1969ء میں،میںنے کراچی یونیورسٹی سے بی۔اے کیا، تو بی۔ اے کی انگلش کی کتاب میں ایک سبق کا عنوان تھا:''How Others See Us‘‘یعنی دوسرے ہمیں کس نظر سے دیکھتے ہیں یا ہمارے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں ؟، اسی کاترجمہ میں نے ''ہم بہ چشمِ غیر‘‘کیا ہے اور اِسے کالم کا عنوان بنایا ہے۔اُس کی وجہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنا Assessmentاوردرجہ بندی (Grading)خود کرتا ہے اور نہایت آسانی سے اپنے آپ کو اے ون گریڈ میں پاس کرلیتا ہے یا ٹاپ پوزیشن پرفرض کرلیتا ہے۔اس نفسیاتی سوچ نے ہمیں حقیقت پسندی سے دور کردیا ہے،پس زیادہ تر ہم خواب وخیال کی دنیا میں رہتے ہیں اور گِردوپیش کے حقائق سے صَرفِ نظر کر کے رائے قائم کرتے ہیں ،فیصلے کرتے ہیں اور اِقدام کرتے ہیں ،مگر بعد میں پَچھتاوے کا سامناکرنا پڑتا ہے۔ میں نے ون پلس فور قسم کے ٹیلی ویژن پروگرام دیکھنا چھوڑ دیئے ہیں ،کیونکہ ان پروگراموں نے لوگوں کو شعور نہیں دیا، نہ کبھی کسی مسئلے کا متفقہ حل پیش کیا ہے۔بس زبان درازی ،ایک دو سرے کی تغلیط اور تحقیر وتوہین ہمارا مزاج بنتا جارہا ہے اور ہم ان مَظاہر کو دیکھ اور سُن کر لطف اندوز ہوتے ہیں ۔اِن پروگراموں نے آگہی نہیں دی بلکہ جہالت میں اضافہ کیا ہے اور شعور کی حدوں میں داخل ہونے والی نئی نسل کے اَخلاق اور اندازِ گُفتار وکردار کو بھی بگاڑ دیا ہے۔بظاہر اِن سے نجات کی بھی کوئی صورت نظر نہیں آتی، کیونکہ کاروباری مفادات اور مُسابَقت کا جذبہ ہرچیز پر حاوی ہوتا جارہا ہے ۔
حال ہی میں دو پروگرام دیکھنے کو ملے ہیں ،ایک تو افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی کا انٹرویو اور دوسرا واشنگٹن میں خارجہ امور کے ماہر اور Lobbyist(یعنی اپنی اسپانسرریاستوں اور اداروں کے مفادات کے تحفظ کے لیے با اثر حلقوں میں ذہن سازی کرنے والے)ہیں،اُن کا نام معید یوسف ہے۔ڈاکٹر اشرف غنی کا انٹرویو انگریزی میں تھا ،اُن کو دلچسپی سے سننے کا مقصد یہ تھا کہ افغانستان کے سرکاری موقف کو اُن کے اپنے الفاظ میں اوراصل ذمے دار سے سنا جائے اور اُن کی فکر اور موقف سے آگہی حاصل کی جائے۔ڈاکٹر اشرف غنی دانشور اور ذی فہم شخص نظر آئے اور انہوں نے اپنے ملک کا موقف مؤثر اندازمیں پیش کیا ،جس کے چند نکات یہ ہیں:(الف)ہم کسی کی Strategic Depthیعنی تزویراتی گہرائی بننے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔اس ایک جملے میں پاکستان کے پالیسی سازوں اور انٹیلی جنس اداروں کے لیے بہت بڑا پیغام ہے۔(ب)ہم باہمی احترام اور برابری کی سطح پر تعلق چاہتے ہیں ۔(ج)یہ شرط ہمیں قبول نہیں کہ پاکستان سے دوستی کرنی ہے تو ہندوستان یا کسی دوسرے ملک سے قطع تعلق کرلو۔(د)دو طرفہ تعلقات میں ہم دونوں پڑوسی ممالک کایہ حق بنتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ریاستی اور قومی سلامتی کے مفادات کو زَک نہ پہنچائیں،ایک دوسرے کی داخلہ اور خارجہ پالیسی کواپنے اشارۂ ابرو کے مطابق چلانے کی خواہش عبث ہے۔(ہ) اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے دشمن کو ہمارے ہاں پناہ نہ ملے تو ہمارے دشمن کے لیے بھی آپ کا ملک پناہ گاہ نہیں بننا چاہیے۔(و)میرے نزدیک اُن کے لیے سب سے مشکل سوال ملا فضل اللہ کو پناہ دینے کا تھا،اُس کے جواب میں انہوں نے کہا: ہم پناہ نہیں دے رہے ، ہم نے اُسے نشانہ بنانے کی ایک سے زائد بار کوشش کی ہے ، ہمارے ہاں لوگوں کا خیال ہے کہ فضل اللہ کی سات زندگیاں ہیں ،اس دعوے کی تصدیق یا تکذیب ہمارے ریاستی اور سلامتی کے ادارے ہی کرسکتے ہیں۔(ز)اگر کسی کا خیال ہے کہ دنیا یعنی امریکا اور مغرب ہمارا ساتھ چھوڑ دیں گے ،تو یہ اُس کی بھول ہے اور اگر کسی کا یہ بھی خیال ہے کہ ہماری مسلّح افواج کو کچل کر نیست ونابود کردیا جائے گا،تو یہ بھی خام خیالی ہے۔
پس ہمارے ریاستی پالیسی سازاداروں کی ذمے داری ہے کہ اُن کے موقف کو،جیساکہ وہ ہے ، سمجھ کر گہرے غوروخوض کے بعد اُن سے تفصیلی مکالمہ کریں کہ آیا اُن کے اور ہمارے درمیان کوئی نقطۂ اتصال (Point of Common Inerest)ہے ، مابہ الاتفاق (Agreed Upon)امور کیا ہیںاور مابہِ الاختلاف امور (Issues of difference) کیا ہیں؟۔کیا فریقین مابہِ الاختلاف امور کو کچھ وقت کے لیے ایک طرف رکھ کردونوں ریاستوں کے مشترکہ مفادات پرکچھ پیش رفت کرسکتے ہیں ؟۔آیا تعلقات کی بہتر ی اور باہمی اعتماد سازی (Confidence building)کی کوئی صورت پیدا ہوسکتی ہے؟۔ہم دونوں ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانی میں مبتلا ہیں، جن میں سے کچھ حقیقت بھی ہوسکتی ہے اور کچھ مفروضات ،ہر ایک فریق کی کچھ مجبوریاں بھی ہوسکتی ہیں ۔ہم صرف اپنے زاویے سے اور اپنی آنکھ سے ہی دیکھیں گے توصحیح تصویر سامنے نہیں آئے گی تاوقتیکہ ہم دوسرے کے موقف کا صحیح ادراک نہ کریں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وصفِ کمال ایک صاحبِ نظر نے یہ بیان کیا تھا :''ہماراامیر نہ دھوکا دیتا ہے اور نہ دھوکا کھاتا ہے‘‘۔اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ چین کے سوا تمام پڑوسی ریاستوں کے ساتھ ہمارے تعلقات میں بے اعتمادی ہے ، شکوک وشبہات ہیں اور ہندوستان کے ساتھ تو کھلی دشمنی ہے ۔
معید یوسف صاحب نے بھی تحفظات کے بغیر کھل کر باتیں کیں اور اُن کالُبِّ لُباب یہ ہے:(الف) امریکا کے ساتھ آنے والے دنوں میں سیاسی تعلقات کی بہتری کے آثار نہیں ہیں ۔(ب)دونوں ممالک کے درمیان بے اعتمادی موجود ہے اور اندیشہ ہے کہ اس میں آنے والے دنوں میں اضافہ ہی ہوگا۔(ج) ریاستوں کے تعلقات اُن کے قومی مفادات پر مبنی ہوتے ہیں ،اِن کو شخصی دوستی یا دشمنی پر قیاس نہ کیا جائے ۔(د)اگر آپ ریاستوں کے ساتھ دو طرفہ تعلقات یا بین الاقوامی تعلقات اس شرط پر بنائیں گے کہ ہم سے دوستی کرنی ہے تو ہندوستان سے دشمنی کرنی ہوگی ، اس میں آپ کو ناکامی ملے گی۔(ہ)چین اور امریکا کے درمیان بھی بے اعتمادی موجود ہے اور اس میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے ،لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ امریکا سے دوستی کی خاطر آپ کو چین کی دشمنی مول لینا ضروری ہے۔(و) امریکا اپنے دشمنوں کے ساتھ اپنی سرحدوں سے ہزاروں میل دور نمٹنا چاہتا ہے ،وہ جنگ کو اپنی سرحدوں کے قریب آنے کی اجازت نہیں دے گا اور اُس میں یہ صلاحیت اوراستعداد موجود ہے۔(ز)انہوں نے اعتراف کیا کہ امریکا اور مغرب میں اسلاموفوبیا بہرحال موجود ہے اور ہمیں سوچنا پڑتا ہے کہ اپنے حلقے سے باہر امریکیوں سے کن موضوعات پر بات کی جائے ،کس حد تک کی جائے اور کِن موضوعات پر لب کُشائی سے گریز کیا جائے۔(ح)دوسرے ممالک کے لیے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں قوتِ فیصلہ کس کے پاس ہے اور کس سے بات کی جائے ۔عام طور پر دوطرفہ اور بین الاقوامی معاملات سیاسی سطح پر طے کیے جاتے ہیں ، لیکن ہمارے ہاں امریکا کے انٹیلی جنس اور دفاعی اداروں کے سربراہان اور ذمے داران ہمارے ملک میں اپنے ہم منصب فریق سے آکر بات کرتے ہیں ، اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ فیصلہ سازی کا اختیار انہی اداروں کے پاس ہے اوراگر سیاسی حکمران کوئی عہدوپیمان کربھی لیں تو تنفیذ کاحتمی اختیار پھر انہی اداروں کے پاس ہے۔اس لیے ہماری پارلیمنٹ جو دستوری اعتبار سے آزاد اور مختار ہے ، حقیقت کی دنیا میں بے اختیار نظر آتی ہے۔(و)انہوں نے یہ بھی مشورہ دیا کہ نیوکلیر سپلائر گروپ میں ہندوستان کی شمولیت کا راستہ آپ چین کی مدد سے ہمیشہ کے لیے بند نہیں کرسکتے ۔ان اداروں میں فیصلے یقینا مکمل اتفاقِ رائے سے ہوتے ہیں ،لیکن چین کی بھی عالمی سطح پر بہت سی مجبوریاں ہوتی ہیں اور ایک مرحلہ ایسا آسکتا ہے کہ اُسے اِس ادارے کے دیگر رُکن ممالک کے ساتھ اتفاق کرنا پڑے گااوربھارت یک طرفہ طور پر اس ادارے کی رُکنیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔لہٰذا پاکستان کے مفاد میں یہ ہے کہ اس مسئلے میں بھارت کے ساتھ اتفاقِ رائے کی کوئی ایسی صورت پیدا کرے کہ دونوں بہ یک وقت ممبر بن جائیں ۔
بین الاقوامی مکالمے کے ماہرین یہ کہتے ہیں :''There is always a gray area between the red and green area‘‘،سو پالیسی سازوں میں یہ مہارت ہونی چاہیے کہ ریڈایریا اور گرین ایریا کے درمیان کوئی گَرے ایریا تلاش کریں ،یعنی مُتفقہ اوراختلافی امور کے درمیان مشترکات تلاش کرناہی سفارتی مہارت کا ثبوت ہوتا ہے اور یہ کام جذباتی تقریروں سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ صبروتحمل ،حوصلے ،بصیرت ،جرأتِ اظہار اور زیرِ بحث امور میں مہارتِ کاملہ سے حاصل ہوتا ہے ۔
کوئٹہ کے سانحے نے ایک بار پھر ملک کو ہلاکر رکھ دیا ہے ،بلاشبہ یہ سانحہ ہمارے وطنِ عزیز کے بڑے سانحات میں سے ایک ہے اوراس سے عیاں ہوچکا ہے کہ دہشت گردی کی بالائی سطح پر کسی حد تک سرکوبی ہوئی ہے ،اُس کی شاخوں کو کاٹا گیا ہے ،اُن کے بعض مراکز کو تباہ کردیا گیا ہے ،لیکن دہشت گردی کو جڑ سے اکھیڑا نہیں جاسکا،پس اس طرح کے سانحات کے امکانات کو مکمل طور پررد نہیں کیا جاسکتا ،دعا ہے کہ ہمارے خدشات غلط ثابت ہوں اور ملک کو دہشت گردی سے مکمل تحفظ نصیب ہوجائے۔یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کی سیاست میں دخیل بعض سیاستدان جذبات پر قابو نہ پاسکے اور بے اختیار پھٹ پڑے ۔ہمارے بزعمِ خویش علم السّیاست کے فلسفی جنابِ شیخ رشید احمد، کچھ اینکرپرسنز اور تجزیہ نگاروں نے بعض رہنمائوں پر غداری، وطن دشمنی اور را کے ایجنٹ ہونے کے فتوے لگائے،مذہبی فتووں پر توسب چیں بہ جبیں ہوجاتے ہیں،لیکن سیاسی فتوے بازی کی ہر ایک کو کھلی اجازت ہے۔یقینا ان رہنمائوں کوچاہیے تھا کہ اِس نازک وقت میں اپنے جذبات واحساسات کو قابو میں رکھتے تاکہ قومی اتفاقِ رائے کا ایک تاثّر دنیا کے سامنے جاتا۔چنانچہ قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف جنابِ سید خورشید شاہ نے بھی جذباتی انداز میں کہاکہ ہم سے جو کچھ کہا گیاہم نے مانا :نیشنل ایکشن پلان تسلیم کیا، فوجی عدالتوں کو تسلیم کیا ،نیکٹا کو تسلیم کیا ،بعض سلامتی کے اداروں کے اختیارات میں غیر معمولی اضافے کو تسلیم کیا ،لیکن وزیرِ داخلہ کے خطاب میں کَل کے سوالات کے جوابات نہیں ملے ، اس کے معنی یہ ہیں کہ حزبِ اختلاف بھی منقَسم ہے ،شیخ صاحب جن باتوں کو غداری قرار دے رہے ہیں، قائدِ حزبِ اختلاف اُن سوالات کو اپناتے ہوئے اُن کا جواب مانگ رہے ہیںاور ایم کیو ایم نے بھی یہی بات کہی ہے۔