ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ مِن حَیثُ القوم ہم حقیقت پسند لوگ نہیں ہیں ۔ ہم میں سے ہر ایک حسبِ مراتب اپنی عصبیتوں یا خواہشات کا اسیر رہتا ہے، ایسے ماحول میں حقیقت پسندانہ تجزیہ عملاً ممکن ہی نہیں رہتا ۔ آپ میڈیا کا جائزہ لیں تو یہی حقیقت آپ کو روزِ روشن کی طرح عیاں نظر آئے گی ۔ ہماری حکومتوں کی بدعنوانی اور بے اعتدالی مُسلَّم ہے ، یہ الگ بات ہے کہ کرپشن میں ہر ایک کا گراف اپنا اپنا ہے ۔ بعض لوگ صوبۂ سندھ کو اس اعزاز میں پہلی پوزیشن کا حق دار قرار دیتے ہیں۔ جہاں تک بلوچستان اسمبلی کا تعلق ہے تو اس کے بیشتر ارکان اپنے اپنے قبیلے کے نمائندہ ہیں اوربالعموم صوبائی بجٹ اسی بنیاد پر تقسیم ہو جاتا ہے ۔ صوبے میں وسائل کی قِلّت اور پسماندگی کا رونا تو رویا جاتاہے ، لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ جو وسائل ہاتھ آئے وہ کہاں خرچ ہوئے اور بر سرِ زمین ان کے آثار کہاں پائے جاتے ہیں ۔سابق صوبائی وزیرِ اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بلوچستان کے ابتدائی بلدیاتی انتخابات7دسمبر 2013ء کو منعقد کر ا ئے لیکن ان کا اگلا مرحلہ ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد 28جنوری 2015ء کو مکمل ہوا ، تاہم انتقالِ اقتدار کی صحیح پوزیشن معلوم نہیں ہے۔اسی طرح صوبۂ خیبر پختونخوا میں سندھ اور پنجاب کے مقابلے میں بلدیاتی انتخابات پہلے یعنی 30مئی 2015ء کومنعقد ہوئے ، لیکن فعال وہاں بھی نہ ہو سکے۔ جناب عمران خان میڈیا پرتیس فیصد وسائل کی نچلی سطح تک منتقلی کی بشارتیں تسلسل کے ساتھ سناتے رہتے ہیں ، لیکن عملاً برسرِ زمین صورتِ حال دوسرے صوبوں سے مختلف نہیں ثابت ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات وہاں کے مقامی منتخب نمائندے اختیارات کی منتقلی کے لیے احتجاج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
کراچی میں رینجرز کی نگرانی میں جاری آپریشن کو صوبائی حکومت اور پیپلز پارٹی کی قیادت دل سے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ صوبائی حکومت اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتی رہتی ہے اور رینجرز کے اختیارات میںتوسیع دودھ کی بالٹی میں مینگنیاں ڈال کر کرتی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب رینجرز شہر میں ایک عرصے سے موجود ہیں تو یہ دو دو ماہ کی توسیع کے کیا معنی ہیں ؟ یہ توسیع سال یا دو سال کے لیے بھی کی جاسکتی ہے تاکہ تاجروں ، صنعت کاروں اور شہر کے مختلف طبقات میں تسلسل اور اعتماد کی صورت پیدا ہو ۔
دوسرا مسئلہ رینجرز کے اختیارا ت کا ہے ۔ ہمارا میڈیا آئین و قانون کے حوالے سے عوام النا س کو صحیح آگہی دینے کی بجائے ذہنی انتشار میںمبتلا کرتا ہے اور بیرونِ ملک پاکستانی بھی اسی کنفیوژن کا شکار ہیں ۔ ان کا خیا ل یہ ہے کہ صوبائی حکومت آئین و قانون کی خلاف ورزی کر رہی ہے ۔ میں نے امریکہ میں جذباتی پاکستانیوں کو بتایا کہ ایک چیز آئین و قانون کے الفاظ اور متن(Text) ہے اور دوسری چیزاس کی روح ، معنویت اور مقصدیت ہے ۔ سو آئین و قانون کے الفاظ کی حد تک تو صوبائی حکومت کا موقف درست ہے ، لیکن اگر ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اور دائرۂ اختیار محدود کرکے ان کودہشت گردی کو کنٹرول کرنے کا معاملہ سپرد(Entrust)بھی کر دیا جائے ، تو اس کی حیثیت پولیس جیسی ہو جائے گی اور سارا رعب و دبدبہ ختم ہو جائے گا اوراس طرح رینجرز کے اختیارات میں توسیع کا مقصد فوت ہو جائے گا ۔ سردست صورتِ حال یہ ہے کہ پولیس کا کوئی اہل کار یا افسر کسی با اختیار پر ہاتھ ڈالے تو وہ دھمکی دیتا ہے کہ میں تمہاری یونیفارم اتروا دوں گا ، لیکن رینجرز کے کسی اہلکار یا افسر کو یہ دھمکی دینے کی جسارت کوئی نہیں کرتا ، کیونکہ وہ سیاسی قیادت کو جوابدہ نہیں ہوتی بلکہ رینجرز اپنے افسرانِ اعلیٰ کو جوابدہ ہوتے ہیں ۔
دستور کا آرٹیکل 147صوبائی حکومت کو وفاقی اداروں کی خدمات حاصل کرنے کا اختیار صوبائی اسمبلی کے توسط سے دیتا ہے اور ان اختیارات کی حدود کا تعین بھی صوبائی حکومت کو عطا کرتا ہے، لہٰذا اگر دستور کے اس آرٹیکل پر لفظ بہ لفظ عمل کیا جائے تو رینجرز صوبائی حکومت کے تابع رہ کر ہی خدمات انجام دے سکتی ہے اور اس صورت میں اس کی حیثیت صوبائی پولیس کی سی ہو جائے گی، موجودہ رعب داب قائم نہیں رہے گا اور نہ ہی اس سے انہیں کوئی خاطر خواہ کامیابی ملے گی ۔ اگر فوج کو وفاقی حکومت آرٹیکل 245کے تحت صوبے میں تعینات کرتی ہے ،تو اس کے اختیارات کافی وسیع ہوں گے ، لیکن مشکل یہ ہے کہ پارلیمنٹ کا ایوانِ بالا جنابِ آصف علی زرداری کے کنٹرول میں ہے اور اس نے وفاق کے ہاتھ پاؤں باندھ رکھے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ وفاقی حکومت شدید خواہش کے باوجود پی آئی اے کو پبلک لمیٹڈ کمپنی بنانے میں دشواری محسوس کر رہی ہے ۔
مولانافضل الرحمٰن جو عہدِ حاضر کی سیاست کے استادہیں ، انہیں دونوں ہاتھوں میں لڈو رکھنے یا آگ اور پانی کے ملاپ کا فن خوب آتاہے اور سیاسی سودا کاری میں بھی ان کا جواب نہیں۔ چنانچہ وہ قومی اسمبلی میں جناب نواز شریف کے اور سینیٹ میں جناب آصف علی زرداری کے حلیف ہیں اور دونوں ایوانوں میں اپنے سیاسی حُجم کے اعتبار سے زیادہ سے زیادہ فوائد سے مستفید ہو رہے ہیں ۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ کسی حد تک یہ کام ایم کیو ایم بھی کر تی رہتی ہے ، یہ کسی حد تک بجا ہے، مگر مولانا اپنے حلیفوں کو پریشان نہیں کرتے اور مشکل میں ان کی مدد کر تے ہیں اور اپنے لوگوں میں اپنا بھرم بھی ممکن حد تک قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ، جبکہ ایم کیوایم اپنے حلیفوں کو پریشان کیے رکھتی ہے اور اس میں شاید اُنہیں لطف آتا ہے‘ لیکن اس کا منفی نتیجہ یہ بر آمد ہوتا ہے کہ ان پر آسانی سے کوئی اعتماد نہیں کرتا اور ان کا اپنا حال بھی یہی ہے کہ کسی پر اعتماد نہیں کر پاتے۔ مگر انہیں جان لینا چاہیے کہ یہ آئیڈیل ازم کا دور نہیں ہے ، مولانا کی طرح عملیت کی طرف آئیں تو کسی حد تک و ہ بھی سکون میں رہیں گے اور ان کے حلیف بھی ان پر اعتماد کر پائیں گے ۔
اس ساری گفتگو کا مدعا یہ ہے کہ ہمیں ذہنی وفکری اور عملی تضاد ات سے نکل آنا چاہیے ۔ اگر ہم نے اس بات کا ادراک کر لیا ہے کہ دہشت گردی اپنی تمام صورتوں کے ساتھ ہمارے لیے ایک عفریت بن چکی ہے اور ہماری سلامتی کے لیے خطرہ بنتی جارہی ہے اور دنیا بھی ہم پر اعتمادنہیں کر رہی ، تو ہمیں اس کے بارے میں اپنے دینی و ملّی اور قومی و ملکی مفاد کوسامنے رکھ کر واضح حکمتِ عملی بنانی چاہیے۔ اسی طرح عوام کی طرف سے تفویض کیے ہوئے حقِّ نیابت (Mandate)کی تشریح ہونی چاہیے کہ آیا یہ مینڈیٹ یا حقِّ حکمرانی قومی امانتوں کی حفاظت کے لیے ہے یا آزادانہ لوٹ مار اور لا محدود کرپشن کے لیے، سو یہ مینڈیٹ بھی ہمارے ہاں ایک ''ہَیُولیٰ ‘‘بن کر رہ گیا ہے ۔ قدیم فلسفۂ یونان میں ہَیُولیٰ سے مراد ایک ایسی مجرّد(Abstract) حقیقت ہے جو کوئی بھی صورتِ جسمیہ اختیار کر سکتی ہے ۔ پس آئین میں مینڈیٹ کی تشریح ضروری ہے تاکہ اس کی غلط تعبیر و تشریح سے نجات مل سکے۔
کراچی میں دیر پا امن تب ہی قائم ہوسکتا ہے جب کسی وفاقی ادارے کو صوبائی حکومت کی گرفت سے بالا تر رکھ کر ہر قسم کی دہشت گردی اور کرپشن پر ہاتھ ڈالنے کی اجازت دی جائے اور شرط یہ ہے کہ اس کے اپنے اہلکار بھی دیانت دار ہوں، وہ خود کو بھی آئین و قانون سے ماورا نہ سمجھیں اور وہ ان اختیارات کو کسی ناروا مالی فائدے یا بلیک میلنگ کے لیے استعمال نہ کریں ، ورنہ ہم اس محاورے کا مصداق بن جائیں گے کہ : ''بارش سے بچا اور پرنالے کے نیچے آکھڑا ہوا‘‘۔ہم سرِ دست اس حدیثِ مبارک کی وعید کا مصداق ہیں :
''جب قومی خزانے کو ذاتی جاگیر سمجھ لیا جائے اور امانت کو مالِ غنیمت سمجھ کر ہڑپ کر لیا جائے اور زکوٰۃ کو تاوان سمجھ کر دینے سے انکار کر دیا جائے اور دین کا علم دنیا کمانے کے لیے حاصل کیا جائے اور ایک شخص اپنی بیوی کا فرماں بردار اور ماں کا نافرماں ہو جائے ، اور ایک شخص دوست کو قریب کرے اور باپ کو دور رکھے اورمسجدوں میں شور وشغب برپا ہو اوربدکار شخص قبیلے کا سردار بن جائے اور کسی قوم کی زمامِ اقتدار و اختیار کمینے کے ہاتھ آجائے اور معاشرے میں کسی کی عزت اس کی صلاحیتِ شر کی باعث کی جائے اور گانا گانے والوں اور آلات لہو و لعب کا دور دورہ ہو اور شراب نوشی عام ہو جائے اور اس امت کے بعد والے اپنے پہلوں پر لعنت کرنے لگیں ، تو ایسے میں(اچھے حالات کی توقع تو دور کی بات ہے ، بس ) سرخ ہواؤں کے چلنے ، زلزلے ، زمین میں دھنسائے جانے ، صورتوں کے بگاڑے جانے اور ایسی نشانیوں کا جو ایک ٹوٹی ہوئی تسبیح کے دانوں کی طرح پے در پے گریں گی ، (یعنی آثارِ قیامت کا انتظار کرو) ، (سنن ترمذی : 2211)‘‘۔