ہیوسٹن (امریکہ) میں پاکستانی جرنلسٹ اور پاکستان کرونک کے ایڈیٹر انچیف جناب طارق خان اور النور اسلامک سنٹر آف گریٹر ہیوسٹن کے ٹرسٹی جناب اختر عبداللہ نے ایک مقامی ہال میں میرے اعزاز میں ایک استقبالیہ تقریب کا اہتمام کیا ، جس میں بڑی تعداد میں تعلیم یا فتہ حضرات اور اہلِ فکر و نظر شریک ہوئے ۔ یہ ہیوسٹن کا ایک نمائندہ اجتماع تھا اور میری گفتگو کا عنوان تھا : ''امریکہ میں مسلمانوں کا کردار ‘‘اور پھر اس کے ذیلی عنوانات تھے ۔ یہ عنوان ہمارے میزبانوں نے خود تجویز کیا تھا ۔ شرکاء میں ہیوسٹن کے مقامی علماء بھی شامل تھے۔
میں نے اپنی گفتگوجن نکات پر مرکوز رکھی ،وہ یہ تھے ۔ ایک تو یہ کہ ہم دنیا کو کتابی یا ٹیکسٹ بک یا اکیڈمک یعنی قرآن وسنت کا اسلام دکھا کر اپنی برتری ثابت کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہمارے مقابل یا ہماری مخاطَب جو دنیا ہے ، انہیں آئیڈیل یا محض Theoreticalاسلام سے کوئی غرض نہیں ہے ، ان کے نزدیک اسلام کا رو ل ماڈل یا نمونہ عملی مسلمان ، مسلم ممالک اور ہمارا نظمِ اجتماعی ہے ۔ میں نے عرض کی: جیسے ہمارا رنگ روپ قرض ہے جو ہمارے وجود کے ساتھ قائم ہے، اُسے ہمارے وجود سے جدا کر کے نہیں دیکھا جا سکتا ، یا جیسے ٹمپریچر یا درجۂ حرارت ہمارے وجود کے ساتھ قائم ہے، اسے ہمارے وجود سے جداکر کے جانچا نہیں جا سکتا۔ اسی طرح عملی اسلام بھی آج کے مسلمان کے وجود کے ساتھ قائم ہے اور اسلام کا عملی رخ یا چہرہ شناخت کرنے کا ذریعہ ہمارا انفرادی یا اجتماعی وجود اور ہمارا کردار ہے اور بعض قلیل مستثنیات کے سوا یہ کوئی زیادہ قابل رشک یا دلکش و دلرُبا نہیں ہے ۔ ہماری بے عملی یا اَخلاقی تنزّل اور نظمِ اجتماعی یا مسلم ممالک کے طرزِ حکومت (Governence)نے اسلام کے چہرے کو مسخ کر دیا ہے یا دنیا کے سامنے بے آبرو کر دیا ہے اور سونے پر سہاگہ یہ کہ اپنی بے عملی یا بداعمالیوں اور ناکامیوں کا ملبہ کسی اورپر ڈال کر ہم خود کو اپنے ضمیر کے سامنے سرخروکر دیتے ہیں ۔ قرآنِ کریم نے اسے خَدعِ نفس اور فریبِ نفس یا خود فریبی سے تعبیر کیا ہے اور رسول اللہ ﷺ تقریباً اپنے ہر خطبے میں تعلیمِ امت کے لیے فرمایا کرتے تھے : '' اے اللہ !ہم اپنے شُرورِ نفس یعنی اپنی نفسانی شرارتوں، خباثتوں اور بداعمالیوں سے تیری پناہ میں آتے ہیں ‘‘ کیونکہ آپ کا اپنا نفس ، دل و دماغ ، نطق ، نظرو سماعت سب معصوم تھے ۔
علامہ اقبال نے اسلام کے درد کو ان الفاظ میں بیان کیا :
میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روز سیاہ
خود دکھایا ہے مرے گھر کے چراغاں نے مجھے
کوئی کافر میری تذلیل نہ کرسکتا تھا
مرحمت کی ہے یہ سوغات مسلماں نے مجھے
اور فرمایا :
گلہ جفائے وفا نما جو حرم کو اہلِ حرم سے ہے
کسی بتکدہ میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ہری ہری
سو ہمارے قومی وملی امراض کے لیے نسخۂ شفا اور اکسیر خود فریبی کے بجائے خود ملامتی ، اصلاحِ نفس اور مجاہدۂ نفس ہے اور اس حقیقت کا ادراک ہے کہ ہمیں اپنے حقیقی و اجتماعی کردار کی اصلاح کر کے اسلام کے چہرے کو روشن ، دلکش اور تابناک بنانا ہے اور یہی کام سب سے مشکل ہے اور سب سے آسان کام اپنے آپ کو مستثنیٰ کر کے دوسروں پر تنقید اور ان کی تنقیص ہے اور اس کا حاصل عملِ حسنہ کے ذخیرے میں کنگال ہونے کے باوجود اپنی بچی کھچی نیکیوں کو برباد کرنا ہے ۔
دوسرا نکتہ پاکستانی کی حیثیت سے آپ کا کردار ہے ، آپ کی پاکستا ن سے وفا ، پاکستان سے محبت اور پاکستان کی فلاح و بقا کی خواہش انتہائی قابلِ قدر اور قابلِ تحسین ہے ، لیکن کیا اس کے لیے یہ ضروری ہے جو سیاسی تقسیم پاکستان میں ہے، اسے آپ اپنے اوپر بھی نافذ کرلیں ، اپنی جمعیت اور وحدت کو پارہ پارہ کردیں ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں قائم ہر سیاسی جماعت کی ذیلی شاخ امریکہ ، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں موجود ہے ۔ آپ پاکستان میں قائم اپنی پسندیدہ جماعت کو مالی وسائل ضرور فراہم کریں ، وہاں کے رفاہی ادارے جن پر آپ کو اعتماد ہے ، ان کی مالی و فنی معاونت کریں ، جیسے شوکت خانم کینسر ہاسپیٹل یا ڈاکٹر ادیب رضوی کی بے لوث سربراہی میں قائم ''سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (SIUT)‘‘ہے ۔ لیکن آپ میں سے جو لوگ امریکی قومیت اختیار کر چکے ہیں وہ اپنی افرادی قوت کو منظم کر کے یہاں کی سیاست میں اپنا مؤثر کردار ادا کریں ، پاکستان کی کسی خاص جماعت کے لیے نہیں بلکہ بحیثیتِ ریاست پاکستان کے لیے Lobyingکریں ۔ امریکہ میں مسلمانوں کی مجموعی تعداد بعض ماہرین کے بقول یہودیوں سے زیادہ ہے ، لیکن یہاں کی سیاست میں ان کا وزن اور اہمیت نہ ہونے کے برابر ہے ۔ بعض اہلِ ثروت کے ریپبلکن پارٹی یا ڈیمو کریٹک پارٹی کے ساتھ شخصی روابط بھی ہیں اور وہ ان کی انتخابی مہم میں چندہ بھی دیتے ہیں ، مگر اسے اجتماعی شکل دینے کی کوئی معمولی سی علامت بھی نظرنہیں آتی ۔ میرے نزدیک یہ انتہائی اہم اور ضروری کام ہے ، کاش کہ کوئی آگے بڑھ کر یہ مہم سر کر سکے ۔
تیسرا اہم نکتہ فروغِ علم کی تحریک ہے۔ یہاںمسلمانوں کے جوہر قابل اور ذہین و فطین (Talented)نوجوانوں کو مختلف سائنسی ، فنی ، معاشی اور انتظامی علمی شعبوں میں اعلیٰ تعلیم کی ترغیب دینا اور مواقع فراہم کرنا ہے ۔ یہاں اسکول گریجویشن کی سطح تک ایسے اعلیٰ معیاری تعلیمی ادارے قائم کرنے کی بھی ضرورت ہے ، جہاں مسلم طلبہ و طالبات کو بہترین دینی و اخلاقی ماحول میں معیاری تعلیم دی جائے ۔ امریکہ میں یہودیوں نے اپنے الگ تعلیمی ادارے قائم کر رکھے ہیں اور عیسائی مشنریز بھی تعلیم کی حد تک جڑے ہوئے ہیں اور رومن کیتھولک مسیحیوں کا Jesuitفرقہ ہے اس نے اپنے آپ کو فروغِ علم کے لیے وقف کر رکھا ہے اور ان کی اپنی یونیورسٹیاں بھی ہیں ۔
چوتھا اہم نکتہ امریکہ میں مقیم مسلمانوں کی جوان اولاد( لڑکوں اور لڑکیوں)کی شادی کا مسئلہ ہے ۔ امریکہ میں جبر تو ممکن ہی نہیں ہے ، پاکستان یا مسلم معاشرے میں اگرچہ فقۂ سلفی ، شافعی اور فقۂ جعفری میں نکاح کے معاملے میں ولی (والد یا اس کی وفات کی صورت میں دادا ) کو بالغ اولاد پر ولایتِ اجبار حاصل ہے ، لیکن اب اس پر عمل دشوار ہے ۔ فقہِ حنفی میں بالغ اولادکی رضامندی کے برعکس ولی کو ولایتِ اجبار حاصل نہیں ہے اور ان کی رضامندی ضروری ہے اور دین کی حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے ۔ لہٰذا اب والدین کو شادی کے معاملے میں اولاد کے ساتھ باہمی اعتماد و احترام کے ماحول میں دلیل و استدلال اور معقولیت کی بنیاد پر معاملات حل کرنے چاہئیں ۔ محبت کے غلبے اور جبر کے تحت شادیاں بالعموم ناکامی پر منتج ہوتی ہیں ۔ اولاد کا کوئی فیصلہ یا اقدام معقولیت پر مبنی ہوتو اسے والدین کو تسلیم کرنا چاہیے ۔ اولاد کی سعادت مندی میں فطرت سلیمہ کا بھی بڑا دخل ہے ، تاہم دینی و اخلاقی تربیت کے لیے بھی اثرات لازمی ہیں اور والدین کو اس شعبے میں اپنی ذمے داریاں پوری کرنی چاہئیں ۔ اولاد کو صرف مادّی آسائشیں فراہم کرنا یا دنیوی تعلیم پر اکتفا کرنا کافی نہیں ہے ۔ بعض روشن خیال اور لبرل علماء بھی یہاں بلائے جاتے ہیں اور موجودہ دور میں ان کے افکار کی اشاعت کا ایک مؤثر ذریعہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا بھی ہے ۔ لہٰذا مسلمان عورت کی کتابی (مسیحی یا یہودی ) مرد کے ساتھ شادی کا جواز بھی وہ فراہم کرتے ہیں اور ہم سب جانتے ہیں کہ مغربی ماحول میں پلی بڑھی نسل کو آزاد روی اور آزاد خیالی یعنی لبرل ازم کی باتیں بہت اپیل کرتی ہیں اور اس کے نتیجے میں ہمارے لوگوں کا روایتی خاندانی نظام (Family System)شکست وریخت اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے اور والدین دکھی رہتے ہیں اور بعض نفسیاتی مریض بھی بن جاتے ہیں ۔ لہٰذا علمی مذاکروں کا انعقاد بھی ضروری ہے۔
امریکہ میں ماہِ ربیع الاوّل و ربیع الثانی میں بالعموم ہر مسجد اور اسلامک سینٹر میں میلاد النبی ﷺ ، گیارہویں شریف کے اجتماعات ہوتے ہیں ، اسی طرح اپنے اپنے مواقع پر معراج النبی ﷺ اور شب برأ ت اور دیگر مقدس ایام کے اجتماعات ہوتے ہیں ، مگر ان میںبیشتر نعت خوانی اور فضائل کا بیان ہوتا ہے ، کیونکہ واعظین اور خطبائے کرام بھی لوگوں کے مزاج کی پاسدار ی کرتے ہیں ۔ میں نے تجویز پیش کی کہ ان مبارک مواقع کو دین کے بارے میں آگہی اور ضروریاتِ دین کی تعلیم کے لیے بہتر انداز میں استعمال کیا جائے ، کیونکہ ان مواقع پر لوگ اپنی فیملیز یعنی بیوی بچوں کے ساتھ آتے ہیں ،لہٰذا یہ دینی تربیت کا بہترین موقع ہوتا ہے اور اس کا بہتر استعمال ضروری ہے ۔میں خود بھی الحمد للہ علیٰ احسانہٖ اس کا اہتمام کرتا ہوں اور تقریباً اپنے ہر خطاب میں چند ضروری مسائل بیان کرتا ہوں ۔ نوجوانوں ، خواتین اور بچوں کے لیے بھی اپنی گفتگو کا ایک حصہ مختص کرتا ہوں تاکہ ان مجالس کی افادیت کو محسوس کریں اور ان میں دلچسپی لیں ۔ میرا تجربہ اس جہت سے خوش گوار ہے کیونکہ مجھے اس کا مثبت اور حوصلہ افزا Response یا Feedbackملتا ہے ۔
اظہار تشکر : نیویار ک میں میرے محبین و رفقاء جناب افضل باجوہ ، جناب خاور بیگ ، جناب نوید رضا ، ہوسٹن میں جناب اخترعبداللہ ، جناب ڈاکٹر سلیم گوپلانی ، جناب ظفر ہاشمی ، کیلیفورنیا میں جناب عارف الحق عارف ، جناب ناصر ، جناب علی خادم ، چوہدری عبدالجلیل ، قاری محمد رمضان ، مفتی قمر الحسن ، علامہ زرقانی ، علامہ مختار نعیمی ، علامہ فیضان المصطفیٰ ، علامہ منظر الاسلام ، جناب اسلم راٹھور اور جناب الطاف نور ڈیلس نے از حد محبت سے نوازا ۔ علامہ مقصود احمد قادری نے بحیثیت ِ مجموعی میرے دورے کے پروگراموں کو مربوط انداز میں منظم کیا اور ہر لمحے میرے ساتھ رہے ، جناب ڈاکٹر شہرام ملک (ٹینیسی اسٹیٹ) اور جناب ڈاکٹر خالد اعوان میرے خصوصی کرم فرما ہیں میں ان تمام احباب کا تہہ دل سے ممنون ہوں اور دعاگو ہوں ۔ ان کے علاوہ دوستوں کی لمبی فہرست ہے، سب کا معاملہ میرے اور اللہ کے درمیان ہے ۔