واویلا مچایا ، حالانکہ ووٹر ز لسٹ کا جائزہ لینے اور ان میں کوئی تبدیلی لانے کا عمل انہیں ضمنی انتخاب کے اعلان کے ساتھ ہی کرنا چاہیے تھا ، بعد از مرگ واویلا کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ اسی طرح مقامی انتخابات کے نتائج کو قبول کرنے کی بجائے وہ ناکامیوں کا جواز تلاش کر رہے ہیں اور یہ سب چیزیں ہماری پاکستانی سیاست کے قدیم اَمراض ہیں ، ان میں کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ اس کے بر عکس جناب شفقت محمود کا اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پاکستانی سیاست میں ایک اچھی قدر (Value)اور روایت کا اضافہ ہے ، اس لحاظ سے وہ قابلِ تحسین ہیں ۔ جناب چوہدری محمد سرور سے لاہور کے ضمنی انتخاب سے ایک دن پہلے ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں پوچھا گیا کہ اب جبکہ الیکشن کمیشن نے شفاف انتخاب کے لیے آپ کی تمام فرمائشیں پوری کر لی ہیں ، تو خدا نخواستہ شکست کی صورت میں کیا آپ اسے کھلے دل سے تسلیم کریں گے ؟ انہوں نے کافی تردّد اور سوچ بچارکے بعد ہاں کہا ۔
ہماری خواہش ہے کہ جناب چوہدری محمد سرور کی پاکستانی سیاست میں شمولیت سیاسی بادِ بہاری کا ایک خوش گوار جھونکا ثابت ہو اور اس کی مہک اور راحت ہر ایک محسوس کرے۔ لہٰذا ایک بار پھر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ انتخابی اصلاحات اور شفاف انتخابی نظام وضع کرنے کے لیے جو پارلیمانی کمیٹی کام کر رہی ہے، وہ ایک ماہر کی حیثیت سے اس میں شریک ہوں اور نظامِ انتخاب کی بہتری اور شفافیت کے لیے قابلِ عمل اور مثبت تجاویز دیں ۔ چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان کے علاوہ چار وں صوبائی الیکشن کمشنرز کی آئینی مدت شاید 2018ء کے قومی انتخابات سے پہلے ختم ہو جائے گی اور اس وقت باہمی مشاورت سے ایک نیا خود مختار اور آزاد الیکشن کمیشن تشکیل دیا جا سکتا ہے، اس وقت لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ یہ سطور کسی سیاسی وابستگی یا ترجیح کے بغیر مثبت سوچ کے ساتھ لکھی گئی ہیں اور ان کو اسی انداز میں لینا چاہیے ۔ہماری سیاست اقدار کے اعتبار سے کافی بانجھ ہے اور ہمیںقومی سیاست میں ایسی افسانوی شخصیات (Legendaries)کی اشد ضرورت ہے جو رو ل ماڈل کہلا سکیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں