چند روز قبل زبان و بیان کے عنوان سے ہم نے ایک کالم لکھا تھا ، جس میں تلفظ اور کتابت کی بعض اَغلاط کی طرف توجہ مبذول کرانا مقصود تھا ۔ بعض اہلِ علم اور اہلِ ذوق نے اسے پسندیدگی کے شرف سے نوازا اور اس سلسلے کو جاری رکھنے کی فرمائش کی ، چنانچہ اس فرمائش کی تعمیل میں مندرجہ ذیل گزارشات پیشِ خدمت ہیں :
صحیح تلفظ ('ت‘ کے زبر اور 'ر‘ زیر کے ساتھ ) تَجْرِبَہْ ہے ،بہت سے اہلِ علم اِسے تَجُرْبَہْ بولتے ہیں جو غلط ہے ۔ رات کے طعام کے لیے صحیح لفظ( 'ع‘ کے زبر کے ساتھ ) عَشَائِیَہْ ہے ، لوگ اسے 'ع‘ کی زیر کے ساتھ پڑھتے ہیں جو غلط ہے ۔ جس پر کوئی الزام ہے ،لیکن ابھی ثابت نہیں ہوا، وہ ('ز‘ کے زبر کے ساتھ )مُلزَم ہے ، اِسے 'ز‘ کے زیر کے ساتھ غلط بولاجاتا ہے ۔ طلاق یافتہ عورت مُطَلَّقَہْ ہے، اِسے مُطَلْقَہ کہنا غلط ہے ۔ ہمارے اہلِ اقتدار عوام کو عزیز ہموطنو ! کہہ کر مخاطَب کرتے ہیں۔ میرے نزدیک ''ہموطَن ، ہم جماعت ، ہم مسلک ، ہم مشرب ، ہم مذہب وغیرہ کا اطلاق مذکر و مؤنّث اور واحد جمع پر یکساں ہوتا ہے،اس لیے ہموطنو کہنا درست نہیں ہے، بہتر یہ ہے کہ عزیزانِ وطن یا عزیز اہلِ وطن کہہ کر مخاطَب کیا جائے ۔ اسی طرح لفظِ ''ہمشیر ‘ ‘ کا اطلاق بھی مذکر مؤنث (بہن بھائی ) پر یکساں ہوتا ہے، اس کے ساتھ ہائے تانیث ملا کر ہمشیرہ بولنا اس لیے درست نہیں کہ ہائے تانیث سے مفرد کو مؤنث بنایا جاتاہے نہ کہ مرکب کو ، جبکہ ہموطن مرکب کلمہ ہے ۔ میں نے بعض اہلِ زبان کو''میری ہمشیر ‘‘بولتے ہوئے سنا ہے۔ جُلوس اور جلسہ کے معنی بیٹھنے کے ہیں ، ہمارے ہاں بولا جاتا ہے :'' جلوس جا رہا ہے ‘‘ ، معنوی اعتبار سے یہ غلط ہے ، لیکن اردو لُغت میں : گروہ یا مَجمع کے ساتھ ساتھ چلنے پر بھی اس کا اطلاق کیا گیا ہے ۔ کیا ہمارے اہلِ لُغت Rallyکا بہتر اردو متبادل وضع کرنا پسند فرمائیں گے ،ایران میں ریلی کو ''صف آرائی کردن یا تظاہرات یا پیادہ روی ‘‘ اورعالَمَ عرب میں اسے'' مظاہرہ ضِدُّ الحکومۃ یا احتجاج علی الحکومۃ ‘‘ کہتے ہیں۔ ادیبِ شہیر جنابِ شکیل عادل زادہ کا کہنا ہے کہ مُوَرّد کلمات( یعنی دوسری زبانوں کے ایسے الفاظ جنہیں اردو میں قبول کرلیاگیاہے )کو اردو زبان والے اپنے تصرفات کے ساتھ استعمال کر سکتے ہیں اور ہندی تراکیب بھی اختیار کر سکتے ہیں جیسے : ہم نفسو! ، طالب علموں اور اہلکاروں وغیرہ ، جلوس کو ریلی کے معنی میں بولنا انہی تصرفات میں سے ہے ، آج کل کی فارسی میں ہمشیر بہن کے لیے خاص ہے اور قدیم فارسی میں ہمشیرہ کا لفظ ملتا ہے ۔ ان کے نزدیک عام لوگوں کو تلفظ میں تصرف کی اجازت دے دینی چاہیے ، لیکن اہلِ علم ، اہلِ شوق اور میڈیا کو سہل پسندی ترک کر کے صحیح تلفظ کی جُستجو جاری رکھنی چاہیے ۔
کسی تحریر کے پہلے ڈرافٹ کو مُسَوَّدہ ،فائنل ڈرافٹ کو مُبَیَّضَہ کہتے ہیں ، بعض حضرات یائے مُشدَّد کی زیر کے ساتھ یا تخفیف کے ساتھ بولتے ہیں جو غلط ہے ۔ آج کل عرب میں فائنل ڈرافٹ کو'' مخطوطہ نہائیہ ‘‘ کہتے ہیں۔صحیح لفظ مَمْلُکَت ہے ، بعض لوگ مُمْلِکَت اور بعض مُمَلکَت بولتے ہیں، جو غلط ہے ۔ ہم اُردو متبادلات وضع کرنے میں مشکل پسند واقع ہوئے ہیں ،جناب مختار مسعود نے'' لوح ایام‘‘ میں لکھا ہے کہ ایرانی متروک فیشن کو نا رواج کہتے ہیں جو نہایت سہل ہے ۔ اہل کی اضافت جب کسی چیز کی طرف ہو تو اہلِ بیت ، اہلِ ثروت ، اہلِ علم کا ترجمہ بالترتیب گھر والے ، دولت مند اور علم والے بنتا ہے ۔ یعنی اہل کا اطلاق واحد جمع پر یکساں ہوتا ہے ، ہمارے ہاں اس کی جمع اہالیان کر دی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے : اَہالیانِ محلہ یا اَہالیانِ شہر سے شرکت کی درخواست ہے ، حالانکہ اہلِ محلہ یا اہلِ شہر کہنا چاہیے ۔
ایک لفظ ہے : مُعْتَد بِہ ، اس کے معنی ہیں قابلِ اعتبار مقدار جسے ہم انگریزی میں Sizeable سے تعبیر کر سکتے ہیں ، عام طور پر اسے مُعْتَدِ بَہْ بولا جاتاہے ، جو غلط ہے ۔ جَہَنَّم نونِ مشدد کے زبر کے ساتھ ہے ، ہمارے اہلِ زبان نونِ مشدد کے زبر کو پیش سے تبدیل کر کے جَہَنُّم بولتے ہیں ، جو غلط ہے ۔ سُہُولت 'س‘ اور 'ہ‘ کی پیش کے ساتھ عربی اور فارسی لفظ ہے ، اردو لُغت بورڈ کی ڈکشنری میں ''سُہُولِیَّت‘‘بھی لکھا گیا ہے مگر فارسی لغت ''غِیاثُ اللغات ‘‘ میں اسے غلط قرار دیا گیا ہے ۔لہذا میری رائے میں اس کی جمع سُہُولیات درست نہیں ہے ، عربی میں تو مصدر کا تثنیہ اور جمع سب پر یکساں اطلاق ہوتاہے ، ہم ہندی ترکیب سے استفادہ کرتے ہوئے سہولتوں اور سہولتیں استعمال کر سکتے ہیں ۔ لفظِ سیرت عام طور پر تائے مبسوطہ(ت) کے ساتھ لکھا جاتا ہے ، لیکن صحیح رسم الخظ سیرۃ ہے ۔ بعض لوگ استفادہ حاصل کرنا بولتے ہیں ، یہ غلط ہے ، کیونکہ حاصل کرنے کے معنی خود لفظِ استفادہ میں موجود ہیں ، پس استفادہ کرنا بولنا چاہیے ۔ 'م‘ کے زبر کے ساتھ مَجاز حقیقت کی ضد ہے اور 'م‘ کے پیش کے ساتھ مُجاز کے معنی ہیں : Authorizedیا با اختیار ، بہت سے لوگ ان دونوں کلمات کو خَلط مَلط کردیتے ہیں ۔
قمری سال کے چھٹے اور ساتویں مہینے کا پہلا لفظ جُمادِی ہے اور یہ مؤنث ہے ، لہذا اس کی صفت بھی مؤنث ہونی چاہیے،یہی وجہ ہے کہ عربی میں اِن مہینوں کے ناموں کا صحیح تلفظ : جُمَادَی الاُولیٰ ا ور جُمَادَی الثَّانِیہ (یاجُمادَی الْاُخریٰ)ہے ، لیکن ہمارے ہاں جُمادِیُ الاوّل اور جُمادِ یُ الثّانی بولا اور لکھا جاتاہے جو غلط ہے ۔ لفظِ اوسَط اور وَسَط 'س‘ کے زبر کے ساتھ ہیں ،اُن کو 'س‘ کے سکون کے ساتھ بولنا غلط ہے ۔ جُمہور اور جُمہوریت ج کے پیش کے ساتھ ہے ، فارسی لُغت میں ج کے زبر کو مشہور ہونے کے باوجود غلط کہا گیا ہے ، لیکن اُردو لُغت میں 'ج‘ کے پیش اور زبر دونوں کے ساتھ لکھاگیا ہے ۔ د کے زبر کے ساتھ زَرِ مُبادَلہ صحیح ہے ، لیکن ہمارے ہاں اِسے غلط طور پر 'د‘ کی زیر کے ساتھ بولا جاتا ہے، اِسی طرح مُشَاعَرہ اور مُشاہَرہ (ماہانہ تنخواہ ) بالترتیب 'ع ‘ اور 'ہ ‘ کے زبر کے ساتھ ہیں،پس ان کو زیر کے ساتھ بولنا غلط ہے ۔ اَخلاق ، اَسرار ، اَلطاف اور اَشفاق، یہ سب ا لف کے زبر کے ساتھ درست ہیں ، لیکن بعض علاقوں میں بالعموم انہیں الف کی زیر کے ساتھ بولتے ہیں جو غلط ہے ۔ صحیح لفظ 'ز‘ کے پیش کے ساتھ تنازُع ہے ، لیکن بعض لوگ اسے ''تنازِعہ ‘‘ بولتے ہیں جو غلط ہے۔ غلط العام تمغہ در اصل تغما ہے۔ تانگا ، ڈراما ، ڈاکا ، کیمرا ، کمرا ، سمجھوتا ، مہینا ، ناکا ، پسینا ، تولا ، پیسا ، گھرانا ، سہاگا، دھبا ، گھنٹا ، رکشا ، تقاضا ، ٹھکانا ، ناشتا ، دھوکا اور چھاپا الغرض ! یہ سب الفاظ الف کے ساتھ درست ہیں ، بالعموم انہیں' ہ‘ کے ساتھ لکھا جاتا ہے ۔ اسی طرح بنگلا دیش کا پہلا لفظ بھی الف کے ساتھ درست ہے ۔ لفظ خاصا بمعنی بہت یا زیادہ الف کے ساتھ درست ہے اور خاصّہ بمعنی خصوصیت اورخاصیت 'ص ‘مشدد اور ہ کے ساتھ درست ہے۔لیے ، کیجیے ،کیے اور چاہیے کو 'ی ‘ کے ساتھ لکھنا چاہیے نہ کہ ہمزہ کے ساتھ ۔ عام طور پر ادائیگی لکھا جاتا ہے ، لیکن صحیح لفظ ادائی ہے ،اسی طرح صحیح لفظ ناراضی ہے،ناراضگی نہیں ہے۔ اس کے برعکس عمدگی ، تازگی ، شگفتگی ، بیگانگی ، پوشیدگی اور روانگی ،لکھنا اور بولنادرست ہے۔میرے نزدیک بدامنی صحیح نہیں ہے ،بے امنی لکھنا اور بولنا چاہیے ۔
''اگر اللہ نے چاہا یا اس کی مشیت ہوئی ‘‘کے معنی میں لکھنا ہو تو: ''اِنْ شَائَ اللّٰہ ‘‘ یعنی اِن ْ کو الگ لکھنا چاہیے ۔ اِ نشاء کے معنی ہیں: پیداکرنا اور اسی معنی میں ادبی شہپارے تخلیق کرنے والے کو اِنشاء پر دازکہتے ہیں۔ ایک معروف ادیب کا نام اِنشائُ اللّٰہ خاں ہے ،اس کے معنی ہیں اللہ کی مخلوق ، کیونکہ عربی زبان میں مصدر بعض اوقات فاعل یا مفعول کے معنی میں آتا ہے اور یہاں مفعول کے معنی میں ہے ۔ مَحبّت، مَشقّت ،مَضرّت ،مَسرّت ، یہ سب الفاظ 'م‘ کی زبر کے ساتھ ہیں ، لیکن لوگ بالعموم 'م ‘ پر پیش کے ساتھ پڑھتے ہیں ، جو غلط ہے ۔ مَنفَعَت کو بعض لوگ 'فا ‘کی زیر کے ساتھ بولتے ہیں ،جو غلط ہے۔ 'ص‘ کی زیر اور'ف‘ کے زبر کے ساتھ لفظ صِفَت ہے ، ہمارے پنجاب کے دوست بالعموم 'ف‘ کے سکون کے ساتھ صِفْت بولتے ہیں، جو درست نہیں ہے ۔ 'ط‘ کی زیر کے ساتھ مخاطِب مُتکلم کے معنی میں ہے اور زبر کے ساتھ مخاطَب سامع کے معنی ہیں ۔ بعض اوقات انہیں صحیح تلفظ کے ساتھ نہیں بولاجاتا۔ مَحمود ، مَحفوظ ، مَحصور(Surrounded) ، مَحروم ، مَحلول (Solution)، محظوظ (Joyful) اور مَحشر الغرض یہ تمام کلمات م کی زبر کے ساتھ ہیں لیکن اہلِ زبان 'م‘ کے زبر کوزیر کی طرف جھکا کر بولتے ہیں ،لیکن ان کے نزدیک یہ تلفظ فصیح ہے ، بلکہ ہو سکتاہے کہ ہم لوگ جو عربی میں تھوڑی سی شُد بُد رکھتے ہیں ،جب ان کلمات کو صحیح تلفظ کے ساتھ بولتے ہیں تو انہیںعجیب سا (Awkward)محسوس ہوتا ہو، کیونکہ اہلِ زبان کا تلفظ ہی معیار قرار پاتاہے ۔ایک لفظ ''شُرَحْبِیل‘‘ہے ،لیکن اسے غلط طور پر شرجیل بولا جاتا ہے اور بعض لوگ شرجیل نام رکھتے ہیں ۔ہمارے میڈیا میں Capital کودارالخلافہ بولا جاتا ہے ، یہ غلط ہے ، کیونکہ اب نظامِ خلافت موجود نہیں ہے ۔ اس کے بجائے دار السَّلطنت یا دارالحکومت یا صدر مقام بولنا چاہیے ۔ عالَمِ عرب میں عاصمہ اور ایران میں پایۂ تخت بولا جاتاہے ۔ جمیل الدین عالی مرحوم نے کہا تھا : اُردو زبان کا مستقبل اہلِ پنجاب کے ہاتھ میں ہے اور یہ بات سو فیصد درست ہے ۔چنانچہ آج کل اردو کے مایہ ناز شعرا ء ، اُدَباء ، افسانہ نویس اور ممتاز کالم نگاروں کی غالب اکثریت پنجاب سے ہے ۔ اردو اسپیکنگ قیادت کو زبان کے نا م پر صرف ووٹ درکار ہے ، شاید عوام زبانِ حال سے فریادی ہیں :'' دعائیں دو تمہیں قائد بنا دیا ‘‘۔ ویسے قائد کا ہم وزن کائد بمعنی مکار بھی ہے ، قوم کو جاننا ہو گا کہ ہماری سیاسی قیادت کے اثاثے میں کون 'ق ‘سے ہے او ر کون 'ک ‘ سے ۔ پنجاب کے بہت سے دوست عَلّامہ اقبال کے 'ع‘ کو زیر کے ساتھ بولتے ہیں، یہ درست نہیں ہے ،عَلّامہ کے معنی ہیں : بہت بڑا عالم ۔ اکثر لوگ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فلاں شخص کو بد دعا دی ، آپ ﷺ کی دعائے مبارک کے ساتھ بد کی صفت آپ کے شایانِ شان نہیں ہے ، علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں : آپ ﷺ نے فلاں کے لیے دعائے ضررفر مائی یا ان کے خلاف دعافرمائی ۔