"MMC" (space) message & send to 7575

تَسْعِیْر

عربی زبان میں ''سِعْر‘‘کے معنی نِرخ کے ہیں اور تَسْعِیْر کے معنی ہیں: قیمت مقرر کرنا۔آج کل سوال کیا جاتا ہے کہ آیا: ''اسلامی شریعت میںتاجروں کے لیے منافع کی کوئی حد مقرر کی گئی ہے ،اگر ہے تو کس قدر ؟کیونکہ بعض اوقات اشیائے صَرف کی مصنوعی قلت پیدا کر کے قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ کردیا جاتا ہے ۔بعض صورتوں میں کسی چیز کی شدید طلب کے باوجود اُسے زیادہ نفع کے لالچ میں بیرونِ ملک برآمد کردیا جاتا ہے ،اس تاجرانہ شِعار کا شرعی حکم کیا ہے ،آیا حکومت اشیائے صَرف کی قیمت مقرر کرسکتی ہے ؟‘‘
اسلام دینِ فطرت ہے ،اسلام نے کاروبار میں نفع کی کوئی خاص شرح مقرر نہیں کی ،اگر ایسا ہوتا تو خلافِ فطرت ہوتا اور بعض صورتوں میں ناقابلِ عمل ہوتااور لوگ اسلام کو دوش دیتے ۔اصولی طور پر تجارت کا مقصد نفع حاصل کرنا ہوتا ہے اورجائز طریقے سے نفع کمانا فی نفسہٖ کوئی عیب نہیں ہے ۔ تجارت ذریعۂ معاش بھی ہے ،معاشرے کی خدمت اور ضرورت بھی ہے۔ تاجر ہی وہ فرد ہے جوہنرمند، صنعت کار ، کاشتکار اور صارِف کے درمیان رابطے کاذریعہ بنتا ہے ۔اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے تجارت پیشہ طبقے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:''بہت سچے اور دیانت دار تاجر آخرت میںانبیائے کرام،صِدّیقین اور شہداء کے ساتھ ہوں گے‘‘ (ترمذی:1209)۔ اس حدیث پاک کی رُو سے تاجر کی فضیلت کا مدار دو صفات پر ہے : ایک صداقت شِعاری اور دوسری امانت داری۔اشیائے صَرف کی قیمتیں مقرر کرنے کے بارے میں حدیث میں ہے :'' (ایک بار)رسالت مآب ﷺ کے عہدِ مبارک میں اشیاء کے دام بہت زیادہ ہوگئے ،تو صحابہ نے عرض کی:یارسول اللہ! ہمارے لیے قیمتیں مقرر فرمادیجیے۔آپ ﷺ نے فرمایا:اللہ ہی (اپنے قانونِ قدرت کے مطابق)قیمتیں مقرر فرمانے والا ہے ، وہی رزق عطا فرمانے والا اور روزی میں تنگی اور کشادگی فرمانے والا ہے ۔میری خواہش ہے کہ میں اپنے رب سے اس حال میں ملوں کہ تم میں سے کوئی بھی ایسا نہ ہوجو مجھ سے جان و مال سے متعلق کسی زیادتی پراللہ تعالیٰ سے انصاف کا مطالبہ کرے ‘‘( ترمذی:1314)۔
البتہ اسلام نے کاروبار یا تجارت کو انسانیت کے لیے نفع بخش بنانے کی خاطر کچھ اصولی ہدایات دی ہیں :(1)یہ کہ مجموعی حیثیت سے معاشرے کی فلاح اور خیر خواہی پیش نظر رہے:حدیث مبارک میں ہے:''دین خیر خواہی کا نام ہے، (صحابہ بیان کرتے ہیں )ہم نے عرض کی:کس کی خیر خواہی ؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ،اس کی کتاب، اس کے رسولﷺ ،ائمہ مسلمین اور عام مسلمانوں کی خیر خواہی مراد ہے ‘‘ (مسلم: 196)۔ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کی ذات بے نیاز ہے ، وہ کسی کی خیر خواہی سے پاک وبرترہے۔ کتاب اللہ اور رسول اللہ کی خیرخواہی سے مراد اُن کی ناموس کی حفاظت اور اُن کے احکام کی تعمیل ہے ۔ امیر کی اطاعت سے مراد جائزامور میں اُس کا حکم ماننا اور ناجائز کام پر اُس کو ٹوکنا ہے۔ صحابی بیان کرتے ہیں :''ہم نے اِن شرائط پر رسول اللہ ﷺ کی بیعت کی کہ عُسر ویُسر ، راحت ومشقت سے بالا تر ہوکر اللہ کے رسول کے ہر حکم کو سنیں گے اور اُس کی تعمیل کریں گے ،خواہ ہم پر کسی کو ترجیح بھی دی گئی ہو‘‘( مسلم: 4775)۔
(2) غَرَر یعنی دھوکا دہی سے کام نہ لیا جائے۔حدیث میں ہے:''ایک شخص نے نبی ﷺ سے ذکر کیا کہ وہ خریدوفروخت میں دھوکا کھاجاتاہے،آپ ﷺ نے فرمایا:جب تم لین دین کرو تو کہہ دیا کرو کہ دھوکا نہیں ہوگا‘‘(بخاری:2117)۔یعنی اگر کسی ناتجربہ کار شخص کے ساتھ لین دین میں دھوکا ہوجائے ،تو وہ بیع سے رجوع کرسکتا ہے۔مُجَلَّۃُ الاَحْکامِ العَدَلِیَّۃ میں مادّہ :164کے تحت لکھا ہے : ''دھوکا دہی یہ ہے کہ بائع مَبِیع (Object)کے بارے میں ایسا وَصف بیان کرے ،جو در حقیقت اُس میں موجودنہیں ہے ۔ (3)یہ کہ جو مال کمایا جائے وہ فی نفسہٖ حلال ہو اور اُس کے کمانے کا طریقہ بھی حلال ہو۔(4)غَبَنِ فاحِش نہ ہو۔غَبَنِ فاحِش کی تعریف مُجَلَّۃُ الاَحْکامِ العَدَلِیَّۃ میں مادّہ 165کے تحت یہ درج ہے :''غَبن اور دھوکا یہ ہے کہ عام اَشیاء میں نفع پانچ فیصد ،حیوانات میں دس فیصد اور غیر منقولہ اشیاء میں بیس فیصد ہویا اس سے قدرے زائد ہو‘‘۔اس کی شرح میں علامہ محمد خالد الاتاسی نے لکھا ہے : ''(اس تناسب کی حکمت یہ ہے کہ)عام اشیاء کی خرید وفروخت زیادہ ہوتی ہے ،حیوانات کی متوسط ہوتی ہے اور غیر منقولہ (زمین، مکان ،دکان اور کارخانے وغیرہ)کی کم ہوتی ہے ‘‘۔غَرَر اور غَبَنِ فاحِش کا حکم مُجَلّہ میں یہ بیان کیا کہ بائِع اور مشتری میں سے کوئی دوسرے کو دھوکا دے اور یہ ثابت ہوجائے کہ بیع میں غَبَنِ فاحِش ہے ،توجس کے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے اُسے اپنے آپ کو نقصان سے بچانے کے لیے بیع کو فَسخ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ہماری رائے میں اُس عہد کے فقہائے کرام نے اپنے حالات کے مطابق نفع کی یہ حد مقرر فرمائی تھی۔ہر دور میں عام حالات میں تاجروں کے درمیان جو نفع کی شرح رائج ہو ،اُسی کا اعتبار کیا جائے گا۔ہمارے دور میں چونکہ اشیاء پیدا کرنے والوں (جیسے غلّہ، سبزیاں، پھل ،حلال جانور، انڈے وغیرہ)اہلِ صنعت وحِرفت اورحقیقی صارفین کے درمیان واسطے بہت بڑھ گئے ہیں ،اس لیے نفع کی شرح بھی بڑھ گئی ہے اور یہ بات قابلِ فہم ہے۔
رسالت مآب ﷺ کے عہدِ مبارک میں چونکہ اشیاء پیدا کرنے والے یا بنانے والے خود اپنا مال لے کر شہر میں آتے تھے اور وہاں منڈیاں یا بازار لگتے تھے (جیسے آج کل ہمارے ہاں جمعہ بازار،اتوار بازار یا بدھ بازار لگتے ہیں) مثلاًایامِ جاہلیت میں عُکاظ، ذوالمِجنّۃ اور ذوالمجاز کے بازار لگتے تھے اور دیہاتی لوگ اپنا مال براہِ راست تاجروں یا صارفین کو بیچتے تھے ۔اس طرح باہر سے آنے والے دیہاتی کو اپنے مال کی مناسب قیمت مل جاتی تھی اور تاجر یا صارِف کو تجارت کے فطری اصول کے مطابق صحیح قیمت پر مال مل جاتا تھا ۔
اسی حکمت کے تحت رسول اللہ ﷺ نے ''تَلَقَّی الْجَلَب‘‘اور ''بَیْعُ حَاضِرٍلِلْبادِی‘‘کی ممانعت فرمائی تھی کہ شہری تاجر شہر سے باہر جاکر تجارتی قافلوں سے خریداری نہ کریں،کیونکہ باہر سے آنے والے دیہاتی یاتجارتی قافلے کو شہر میں کسی چیز کی طلب یا قِلّت کے بارے صحیح معلومات نہیں ہوتی تھیں،اِسی کو شریعت نے ''سَدِّ ذَرائِع‘‘سے تعبیر کیا ہے۔الغرض اسلام نے ناجائز منافع خوری کے طریقوں کو بند کیا۔رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:''شہری دیہاتی کا ایجنٹ بن کر بیع نہ کرے ،لوگوں کواُن کے حال پر چھوڑدو، اللہ تعالیٰ بعض کو بعض کے ذریعے رزق عطا فرماتا ہے‘‘(صحیح مسلم:3824)۔علامہ برہان الدین مَرغینانی نے لکھا :''شہری کی دیہاتی کے لیے بیع اُس وقت منع ہے ،جب شہر میں کسی چیز کی قِلّت ہواور اُس کی شدید ضرورت ہو،اُس وقت ایجنٹ بن کر بیع کرنا قیمت کو بڑھانا ہے اور اِس میں شہر والوں کا نقصان ہے ۔لیکن اگر حالات نارمل ہوں تو کوئی حرج نہیں ،کیونکہ اِس میں کسی کو نقصان نہیں ہے‘‘ (ہدایہ، ج: 5، ص:141)۔آج کل بڑے تاجر موقع پر جاکر مال خریدتے ہیں ، بعض صورتوں میں وہ کئی سال کے لیے باغات کی پیداوار کا پیشگی سودا کرلیتے ہیں، جو شرعاً منع ہے ۔ اور شہر میں آنے والا مال آڑھتیوں اور کمیشن ایجنٹوں کے ذریعے منڈیوں میں تھوک کے حساب سے فروخت ہوتا ہے اور پھر خوردہ فروش(Retailer)اُن سے خرید کر شہروں میں فروخت کرتے ہیں ۔ شہر بہت پھیل چکے ہیں اور آبادی بہت بڑھ چکی ہے ،اس لیے ہر کاشت کار ،باغبان،مویشی بان اور اہل صنعت وحِرفت کی شہر کی منڈیوں تک رسائی آسان نہیں ہے اور بڑی مچھلیاں آسانی سے چھوٹی مچھلیوں کو نگل لیتی ہیں۔ عالَمی سطح پر کارپوریٹ کلچر نے اِجارہ داریاں قائم کر رکھی ہیں۔ بعض اوقات ذخیرہ اندوزی کر کے یا مارکیٹ میں مال کی رَسَد کو روک کر مصنوعی طریقے سے طلب بڑھائی جاتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''تاجر خوش بخت ہے اورذخیرہ اندوزی کرنے والا ملعون ہے‘‘ (سنن ابن ماجہ: 2153)۔ ذخیرہ اندوزی کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ایک خاص شعبے سے تعلق رکھنے والے ساہوکار منصوبہ بندی کے ساتھ (Cartel)بناکر اشیائے صَرف کی ذخیرہ اندوزی کریں ،طلب بڑھانے کے لیے رَسَد روک دیں ،یہاں تک کہ غیر فطری انداز میں قیمتیں انتہائی بلند سطح پر چلی جائیں اور پھر عام لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاکر اپنی تجوریاں بھریں ۔ماضی میں کبھی شَکر، کبھی دوائوں کی قیمتیں مصنوعی طریقے سے بڑھائی جاتی رہی ہیں ۔ اِسی طرح اگر بیرونِ ملک کسی چیز کی طلب بڑھ جائے تو سنگ دل تاجر اپنے عوام کو ترستا چھوڑ کر اُس مال کو برآمد کرکے کئی گنانفع کماتے ہیں ۔
ایسے حالات میں حکومت کا کام مارکیٹ میں طلب ورَسَد کو نظم وضبط میں لانایعنی ریگولیٹ کرنا اور متوازن رکھنا ہوتا ہے ۔ تنویر الابصارمع الدر المختار میں ہے:''جب تاجر قیمت میں تجاوز کر کے غیر معمولی کمی بیشی کریں توحکومت ماہرین کے مشورے سے قیمت مقرر کرے اور امام مالک نے کہا:حاکم کی ذمے داری ہے کہ وہ مہنگائی کے زمانے میں پرائس کنٹرول کرے،لیکن یہ احتیاط ملحوظ رہے کہ کسی فریق پر ناروازیادتی نہ ہو‘‘(رد المحتار ،ج :9، ص:488)۔ لیکن اِس ضمن میں حکومتوں کی ناکامی کی چند وجوہ ہیں :
(1) حکمران خود کسی کاروبار سے وابستہ ہوجائیں(2)بڑے کاروباری طبقے اُنہیں انتخابات میں غیر معمولی فنڈدیں اور وہ اقتدار میں آنے کے لیے اُن کے ممنونِ احسان ہوجائیں ،جیساکہ لینڈ مافیا ہمارے ہاں ایک موثر طبقہ بن چکا ہے (3)حکمران رشوت لے کر عوام کی فلاح سے لا تعلق ہوجائیں اور ناجائز منفَعَت کو ترجیح دیں (4)قانون اس طرح لچک دار ہوکہ موم کی ناک بن جائے اور با اثر لوگ اعلیٰ قانونی ماہرین کی مدد سے عدالتوں کے ذریعے اپنے حق میں فیصلے کرائیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت اعلیٰ وکلاء کا طبقہ اپنی پیشہ ورانہ مہارت کی وجہ سے اشرافیہ کا حصہ بن چکا ہے اور اُن کے مفادات کا نگہبان ہے۔ بعض صورتوں میں حکومتیں اشیائے صَرف کے نِرخ مقر رکرتی ہیں ،لیکن مارکیٹ میں اُن نِرخوں پر اشیاء دستیاب نہیں ہوتیں، کیونکہ رَسَد پر حکومت کا کنٹرول نہیں ہوتا اور حکومت نچلے طبقات کے لیے زرِ تلافی (Subsidy)بھی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتی ،کیونکہ عالَمی قرض دہندہ ادارے یعنی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک اُن کو اس کی اجازت نہیں دیتے ۔انسانیت کی بد قسمتی یہ ہے کہ اس وقت دنیا پر انتہائی سنگ دل سرمایہ دارانہ نظام کا کنٹرول ہے اور حکومتیں اُن کے مفادات کی محافظ ہیں۔سوویت یونین کے زوال اور چین کے بتدریج سرمایہ دارانہ نظام کی طرف میلان نے سرمایہ دارانہ نظام کے لیے خطرات کو معدوم کردیا ہے ۔ مسلم ممالک بھی بحیثیتِ مجموعی غلامی کے بندھنوں میں جکڑے ہوئے ہیں ،اس لیے حقیقی معنی میں اسلامی نظامِ معیشت کا کوئی نمونہ یا مظہر دنیا کے سامنے موجود نہیں ہے ۔ اسلامی بینکاری نے سود کا متبادل میکنزم تو کسی حد تک پیش کیا ہے ،لیکن اسلامی فلاحی معیشت کی صورت گری نہیں کی، کیونکہ منافع کی شرح مقرر کرنے پر بحیثیتِ مجموعی سودی نظام معیشت کو کنٹرول حاصل ہے اور وہی رجحان ساز ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں