بہت سے تعلیم یافتہ حضرات شکریہ ادا کرتے وقت کہتے ہیں : ''میں آپ کا مشکور ہوں ‘‘، یہ درست نہیں ہے ، کیونکہ مشکور کے معنی ہیں :جس کا شکر ادا کیا جائے ، جس کا کسی پر کوئی احسان ہو، اس سے معنی اُلٹ ہو جاتا ہے ، اس کی بجائے : میں مُتَشَکِّر ہو ں یا میں آپ کا شکر گزار ہوں یا میں آپ کا ممنون ہوں ، کہنا چاہیے ۔ ممنون کے معنی ہیں : جو کسی کے زیرِ بار احسان ہو ، قرآن نے بندے کے مقبول عمل کو ''سعیِ مشکور ‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے ۔
ٹیلی ویژن چینلز پر سیاست دانوں اور میڈیا پر سنز کو اکثر یہی کہتے سنا ہے : ''عوام چاہتی ہے ، عوام سمجھ دار ہو چکی ہے وغیرہ ‘‘۔ اس میں لفظ عوام کو مؤنث استعمال کیا جاتا ہے ، حالانکہ عوام عام کی جمع ہے اور یہ لفظ مذکر ہے ۔یہ عربی لفظ ہے اور اس کا میم مشدد ہے، لیکن اردو میں تخفیف کے ساتھ ساکن پڑھا جاتاہے ، جیسے لفظ جِنّ ن کی تشدید کے ساتھ ہے ، اردو میں اسے تخفیف کے ساتھ بولا جاتا ہے ۔ بعض اوقات دو ہم معنی الفاظ (Synonymous)ملا کر بولے اور لکھے جاتے ہیں اور شاید اس کی حکمت یہ ہوتی ہے کہ اگر مخاطَب یا قاری ایک لفظ کے معنی کو نہ سمجھے تو دوسرے کو سمجھ لے گا، جیسے خط کتابت ، حساب کتاب ، ناپ تو ل وغیرہ، بہت سے حضرات ان کے درمیان واو عاطفہ ڈال دیتے ہیں اور یہ درست نہیں ہے ، کیونکہ عطف تغایُر (معنوی فرق) کو واضح کرنے کے لیے ہوتا ہے ، جبکہ یہاں معنی ایک ہی ہے ۔
ایک لفظ کثرت سے استعمال ہوتا ہے :ہمیں اِفہام و تفہیم سے کام لینا چاہیے ، یعنی جس چاہت سے ہم اپنی بات دوسرے کو سمجھانا چاہتے ہیں ، اسی جذبے سے دوسرے کی بات یا موقف سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ یہ مقصد تو بلاشبہ اچھا ہے ، لیکن یہ ترکیب درست نہیں ہے ، کیونکہ افہام و تفہیم دونوں ہم معنی ہیں اور وہ ہے ''سمجھانا ‘‘ ،ان دونوں کے درمیان واو کاکوئی جواز نہیں ہے۔ دراصل ترکیب یوں ہونی چاہیے: تفہیم وتَفَہُّم یعنی اپنی بات دوسرے کو سمجھانا اور دوسرے کی بات کو سمجھنا ، جیسے تعلیم و تعلُّم ، تعلیم کے معنی ہیں : پڑھانا اور تعلُّم کے معنی ہیں : پڑھنا ،یہی معنی درس و تدریس کے ہیں ۔
ہمارے ہاں اردو میں ایک جملہ استعمال ہوتاہے : مُبلِغ پانچ ہزار روپے ، اس کا صحیح تلفّظ'' مَبلَغ‘‘ ہے ، یعنی اس رقم کی انتہائی حد یہ ہے ۔ اکاؤنٹنٹ جنرل کے آفس والے اگر 4900روپے کا چیک جاری کریں، تو اس پر سرخ قلم سے کراس لکھ دیتے ہیں : Not Exceeding Five Thousandیعنی یہ رقم پانچ ہزار کے اندر اندر ہے۔ یہ خبر دار کرنے کے لیے ایک طرح کی تاکید ہوتی ہے، اس کے بر عکس مُبلِغ اور مُبلِّغ دونوں کے معنی ہیں : پیغام پہنچانے والا، ذرائع ِ اِبلاغ اسی سے بنا ہے ۔ عربی لفظ ہے: ''مَدْرَسَہْ ‘‘ پڑھانے کی جگہ ، اسکول وغیرہ۔ اردو بولنے والے قدرے تخفیف کے ساتھ ''مَدَر'سہ ‘‘ بولتے ہیں جو غنیمت ہے ، مگر پنجاب کے اہل علم بھی ''مَدْرِسَّہ ‘‘ بولتے ہیں جو غلط ہے۔ یہاں تک کہ جب دینی مدارس کے اساتذہ صَرف پڑھا رہے ہوں تو اپنے طلبہ کو پڑھاتے ہیں : دَرس کا اسم ظرفمَدْرَسَہْ ہے ، لیکن عام بول چال میں مَدرِسَّہ بولیں گے۔ تعلُّق باب تفعُّل کا مصدر ہے ، جس کے معنی ہیں : کسی کے ساتھ وابستگی ۔ پنجاب کے اہل علم جب بولیں گے تو تلفظ تعلَّق کریں گے ۔''فلاں بات مُتوقِّع ‘‘یعنی ایسا ہونے کی امیدہے ۔ مگر اردو کے اہلِ علم ''مَتَوقُع ‘‘ بولتے ہیں ،جو غلط ہے ۔
ہماری رائے میں دھماکا، راجا، پٹاخا، بھروسا،پتا (Address)، امریکا ، افریقا وغیرہ آخر میں ''ا‘‘ کے ساتھ لکھنے چاہئیں، لیکن بہت سے حضرات''ہ‘‘ کے ساتھ لکھتے ہیں جو درست نہیں ہیں۔ پَتّہ (Leaf)اورپِتّہ (Gallbladder) 'ہ‘ کے ساتھ درست ہیں۔ لفظ'' معنی‘‘ عربی لفظ ہے اور یہ معنًی ہے ، پھر تخفیف کے طور پر معنٰی بولا جا تا ہے ، لیکن بہت سے لوگ معنِیْ ''ن‘‘ کے زیر کے ساتھ بولتے ہیں ،جو غلط ہے ۔ خَلوت کے معنی ہیں : تنہائی ، یہ ''خ‘‘ کی زبر کے ساتھ ہے ، مگر لوگ اسے زیر کے ساتھ خِلوت لکھتے اور پڑھتے ہیں ۔ میں نے اردو کی ایک نصابی کتاب ، جس کے مصنفین اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں ،میں ''خ ‘‘ پر زیر کی تصریح کے ساتھ خِلوت لکھا دیکھا۔
بہت سے الفاظ ہیں جن کے آخر میں 'ہ‘ آتی ہے ، جیسے: مسئلہ ، مکتبہ ، مکہ ، مدینہ ، بارہ ، سلسلہ وغیرہ ۔ اردو زبان والے اسے 'ی ‘ کی طرف اِمالہ کے ساتھ پڑھتے ہیں ، جبکہ پنجاب والے جیسے لکھا ہے ، ویسے ہی تلفظ کرتے ہیں ، جیسے: اس سلسلَہ میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ ایک اصول یہ ہے کہ جیسے بولا جاتا ہے ، ویسے ہی لکھا جائے ، جیسے: اس سلسلے میں ، اس بارے میں ، اس مسئلے میں ، مکے مدینے میںوغیرہ ، میں نے مولانا مودودی کی تحریروں میں ایسے ہی دیکھا ہے اور انہیں اردو کا ایک ماہر نثر نگار مانا جاتا ہے ۔
مباحَثہ(Debate)عربی لفظ ہے اور ح پر زبر کے ساتھ ہے، لیکن اسے عام طور پر زیر کے ساتھ پڑھا جاتا ہے جو غلط ہے۔ یہ باب مفاعَلہ کا مصدر ہے ، جس میں ایک فاعل اور دوسرا مفعول نہیں ہوتا بلکہ جانبین اس عمل میں شریک ہوتے ہیں ، اسی وزن پر دیگر الفاظ کو بھی بالعموم درست نہیں پڑھا جاتا ، ان کا صحیح تلفظ یہ ہے، جیسے : مطالَعہ ، مناظَرہ ، مکالَمہ ، معایَنہ،مواجَہہ و مقابَلہFace to Face )یا آمنے سامنے ) ،مقاتَلہ (ایک دوسرے سے لڑنا)، معاہَدہ، معاشَرت یا معاشَرہ (مل جل کر رہنا ) مفاہَمت ، مزاحَمت (Resistance) مُلازَمت وغیرہ ، یعنی باب مفاعَلہ کے ع کے مقابل جو حرف آتاہے، اس پر زبر پڑھنی چاہیے ، جبکہ ہمارے ہاں بالعموم زیر پڑھی جاتی ہے۔ صحیح تلفظ 'د‘ کے سکون کے ساتھ ''پَروَرْد گار‘‘ ہے ،جیسے مدَدگار ، طلَب گار وغیرہ ، لوگ اسے 'د ‘ کی زیر کے ساتھ پروَرْدِگار بولتے ہیں ۔
جب ہمارے ہاںدائیں اور بائیں بازو کی نظریاتی تقسیم جاری تھی توبائیں بازو والے یاترقی پسند اپنے نظریاتی مخالفین پر'' رُجعت پسند‘‘ کی پھبتی کستے تھے، حالانکہ لفظ ِ رَجعت 'ر‘ کی زبر کے ساتھ ہے ۔ اسی طرح ہمارے ہاں Employerیا صنعت کار کو ''اجیر ‘‘ کہا جاتاہے ، یہ درست نہیں ہے ، اجیر کے معنی نوکر اور مزدور کے ہیں ، جبکہ Employerکے لیے صحیح لفظ آجر یا مُستاجِر ہے۔ ہمارے ہاں کہا جاتا ہے : فلاں نے فلاں کام اعلانیہ طور پر کیا ، یعنی اتنی جسارت کہ کھلے عام کیا ۔ یہ لفظ' ع‘ کی زبر کے ساتھ عَلانیہ ہے یعنی ظاہر و باہَر، اگر چہ معنوی اعتبار سے اِعلانیہ بھی درست ہے ۔ اسی طرح ہمارے ہاں ا ز اول تا آخِر یا لفظ بہ لفظ کے معنی میںمِن وعَن بولا جاتا ہے ، لیکن اکثر لوگ من کے ' م‘ پر زیر کی بجائے زبر (مَنْ) بولتے ہیں ، جو درست نہیں ہے۔ مَنطِق 'ط ‘ کے زیر کے ساتھ ہے، لیکن بالعموم اسے زبر کے ساتھ بولا جاتا ہے ۔ جنابِ ظفر اقبال ہماری رہنمائی فرمائیں کہ''اس کی بجائے ‘‘ فصیح ہے یا ''اس کے بجائے ‘‘ ، اسی طرح ''عرض کی‘‘ فصیح ہے یا ''عرض کیا‘‘۔ کئی حضرات'' مشائخِ عِظام ‘‘ کو 'ع ‘ کی پیش کے ساتھ بولتے ہیں ، جو درست نہیں ہے ۔ اسی طرح لفظ''کِرام‘‘ ہے ، جسے کئی حضرات 'ک ‘ کی زبر کے ساتھ بولتے ہیں ، جو درست نہیں ہے ۔ بابِ افتِعال کے وزن پر جو عربی الفاظ اردو میں رائج ہیں ، ارد و بولنے والے انہیں افتِعال کی 'ت‘ پرزیر کی بجائے زبر کے ساتھ بولتے ہیں ، جیسے : امتَحان ، انتَقال وغیرہ، جو غلط ہے ۔ ہمارے ہاں وفات یافتہ شخص کو مُتَوَفِّی بولاجاتا ہے ، حالانکہ اس کے معنی ہیں : وفات دینے والا اور وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ، صحیح تلفظ ''مُتَوَفّیٰ‘‘ ہے ، اسی طرح لوگ '' مُسمّیٰ‘‘ (Named) کو مُسمِّی لکھتے اور بولتے ہیں ، جس سے معنی اُلٹ ہو جاتے ہیں ۔لوگ مُنْتَخَبْ (Elected) کو 'خ ‘پر زیر کے ساتھ مُنْتَخِبْ(Elector) بولتے ہیں، جو کہ غلط ہے ۔ ایک جملہ ہے : فلاں شخص کَس مَپُرسی کے عالَم میں ہے ، یعنی کوئی اس کی خبر گیری کرنے والا نہیں ہے ، اس کو کئی حضرات ''کَسَمْ پُرسی ‘‘ بولتے ہیں ، جو غلَط ہے ، وزیرِ اعظم نواز شریف اکثر ''نیک نِیتی ‘‘کا لفظ بولتے ہیں ، نِیَّت عربی زبان کا لفظ ہے اور'' نیک نِیَّتی‘‘ بولناچاہیے۔ایک لفظ ہے : مَغْوی (اِغوا شدہ آدمی )، یہ 'م‘ کی زبر کے ساتھ ہے ، مگر ہمارے ہاں میڈیا والے اسے مُغوی(اِغوا کنندہ) پڑھتے ہیں جو غلط ہے۔فارسی لفظ ہے سِوُم (تیسرا ) یہ س کی زیر اور واو کی پیش کے ساتھ ہے ، ہم سب اِسے سوئم پڑھتے اور لکھتے ہیں ۔ رِسالت مآب ، یہ ت ساکن کے ساتھ ہے ، بالعموم لوگ اسے ت پر کسرہ دے کر اضافت کے ساتھ پڑھتے ہیں جس سے معنی بدل جاتے ہیں ۔ مرزا داغ دہلوی نے سچ کہا ہے :
نہیں کھیل اے داغ ! یاروںسے کہہ دو
کہ آتی ہے اُردو زَباں آتے آتے