قومِ لوط پر عذاب نازل کرنے کے لیے حضرت لوط علیہ السلام کے پاس فرشتے آئے ،تو اُن کی اخلاق باختہ قوم نے برے ارادے سے فرشتوں کی طرف پیش قدمی کی۔اس پرحضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا:''اللہ سے ڈرو اور مجھے میرے مہمانوں کے بارے میں شرمندہ نہ کرو ،کیا تم میں کوئی ایک شخص بھی راست رَو نہیں ہے،(ہود:78)‘‘۔لوط علیہ السلام کی قوم اللہ کے احکام سے باغی تھی اوراُن کی سرکشی فطرتِ سلیمہ کے بھی خلاف تھی۔ پھربھی وہ اپنی قوم سے یہ توقع یا خواہش رکھ رہے تھے کہ ان میںکوئی ایک سلیم الفطرت شخص تو ہونا چاہیے ،جو انہیں انسانیت کی کم از کم اخلاقی قدریعنی مہمانوں کے احترام کی پاس داری کی طرف راغب کرے ۔اُن کا یہی جملہ ہم نے اپنے کالم کا عنوان بنایا ہے ،جواُن کے انتہائی دکھ کا اظہار ہے ۔گویا یہ بحیثیتِ مجموعی پورے معاشرے کے اخلاقی زوال کی انتہاہے کہ اُس معاشرے میں کوئی ایک بھی معقول اور بھلے مانس انسان نہ ر ہے ،یعنی باطل پرست معاشرے میں بھی ایسے اشخاص کا وجود غنیمت ہوتا ہے۔یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے یوسف علیہ السلام کو ،اُن کے بھائی اپنے باپ یعقوب علیہ السلام سے جدا کرنے کی خاطر ،قتل کرنے پر آمادہ ہوچکے تھے ،لیکن اُن میں سے ایک راست رو شخص نے کہا: ''یوسف کو قتل نہ کرو اور اُسے کسی گہرے کنوئیں میں ڈال دو (شاید)کوئی راہ گیر اُسے لے جائے ،اگر تم (کچھ)کرنا چاہتے ہو، (یوسف:10)‘‘۔ یعنی اگر تم ان سے نجات حاصل کرنا ہی چاہتے ہو یا انہیں اپنے باپ کی نظروں سے دور کرنا ہی چاہتے ہو ،تو قتل کے گناہِ کبیرہ میں مبتلا ہونے کے مقابلے میں ایک متبادل صورت بھی اختیار کرسکتے ہو ۔یہ رائے دینے والے یوسف علیہ السلام کے سوتیلے بھائیوں میں سے ایک سلیم الفطرت شخص تھے ۔
ہمارے ہاں جناب ِپرویز رشید اورجنابِ شیخ رشید احمد جیسے صاحبانِ کمال تو ہیں ،لیکن ہماری سیاسی قیادت کے اثاثے میں شاید کوئی ''رَجُلِ رَشِید‘‘نہیں ہے ۔اس لیے ہم بحیثیتِ مجموعی اپنے سیاسی کلچر میں اخلاقی اقدار سے محروم ہوتے جارہے ہیں ۔ ہم سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنی اوراختلافِ رائے کو جنگ وجدل میں تبدیل کرلیتے ہیں اور پھر اُس محاورے کا مصداق بن جاتے ہیں کہ : ''جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے ‘‘۔ایک بار پہلے بھی ہم نے مشورہ دیا تھا کہ ہمیں اپنے اختلافات اپنے ملک کے اندر مل بیٹھ کر طے کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے ۔یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم اپنی ذاتی اور گروہی نفرتوں کو ملک سے باہر برآمد کریں اور دیگر ممالک میں موجود پاکستانی تارکین وطن کوبھی اس بنا پر باہم تقسیم کریں ۔کل لندن میں گولڈاسمتھ کی رہائش گاہ پر جنابِ عمران خان کے خلاف پاکستان مسلم لیگ ن کا احتجاجی مظاہرہ ہماری اِسی روش کا آئینہ دار تھا ،جس کو دیکھ کر ہمیں افسوس ہوا ۔اس پر جناب عمران خان کوکسی اور کو ملامت کرنے کی بجائے اپنے آپ کوہی ملامت کرنی چاہیے ،کیونکہ :''اے بادِ صبا!ایں ہمہ آوردۂ تُست‘‘۔اس روِش کو بیرونِ ملک پروان چڑھانے میں یقینااُن کا حصہ دوسروں سے زیادہ ہے اسی طرح ڈی چوک کے دھرنے کے زمانے میں تہذیب سے عاری طرزِ تَخاطُب کا شِعار بھی انہوں نے شروع کیا۔ لیکن کسی ایک کی بے راہ روی دوسروں کے لیے اِس غلط شِعار کو اپنانے کا جواز نہیں بن سکتی ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری سیاسی قیادت مل بیٹھ کر سیاسی اختلافات کے اظہار کے لیے کوئی کم از کم معیارِ اخلاق وضع کرے ۔
اب الیکٹرانک میڈیا بھی اپنی متعددانواع واقسام کے باوجود بے اعتدالی ،جانب داری اوربے مقصد شور شرابے کے سبب بے اثر ہوتا جارہا ہے ۔جب سرِ شام نیوز چینلوں پرالفاظ کی اندھا دھند بمباری ہوتی ہے ،تو لگتا ہے اگلی صبح طلوع ہونے سے پہلے وقت کے صاحبانِ اقتدار رخصت ہوچکے ہوں گے ، لیکن منظر پھر وہی ہوتا ہے جو گزشتہ کل تھا۔ یہی صورتِ حال ہمارے ہاں سوشل میڈیا کی ہے ۔جتنی کثرت سے سوشل میڈیا کااستعمال ہمارے ملک میں ہوتاہے ،شاید ہی کہیں اور ہو ۔اُس کا ایک سبب یہ ہوسکتا ہے کہ ہم مِن حیثُ القوم فارغ لوگ ہیں اور ہمارے پاس وقت گزاری کے لیے کوئی مُثبِت میدانِ عمل نہیں ہے ۔مجھے سب سے زیادہ افسوس اُن مذہبی رہنمائوں پر ہے ،جنہوں نے اپنے اپنے جیالے مجاہدین پال رکھے ہیں جو، اُن کے مخالفین یامبغوضین(Hated) کودُشنام ، لَعن طَعن،تمسخُرواِستہزاء،عیب جوئی اور اِتّہام واِلزام ، نیکی اور سعادت سمجھ کر کر رہے ہوتے ہیں ،حالانکہ یہ شقاوت ہے اور دینی اقدار کے منافی ہے ۔اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس کے ذریعے وہ اپنے فریقِ مخالف کونیست ونابودکردے گا ،تو اِسے نرم سے نرم الفاظ میں سادہ لوحی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔اس سے اپنا وقار واعتبار کھونے اورفطرت وجبلّت کے فساد کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا،حیدر علی آتش نے کہا تھا:
فریبِ حُسن سے گَبر و مسلماں کا چلن بگڑا
خدا کی یاد بھولا شیخ، بُت سے برہمن بگڑا
امانت کی طرح رکھا، زمیں نے روز محشر تک
نہ اک مُو کم ہوا اپنا، نہ اک تارِ کفن بگڑا
لگے مُنہ بھی چڑانے ، دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی، خبر لیجے دہن بگڑا
بناوٹ کیفِ مے سے کُھل گئی ، اُس شوخ کی آتش
لگا کر مُنہ سے پیمانے کو، وہ پیمان شکن بگڑا
''گَبر‘‘آتش پرست کو کہتے ہیں ۔شاعر کا مُدّعا یہ ہے کہ جب اخلاقیات میں فساد اور بگاڑ آتا ہے ،تو اچھے برے اکثرلوگ اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں اورنیک وبَد کی تمیز باقی نہیں رہتی ۔شخصیتوں نے مصنوعی تقوے ،تقَشُّف (درویشی)اور پارسائی کا جولبادہ اوڑھ رکھا ہوتا ہے اور ملمَّع کاری کی ہوتی ہے ،وہ سب بے نقاب ہوجاتی ہے ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کے پاس افتخار کے ساتھ جینے کے لیے علمِ نافع ،عملِ صالح اور وَرع وتقویٰ کا سرمایہ نہیں ہوتا ،لہٰذا وہ دوسروں کی توہین ،تحقیر اور تذلیل کرا کے اپنے نفس کو تسکین پہنچاتے ہیں اور پارسائی کے زُعم میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ماضی قریب میں تو یہ مظاہربھی دیکھنے میں آئے کہ ناکامی کو کامیابی قرار دے کر اور بے بضاعتی کو مقاصد کا اثاثہ قرار دے کر مبارک بادیاں لینے اور دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا،بھگت کبیر نے کہا تھا: ؎
رنگی کو نارنگی کہیں ، بنے دودھ کو کھویا
چلتی کو گاڑی کہیں ، دیکھ کبیرا رویا
شاعرتضاد کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ مالٹا رنگین ہوتا ہے ،اُس کے نام سے ایک رنگ Orange Colourمنسوب ہے ، لیکن اردو میں اُسے ''نارنگی ‘‘(یعنی بے رنگ ہونا)کہتے ہیں،اِسی طرح دودھ ابال کر جمادیا جائے تو اُس کا جوہر حاصل ہوجاتا ہے ، اُسے اردو میں ''کھویا‘‘(ضائع ہونا) کہتے ہیں ،حالانکہ وہ تو پایاہوا ہوتا ہے ۔اسی طرح گاڑی رواں دواں رہنے والی مشین ہے ،اُسے اردو والے ''گاڑی‘‘ کہتے ہیں ،جس کے معنی ہیں :کسی چیز کو زمین میں دفن کردینا یا گاڑدینا۔
اب ہمارے ہاں بھی نامرادی کو مُراد اورناکامی کو کامیابی سے تعبیر کر کے جشن منانے کا کلچر رائج کیا جارہا ہے تاکہ عقیدت کے دام میں پھنسے ہوئے معتقدین کو بہلاکر رکھا جائے ۔اِسی کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: ''جس نے دین کا علم اس لیے حاصل کیا کہ وہ (مناظرے اور حجت بازی میں)علماء پر غلبہ پالے یا جاہلوں سے حُجّت بازی کرے یا لوگوں کے رُخِ عقیدت کو اپنی جانب پھیر دے ،تو یہ( علم )اُسے جہنم میں لے جائے گا،(ترمذی: 2654)‘‘۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا: ''جو شخص دنیا کمانے کے لیے (دین کا) ایسا علم حاصل کرے جس سے صرف رضائے الٰہی مطلوب ہونی چاہیے ،تو ایسا شخص قیامت کے دن جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا ، (سنن ابودائود:3664)‘‘۔الغرض علماء پر زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے ،لوگوں کا اپنا عمل اور وتیرہ کچھ بھی ہو ،وہ علماء سے خیر کی زیادہ توقع رکھتے ہیں ۔لوگ عام طبقات میں اخلاقی اور عملی کمزوریوں کو برداشت کرلیتے ہیں ،لیکن علماء کی گرفت کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے ۔سو علماء کو زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے تاکہ اُن کی کسی اخلاقی یا عملی کمزوری کے سبب لوگ دین کو طعن وملامت کا ہدف نہ بنائیں۔علماء پر طعن کرنے والے تو اس حد تک جاچکے ہیں کہ :
محشر میں گئے شیخ، تو اعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے، وہی مال ندارد
رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا:''یارسول اللہ!لوگوں میں سے کس کی آزمائش زیادہ سخت ہوتی ہے ،آپ ﷺ نے فرمایا: انبیاء کی، پھر صالحین کی ،پھر جو اُن سے مرتبے میں قریب تر ہیں ،پھر عام لوگوں میں جو اہلِ خیر کے شِعار پر قائم ہیں کسی شخص کی آزمائش اُس کے دینی مرتبے کے مطابق ہوتی ہے ،اگر اُس میں دینی تصلُّب (دین پر استقامت)ہے ،تو اُس کی آزمائش بھی زیادہ ہوگی ۔ اور اگر اُس کے دین میں کمزوری ہے ،تو اُس کی آزمائش بھی کم تر ہوگی ،(مسند احمد:1481)‘‘۔اِسی مفہوم کو کسی صاحب نظر نے ان کلمات میں بیان کیا ہے:''جن کے رتبے ہیں سِوا،اُن کو سِوا مشکل ہے‘‘۔ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور عرض کی: ''(یارسول اللہ!)میں آپ سے محبت کرتا ہوں ،آپ ﷺ نے فرمایا:پھر تنگ دستی کے لیے تیار ہوجائو،(شعب الایمان:1397)‘‘۔
نوٹ:یہ کالم 18اپریل2016ء کو لکھا گیا۔