اس خطے کے مسلمانوں کے لیے بالخصوص اور مسلمانانِ عالَم کے لیے بالعموم اسلامی جمہوریۂ پاکستان کی ریاست اللہ تعالیٰ کی بے پایاں نعمت ہے اور اس کا جتنا بھی شکر بجا لایا جائے ،کم ہے ۔بہت سی کمزوریوں کے باوجود پاکستان اسلامی دنیا کی سب سے بڑی اور سب سے مؤثر عسکری قوت ہے ۔پاکستان جوہری صلاحیت کے حامل ملک کے طور پر اب عالمی سطح پر تسلیم کیا جارہا ہے اوراب عالمی جوہری تحفظ کی پالیسی کا شراکت دار تسلیم کیا جانا یقینا غیر معمولی بات ہے۔پاکستان کاجغرافیائی محلِ وقوع(Geo Strategic Position) بھی قدرت کی ایک نعمت ہے ،حالات جیسے بھی ہوںاس قدرتی عطیے کودنیا کی کوئی طاقت پاکستان سے چھین نہیں سکتی۔ پاکستان باقی دنیا اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے درمیان عالمی روابط اورتجارت کا مرکز اور گزرگاہ بننے کی امکانی صلاحیت (Potential) رکھتا ہے،اور اب یہ اُن کی معیشت اور عالمی روابط کے لیے مَدخَل (Entrance)اور مَخرَج(Exit)بننے کے لیے ناگزیر بنتا جارہا ہے۔اگر قدرتی گیس کی رَسَد کا تاپی (ترکمانستان، افغانستان ،پاکستان ،انڈیا)اورپاک ایران منصوبہ کامیابی کے ساتھ پایۂ تکمیل تک پہنچ جاتا ہے ،تو ہندوستان کی گھریلو اور صنعتی ضروریات کے لیے توانائی کا انحصار پاکستان پر ہوجائے گااور اُسے اپنے مفاد میں تعلقات کو پرامن رکھنا پڑے گا۔ ہندوستان اور چین کی آویزش نے بھی پاکستان کی اہمیت کو دوبالا کردیا ہے۔ سی پیک منصوبے یعنی پاک چائنا اقتصادی شاہراہ پر عملی پیش رفت نے دنیا کو حیرت زدہ کردیا ہے ،بالخصوص ہندوستان اس پرشدید اضطراب کا شکار ہے اور امریکہ اور اہلِ مغرب بھی اِسے عالمی معیشت پر اپنی بالادستی کی راہ میں ایک حقیقی چیلنج سمجھتے ہیں ۔ اُن کوبجا طور پر اندیشہ ہے کہ اس کے ذریعے چین ایک بڑی اقتصادی قوت کے طور پر سامنے آئے گا اور بہت سے امور میں دنیا پر امریکہ اور اہلِ مغرب کی بالادستی کا خواب بکھرسکتا ہے۔چین نے ترقی یافتہ ٹیکنالوجی کو نقل کرنے میں مہارت حاصل کرلی ہے اور بہت ممکن ہے کہ وہ مستقبلِ قریب میں اس میںخود کفیل ہوجائے ،اس طرح وہ عالمی سطح پر دفاعی سازوسامان کی مارکیٹ میں امریکہ اور اہلِ مغرب کا طاقت ور حریف بن کر ابھر سکتا ہے ۔
سی پیک منصوبے کے حوالے سے ہندوستان کا اضطراب قابلِ فہم تھا ،لیکن ہمارے دوست مسلم ممالک متحدہ عرب امارات اور ایران کا اضطراب ناقابلِ فہم اور کافی حد تک تکلیف دہ ہے ۔ایران پاکستان کاپڑوسی بھی ہے اور مسلم ملک ہے،لیکن ایران کے ساتھ کبھی بھی پاکستان کے تعلقات مثالی نہیں رہے ،ایران کی پاکستان کے ساتھ تجارتی شراکت نہ کبھی غیر معمولی اہداف حاصل کر پائی ہے اورنہ ہی اس کے اعداد وشمار کبھی قابلِ رشک سطح تک پہنچ پائے ہیں۔ماضی میں ادارۂ علاقائی تعاون برائے ترقی یعنی پاکستان ،ایران اور ترکی کے درمیان آر سی ڈی کا ادارہ وجود میں آیا ،اُسے معاہدۂ استنبول کا نام دیا گیا اور اُس کا باقاعدہ سیکرٹریٹ بھی تہران میں قائم کیا گیا ، لیکن نہ تویہ ادارہ کبھی حسبِ توقع فعال ہوسکا اورنہ ہی ایران نے اس میں خاطر خواہ دلچسپی لی،یہاں تک کہ ایران کے 1979کے مذہبی انقلاب کے بعد اِسے تحلیل کردیا گیا ۔ایران تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کا رکن ہے،لیکن پاکستان کی ایران کے ساتھ اس حوالے سے بھی کاروباری شراکت کبھی بھی قابلِ رشک نہیں رہی ۔مفکرِ پاکستان اور ملتِ اسلامیہ کی وحدت کا خواب دیکھنے والے علامہ اقبال ایران کے دارالحکومت تہران کو جنیوا کے متبادل ملتِ اسلامیہ ہی نہیں بلکہ عالمِ مشرق کامرکز بننے کا خواب دیکھتے رہے اوریہ توقع قائم کی کہ اگر ایسا ہوجائے تو شاید پوری دنیا کی تقدیر بدل جائے اورتہران کے مرکز بننے سے امریکہ اور اہلِ مغرب کا تسلط اقوامِ مشرق پر قائم نہ رہ سکے،وہ جمعیتِ اقوامِ مشرق کے عنوان سے لکھتے ہیں:
پانی بھی مسخّر ہے ، ہوا بھی ہے مسخّر
کیا ہو جو نگاہِ فلکِ پِیر بدل جائے
دیکھا ہے ملوکیتِ افرنگ نے جو خواب
ممکن ہے کہ اُس خواب کی تعبیر بدل جائے
طہران ہو گر عالَمِ مشرق کا جنیوا
شاید کُرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے
لسانی اور تہذیبی اعتبار سے ہمارا رشتہ ایران کے ساتھ بہت قدیم ہے ،کافی عرصے تک مسلم ہندوستان کی سرکاری اور دفتری زبان فارسی رہی۔ہماری درسیات ،ادبیات اور شاعری پر فارسی کا نقش بہت گہرا ہے ،ہمارے بہت سے دینی اکابر اس خطے سے تعلق رکھتے ہیں۔لیکن قیامِ پاکستان کے بعد اہلِ فارس کے ساتھ ہمارا قُربت اور باہمی اعتماد کا مستحکم رشتہ قائم نہ ہو سکا، سو یہ روابط ایک خاص سطح سے آگے نہ بڑھ سکے۔ایران کے 1979ء کے مذہبی انقلاب کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ علامہ اقبال کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوجاتا، لیکن ہوا یہ کہ عراق ایران جنگ مسلط کردی گئی اور اُس کے بعد ہمارے ملک میں مسلکی بنیاد پر ایک پراکسی وار یعنی بالواسطہ جنگ برپا کردی گئی ،ایک گروہ کے پیچھے ایران اوردوسرے کے پیچھے سعودی عرب اور بعض عرب ممالک کا ہاتھ نظر آیا،لیکن اُن کا صرف سرمایہ تھا،ایندھن ہمارے لوگ بنتے رہے ۔ہمارے ہاں ایک شِعار یہ بھی ہے کہ حقائق سے آنکھیں چرائی جاتی ہیں اورسچ پر پردہ ڈال کر وقت گزاری سے کام چلایا جاتا ہے ،کیونکہ سچ بولنے سے اس محاذ آرائی کے دونوں فریق شدید ناراض ہوجاتے ہیں ۔لیکن شتر مرغ کے ریت میں منہ چھپانے سے آنے والا طوفان ٹلتا نہیں ہے ،وہ آکر رہتا ہے اور اُس کے دامن میں جو تباہی اور بربادی ہوتی ہے ،وہ اپنا اثر دکھاکر رہتی ہے ۔
ایران ہماری بہ نسبت ہمیشہ ہندوستان کے قریب رہا ،لیکن یہ توقع نہیں تھی کہ وہ اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف جاسوسی کا مرکز بنانے ،انٹیلی جنس نیٹ ورک پھیلانے اور پاکستان کی شکست وریخت کے لیے استعمال ہونے دے گا۔ ہندوستانی جاسوس کلبھوشن یادو کے انکشافات نے پوری پاکستانی قوم اور اہلِ نظر کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔وہ مصلحتاً خاموش ہیں اور ریاستی سطح پر جس ردِ عمل کا مظاہرہ ہونا چاہیے، وہ نہیں ہوپایا ۔بلوچستان میں ہندوستان کا تخریبی نیٹ ورک ایران کی معاونت یا صَرف نظر کیے بغیر قائم ہونا ممکن ہی نہیں ہے، اب یہ کھلا راز ہے کہ بلوچستان کے ریاست سے برسرِ پیکار علیحدگی پسند قوم پرست عناصر کو ایران اور دبئی سے انگیخت ملتی ہے اور وہیں سے مالی وسائل اورتخریبی اسلحے کی ترسیل بھی ہوتی ہے،اسی طرح بوقتِ ضرورت ہندوستانی جاسوسوں کو محفوظ کمین گاہ بھی وہیں دستیاب ہوتی ہے ۔وقت آگیا ہے کہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جائے ،اولوالعزم اور مِلّی حمیت سے آراستہ قیادت وہ ہوتی ہے جو حقائق کا سامنا کرتی ہے ،خطرات کا بروقت ادراک کر کے اُن کا مقابلہ کرتی ہے ۔دوستی کی اہمیت مسلّم ہے ،لیکن ملک وقوم کی سلامتی کی قیمت پر اِسے گوارا نہیں کیا جاسکتا۔ آج کل کوئی راز ،راز نہیں رہتا ،یہ میڈیا اور اطلاعات کے سیلاب کا دور ہے ،کہیں نہ کہیں سے کوئی نہ کوئی روزن کھلا رہ جاتا ہے اور حقائق رِس کر باہر نکل آتے ہیں۔
میں سابق تحریکِ جعفریہ حال ملتِ اسلامیہ کے سربراہ علامہ سید ساجد حسین نقوی سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ تمام مسالک کے سرکردہ علماء کا ایک وفد لے کر ایران جائیں اور ایران کے رہبر جناب آیت اللہ خامنہ ای اور صدرجنابِ حسن روحانی سے ملاقات کا اہتمام کریں اور اُن سے گزارش کریں کہ اس حوالے سے ایران اپنی پوزیشن کی وضاحت کرے ۔ اگرچاہ بہار میں ہندوستان کا جاسوسی نیٹ ورک ریاست کی پالیسی کے طور پر نہیں ہے ،اگرچہ اس پر یقین کرنا مشکل ہے ،بلکہ نچلی سطح کے بعض ریاستی عمل داروں نے ہندوستان کویہ سہولتیں فراہم کر رکھی ہیں تواُن کا سدِّ باب کیا جائے، ورنہ امتِ مسلمہ کے لیے یہ تباہ کن ہوگا۔پاکستان اور ایران حتیٰ کہ تمام مسلم ممالک ایک دوسرے کی دشمنی کے متحمل نہیں ہوسکتے ،لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ مشرقِ وُسطیٰ اس وقت اسی باہمی آمیزش کی تصویر پیش کر رہا ہے ،یمن ،عراق اور شام میں یہ آویزش اپنے عروج پر ہے اور عالمی طاقتیں اس سے خوب فائدہ اٹھارہی ہیں ، اُن کے زائد المیعاد (Out Dated) اسلحے کا کوڑا گھر(Cesspit)مسلم ممالک بنے ہوئے ہیں۔
اسی طرح حال ہی میں اخبارات میں بعض باتیں رپورٹ ہوئی ہیں کہ بعض صنعتی اداروں میں ہندوستانی ماہرین کی خدمات حاصل کی گئی ہیں سوال یہ ہے کہ کیا اس کے لیے باقاعدہ قانونی طریقۂ کار کے مطابق ورک پرمٹ حاصل کیا گیا ہے اور یہ کہ آیا ایسی کون سی فنی مہارت ہے جو پاکستان میں دستیاب نہیں ہے یا محض معمولی سی منفعت کی خاطر یہ کام کیا جارہا ہے ،جب کہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ہندوستان کا جاسوسی نیٹ ورک پاکستان میں بہت پھیل چکا ہے ۔پس اِس حوالے سے حکومت کو تفصیلی بیان جاری کرنا چاہیے۔ قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک تسلسل کے ساتھ ہندوستان کابل کو اپنے منفی پروپیگنڈے اور تزوِیری سازشی مرکز کے طور پر استعمال کرتا رہا ہے ۔اس میں صرف طالبا ن کے عہدِ حکومت کو استثناء حاصل ہے، لیکن طالبان نے بھی ڈیورنڈ لائن کو مستقل سرحد تسلیم نہیں کیا ۔ سو پاکستان کے لیے یہ اشد ضروری ہے کہ افغانستان کے ساتھ اپنے روابط اور تعلقِ کار کو بہتر بنائے ،کیونکہ افغانستان اور پاکستان ایک دوسرے کی ترجیح بن پائیں یا نہ بن سکیں ،ایک دوسرے کی ضرورت ہمیشہ رہیں گے ۔2002ء میں امریکہ کی زیرِ قیادت مغربی اتحادی افواج کی آمد سے پہلے تک افغانستان میں پاکستانی کرنسی ہی قابلِ اعتماد زرِ مبادلہ کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے اور افغانستان کی درآمدی اوربرآمدی ضروریات کا انحصار بھی ہمیشہ پاکستان پر رہا ہے اور ان شاء اللہ سی پیک منصوبے کی تکمیل کے بعد یہ امر ہوجائے گا ۔