ہمارا میڈیا تو شور مچائے رکھتا ہے کہ ریاست کے فیصلہ ساز اداروں میں باہمی اعتماداور اشتراکِ عمل نہیں ہے ،اگرچہ اس طرح کے موضوعات کو میڈیا پرلانا وطنِ عزیز کے مفاد میں نہیں ہے اور اس سے ملکی سا لمیت کوخدانخواستہ نقصان تو پہنچ سکتا ہے، فائدہ نہیں پہنچ سکتا ۔کوئٹہ کا سانحہ دل دہلادینے والا تھا،اُس پر بعض سیاست دانوں کا جذباتی ردِ عمل فطری ہی سہی، پبلک میں نہیں آنا چاہیے تھا۔اُس کے بعد وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں اُس کی تردید کی ،لیکن شاید ہمارے دفاعی اداروں نے اُسے کافی نہ سمجھا اور ہونا بھی یہی چاہیے تھا کہ وزیرِ اعظم قومی اسمبلی سے اپنے خطاب میں اس کے بارے میں مناسب بیان دیتے کہ یہ تاثّران سیاسی رہنمائوں کا ذاتی تھا، اس کا حکومت کی پالیسی یا حکمتِ عملی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور حکومت اس سے براء ت کا اعلان کرتی ہے ،لیکن لیکن ایسا نہ ہوسکا۔
چنانچہ جی ایچ کیو میں چیف آف آرمی اسٹاف جنابِ جنرل راحیل شریف نے آرمی کے اعلیٰ مناصب پر فائز ذمے دار افسران کا اجلاس منعقد کیا اورپھر میڈیا کے توسط سے اپنا ردِ عمل قوم اور حکومتِ وقت تک پہنچایا۔اس سے یہ تاثُّر پیدا ہوتا ہے کہ وقتاً فوقتاً وزیرِ اعظم کے ساتھ چیف آف آرمی اسٹاف کے جو اجلاس ہوتے ہیں ،اُن میں بے تکلف تبادلۂ خیال نہیں ہوتا،ایک دوسرے کو اپنی تشویش (Concern)سے آگاہ نہیں کیا جاتا،بس صرف رسمی کارروائی ہوتی ہے ۔وزیرِ اعظم اور چیف آف آرمی اسٹاف کے درمیان کوئی ہاٹ لائن ہونی چاہیے ،جس پر یہ دونوں با اختیار شخصیات ضرورت کے موقع پربراہِ راست رابطہ کرسکیں ۔میڈیا کے ذریعے پیغام رسانی ریاست ،ملک اور قوم کے فائدے میں نہیں ہے ۔
اب قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ر)ناصر خان جنجوعہ کی سربراہی میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل در آمد کی نگرانی کے لیے ایک دیدبان (Overseer)کمیٹی بنادی گئی ہے ،جس میں اسٹیبلشمنٹ اور انٹیلی جنس کے ذمے داران کو شامل کرلیا گیا ہے اورپاکستان فرنٹیر کے 29ونگز بنائے جائیں گے ،الحمد للہ یہ ایک مستحسن اقدام ہے۔اس کے سربراہ کا براہِ راست چیف آف آرمی اسٹاف اور وزیرِ اعظم سے رابطہ بھی رہے گا اور فکری اور عملی بُعد کا احسن طریقے سے ازالہ ہوجائے گا۔یہ ایک کَثِیرُ الاَجْنِحَۃ (Multi Wings)تنظیم ہوگی اور بظاہر اپنی حکمت عملی خود وضع کرے گی۔لیفٹیننٹ جنرل(ر)ناصر خان جنجوعہ بلوچستان میں کورکمانڈر رہ چکے ہیں اور انہیں وہاں ریاست سے متصادم عناصر کی باغیانہ سرگرمیوں کو فرو کرنے کے لیے سول ایڈمنسٹریشن اور وزیرِ اعلیٰ کے ساتھ مل کر کام کرنے کا تجربہ بھی حاصل ہے ۔پاکستان آرمی کی بارہویں کورکوسَدرَن کمانڈ بھی کہاجاتا ہے ۔
کل میڈیا پر ایک شور بپا تھا کہ جنرل راحیل شریف کوفیلڈ مارشل کا منصب قبول کرنا چاہیے یا نہیں ،انہیں توسیع ملنی چاہیے یا نہیں، وغیرہ۔یہ کارِ خیر صرف پاکستان کا میڈیا انجام دیتا ہے ،اس کی مثال دنیا کے کسی ملک میں شاید ہی ملے ۔دنیا کے ہر ملک میں مسلح افواج کے سربراہ بھی مقرر ہوتے ہیں ،اُن کی ترقی اور تنزّلی بھی ہوتی ہے، اس کا ایک داخلی نظم موجود ہوتا ہے ،نہ اسے میڈیا پر زیرِ بحث لایا جاتا ہے اور نہ ہی انتشار کو ہوا دینے والے چند اذہان میڈیا پر بیٹھ کر اس کا فیصلہ کرسکتے ہیں ۔ہمیں بحیثیتِ قوم اور ہمارے میڈیا کو بھی ذہنی بلوغت کا ثبوت دینا چاہیے ۔کوئی بھی مہذّب قوم چوراہے کے بیچ میں اپنے داخلی معاملات طے نہیں کرتی ،اُس کے لیے ملک کے نظامِ آئین وقانون میں طریقۂ کار موجود ہوتا ہے ۔
پچھلے دنوں یہ بحث بھی سننے کو ملی کہ کالعدم تنظیمیں متبادل ناموں سے کام کر رہی ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم کسی جماعت یا تنظیم کے نام کو ممنوع (Banned)یا کالعدم (Defunct)قرار دیتے ہیں ،جب کہ امریکا اور اہلِ مغرب اپنے ناپسندیدہ یا مطلوب افراد کی فہرست جاری کرتے ہیں اور اُن کا تعاقب کرتے ہیں ۔جنابِ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے عہدِ اقتدار میں اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جنابِ جسٹس حمود الرحمن کی سربراہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے اُس وقت کی'' نیشنل عوامی پارٹی‘‘ کو ممنوع قرار دیا تھا ۔بعد میں انہی افراد نے ''عوامی نیشنل پارٹی‘‘کے نام سے نئی جماعت قائم کردی ،یہ جماعت ہماری سیاست میں فعال ہے اور 2008تا2013ء صوبۂ خیبرپختونخوا کی حکومت بھی اِسی جماعت کے پاس تھی ۔جناب ِ اسفند یار ولی خان اور جنابِ آصف علی زرداری کو ایک دوسرے پر غیر معمولی اعتماد ہے ،کیونکہ صوبۂ سرحد کا نام بد ل کر خیبرپختونخوا رکھنے میں زرداری صاحب نے اُن کی مدد کی۔اس کے برعکس 1997ء کے انتخابات میں عوامی نیشنل پارٹی مسلم لیگ ن کی حلیف تھی اور جنابِ نواز شریف نے اُن سے صوبے کا نام تبدیل کرنے کا وعدہ کیا تھا ،مگر وہ اُسے ایفا نہ کرسکے۔ویسے اگر صوبے کا نام پختونستان قرار پاتا تو اُس کا صوتی اثر زیادہ مانوس ہوتا ،نہ صرف پاکستان کے صوبۂ بلوچستان بلکہ کئی دیگر ممالک افغانستان ، ازبکستان، تاجکستان، ترکمانستان ،داغستان، تاتارستان اورہندوستان کے ناموں کا ہم وزن قرار پاتا ۔ اب تو اُن ممنوع جماعتوں نے نام بھی ایسے رکھے ہیں کہ ریاست اُن ناموں کو ممنوع قرار دے ہی نہیں سکتی،جیسے: ''اہلسنت والجماعت‘‘ اور ''ملتِ اسلامیہ‘‘ وغیرہ ۔
انتباہ:وفاقی وزارتِ خزانہ نے بڑے شہروں میں رہائشی اور تجارتی پلاٹوں کی خریدوفروخت پراُن کی بازاری قیمت کے حساب سے ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔اس پر رئیل اسٹیٹ کے کاروباری لوگوں نے وزیرِ خزانہ اورایف بی آرسے طویل مذاکرات کیے اور بظاہر تاثر یہ ملا کہ مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ ایف بی آر نے بعض بڑے شہروں میں مختلف علاقوں کی درجہ بندی کر کے اپنی تشخیص کے مطابق فی مربع گزیا فی مرلہ کے حساب سے قیمتوں کا اعلان بھی کردیا ہے ۔ اس شعبۂ معیشت یا صنعت سے وابستہ لوگوں نے بتایا کہ اب رِئیل اسٹیٹ کا کاروبارجمود کا شکار ہے اور لوگ اب اس میں پیسا لگانے کے لیے تیار نہیں ہیں ،بلکہ پیسا نکالنے کے موقعے کی تلاش میں ہیں۔ بعض بڑی پارٹیاں ملک سے جاچکی ہیں ،واللہ اعلم بالصواب ۔بعض لوگوں نے بتایا کہ کالا دھن وہ دولت ہے جو کرپشن سے حاصل کی جائے ،اس کے علاوہ غیردستاویزی دولت بھی ہے ،جسے Gray Wealth کہتے ہیں ۔ رہائشی اراضی کی خریدوفروخت اور مکانات یافلیٹس کی تعمیراتی صنعت میں یہی غیر قانونی دولت کارفرما ہے۔ اس لیے کہاجاتا ہے کہ ہماری معیشت میں ایک بڑا حصہ غیرقانونی دولت کا ہے ۔ یہ بلاشبہ ایک اچھی قدر نہیں ہے اور ترقی یافتہ ملکوں میں یہ کام اتنے کھلے عام اور اتنی وافر مقدار میں نہیں ہوسکتا۔ لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس کے ساتھ بہت بڑی تعداد میں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے، یعنی ٹھیکیدار ، راج مزدور، الیکٹریشن ، کارپینٹر اور پلمبر اور پینٹرزوغیرہ ۔پھر تعمیری صنعت سے وابستہ دوسرے صنعتی اور تجارتی شعبے ہیں ، مثلاً: لوہا ، سیمنٹ، کَرش بجری ،لکڑی ، ماربل ،ٹائلز(ان میں مقامی اور درآمد شدہ سب شامل ہیں )،سینیٹری کا سامان،شیشہ ،الیکٹرک کا سامان ،انٹرنل / ایکسٹرنل ڈیکوریشن کا سامان اورپینٹنگ کا سامان وغیرہ۔بعض لوگوں کے بقول روزگار اور معیشت کے پچاس سے زائد شعبہ جات اس سے وابستہ ہیں ۔ مڈل ایسٹ سے پہلے ہی مزدور طبقہ بے روزگار ہوکر آرہا ہے ،کہیں ایسا نہ ہو کہ بے روزگاری کا نیا سیلاب آجائے۔
لہٰذا وزیرِ خزانہ اور ایف بی آر کے ذمے داران کو مشورہ ہے کہ حسنِ تدبیر اور حکمتِ عملی سے کام لیں ۔دانا لوگوں نے کہا ہے: سونے کی مرغی کو یکدم ذبح کرنے کی بجائے روز کا انڈہ مفید ہوتا ہے ۔لہٰذا یا توشہری جائیداد کے سرکاری ریٹ کو ابتدا میں دوگنا یا تین گناکردیا جائے یا ٹیکس کی شرح مُعتَدبہ حد تک کم کردی جائے تاکہ معیشت کا یہ شعبہ بھی رواں دواں رہے ، لوگوں کا روزگار چلتا رہے،تعمیراتی صنعت سے وابستہ صنعتی وتجارتی شعبے فعال رہیں اور حکومت کو پہلے سے زیادہ ٹیکس بھی ملتا رہے۔ بتدریج اس میں اضافہ کیا جاسکتا ہے تاکہ لوگ ٹیکس کلچر کے عادی ہوں ۔ جنرل پرویز مشرف فوجی حکمران تھے اور انہیں اپنی دانش پر مبالغے کی حد تک اعتماد تھا۔ انہوں نے معیشت اور کاروبار کی Documentationاوراِسے قانون کے دائرے میں لانے کا فیصلہ کیا ۔دکان داروں اور تاجروں نے طویل ہڑتالیں کیں ۔اس پر جنرل صاحب نے اقتدار کے ترنگ میں آکر تڑی لگائی کہ آپ کب تک کاروبار بند رکھیں گے، جب بھی آپ اپنی دکان یا کاروباردوبارہ کھولیں گے ،ہمیں اپنے دروازے پر موجود پائیں گے۔لیکن پھر انہوں نے بھی اس بھاری پتھر کو چوم کر رکھ دیا اور مفاہمت پر مجبور ہوگئے۔سو ہمارے حکمرانوں کواپنے وطن کی ماضی کی تاریخ کا ادراک ہونا چاہیے ۔بینکوں کے لین دین پر وِد ہولڈنگ ٹیکس کی اسکیم اس لیے کامیاب ہوئی کہ اُس کی شرح برائے نام رکھی گئی اور اُس کی آڑ میں ایف بی آر کے لوگوں نے بینکوں سے پیسے نکالنے والوں اور وصول کرنے والوں کا تعاقب نہیں کیا ،ورنہ بینکاری کی صنعت میں بھی سیّال کرنسی کا بحران پیدا ہوسکتا تھا۔