"MMC" (space) message & send to 7575

قَحْطُ الرِّجَال

ہمارے ہاں سکول سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک تعلیمی اداروں کی بہتات ہے،تعلیم وامتحان کے درجنوںنظام رائج ہیں، ہمارے لبرل عناصرتودینی مدارس وجامعات کی کثرت پر ہمیشہ شاکی رہتے ہیں ۔لیکن ہم سیاسی اور مذہبی دونوں میدانوں میں قیادت کے حوالے سے قَحطُ الرِجال کا شکار ہیں۔ایک بار پہلے بھی میں نے لکھا تھا کہ ہمیںمُدَبِّر، صاحبِ فَراست اوردور اندیش قائد کی ضرورت ہے ،سیاسی ومذہبی رہنمائوں کا تو ایک لشکرِ جَرّار ہے۔ علامہ اقبال نے اسی لیے سیاستِ دوراں سے مایوس ہوکر کہا تھا:
پرانی سیاست گری خوار ہے
زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے
علامہ اقبال نے مومن کامل کی چار خصوصیات کو منظوم کیا تھا :
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن
گفتار میں، کردار میں، اللہ کی برہان
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
علامہ اقبال امت کی قیادت کو امامت سے تعبیر کرتے ہیں اور یہ درست ہے ،کیونکہ امامت ،امارت اور خلافت یہ سب اسلامی اصطلاحات ہیں اور ان مناصب کے حامل کو اعلیٰ درجے کی خصوصیات کا حامل ہونا چاہیے۔چار خصوصیات ہمیں قرآنِ کریم سے ملتی ہیں ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''(حضرت یوسف علیہ السلام نے )کہا:مجھے اس ملک کے خزانوں پرمقرر کردیں ،بے شک میں حفیظ وعلیم ہوں، (یوسف: 12)‘‘۔ (شعیب علیہ السلام کی دو بیٹیوں میں سے) ایک نے کہا: ''اے ابا جان!آپ ان (موسیٰ علیہ السلام) کو اجرت پر رکھ لیجئے ، بے شک آپ جس کو اجرت پر رکھیں ، اُن میں سے بہتر وہی ہے جو قوی اور امین ہو، (القصص:26)‘‘۔ ان دو آیات کو بھی ملاکر دیکھیں تو منصب کی تفویض کے لیے چار خصوصیات مطلوب ہیں :''حفیظ،علیم،قوی اور امین‘‘۔ اسی طرح علامہ اقبال کی پیش کردہ خصوصیات میں قہاریت وجبروت قوت وطاقت کا مَظہر ، غفاریت حِلم وبرداشت اور قدوسیت نیت اور عمل کی پاکیزگی اورگفتاروکردار میں صدق ودیانت کا تقاضا کرتی ہیں۔ایک حدیث میں ہے:''حضرت ابوذر نے عرض کی:یارسول اللہ! آپ مجھے عامل کیوںنہیں بنادیتے؟،وہ بیان کرتے ہیں :رسول اللہﷺ نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھااور فرمایا:اے ابوذر! تم کمزور ہو اور یہ منصب امانت ہے اور یہ قیامت کے دن رسوائی اور شرمندگی کا باعث ہوسکتا ہے ، سوائے اُس شخص کے جو اس کے حق کو ادا کرے اور اس سلسلے میں اپنے اوپر عائد ذمے داریوں سے عہد برآ ہو،(صحیح مسلم:1457)‘‘۔آپ ﷺ نے فرمایا:''قیامت کے دن میرے نزدیک سب لوگوں سے محبوب اور قریب ترین مقام پر عادل حکمران ہوگااور سب سے زیادہ ناپسندیدہ ،شدید ترین عذاب میں مبتلااور سب سے دور مقام پر ظالم حاکم ہوگا،(ترمذی: 1329)‘‘۔آپ ﷺ نے فرمایا:''تمہارے بہترین حاکم وہ ہیں کہ تم اُن سے محبت کرو اوروہ تم سے محبت کریں ،وہ تمہارے لیے دعا کریں اور تم اُن کے لیے دعا کرواورتمہارے برے حاکم وہ ہیں کہ تم اُن سے بغض رکھو اور وہ تم سے بغض رکھیں ، تم اُن پر لعنت کرو اور وہ تم پر لعنت کریں ،(صحیح مسلم:1855)‘‘۔علامہ اقبال نے امامت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھا:
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
فتنۂ ملتِ بیضا ہے امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے
علامہ اقبال نے خودی اور خودداری یعنی دینی اور ملّی حمیّت کو بھی مسلمان کا اثاثہ قرار دیا ہے اور قیادت کے منصب پر فائز شخصیت کواس کا سب سے بڑا مَظہرہونا چاہیے ۔یہ بھی ضروری ہے کہ قائد کی وسعتِ نظر(Vision)عالمی اور ملک وملت کے مسائل پر محیط ہونی چاہیے ۔جنابِ عمران خان کے فدائی اور جاں نثار اگر ناراض نہ ہوں تو گزشتہ دو سال پر محیط اُن کی تقاریر کاموضوع خالص شخصی اور نہایت محدود رہا ۔ہر تقریر،پولیٹیکل ٹاک اور انٹرویو میں وہ کرکٹ ورلڈ کپ اور شوکت خانم ہاسپیٹل کا حوالہ دینا ضروری سمجھتے ہیں ،یہ باتیں لوگوں کو اَزبر ہیں اور انسانی خدمت کے کاموں کی اپنی ذات کے حوالے سے اتنی تشہیرمناسب نہیں ہے۔
دنیا کی بات تو الگ ہے ،قیامِ پاکستان سے پہلے بھی ہمارے خطے میں خیراتی اور رفاہی اسپتال تھے جو لوگوں نے ذاتی سرمائے سے قائم کیے تھے : جیسے گنگارام ہاسپیٹل ،اوجھا سینی ٹوریم ،اسپنسر آئی ہاسپیٹل اورگلاب دیوی اور وغیرہ ۔اب بھی کراچی میں سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (SIUT)، انڈس ہاسپیٹل ،ایل آر بی ٹی آئی ہاسپیٹل سو فیصد مفت اور انتہائی معیاری علاج کی سہولتیں فراہم کر رہے ہیں ۔ ایس آئی یو ٹی نہ صرف نادار مریضوں کا مفت علاج کرتا ہے ،بلکہ ڈائیلیسز کے علاوہ گردوں کی منتقلی کے آپریشن کے بعد مریضوں کو تاحیات مفت دوائیں اور فالواَپ علاج کی سہولتیں بھی فراہم کرتا ہے۔ ان ہسپتالوں کا ماحول صاف ستھرا اور حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق ہے ۔ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی اور اُن کا عملہ انتہائی اخلاص کے ساتھ اپنی صلاحیتیں انسانی خدمت کے لیے وقف کیے ہوئے ہیں ، جدید ترین طبی آلات اور مشینری موجود ہے ۔اس میں کینسر کے مریضوں کے لیے Anchologyکا شعبہ بھی قائم ہے ،جو مریضوں کا مفت علاج کرتا ہے،ڈاکٹر نجیب نعمت اللہ اس کے انچارج ہیں۔SIUTکا سالانہ میزانیہ چار ارب سے زائد ہے ،اس میں ایک ارب ہر سال نئے طبی آلات کے لئے ہوتے ہیں۔یہ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی اور ان کی ٹیم کے اخلاص و دیانت پر لوگوں کے اعتماد کا مظہر ہے۔ انڈس ہاسپیٹل کراچی کے صنعتکاروں نے قائم کیا ہے اور اُن کا دعویٰ ہے کہ ہم آغا خان یونیورسٹی ہاسپیٹل کے معیار پریا اُس سے بہتر ہیں۔اس ہاسپیٹل میںاوپن ہارٹ سرجری سمیت، آرتھوپیڈک، جنرل سرجری، یورالوجی، گائنی، بچوں کے کینسر کا پاکستان میں سب سے بڑاشعبہ اوردیگر شعبہ جات میںمکمل مفت علاج ہوتا ہے،ادائیگی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ان کا سارا نظام کمپیوٹرائزڈ ہے اور آن لائن اپائنٹمنٹ کی سہولت دستیاب ہے ۔ جناب عمران خان کو ایس آئی یو ٹی اور انڈس ہاسپیٹل کا دورہ ضرور کرنا چاہیے ۔اپنی ذات میں مگن رہنا اچھی بات ہے ،لیکن باہر کی دنیا کو بھی دیکھنے میں حرج نہیں ہے۔
جو لوگ اقوام اور ممالک کی قیادت کے منصب پر فائز ہوتے ہیں،وہ ایک ایک لفظ خوب سوچ سمجھ کر اور ناپ تول کر بولتے ہیں،کیونکہ :''جن کے رتبے ہیں سِوا،اُن کو سِوا مشکل ہے‘‘،لوگ انہیں رول ماڈل سمجھتے ہیں ،اُن سے ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں ،لیکن اس محبت کو نفرت میں تبدیل ہونے میں دیر بھی نہیں لگتی ۔موجودہ سیاسی قائدین میں اس معیار پر کون ہے کہ اپنے آپ کو رسول اللہﷺ سے تشبیہ دینے کا سزاوار ہو ،انہیں اپنی نفس کی تسکین اور نمود کے لیے کوئی اور مثالیے (Ideal)تلاش کرنے چاہئیں۔ ہمارے ہاں لوگ بے عمل ضرور ہیں ،لیکن مذہب کے بارے میں انتہائی جذباتی بھی ہیں ۔اسی طرح ہمارے رہنمائوں کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ شہادت ایک اسلامی منصب ہے ،لہٰذا شہید کہلانے اوردعائے مغفرت کے لیے صاحبِ ایمان ہونا شرط ِلازم ہے۔یہ درست ہے کہ اسلامی ریاست میں ایک مسلمان کی طرح غیر مسلم شہری کی جان ،مال اور آبرو کا تحفظ بھی حکومت کی ذمے داری ہے اور وہ یقینا اس کے لیے جواب دِہ ہے۔
قیادت کا فکری افلاس مذہبی سیاسی جماعتوں میں بھی موجود ہے ۔جماعتِ اسلامی کا نظم بلاشبہ قابلِ افتخار ہے ،لیکن اب اس میں بھی اہلِ فکر ونظر کا شدید قحط ہے ،پروفیسر خورشید احمد ضعیف اور علیل ہیں۔ اس کا اظہاران کے امیر کے وژن اورطرزِ سیاست سے بخوبی ہوجاتا ہے،انہیںاس امر کا ادراک ہونا چاہیے کہ اب وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم نہیں رہے ،بلکہ جماعتِ اسلامی کے امیر بن چکے ہیں ، جوش بجا ،لیکن ہوش کا دامن بھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔پس مذہبی سیاسی جماعت کی قیادت ایک انتہائی ذمہ دارانہ منصب ہے، یہی حال ہمارے وطن کی دوسری مذہبی سیاسی جماعتوں کا ہے ۔اہل سنت میں علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی رحمہ اللہ تعالیٰ جیسی ذی علم،بے داغ ، بیدار مغز،اولوالعزم اور غیور وجَسور اوربالغ نظر قیادت موجود نہیں ہے اور یہی سبب ہے کہ ملکی سیاست میں اہل سنت کاکردار مؤثر طور پر نظر نہیں آرہا۔ماضیٔ قریب میں جنرل (ر)پرویز مشرف اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھتے تھے ،لیکن وہ عزیمت واستقامت سے محروم تھے ،انہوں نے امریکا کے آگے غیر مشروط طور پر سرِ تسلیم خم کیا ، جہادِ کشمیر کی بساط لپیٹی اورکارگل کی رُسوا کن مہم جوئی کی اور اپنے اقتدار کے دوام کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی کے بطن سے پیٹریاٹ کو جنم دیااور پھر اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے محترمہ بے نظیر بھٹومرحومہ کے ساتھ این آر او کر کے اپنی رہی سہی اخلاقی ساکھ بھی تباہ کردی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے بڑے مسائل میں کرپشن کا ناسور اور دہشت گردی ہے ۔اس لیے ہم بار بار متوجہ کر رہے ہیں کہ احتساب کے لیے ایک جامع قانون سازی کے ذریعے با اختیار نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے، احتساب کے ادارے کو سپریم کورٹ آف پاکستان سے بھی منسلک کیا جاسکتا ہے تاکہ اس میں سیاسی اور انتظامی عمل دخل ختم ہوجائے اور اعلیٰ عدلیہ کی طرح ہر ادارہ اس سے تعاون کا پابند ہو۔جامع قانون سازی کے بغیر ٹامک ٹوئیاں مارنے کا کچھ فائدہ نہیں۔ آج نیب کسی کے اثاثوں کی چھان بین کرتی ہے ،تو آج کی قیمت لگا کر ایک دہشت کی فضا قائم کرتی ہے ،ہونا یہ چاہیے کہ جب یہ اثاثے خریدے گئے ہوں یااختیارات کا ناجائزاستعمال کر کے رقم جمع کی گئی ہو، اس وقت کی قیمت لگا کر اس کے اس وقت کے ذرائع آمدنی سے تقابل کیا جائے۔لیکن جوقیادتیں اقتدار کی لائن میں لگی ہوئی ہیں ،اُن کے اور اہل اقتدار کے دیانت وامانت کے معیار میں اُنیس بیس یا اٹھارہ بیس کا فرق تو ہوسکتا ہے، پندرہ بیس کا نہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال ہوا :کہ شیخین کے عہدِ خلافت میں امن اور عافیت کا دوردورہ تھا، اسلام کی فتوحات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری وساری تھا،مگر آپ کے عہد میں انتشار ہے ،فساد ہے ،مسلمانوں کی آپس میں آویزش جاری ہے ۔آپ نے فرمایا:'' اُن کے مشیر ہم تھے اور ہمارے مشیر تم ہو ‘‘،یہ روایت علامہ طبری نے بھی'' اَلْاِحْتِجَاج مِن اَقْوالہٖ‘‘ میں درج کی ہے۔سو کسی کا اپنی ذات میں بے داغ ہونا کافی نہیں ، اخلاقی ساکھ کے لیے ان کی پوری ٹیم کو بھی دیکھنا ہوتا ہے۔ مذہبی سیاسی قیادت کے پاس کسی کا دُم چھلّابن کر احتجاج اور انارکی پھیلانے کی صلاحیت تو ہوسکتی ہے ،لیکن قیادت کی زمامِ اقتدار اُن کے ہاتھ میں نہیں آسکتی۔ممکن ہے کہ اقتدار کی دوڑ میں شریک دو متحارب قوتوں کے درمیان کسی ایک کے پلڑے میں وزن ڈال کر یہ فیصلہ کُن کردار ادا کرسکیں ،لیکن تب بھی مسندِ اقتدار کسی اور کے پاس ہی رہے گی اور ان کی حیثیت شامل باجا کی ہوگی۔المیہ یہ ہے کہ کسی حساس مذہبی مسئلے کی مخالفت میں تمام لبرل قوتیں یک جا ہوجاتی ہیں ،لیکن مذہبی قوتوں کا اتحاد پھر بھی دشوار ہوتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں