"MMC" (space) message & send to 7575

جدید علم الکلام

روزنامہ دنیا کے فاضل کالم نگار جناب خورشید ندیم نے اپنے کالم میں ''جین ایڈیٹنگ ‘‘ کو موضوع بنایا اور بتایا کہ جنیٹک انجینئرنگ کے ذریعے حیوانات کی بعض خصوصیات پرمشتمل نئی نسلیں تیار کی جارہی ہیں جن میں بغیر سینگ کے بیل ، ایک خاص قسم کی مچھلی اور Malaria Freeمچھر بھی پیدا کیا گیا ہے ۔ الغرض ! اجناس اور حیوانات کی نسلوں میں تنوع پر تجربات ہو رہے ہیں اور کسی حد تک اس کی اصل تابیر یا تلقیح ہے ۔ اسے درختوں میں قلمیں لگانے اور جانوروں میں مخلوط نسل سے تعبیر کر سکتے ہیں ۔جانوروں کی مخلوط نسل کے حوالے سے ہمارے فقہی سرمائے میںپہلے سے اس کا حل موجود ہے ۔ ذیل میں سوال و جواب کی صورت میں ایک مسئلہ درج کیا جاتا ہے جو ہم نے عید الاضحی کے موقع پر آسٹریلوی گائے کی قربانی کے حوالے سے لکھا تھا : 
سوال : کیا آسٹریلوی گائے کی قربانی جائز ہے،اُس کے بارے میں یہ افواہ بھی ہے کہ اُسے حرام جانور کے مادّہ منویہ سے حاملہ کرایاجاتاہے تاکہ اس سے دودھ کی زیادہ مقدار حاصل ہو۔ایسی گایوں کا شرعی حکم کیاہے ؟جواب : آسٹریلوی گائے کی قربانی جائز ہے ۔فقہی رائے کا مدار اَفواہوں یاسنی سنائی باتوں پر نہیں ہوتا ،صرف اُن باتوں پر ہوتاہے ،جوقطعی ثبوت یا مشاہدے سے ثابت ہوں،اسی لئے مُسلمہ اصول ہے کہ :'' یقین شک سے زائل نہیں ہوتا‘‘۔تاہم اگر یہ بات درست بھی ہو ،تب بھی یہ گائیں حلال ہیں،ان کا گوشت کھانا اوردودھ پیناجائز ہے۔اس لئے کہ جانورکی نسل کا مَدار ماں(یعنی مادہ جانور ) پر ہوتاہے ۔علامہ برہان الدین لکھتے ہیں: ترجمہ:'' اورجوبچہ پالتو جانور اوروحشی جانور کے ملاپ سے پیداہو،وہ(بچہ) ماں کے تابع ہوتاہے ،کیونکہ بچے کی تابع ہونے میں ماں ہی اصل ہے ،یہاں تک کہ اگر بھیڑیئے نے بکری پر جفتی کی ،تو اس ملاپ سے جو بچہ پیداہوگا،اس کی قربانی جائز ہے ‘‘۔اس کی شرح میں علامہ محمد بن محمود ''عنایہ‘‘شرح ہدایہ میں لکھتے ہیں: ترجمہ:'' کیونکہ بچہ ماں کاجزء ہوتاہے اوراسی لئے آزادیاغلام ہونے میں ماں کے تابع ہوتاہے(یہ اُس دور کی بات ہے جب غلامی کا رواج تھا) ،یہ اس لئے کہ نر کے وجود سے نطفہ جداہوتاہے اوروہ قربانی کا محل نہیں ہے اورماں کے وجودسے حیوان جداہوتاہے اوروہ قربانی کا محل ہے ،پس اسی کا اعتبار کیا گیا ہے ، (فتح القدیر ، جلد9،ص:532)‘‘۔اورآج کل تومغرب میں انسانوں کو اسی حیوانی درجے میں پہنچادیاگیاہے،اسی لئے باپ کے بجائے ماں کا نام پوچھا جاتاہے ،کیونکہ بہت سے لوگوں کو اپنے باپ کاپتاہی نہیں ہوتا ،جب کہ اسلامی تعلیمات کی رُوسے انسانوں میں نسب باپ کی طرف سے چلتاہے ۔ پس بیل کا بغیر سینگ کے ہونا جبکہ گائے نے اسے جنم دیا ہو ،مذہب کی رو سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔مچھلی کی مثال جنابِ خورشید ندیم نے دی ہے ، جبکہ برائلر مرغی سے مسلمانوں سمیت پوری انسانیت ایک مدت سے استفادہ کر رہی ہے ۔ 
اسلام میں جمو د نہیں ہے ، توَسُّع ہے ، چناچہ رسول اللہ ﷺ نے انسانی مفاد میں تجربات کے لیے راستہ کھلا چھوڑا ہے ، حدیثِ پاک میں ہے : رافع بن خَدِیج بیان کرتے ہیں : ''نبی ﷺ (ہجرت کر کے ) مدینے تشریف لائے تولوگ وہاں کھجوروں میں پیوند کاری کرتے تھے ، تو آپ ﷺ نے پوچھا : یہ تم کیا کرتے ہو ؟ ، انہوں نے عرض کیا : ہم یہ کام(قلمیں لگانا )کیا کرتے تھے ، آپ ﷺ نے فرمایا :اگر تم یہ نہ کرتے تو بہتر ہوتا ۔ سو انہوں نے ( قلمیں لگانا ) چھوڑ دیا ، تو درخت جھڑ گئے یا پیداوار کم ہو گئی ۔ راوی بیان کرتے ہیں : صحابۂ کرام نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا ،تو آپﷺ نے فرمایا: میں صر ف بشر ہوں ، جب میں دین کے بارے میں (جو وحی ٔ ربانی پر مشتمل ہوتاہے ) تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو اسے قبول کر لو اور اگر میں اپنی رائے سے کسی بات کا حکم دوں تو میں بشر ہوں ، (صحیح مسلم : 2362)‘‘۔ دوسری حدیث میں فرما یا : ''اگر (پیوند کاری ) ان کے لیے مفید ہے تو وہ اسے اختیار کریں ، میں نے ظن پر مبنی بات کی تھی اور ظنی (یا قیاسی ) بات پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے ، لیکن جب میں اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف منسوب کر کے کوئی بات کہوں تو اسے لازم پکڑو ، (صحیح مسلم : 2361)‘‘۔ 
اسی طرح ماضی ٔ قریب میں ایک بھیڑ کے خَلیے(Cell)سے دوسری بھیڑ ڈولی کو تخلیق کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا ۔اگر یہ دعویٰ صحیح ہے تو سوال یہ ہے کہ اس سلسلے کو آگے جاری کیوں نہ رکھا گیا ، اس کا 
سبب معلوم نہیں ہے۔تاہم اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں یہ سارے نظائر(Precedents) موجود ہیں ۔ عام سنتِ الٰہیہ یہ ہے کہ توالد و تناسل یعنی افزائش ِ نسل حیوانات میں نر و مادہ اور انسانوںمیں مرد اور عورت کے اشتراک سے وجود میں آتی ہے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام کو مرد کے واسطے کے بغیر ، حضرتِ حوا کو عورت کے واسطے کے بغیر اور حضرتِ آدم علیہ السلام کو دونوں کے واسطے کے بغیر پید ا کر کے یہ بتا دیا کہ اسباب قدر تِ باری تعالیٰ کے تابع ہیں اور اس کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ''بے شک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی مانند ہے،انہیں مٹی سے پیدا کیا ، پھر اسے فرمایا ہو جا ، سو وہ ہو گیا ، (آل عمران : 59)‘‘۔ اسی طرح فرمایا: ''اے لوگو ! اپنے اس پروردگار سے ڈرتے رہا کرو ، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا ہے اور اسی سے اس کی زوج(حوا) کو پید ا کیا اور ان دونوں سے کثیر تعداد میں مردوں اور عورتوں کو پھیلادیا ، (النساء : 01)‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے حضرتِ حوا کو آدم علیہ السلام کے وجود سے پید ا کیا اور اپنی حکمت سے اس تخلیق کی عملی صورت کو بیان نہیں فرمایا ۔ قرآن ِ مجید اصول اور کلیات بیان کرتاہے ، اس کی صورت و ہیئت کی تحدید نہیں فرماتا تاکہ آنے والے زمانے میں انسانی علم کے ارتقاء کے سبب جو بھی صورت اختیار کی جائے ،اس پر اصول کی تطبیق (Application) میں دشواری پیش نہ آئے ۔ 
جنابِ خورشید ندیم نے لکھا ہے کہ نئے علم الکلام کی ضرورت ہے ، یہ بات درست ہے ۔ اس لیے کہ انسان کے علمی ، عقلی اور فکری ارتقاء کا سفر جاری و ساری ہے ۔ فلسفۂ یونان تو اب ازکار رفتہ ہو چکا ، نئے فلسفے اور مابعد الطبیعاتی(Metaphysics) نظریے وجود میں آتے رہیں گے۔آج اباحتِ کلی (Total Permissibility) کا فلسفہ کار فرما ہے۔ انسان کے لیے کیا مفید ہے اور کیا نقصان دہ ؟ اس بارے میں مغرب کا فیصلہ یہ ہے کہ ان کی اجتماعی دانش ہی حاکم ہے ، اللہ تعالیٰ کی حاکمیتِ اعلیٰ کو انہوں نے دیس نکالادے دیا ہے ۔آج ہم جنس پرستی Homosexuality) ( ، مردوں کے باہم جنسی تلذذ(Gays)، عورتوں کے باہم جنسی تلذذ ((Lesbians) اور ہیجڑوںکے باہم جنسی تلذذ (Transgender)کو قانونی حیثیت دے دی گئی ہے ۔ قانونِ الٰہی میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ 
علم الکلام سے مراد یہ ہے کہ اسلامی عقائد پر وارد ہونے والے عقلی اور فکری اعتراضات کا ایسا مدَلّل اور مفصّل جواب دیا جائے جو ایک سلیم الفطرت اور عقلِ سلیم رکھنے والے انسان کو مطمئن کر سکے ۔جہاں تک ہٹ دھرم لوگوں کا تعلق ہے وہ ہمیشہ قاطع حجتوں کو بھی رَد کرتے رہے ہیں، عصبیتِ جاہلیہ سے کام لیتے ہوئے دینِ آباء سے جڑے رہے ہیں ، ایسے کٹ حجت اور ہٹ دھرم لوگ تاریخ کے ہر دور میں موجود رہے ہیں اور رہیں گے ۔ اسلام کے حاملین کو عقلی اور فکری جمود کا شکار نہیں ہوناچاہیے۔ اہلِ دین کو اپنے عہد کے عقلی اور فکری فتنوں اور ان کی فکری اساس کو سمجھ کر ان کا تشفی بخش جوا ب دینا چاہیے ۔ یہ بھی درست ہے کہ عقلی‘ فکری اور سائنسی ارتقاء کے اِس دور میں آیاتِ الٰہیہ کی نئی تعبیرات آتی رہیں گی ۔ ہمارا کام یہ نہیں ہے کہ نصوصِ قرآنی کو ہر دور میں سائنس کے تابع کریں بلکہ ہماری ذمے داری یہ ہے کہ یہ ثابت کریں کہ قرآن و سنت اور اصول ِ دین کا سائنس سے کوئی تصادم نہیں ہے ۔ اگر ہم آج کی کسی تعبیر کو حرفِ آخر قرار دے دیں تو کل اُس کے بر عکس بھی کوئی صورت سامنے آسکتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی تخلیقات اور اس میں سربستہ رازوں کو دریافت کرنا یا انہیں مختلف شکلیں دینا تو ممکن ہے اور یہ دین کے منافی نہیں ہے ، خلق اور ایجاد اللہ تعالیٰ کی شان ہے اور روح یا حقیقتِ حیات یہ قدرت کا راز ہے اور تاحال یہ انسانی عقل کی رسائی سے ماورَا ہے ۔ علامہ اقبال نے کہاہے: 
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید 
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کُن فیکون
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اورہم نے آسمان کواپنے دستِ قدرت سے بنایا اور ہم (ہرآن) اِسے وُسعت دینے والے ہیں، (الذاریات:47)‘‘۔سائنسدان بھی کہتے ہیں کہ ہماری کہکشاں(Glaxy) کی طرح کئی ارب کہکشائیں (Galaxies)ایسی ہیں،جو ابھی دریافت نہیں ہوئیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں