اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :''(لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا:)اے میرے پیارے بیٹے!تم نماز کوقائم رکھواور نیکی کا حکم دواور برائی سے روکواورتم پر کوئی مصیبت آئے تو اُس پر صبر کرو ،بے شک یہ بڑی ہمت کے کام ہیں اور ازراہِ تکبّر لوگوں سے روگردانی نہ کرو اور زمین میں اِتراتے ہوئے نہ چلو ،بے شک اللہ کسی اِترانے والے متکبر کو پسند نہیں فرماتا اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرو اور اپنی آواز کو پست رکھو ،بے شک تمام آوازوں میں سب سے بری آواز گدھے کی ہے ، (لقمان:17-19)‘‘۔اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں نماز کے لیے اقامت کا کلمہ ارشاد فرمایا ہے ،مفسرین کرام نے بتایا کہ اس میں دو معانی مستور ہیں :ایک نماز کو پابندی کے ساتھ ادا کرنا ، ایسا نہیں کہ جی چاہا تو پڑھ لی ورنہ نہ پڑھی۔دوسرا نماز کے تمام ارکان ،واجبات، سُنَن اور مستحبات وآداب کی پوری پوری رعایت کرنا اور تمام مفسدات اور مکروہات سے نماز کو پاک رکھنا،یعنی نماز کو حُضوریٔ قلب ،خَشیَتِ الٰہی اور خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کرنا ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:''بے شک وہ مومن کامیاب ہوئے، جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں ، (المومنون:1-2)‘‘۔یعنی نماز کی ادائیگی کے دوران اُن کے دل خَشیَتِ الٰہی اور بارگاہِ الٰہی میں حضوریٔ قلب سے لبریز ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس منافقین کی نماز کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:''بے شک منافقین (اپنے زعم میں) اللہ کو دھوکا دے رہے ہیں حالانکہ (درحقیقت) وہی اُنہیں دھوکے کی سزادینے والا ہے ، اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو سُست روی کے ساتھ (محض) لوگوں کو دکھانے کے لیے کھڑے ہوتے ہیںاوروہ اللہ کا ذکر بہت کم کرتے ہیں، (النساء: 142)‘‘۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا :''نماز اور صبر کے ذریعے (اللہ کی) مددمانگو اور بے شک نماز گراں گزرتی ہے ،سوائے اُن لوگوں کے کہ جن کے دل اللہ تعالیٰ کے حضورجھکے ہوئے ہیں ،یہ وہ لوگ ہیں جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ انہیں (قیامت کے دن )اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے اور وہ اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے ، (البقرہ:45-46)‘‘۔
اس کے بعدحضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو اَمْر بِالْمَعْرُوْفِ اورنَہِی عَنِ الْمُنْکَر یعنی نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کی تاکید فرمائی۔ قرآن مجید نے نہایت بلاغت کے ساتھ نیکی کے لیے معروف کا کلمہ ارشاد فرمایاہے۔ معروف کے معنی ہیں:وہ چیز جو فطرتِ سلیمہ کے لیے مانوس ہو ،جانی پہچانی ہو ،عقلِ سلیم اس کی طرف مائل ہو اور اُسے قبول کرے،یعنی جس طرح بھوکا انسان کھانے کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے اور پیاسا انسان پانی کی طرف لپکتا ہے اوریہ طبعی تقاضابے اختیار ہوتا ہے ۔اسی طرح پاکیزہ فطرت انسان اپنے ذہن کو نیکی کے لیے آمادہ پاتا ہے۔ یہ کلمہ خیر کی تمام چھوٹی بڑی صورتوں اوراقدار پر محیط ہے۔اسی طرح قرآن کریم نے معصیت کی ہر صورت کے لیے مُنکَر کا کلمہ استعمال کیا ہے۔مُنکَر کے معنی ہیں:ہر وہ چیز جوپاکیزہ فطرت اور عقلِ سلیم کے لیے ناآشنا ہو ،اجنبی ہو،انسان کی فطرت اس سے تنفُّر کرے، کراہت اور بے قراری محسوس کرے ۔ پس مُنکَر معصیت کی تمام چھوٹی بڑی صورتوں اور اعمال پرمحیط ہے، حتیٰ کہ شرک بھی معصیت کی انتہائی قبیح صورت ہے۔ یہ دو کلمات دین کی تمام تعلیمات کا،خواہ ان کا تعلق قول و فعل سے ہویاقلب سے، احاطہ کرتے ہیں۔
اسی لیے قرآنِ مجید نے اَمْر بِالْمَعْرُوْفِ اورنَہِی عَنِ الْمُنْکَرکوامتِ مسلمہ کا شِعار قرار دیا ہے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''جو امتیں (وقتاً فوقتا)لوگوں (کی ہدایت ) کے لیے ظاہر کی گئی ہیں،تم اُن سب میں سے بہترین امت ہو ،تم (لوگوں کو)نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہواور تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو، (آل عمران:110)‘‘۔اللہ تعالیٰ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو رسول اللہ ﷺ کے وصفِ کمال کے طور پربیان فرمایا،ارشاد ہوا:''(موسیٰ علیہ السلام نے التجا کی)اے اللہ! ہمارے لیے اس دنیا میں بھلائی لکھ دے اور آخرت میں بھی،بے شک ہم نے تیری طرف رجوع کیا ہے ،(اللہ نے)فرمایا:میں جسے چاہتا ہوں اُسے اپنا عذاب پہنچاتا ہوں اور میری رحمت ہر چیز پر محیط ہے ،پس عنقریب میں اِس (دنیا اور آخرت کی بھلائی)کواُن لوگوں کے لیے لکھ دوں گاجو گناہوں سے بچے رہیں گے اور زکوٰۃ دیتے رہیں گے اور ہماری آیتوں پر ایمان لائیں گے ،وہ اُس عظیم رسول نبی اُمّی کی پیروی کریں گے ،جس کو وہ اپنے پاس (پہلے ہی)تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں ،وہ اُن کو نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے اور پاکیزہ چیزوں کو اُن کے لیے حلال اور ناپاک چیزوں کو حرام قرار دیں گے اوروہ اُن کے(فاسد عقائد واعمال کے)بوجھ اور اُن کے گلوں میں پڑے ہوئے (باطل روایات کے) طوق کواتارپھینکیں گے ،پس جو لوگ اُن پر ایمان لائے اور اُن کی تعظیم کی اور اُن کی نصرت وحمایت کی اوراُس نورِ (ہدایت)کی پیروی کی جو اُن کے ساتھ نازل کیا گیا ہے، (درحقیقت)وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ، (الاعراف: 156۔157)‘‘۔ اِن آیات مبارکہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے لیے جس انعام کی دعا کی ، اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ وہ میں نے اپنے نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت کے لیے پہلے ہی مقدرفرمادی ہے۔
صبر کے معنی ویسے تو ضبطِ نفس کے ہیں ،یعنی اپنے نفس کو قابو میں رکھ کر شریعت کے جادۂ مستقیم پررواں دواں کرنا اور معصیت کی ہر اُس صورت سے کہ جس کی طرف نفس مائل ہو، اُسے روکے رکھنا، قرآنِ مجید میں اِسے اولو ا لعزم انبیاء کا شِعار قرار دیا گیا ہے۔آج بھی شیطان کی تمام ترغیبات نفسِ امّارہ کو دامِ تزویرمیں پھنسانے کے لیے ہیں ،اگر الیکٹرانک میڈیا سے اِن شیطانی ترغیبات کی نفی کردی جائے ،تو یک دم سارا کاروبار ٹھپ ہوجائے۔
حکیم لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا:''(ازراہِ تکبر)لوگوں سے رُخ نہ پھیرو‘‘۔تکبر اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے ، کیونکہ''اَلْمُتَکَبِّر ْ‘‘ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور کبریائی اُسی کے شایانِ شان ہے۔ علامہ اقبال نے کہا ہے ؎
سروری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حُکمراں ہے اک وہی، باقی بُتانِ آزری
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:''قیامت کے دن تکبر کرنے والوں کی شکل انسانوں جیسی ہوگی ،مگر انہیں چیونٹیوں کی طرح چھوٹا کر کے اٹھایا جائے گا،اُن پر ہر طرف سے ذلّت چھائی ہوئی ہوگی ،انہیں ہنکا کر جہنم کے ایک قید خانے میں لے جایا جائے گا ،جس کا نام ''بُولُس‘‘ ہے، اُن پرشدیدترین آگ کے شعلے بلند ہوں گے،انہیںزہر آلود مٹی سے ملی ہوئی جہنمیوں کے زخموں کی پیپ پلائی جائے گی،(ترمذی:2492)‘‘۔ قرآنِ کریم میںبارہابیان کیا گیا ہے کہ بارگاہِ الٰہی سے شیطان کے دھتکارے جانے کا سبب اُس کا تکبّر تھا۔ حدیثِ قدسی میں ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:''کِبریائی میری رِداہے اور عظمت میری شان ہے ،سو جو کوئی میری اِن صفات کے بارے میں مجھ سے تنازُع کرے گا ، میں اُسے جہنم میں داخل کردوں گا،(صحیح مسلم:2023)‘‘۔ حدیثِ پاک میں بتایا گیا کہ''تکبّر عمدہ لباس پہننے یا باوقار وضع قطع اپنانے کا نام نہیں ہے بلکہ تکبر اِترانے اور اپنے مقابلے میں لوگوں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے ،(صحیح مسلم :147)‘‘۔
حکیم لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا:''زمین میں اِترا کر نہ چلو ،بے شک اللہ تعالیٰ اکڑنے والے متکبر کو پسند نہیں فرماتا اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرو اور اپنی آواز کو پست رکھو، بے شک سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہے‘‘۔چال ڈھال میں تکبرانسان کے انداز سے جھلکتا ہے ،اس کے لیے کوئی خاص وضع یا رفتار متعین نہیںہے ،حدیث مبارک میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ تیز چلا کرتے تھے اور صحابۂ کرام کو آپ کی رفتار کا ساتھ دینا مشکل ہوجاتا ۔صحابۂ کرام کومحسوس ہوتا کہ آپ کے لیے مسافت کو لپیٹا جارہا ہے۔الغرض رفتار کی کمی یا بیشی انسان کے حالات اور وقت کی ضرورت پر منحصر ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''جس نے اپنے کپڑے کو ازراہِ تکبّر (ٹخنوں سے نیچے )لٹکایا ،اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس کی طرف نظرِ(رحمت) نہیں فرمائے گا ۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی:(یارسول اللہ!) کبھی کبھی میرا تہبند نیچے لٹک جاتا ہے ،سوا اس کے کہ میں اُس کا خیال رکھوں ،آپ ﷺ نے فرمایا: تم اُن لوگوں میں سے نہیں ہوجو ازراہِ تکبر ایسا کرتے ہیں ،(صحیح بخاری:3665)‘‘۔اگر کسی دینی حکمت کے تحت کوئی اِترا کر چلے تو یہ پسندیدہ صفت ہے اور حدیث پاک میں ہے : ''حضرت ابودُجانہ سُرخ پرچم لے کر میدانِ جنگ میں اِترا کر چلنے لگے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:یہ میدانِ جنگ میں جائز ہے ،عام حالات میں جائز نہیں ہے ‘‘۔اسی طرح طواف میں رَمل کیا جاتا ہے اور سعی کے دوران ایک خاص مقام پر تیز چلنے کا حکم ہے ،چونکہ یہ شریعت کا حکم ہے ، اس لیے یہ تکبّر یا اِترانے کے ذیل میں نہیں آتا۔ مومن کی چال میں بھی تواضع ہونی چاہیے ،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''اللہ کے (محبوب )بندے وہ ہیں جو زمین پر نرمی (تواضع)کے ساتھ چلتے ہیں،(الفرقان:93)‘‘۔ یعنی اہلِ ایمان کی گفتار ،چال ڈھال ، وضع قطع اور ہرادا میں تواضع ہونی چاہیے۔مومن کو عُجب،تکبر واستکبار اور تعلّی وتفاخُر کا مَظہر نہیں بننا چاہیے۔
اِسی طرح آواز کو بھی پست رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ،بلا ضرورت چیخنا چلّانا پسندیدہ صفت نہیں ہے اور اِسی لیے ناپسندیدہ انداز میں چیخنے چِلّانے کو گدھے کی آواز سے تشبیہ دی گئی ہے ،جوکہ ناپسندیدہ ہے۔چنانچہ رسول اللہ ﷺ کا اندازِ گفتار اور شعارِ خطابت بھی متانت ، وقار اور مزاج میں ٹھہرائو کا مَظہر تھا۔