"MMC" (space) message & send to 7575

متفرقات

تصحیح:میں نے اپنے کالم ''تنہائی سی تنہائی‘‘میں پاکستان کے قومی ترانے کے خالق جناب حفیظ جالندھری کا ایک شعر نقل کیا تھااور نقل کرنے سے پہلے میں نے نیٹ سے چیک بھی کرایا ،وہ یوں تھا:
دیکھا جو تیر کھا کے، کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
میں نہ ادیب ہوں ،نہ شاعر اور نہ ہی اس شعبے میں کوئی مہارت رکھتا ہوں ۔ کبھی کبھی سیاق وسباق کی مناسبت سے کوئی شعر حافظے میں ہو تو نقل کردیتا ہوں ۔ شعر بھی دو دھاری تلوار ہے ۔ جو مضمون پورے صفحے میں بکمال وتمام بیان نہ ہوسکے ،ایک شعر میں پوری اثر آفرینی کے ساتھ بیان ہوجاتا ہے اور یہ شعراء کی قدرتِ کلام اور حسنِ معنیٰ کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔میرے ایک عزیز مولانا طاہر عزیز مطالعے کا کافی شغف رکھتے ہیں اور معاصر اخبارات وجرائد پر بھی ان کی نظر ہوتی ہے اور کبھی کبھی مجھے کسی خاص قلمی شاہکار یا کالم کی طرف متوجہ بھی کرتے ہیں ۔ مذکورہ بالا کالم کے حوالے سے انہوں نے سینئر کالم نگار جناب عطاء الحق قاسمی کا ایک کالم بعنوان:''ابوالاثر حفیظ جالندھری ،جنہیں بھلادیا گیا‘‘ارسال کیا۔ قاسمی صاحب لکھتے ہیں:'' حفیظ صاحب شعر کی فنی نزاکتوں کا کس درجہ خیال رکھتے تھے ،اس کا اندازہ مجھے اس روز ہوا ، جب میں نے ان کی موجودگی میں یہ شعر پڑھا: 
دیکھا جو تیر کھا کے، کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
یہ شعر سن کر کہنے لگے ،یہ کس کا شعر ہے؟۔میں نے کہا: آپ کا ہے ۔بولے:''میں کھاکے کمیں‘‘ایسی بدذوقی کا مظاہرہ کیسے کرسکتا ہوں ؟، میرے شعر میں تو یہ مصرعہ :''دیکھا جو کھاکے تیر ،کمیں گاہ کی طرف ‘‘ہے‘‘۔مولانا طاہر عزیز اور جناب ِقاسمی کا شکریہ کہ ایک علمی فروگزاشت کی تصحیح کا موقع ملا۔ہم شاعر تو نہیں ہیں ،لیکن اگراس مصرعے میں :''دیکھا جو تیر کھاکے‘‘ کے بعد سکتہ کردیا جائے ،تو وزن اور معنویت میں شاید کوئی فرق نہ آئے ۔ انہوں نے مزیدلکھا کہ جب پی ٹی وی نے ان کی سوانح حیات پر ایک دستاویزی فلم بنائی ، تو انہوں نے پروڈیوسر کو مخاطَب کر کے کہا:''تم نے یہ فلم میرے مرنے کے بعد چلانے کے لیے بنائی ہے نا؟‘‘اور پھر اپنے مخصوص انداز میں انگوٹھا ہوا میں لہراتے ہوئے (پنجابی زبان میں)کہا:''میں کوئی نئیں جے مرنا‘‘۔ مشہور صوفی شاعر بابا بلھے شاہ نے بھی یہی کہا ہے : ؎
بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں 
گور پیا کوئی ہور
پس جو لوگ اپنے پیچھے کوئی ایسا کارنامہ چھوڑ جاتے ہیں ،جس کے اثرات صدیوں تک قائم ر ہیں ، وہ دنیا سے رخصت ہونے کے باوجود زندۂ جاوید رہتے ہیں اور ان کا نام ذہنوں اور تاریخ کے صفحات سے مٹایا نہیں جاسکتا۔ قاسمی صاحب نے جنابِ حفیظ جالندھری کے ''شاہنامۂ اسلام‘‘کا بھی حوالہ دیا ہے ،یہ کلام بڑا اثر آفرین ہے ، ہمارے زمانۂ طالب علمی میں پنجاب میں خوش گلوواعظوں اور نعت خوانوں کا ایک دور تھا ،جنابِ حفیظ جالندھری کا ''شاہنامۂ اسلام ‘‘اُن کے لیے سونے کی کان تھا ،اللہ جانے ان حضرات کو روزگار کاذریعہ مہیّاکرنااُن کے لیے صدقۂ جاریہ بن پائے گا یا نہیں ؟۔لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ساٹھ کے عشرے میں ''شاہنامۂ اسلام‘‘ ہرسُوگونجتا تھا،ان کا مشہور سلام بحضور سرورِ انام ﷺ تو خاصے کی چیز ہے :
سلام اے آمنہ کے لال! اے محبوب سبحانی!
سلام اے فخرِ موجودات! فخرِ نوع انسانی!
سلام اے ظلِ رحمانی! سلام اے نورِ یزدانی!
ترا نقشِ قدم ہے ، زندگی کی لوحِ پیشانی!
سلام اے سرِّ وحدت! اے سراجِ بزمِِ ایمانی!
زہے یہ عزت افزائی ، زہے تشریف ارزانی
ترے آنے سے رونق آگئی ، گلزارِ ہستی میں
شریکِ حالِ قسمت ہو گیا ، پھرفضلِ ربانی
سلام اے صاحبِ خُلقِ عظیم! انساں کو سکھلا دے
یہی اعمالِ پاکیزہ ، یہی اشغالِ روحانی
تری صورت، تری سیرت، ترا نقشہ، ترا جلوہ
تبسم، گفتگو، بندہ نوازی، خندہ پیشانی
اگرچہ فقرُ فخری رتبہ ہے ، تیری قناعت کا
مگر قدموں تلے ہے ، فرِ کسرائی و خاقانی
زمانہ منتظِر ہے ، اب نئی شیرازہ بندی کا
بہت کچھ ہو چکی ، اجزائے ہستی کی پریشانی
زمیں کا گوشہ گوشہ نور سے معمور ہو جائے
ترے پرتو سے مل جائے ، ہر اک ذرے کو تابانی
حفیظ بے نوا کیا ہے ، گدائے کوچہِ الفت
عقیدت کی جبیں ، تیری مُروئَ ت سے ہے نورانی
ترا در ہو ، مرا سر ہو ، مرا دل ہو ، ترا گھر ہو
تمنا مختصر سی ہے ، مگر تمہید طولانی
سلام! اے آتشیں زنجیرِ باطل توڑنے والے
سلام! اے خاک کے ٹوٹے ہوئے دل جوڑنے والے
نوٹ: ''فر‘‘کے معنی ہیں :شان وشوکت، زیبائش ،رعب ودبدبہ۔ اردو میں ''مُرَوَّت‘‘لکھتے ہیں،مگر اصل عربی لفظ ''مُرُوْئَ ۃْ‘‘ ہے ،جس کے معنی ہیں: مردانگی، بہادری ،اسے عربی میں ''مَُرُوَّۃ‘‘بھی بولتے ہیں۔
انسان بھی تضادات کا مجموعہ ہے ،ایسا لگتا ہے کہ ''شاہنامۂ اسلام‘‘اورعقیدت سے معمور مندرجہ بالاسلام کا حفیظ کوئی اور ہے اور''ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ کا حفیظ کوئی اور ہے، معلوم ہوا کہ ایک ہی شخصیت کے کئی پرَت ہوتے ہیں ،سو جب تک شخصیت کے تمام پرت یک جا کر کے اُسے نہ سمجھا جائے ،تب تک اس کی فکرکی صحیح تصویرکشی نہیں ہوسکتی۔علامہ محمد اقبال کی بات اور ہے کہ ان کے دستیاب کلام میں کہیں بھی ابتذال نہیں ہے ، ملّت اور قوم کا درد اُن کے دل ودماغ اور رگ وپے میں سرایت کیے ہوئے تھا ،جس کی جھلک اُن کے ہر شعر میں محسوس ہوتی ہے ۔
ایک قابلِ تقلید روایت:حال ہی میں وزیرِ اعظم محمد نواز شریف عارضۂ قلب میں مبتلا ہوئے اور اُن کی اوپن ہارٹ سرجری کی نوبت آگئی۔ ان دنوں ہمارا سیاسی ماحول پاناما لیکس کے حوالے سے بہت گرم تھا ،لیکن تقریباً تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین نے جنابِ نواز شریف کے لیے ہمدردی کے جذبات کا اظہار کیااوراُن کی صحت یابی کی دعا کی ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اس روایت کو ہم اپنی سیاست کے لیے رُجحان سازبنائیں اور سیاست کے میدان میں اختلافات کو اخلاق کے دائرے میں رکھیں،دوسروں کی ذات اور خاندان کے معاملات کو بیچ میں نہ لائیں ۔ایک دوسرے کی تحقیر اورطعن وتشنیع کا شِعار ترک کریں۔سیاسی اختلافات کو ایک دوسرے کے منشور،طرزِ حکومت ، پالیسیوں اورعوام کی فیض رسانی کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنائیں ۔ قائد اعظم محمد علی جناح سے لے کر خان لیاقت علی خان ،نواب زادہ نصر اللہ خان ، علامہ شاہ احمد نورانی ،خان عبدالولی خان اور دیگر قومی رہنمائوں کا یہی شعار رہا ہے ۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو مقبول عوامی رہنما تھے ، ایک آدھ جملے بازی کے علاوہ وہ بھی ذاتیات کو نشانہ نہیں بناتے تھے ۔اسی لیے دانا لوگ کہتے ہیں کہ ''مرض سے نفرت کرو ،مریض سے نہیں ،گناہ سے نفرت کرو، گناہگار سے نہیں‘‘،کیونکہ اگر مریض سے نفرت کریں گے تو علاج کیسے ہوگا اور گناہ گار سے نفرت کریں گے تو اصلاح کیسے ہوگی۔
ایک صاحب علم کی فرمائش:پروفیسر ڈاکٹر حافظ احسان الحق ہمارے کرم فرما ہیں ،اُن سے امت کے مسائل اور حالاتِ حاضرہ پر تبادلۂ خیال ہوتارہتا ہے ۔انہوں نے ہمارے کالم ''تنہائی سی تنہائی‘‘ پڑھ کر ٹیکسٹ میسج بھیجا کہ لوگوں کو حوصلہ دیں ،مایوسی نہ بڑھائیں ۔ میں اُن کے مشورے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں ،ملّت کے درد سے معمور اور اخلاص پر مبنی سمجھتا ہوں ۔میں اسی لیے میڈیا کے کرم فرمائوں سے بھی گزارش کرتا رہتا ہوں کہ ہر روز سرِ شام پاکستان کے عیوب ہی بیان نہ کیا کریں ، کبھی اپنے وقت، فن گفتار اور قدرتِ اظہار کی زکوٰۃ کے طور پر ہی سہی ،ملک کی کچھ خوبیاں بھی بیان کردیا کریں ۔میں نے اس حوالے سے کئی کالم بھی لکھے ہیں ، جن میں سے ایک کا عنوان تھا:''یہ ملک کس کا ہے ؟‘‘۔لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ ہم حقیقت پسند بنیں ،خوش فہمی اور استکبارکی نفسانی کیفیت سے نکلیں، اپنی خوبیوں اور خامیوں کا ادراک کریں تاکہ اپنی خامیوں پر قابو پاکر اور اپنی امکانی استعداد سے کام لے کراس زوال کے دور سے نکلناہمارا مقدر بن سکے۔اب بھی ہمارے سامنے بہت سے امکانات کھلے ہیں ، جرمنی ، جاپان اورچین کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔ اس بارے میں بھی دوآراء نہیں ہیں کہ کرپشن ایک ناسور ہے اور جسدِ ملّی کو اس مرض سے بچانابے حدضروری ہے ۔لیکن ہمیں اس قومی مرض اوراُمُّ المسائل کا حل جمہوری نظام کی شکست وریخت کے بجائے نظام کے اندر رہتے ہوئے تلاش کرنا چاہیے ۔ بلاشبہ ہم دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہیں اور در حقیقت بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں ہماری ایٹمی صلاحیت ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے، ورنہ روایتی اسلحے اور فوجی قوت کے اعتبار سے وہ ہم سے برتر ہے ،اُس کا دفاعی بجٹ ہمارے مجموعی بجٹ کے قریب ہوتا ہے ۔اللہ کا شکر ہے کہ ہماری مسلح افواج کی استعداد اور پیشہ ورانہ تربیت دنیا میں مسلّم ہے ،اُن کا جذبۂ شہادت وایثار یقینا برتر ہے ،لیکن مادّی وافرادی قوت کی اہمیت کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ہمیں معلوم ہے کہ ایٹم بم دنیا میں صرف امریکا نے استعمال کیا ہے اور دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کا سب سے بڑا ذخیرہ رکھنے کے باوجود سوویت یونین کو شکست اٹھانی پڑی اوراپنے وجود کو تحلیل کرکے ذلت سے دوچار ہونا پڑا ۔لہٰذا اقتصادی وحربی خود کفالت اور سیاسی ومعاشی استحکام بے حد ضروری ہے ۔پس ہماری سیاسی قیادت کو بالغ نظری کا مظاہرہ کرنا چاہیے ،اُن پر لازم ہے کہ نمبرگیم اور میوزیکل چیئر کے کھیل سے نکلیںاور اتفاق رائے سے قومی وملّی مسائل کا آبرومندانہ حل تلاش کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں