1961ء میں میٹرک کے بعد ہم لاہور آئے اور زندگی کا شعوری دور شروع ہوا۔ ہم نے ضلع مانسہرہ کے ایک دور اُفتادہ مقام اوگی کے ہائی اسکول سے میٹرک پاس کیا تھا۔ اُس وقت ریڈیو اور اخبار تک بھی ہماری رسائی نہیں تھی، ہمارا علم اور معلومات صرف درسی کتب تک محدود تھیں۔ اس زمانے میں رائٹ لیفٹ اور سبز سرخ کے نعروں کا چلن تھا۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے اقتدار سے نکل کر عوامی سیاست میں آنے پر اس کلچرکوعروج ملا۔ انہی نعروں اور نظریات کی بنیاد پر سیاست، صحافت اورطلبہ ومزدوروں کی انجمنوں میں تقسیم شروع ہوئی۔ لیفٹ کے نظریاتی مراکز ماسکو اور پیکنگ تھے، جو اَب بیجنگ کہلاتا ہے۔ شخصی اعتبار سے جوزف اسٹالن، ولادیمیر لینن اور مائوزے تنگ بائیں بازو کے نظریاتی اکابر اور آئیڈیل تھے۔ اس کے برعکس ظاہر ہے کہ دائیں بازو کے سیاسی مراکز واشنگٹن اور لندن تھے۔ بائیں بازو کے دانشور اور سرگرم کارکن(Activist) مذہبی لوگوں اور مذہبی جماعتوں کو طنزاً سرمایہ دارانہ نظام اور سرمایہ داروں کے گماشتے (Agent) گردانتے تھے۔ اب تاریخ آگے بڑھ چکی ہے، سوویت یونین کے زوال اور چین کے سرمایہ دارانہ نظام کی طرف بتدریج منتقلی کے سبب، اب سب نے تحویل قبلہ کرلیا ہے اور این جی اوز بنا کر امریکہ اور اہلِ مغرب کے دسترخوان کے خوشہ چین بن چکے ہیں۔ اُس دور میں جذباتیت کی کیفیت ہوتی تھی، لیکن آج پیچھے مڑ کر دیکھا جائے تو وہ دور غنیمت نظر آتا ہے،کیونکہ ہر ایک اپنے نظریات کا ابلاغ علمی ونظریاتی مباحث یا کبھی کبھی عوامی مظاہروں کے ذریعے کرتا تھا۔ نہ طاقت اور بندوق کی گولی کے بل پر نظریات کو مسلط کرنے کا رواج تھا اور نہ ہی مخالفین کو جینے کے حق سے محروم کرنے کا شعار تھا۔
مطالبات ہر دور میں ہوتے رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ حکومتِ وقت اورحاکم وقت پسند ہو یا ناپسند، مطالبات اُسی سے کیے جاتے ہیں اوربوقتِ ضرورت مذاکرات بھی کیے جاتے ہیں۔ اُس دور میں مطالبات کی فہرست یہ سوچ کر مرتب کی جاتی تھی کہ دس مطالبات رکھیں گے توآخرِ کار تین چار تو مان لیے جائیں گے۔ مطالبات مرتب کرنے والے قدرے حقیقت پسند لوگ ہوتے تھے اور جانتے تھے کہ آخر میں ہمارے ہاتھ کیا آئے گا یا آسکتا ہے، مطالبات کی لمبی فہرست صرف دبائو ڈالنے کا ایک حربہ ہوتی تھی۔ لیکن اب ہم جس دور میں جی رہے ہیں، اُن میں مطالبات کرنے والے زیادہ تر مثالیت پسند (Idealist) ہوتے ہیں اور ہمالیہ کی چوٹی سے کم کسی مطالبے کا سوچتے بھی نہیں ہیں۔ اگر اُن کے رفقاء میں کوئی حقیقت پسند ہو اور معقولیت کا مشورہ دے تووہ ضعیف الایمان یا بزدل قرار پاتا ہے۔
چنانچہ اسی ذہنی نہاد کے تحت جناب عمران خان نے ڈی چوک کے کنٹینر پر کھڑے ہوکر وزیرِ اعظم سے استعفے کا مطالبہ کیا اور امپائرکی انگلی کھڑی کرنے کی بات کی۔ اُن کے ساتھیوں میں سے کس کی مجال تھی کہ وہ کپتان کو معقولیت کا مشورہ دیتا، ہرصاحبِ فکر حیران تھا کہ اس مطالبے کا جوازکیا ہے۔ چنانچہ پاکستان تحریکِ انصاف کے سوا پوری پارلیمنٹ اپنی بقا کے لیے وزیر اعظم کی پشت پر کھڑی ہوگئی، آج یہی رویہ اُن کے لیے طعنہ بنا ہوا ہے۔ ہمارا گمان یہ ہے کہ فیصلہ کُن مرحلے پر پیپلز پارٹی دوبارہ حکومت کے بچائو کا آپشن اختیارکرے گی، اگرچہ اُسے حکومت سے بہت سی شکایات ہیں۔ متوازن فکر کی حامل شخصیات کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ طیش کا عالم ہو یا عیش کا، وہ بہر صورت اپنے مزاج اور فکری نہاد کو متوازن رکھتے ہیں، بزدلی دکھاتے ہیں نہ ہی مغلوب الغَضَب ہوتے ہیں۔ بہادر شاہ ظفر نے کہا:
ظفرؔ آدمی اس کو نہ جانیے گا، وہ ہو کیسا ہی صاحبِ فہم وذکا
جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی، جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا
یہاں بھی صورتِ حال یہی ہے۔ جناب عمران خان نے رائیونڈ پر چڑھائی کرنے کی بات کی ہے۔ سرِدست سینیٹ کی ''قائمہ کمیٹی برائے خزانہ‘‘ نے یہ معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اور بادی النظر میں اُس میں اپوزیشن ارکان کی اکثریت ہے۔ لہٰذا ہماری رائے میں پی ٹی آئی اور حکومت مخالف جماعتوں کے پاس یہ بہترین موقع ہے کہ اُس فورم پر اس معاملے کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کریں اور اگر اُس میں ایسا مواد دستیاب ہوجائے جو وزیرِ اعظم کو نا اہل قرار دینے کے لیے مضبوط قانونی بنیاد بن سکتا ہے تو اس کی بنیاد پرالیکشن کمیشن میں جائیں اور وہاں سے ریلیف نہ ملنے کی صورت میں سپریم کورٹ سے رجوع کریں۔ جج ریٹائرڈ ہوں یا حاضر سروس، وہ بہر حال انسان ہوتے ہیں، انہیں قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے فیصلہ صادر کرنا ہوتا ہے۔ بشری کمزوریوں سے سیاست دانوں سمیت کوئی بھی طبقہ مستثنیٰ نہیں، لہٰذا بہتر ہوگا کہ باوقار منصب کی توہین نہ کی جائے کیونکہ: ''یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی‘‘، انہی پر اعتماد کرو اور انہیں بااعتماد بنانے کے حالات پیدا کرو۔
جہاں تک اخلاقی بنیادوں پر منصب سے رضاکارانہ طور پردستبردار ہونے کا تعلق ہے، تواُس کے حوالے سے ہمارے ہاں کوئی قابلِ رشک روایات نہیں ہیں۔ جناب شیخ رشید احمد وزیرِ اعظم کے سب سے بڑے نقّاد ہیں، لیکن ریلوے کے وزیرکی حیثیت سے، ریلوے کے حادثے پر انہوں نے بھی کہا تھا: ''میں کیوں استعفیٰ دوں، میں کوئی ٹرین کا ڈرائیور ہوں اور ٹرین کو میں چلا رہا تھا‘‘ جبکہ پڑوسی ملک ہندوستان میں ریلوے کے حادثے پر وزیرِ ریلوے کے مستعفی ہونے کی روایت موجود ہے۔
اسی مزاج کا مظاہرہ ڈی چوک پر دھرنا دینے کے حوالے سے ہمارے دوستوں نے کیا تھا کہ مطالبات کی دس نکاتی فہرست 27 مارچ کو لیاقت باغ میں 12بجے دوپہر پیش کی اور مطالبہ کیا کہ ایک بجے تک کا ٹائم ہے، اِسے مان لیا جائے ورنہ پارلیمنٹ ہائوس کی طرف مارچ کریں گے، پھر ازراہِ کرم مہلت ایک گھنٹے بڑھا کر 2 بجے تک کردی گئی اور پھر مارچ کا آغاز ہوگیا۔ پہلا مطالبہ یہ تھا کہ ملک میں نظامِ مصطفی نافذ کردیا جائے ،مطالبہ کرنے والوں نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہ فرمائی کہ 69 برس میں جو کام نہیں ہوپایا، وہ ایک یا دوگھنٹوں میں کیسے ہوجائے گا؟اِسی طرح ایک مطالبہ یہ تھا کہ ممتاز حسین قادری شہید کو ریاستی سطح پر شہید قرار دیا جائے، ہمارے اِن فاضل کرم فرمائوں نے یہ سوچا تک نہیں کہ آیا ہمارے آئین وقانون میں ایسی کوئی گنجائش یا روایت موجود ہے؟1979ء میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی سزائے موت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے تین ادوار 1988-90ء ،1993-96ء اور 2008-13ء آئے، وہ لوگ ذوالفقار علی بھٹو کو شہید کہتے رہے اورآج بھی کہہ رہے ہیں، لیکن کیا انہوں نے ریاستی سطح پر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو شہید Declareکیا ؟اور تو چھوڑیے! قائدِ ملت لیاقت علی خان جو قائدِ اعظم کے بعد تحریکِ پاکستان کے قائدین میں سب سے نمایاں مقام رکھتے ہیں، وزیرِ اعظم کے منصب پر فائز رہتے ہوئے شہید ہوئے،انہیں شہیدِ ملت بھی کہا جاتا ہے، لیکن کیا انہیں ریاستی سطح پر شہید قرار دیا گیا؟یہ فیصلے آخرت میں اللہ تعالیٰ کی عدالت میں ہوں گے اور وہی حقیقی شہداء کو شہادتِ مقبولہ کے درجات پر فائز فرمائے گا اور انہیں جنت میں اعلیٰ مقام سے نوازے گا۔ اگر شہادت کی ڈگری جاری کرنا بھی ہماری پارلیمنٹ کی دسترس میں آجائے تواس سے قطع نظر کہ کس کی جان کس مقصد کی نذر ہوئی، سب اپنے اپنے جیالوںاورجانثاروں کو شہید کا درجہ دینے میں ایک لمحے کی فروگزاشت نہیں کریں گے۔
جو مطالبہ ممتاز حسین قادری شہید کے حوالے سے اہمیت کا حامل تھا اور اس میں معقولیت بھی تھی، وہ یہ تھا کہ توہینِ رسالت کے جرم میں جن مجرموں کو ماتحت عدالتوں سے سزائے موت ہوئی ہے اور اُن کی استدعا (Petition) اعلیٰ عدالتوں میں زیرِ التوا ہے، انہیں جلد از جلد نمٹایا جائے اور قانون کے مطابق سزائے موت دی جائے تاکہ رسول اللہ ﷺ کے گستاخوں کے لیے نشانِ عبرت بنے۔ جن کے مقدمات ماتحت عدالتوں میں معرضِ التوامیں ہیں،انہیں جلد از جلد فیصلے کے مرحلے تک پہنچایا جائے۔ ہمارے دوستوں نے حکومت سے آسیہ مسیح کو فوری طور پرپھانسی دینے کا مطالبہ کیا، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ پھانسی کی سزا دینا یا آخری مرحلے میں اُسے بحال رکھنا عدالتوں کا کام ہے۔ ہاں جب عدالتی مراحل مکمل ہوجائیں تو پھر اُس سزا کا نفاذ حکومت کی ذمے داری ہے۔ اُس سے پہلے مقدمات کو سُرعت سے نمٹانے یعنی Expedite کرنے کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے اور کیا جانا چاہیے۔ ان گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ مطالبات مرتب کرتے وقت یہ دیکھا جانا چاہیے کہ جس مُقتدِرہ سے یہ مطالبات کیے جارہے ہیں، وہ اُس کے دائرۂ اختیار میں آتے ہیں یا نہیںاوراگر آتے ہیں تو اُن کے لیے دستوری اقدامات مطلوب ہوں گے یا قانون سازی کرنی پڑے گی یا محض انتظامی حکم نامہ (Executive Order) ہی کافی ہوگا۔
میری تجویز یہ ہے کہ پی ٹی وی، پارلیمنٹ چینل کے نام سے ایک مستقل چینل قائم کردے جو In-Camera اجلاسوں کے علاوہ باقی تمام اجلاسوں کی کارروائی براہ راست(Live) نشر کرے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ارکان، پارلیمنٹ کی کارروائیوں میں بھرپور حصہ لیں گے اور دلچسپ اور بامعنی تقاریر کو عوام توجہ سے سنیں اور دیکھیں گے اور بے معنی خطابات کے موقع پر چینل بند کردیں گے،اس طرح ہر دور کے اپوزیشن ارکان کی شکایات کا مستقل ازالہ ہوجائے گا۔