"MMC" (space) message & send to 7575

متفرقات

دنیا ملتان میں: گزشتہ چند سالوں میں جب کبھی ملتان اور جنوبی پنجاب جانا ہوتا تو ہمارے احباب کہتے کہ روزنامہ دنیا ہمارے علاقے میں نہیں آتا ، اس لیے ہم آپ کا کالم نہیں پڑھ پاتے ، ظاہر ہے یہی صورتِ حال ان قارئین کی ہوگی جو ہمارے دوسرے کالم نگاروں کو شوق سے پڑھتے ہیں ۔ اگر چہ آج کل اخبارات کے انٹرنیٹ ایڈیشن دستیاب ہوتے ہیں ، لیکن تاحال سب لوگوں کی انٹر نیٹ تک رسائی نہیں ہے ۔ ایک وقت تھا کہ اخبارات خبروں کے لیے پڑھے جاتے تھے، لیکن ٹیلی ویژن چینلز کی بھر مار اور ہر لمحے ٹیلی ویژن اسکرین پر نمو دار ہونے والے ٹکر ز نے خبروں کی حد تک اخبارات کی طلب کو یقینًا متاثر کیا ہوگا ۔ ایسے میں قیاس یہ کیا جا رہا تھا کہ شاید اخبارات کی دنیا سمٹ جائے گی لیکن منظر اس کے بر عکس نظر آیا ۔ اخبارات کی تعداد ، ضخامت اور اِشاعت سب میں اضافہ ہوا ۔ میری نظر میں اب اخبارات کے قارئین خبریں کم اور کالم ، شذرات ، ادارتی صفحات اور تجزیے زیادہ پڑھتے ہیں ۔ اس لیے اخبارات کی ریٹنگ یا مقبولیت کا انحصار انہی اُمور پر ہے اور اس اعتبار سے بلاشبہ دنیا ایک وقیع، مستند اور ثقہ اخبار بن چکا ہے ۔
روزنامہ دنیا کے کالم نگاروں میں ہم جیسے نو وارد اور نو آموز لکھاریوں کے مقابلے میں تجربہ کار ، صاحب طرز اور مقبول لکھاریوں کی تعداد زیادہ ہے اوربلاشبہ اس میں تنوع بھی زیادہ ہے اور ہر ذوق کے قاری کو اپنے مطلب کی ذہنی غذا مل جاتی ہے ۔ یہ بات بھی درست ہے کہ ہر لکھاری ، جسے روزانہ یا ہفتے میں چار پانچ بار لکھنا پڑتا ہو ، کا ہر قلمی شاہکار ماسٹر پیس اور State of the Artنہیں ہو سکتا ، لیکن جب درجنوں کالم روزانہ چھپ رہے ہوں تو یقینا ان میں سے چند ایک تو ضرور شاہکار ہوں گے اور قارئین اوراخبار کے خریداروں کو ان کی قیمت مل جاتی ہوگی ۔ الغرض! اب روزنامہ دنیا کا حلقۂ قارئین یقینًا بڑھے گا اور پور ے جنوبی پنجاب کے لوگوں کو اس سے مستفید ہونے کا موقع ملے گا اور لکھنے والوں کو اپنے افکار کی اشاعت و پذیرائی اوراتفاقِ رائے یا اختلافِ رائے کے لیے ایک وسیعCanvasمیسر آئے گا ۔ جب مجھے کالم کی اشاعت پر پاکستان کے باہر سے بھی مثبت یا منفی تاثرات ای میل کے ذریعے ملتے ہیں تو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لکھے ہوئے حُروف کو پڑھنے والے دنیا میں ہر جگہ موجود ہیں اور ہوا میں تحلیل ہونے والے ملفوظ Spoken) ( کے مقابلے میںمکتوب (Written)کی اہمیت بہر حال زیادہ ہے ، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کو کتاب سے تعبیر فرمایا اور کتاب کے معنی مکتوب کے ہیں ۔ پس روزنامہ دنیا کی ملتان سے اشاعت کے آغاز پر میں جنابِ میاں عامر محمود ، جناب نذیر ناجی، جناب ارشاد احمد عارف اورریذیڈنٹ ایڈیٹر جناب امجد بخاری کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس ادارے کو ان کی توقعات سے بڑھ کر کامیابی عطا فرمائے ۔ امید ہے کہ جنوبی پنجاب کے عوام کے مسائل اب زیادہ اُجاگر ہوں گے ۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان : ہمارا الیکشن کمیشن یقینا عُجوبہ ٔ روز گار ہے ، اسے اپنی بَھد اُڑانے کا بہت شوق ہے ۔ انتخابا ت کے لیے اس طرح کے اَخلاقی ضوابط بنائے جاتے ہیں جن پر عمل درآمد کرانا مشکل ہو تا ہے اور اس کے نتیجے میں الیکشن کمیشن کی ساکھ مجروح ہوتی ہے ۔ جب ملک میں کثیر الجماعتی نظام رائج ہو اور ہائی کورٹ بھی فیصلہ دیدے کہ قومی کی بات تودر کنار ، مقامی انتخابات بھی جماعتی بنیا د پر ہوں گے۔ تو پھر ایم این اے یا ایم پی اے یا پارٹی سربراہان یا وزرائے کرام ، وزرائے اعلیٰ اور وزیرِ اعظم پر انتخابی مہم میں حصہ لینے کی پابند ی کی منطق سمجھ سے بالا تر ہے ۔ نگراں حکومت کے تحت قومی انتخابات کرانے کا تجربہ پہلے بنگلہ دیش میں ہوا اور پھر گزشتہ انتخابات میں حسینہ واجد نے اسے ختم کر دیا ۔ پھر ان کی تقلید میں ہم نے یہ تجربہ شروع کیا کہ شاید اس سے قومی انتخابات کی غیر جانب داری کو اعتبار مل جائے ، لیکن ایسا نہ ہوسکا اور انتخابات پر نہایت شدّ و مد کے ساتھ اعتراضات پھربھی وارد ہوئے ۔ جمہوری دنیا میں بر سرِ اقتدار حکومت کے ہوتے ہوئے انتخابات ہوتے ہیں اور ان پر کوئی انگلی نہیں اٹھاتا ۔ وزیرِ اعظم برطانیہ ڈیوڈ کیمرون نے انتخابات میں بھر پور حصہ لیا ، اسی طرح حال ہی میں بھارتی وزیرِ اعظم نریندر سنگھ مودی نے صوبہ بہار کے انتخاب میں بھرپور حصہ لیا ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم ساری جمہوری دنیا سے ہٹ کر کوئی جمہوری انتخابی اَقدار وضع کرنا چاہتے ہیں ؟، اگر کسی کی یہ خواہش ہے تو ان کے لیے بُری خبر ہے کہ اس میں انہیں کوئی کامیابی نصیب نہیں ہوگی ۔ایک فریق کو بیڑیاں پہنادیں اور دوسرے کو آزاد چھوڑ دیں ، یہ بھی کوئی منصفانہ شِعار نہیں ہے ۔ اتنی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ انتخابی مہم کے دوران برسرِ اقتدار وزر ا یا حکمران کسی خاص حلقۂ انتخاب کے لیے ترقیاتی منصوبے کا اعلان نہ کریں تاکہ یہ سیاسی رشوت یا ترغیب کے زمرے میں نہ آئے ۔ لیکن قومی سطح پر کسان اعانتی پیکیج پر عمل درآمد کو ہمارے الیکشن کمیشن نے روک دیا ، جسے ہائی کورٹ نے بحال کیا ۔ سوال پیدا ہو تا ہے کہ کیا مقامی یا قومی انتخابات کے موقع پر نظامِ ریاست جامد و ساکت ہو جائے گا ۔ ہمیں جناب عمران خان کی دانش پر بھی حیرت ہے کہ انہوں نے کسان پیکیج پر عمل درآمد رُکوانے کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو متحرک کیا اور کسانوں کی ناراضی مول لی ۔ حالانکہ وہ سیاسی بصیرت سے کام لے کراس پیکیج کواپنے حق میں بھی استعمال کر سکتے تھے کہ حکومت ہماری کسان حمایت تحریک پر اور ہمارے دباؤ کے نتیجے میں کسان پیکیج دینے پر مجبور ہوئی اور اس کا کریڈٹ ہمیں جاتا ہے ۔ 
گوادر چائنا اقتصادی شاہراہ : چین کی مدد سے گوادر چائنا کوریڈور پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اقتصادی منصوبہ ہے اور اگر یہ بہ حسن و خوبی کم از کم مدت میں پایۂ تکمیل تک پہنچ گیا تو ان شاء اللہ تعالیٰ اس کے ثمرات و فوائد ملک کے لیے ترقی کی راہیں کھول دیں گے اور پاکستان سینٹرل ایشیا تک کے لیے عالمی تجارت کی ایک بڑی گزر گاہ 
اور ایک بڑا تجارتی مرکز بن جائے گا ۔ لیکن ہمارے ہاں کالا باغ ڈیم کی طرح اسے بھی اختلافات کی نذر کیا جا رہا ہے ۔ ہر ایک چاہتا ہے کہ اس کی مرضی کے مطابق روٹ طے ہو ورنہ نہ سہی۔ یعنی ہمیں اپنے محدود سیاسی اور علاقائی مفادات سے غرض ہے ، قومی اور ملکی مفادات ہماری ترجیحات میں نہیں ہیں ۔ ہماری نظر میں اس طرح کا بڑا منصوبہ جن خصوصیات کا حامل ہونا چاہیے ، وہ یہ ہیں:(الف) شاہرا ہ کا روٹ ممکن حد تک مختصر ہو اور غیر ضروری طوالت سے اجتناب کیا جائے۔ (ب) زیادہ سے زیادہ آبادی کو اُس تک رسائی ہو ، موٹر ویز کے لیے انٹر چینج اسی لیے بنائے جاتے ہیں تاکہ تمام اہم علاقے اس سے مربوط ہو جائیں ۔ 
(ج) اس پر آنے والے مصارف کو ممکن حد تک کم رکھا جائے ، کسی حکمت کے بغیر پہاڑوں میں سُرنگیں بنانا یا موٹر وے کو اتنی بلندی پر لے جانا کہ ہیوی ٹریفک اور بھاری ساز و سامان کی ترسیل دشوار اور مہنگی ہو جائے ، کبھی بھی مفید ثابت نہیں ہو سکتا ۔ (د) چین ابتدائی تخمینے کے مطابق اس منصوبے پرپنتالیس ارب ڈالر کا خطیر سرمایہ لگا رہا ہے ، اس کے ماہرین کی ترجیحات کو بھی پیشِ نظر رکھا جائے ۔ (ہ) اتنے بڑے منصوبے قومی ایثار اور قومی ترجیحات پر مبنی ہو نے چاہئیں ۔
ہمارے ہاں اگر چہ سی سی آئی ) Council of common interest (یعنی مشترکہ قومی مفاد کو طے کرنے کا ادارہ آئین میں موجود ہے ، لیکن ہمارے قائدین اور سیاست دانوں کی تنگ نظری اُس کے فعال ہونے میں حائل ہے ۔ ہمارے ذہنوں میں وسعت نہیں ہے اور اب حقیقی معنی میںقومی جماعتیں بھی نہیں ہیں جو بیک وقت تمام صوبوں میں مقبول ہوںاور جن کے پاس سب یا اکثر صوبوں کا حقِ نمائندگی (Mandate)موجود ہو اور جو قومی سطح کے فیصلے بلا روک ٹوک کر سکیں ۔ ہماری موجودہ وفاقی حکومت تو بجٹ کے علاوہ کوئی بھی قانون دوسری جماعت کی شراکت و حمایت کے بغیر ایوانِ بالا سے منظور کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اور ہمارا مزاج بھی بلیک میلنگ اور اپنی مرضی ڈکٹیٹ کرانے اور اپنے سیاسی حجم سے زیادہ حیثیت منوانے کا ہے ۔ ہمارا حال یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان اور اکیسویں آئینی ترمیم بھی دفاعی اداروں کے دباؤ کے بغیر منظور نہ ہو پاتی ، اب اس پر عمل در آمد کا مسئلہ معطل یا متنازعہ فیہ ہے۔ مثلاً سندھ کی صوبائی حکومت اپنے یا اپنے نامی گرامی لوگوں کے خلاف کوئی اِقدام کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہے اور قانون کے اندر رہتے ہوئے کوئی سبیل نظر نہیں آتی ،اِسی کو ڈیڈ لاک کہتے ہیں ۔ان کے نزدیک جمہوریت کے جاری رہنے کی ایک ہی صورت ہے کہ جمہور کے نمائندوں کو ہر بات کی کھلی آزادی ملے اور مروجہ نظام میں ان کے ہاتھ کو روکنے کے امکانا ت نہ ہونے کے برابر ہیں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں