"MMC" (space) message & send to 7575

جِنّات

انگریزی میں کسی ایک کلمے میں ایک حرف ایک ہی جگہ دوبار آئے ،تو اُسے ہم Doubleسے تعبیر کرتے ہیں ،اِسی کو عربی میں مُشدَّد سے تعبیر کرتے ہیںاورپہلے حرف کو ساکن کر کے دوسرے میں مُدْغَم (Merge)کردیتے ہیں ۔اِسی قاعدے کے تحت لفظِ ''جِنّ‘‘کا نون مُشدَّد ہے۔عربی زبان میں ''ج +ن+ن‘‘سے جتنے بھی کلمات بنتے ہیں ،اُن سب میں ستراور پوشیدگی کا معنی پایا جاتا ہے ، جیسے دل کو ''جَنَان‘‘،رِحمِ مادر میں بچے کو ''جَنین‘‘، دماغ پر پردہ پڑنے کو ''جُنون‘‘،ایسے گھنے باغ کو جس کے نیچے کی زمین نظر نہ آئے ''الْجَنَّۃ‘‘،پردے کو ''الجُنَّۃ‘‘،ڈ ھال کو ''الْجُنّۃ، الْجَنَان اور الْمِجَنّ ‘‘اورقبر کو ''اَلْجَنَنْ‘‘کہتے ہیں ۔پس اسی معنی کی مناسبت سے ناری مخلوق کو'' جِنّ اور جَانّ ‘‘کہتے ہیں ،جو نظروں سے پوشیدہ ہوتے ہیں۔ہمارے بعض دانشوروں نے ،جنہیں علومِ قرآنی اور عربی دانی کا زعم تھا ،انسانوں سے جدا ایک نوعِ مخلوق ہونے کے اعتبار سے جنّات کا انکار کیا ہے۔غلام احمد پرویز لکھتے ہیں:''عربوں میں ''اَلاِنْس‘‘اُن قبیلوں کو کہتے تھے جو ایک مقام پر مستقل طور پر سکونت پذیر ہوجائیں ،لیکن ''جِنٌّ‘‘ وہ قبائل تھے جو جنگلوں اور صحرائوں میں جا بہ جا پھرتے رہتے اور اس طرح شہر والوں کی نگاہوں سے اوجھل رہتے تھے ،انہیں خانہ بدوش قبائل(Nomadic Tribes)کہاجاتا ہے ۔۔۔آگے چل کر لکھتے ہیں: ''اِن مقامات پر غور کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ وہاں ''جِنٌّ‘‘سے مراد انسان ہی ہیں ،یعنی وہ وحشی قبائل (Gypsies) ہیں جو صحرائوں میں رہا کرتے تھے ، (لغات القرآن ،ص:446)‘‘۔
سرسید احمد خان لکھتے ہیں: ''اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمام علمائے اسلام نے جنّوں کو ایسی ہی جداگانہ مخلوق قرار دیا ہے جیسے کہ انسان ،مگر قرآنِ مجید سے جنّوں کی ایسی مخلوق ہونے کا ثبوت نہیں ۔۔۔طویل بحث کرنے کے بعد آگے چل کر لکھتے ہیں: ''مشرکینِ عرب جو جنّوں کا یقین رکھتے تھے، وہ اُن کو جنگلوں اور پہاڑوں میں انسانوں سے مخفی رہنے والے جانتے تھے اور شریر اور زبردست قوی ہیکل خیال کرتے تھے اور اِس قسم کے انسانوں پر بھی جنّ کا اطلاق کرتے تھے ،قرآنِ کریم میں کہیں بطورِ استعارہ جنّ کا اطلاق انسان کو گمراہ کرنے والے شیطان پر ہوا ہے اور کہیں وحشی اور شریر انسانوں پر ،(تفسیر القرآن ،ج:2،ص: 505-511، ملخَّصاً)‘‘۔مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:''جنّوں کے جس تاثّر کا ''سورۃ الجنّ‘‘میں حوالہ دیا گیا ہے ،اس سے اگرچہ وہ لوگ متاثر نہیں ہوں گے جو صرف محسوسات کے غلام ہیں اور اُن چیزوں کے سِرے سے وجود ہی کے منکر ہیں ،جواُن کے محسوسات کے دائرے سے باہر ہیں ،(تدبرقرآن،ج: 8،ص:609)‘‘۔معروف اسکالرسرسید احمد خان اورغلام احمد پرویز معجزات کے منکر ہیں اور وہ اُن کی طرح طرح کی تاویلیں کرتے رہتے ہیں ،چنانچہ معراج النبی ﷺ کے بارے میں عام مسلمانوں کے عقیدے کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:''رسول اللہﷺ کا جسمانی طور پر رات کو بیت المقدس جانا اور وہاں سے ایک سیڑھی کے ذریعے آسمانوں پر جانا قانونِ فطرت کے خلاف ہے اور عقلاً محال ہے۔ اگر معراج النبی ﷺ کے راویوں کو ثقہ بھی مان لیا جائے ،تو یہی کہا جائے گا کہ انہیں سمجھنے میں غلطی ہوئی۔ یہ کہہ دینا کہ اللہ اِس پر قادر ہے ،یہ جاہلوں اور مرفوع القلم لوگوں کا کام ہے، یعنی ایسے لوگ مجنون کے حکم میں ہیں ،سچے مومن ایسی بات نہیں کہہ سکتے۔ قانونِ فطرت کے مقابل کوئی دلیل قابلِ قبول نہیں ہے۔ ایسی تمام دلیلوں کو انہوں نے راوی کے سَہو اور خطا، دوراَزکار تاویلات، فرضی اور رکیک دلائل سے تعبیر کیا، (تفسیر القرآن، ج:2، ص: 122-123)‘‘۔
اِن اہلِ علم نے وحیِ ربانی اور دینِ اسلام کے مُغَیِّبَات کو اپنی عقل کی کسوٹی پر پرکھ کر رَد کرنے کا شِعار اختیار کیا اور عقل یا اپنے الفاظ میں قوانینِ فطرت کو اٹل اور ابدی تسلیم کیا،یہاں تک قرار دیا کہ فاطِروخالق سبحانہٗ وتعالیٰ بھی اِن قوانینِ فطرت کا پابند ہے ۔ظاہر ہے اللہ تعالیٰ تو وہی ہے جو ہر چیز پر قادر ہے ،ہر چیز پر حاکم ہے اور تمام ممکنات اُس کی قدرت کے تابع ہیں ۔کسی بھی چیز میں کوئی کمال ذاتی نہیں ہے ، بلکہ ہرچیز میں جو بھی کمال ہے ،وہ اللہ تعالیٰ کے خَلق اور اُس کی عطاسے ہے اور وہ جس طرح کسی چیز میں کوئی کمال یا خاصیت پیدا کرنے پر قادر ہے ،اِسی طرح اُسے سَلب کرنے اورقلبِ ماہیت پر بھی قادر ہے ،ارشاد فرمایا:''ہم نے حکم دیا :اے آگ!تو ابراہیم پر ٹھنڈک اور سلامتی ہوجا،(الانبیائ:69)‘‘۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے جنات کے بارے میں فرمایا(1): ''اور جنّ کو خالص آگ کے شعلے سے پیدا کیا،(الرحمن:15)‘‘۔ (۲):''اوراس سے پہلے ہم نے جنّات کو بغیر دھوئیں کی آگ سے پیدا کیا،(الحجر:27)‘‘۔الغرض قرآنِ کریم میں صراحت ہے کہ جنّ انسانوں سے جدا ایک نوعِ مخلوق ہے اور اُس کا مادّہ ٔ خلقت آگ ہے ۔سورۂ احقاف اور سورۃ الجنّ میں جنّات کی رسول اللہﷺ کے پاس آمد کا ذکر ہے ،ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''آپ کہیے!میری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ جنّات کی ایک جماعت نے (قرآن) سنا اور کہا: ہم نے عجیب قرآن سنا ہے ،جو ہدایت کی طرف رہنمائی کرتا ہے ،پس ہم اُس پر ایمان لائے اور ہم ہرگز اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے اور بے شک ہمارے رب کی شان بہت بلند ہے ،نہ اُس نے کوئی بیوی بنائی ہے اور نہ اولاد، (الجن:1-3)‘‘۔ سورۃ الجن سے معلوم ہوتا ہے کہ شیاطین وجنّات عالَمِ بالا میں جایا کرتے تھے، وہاںگھات لگا کر بیٹھ جاتے تھے اور فرشتوں کی باتوں کی سُن گُن لیتے تھے اور کوئی ناتمام بات سُن لیتے تو اُس میں اپنی طرف سے آمیزش کر کے کاہنوں کو پہنچادیتے اور وہ لوگوں کو اپنے دامِ عقیدت میں پھنساتے اور گمراہ کرتے۔لیکن اچانک عالَمِ بالا میں تبدیلی آئی اور جنّات وشیاطین کا داخلہ بند ہوگیا ،تو وہ اس تلاش میں نکل کھڑے ہوئے کہ آخر اس تبدیلی کا سبب کیا ہے ؟۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:''(جنّات نے کہا:) اور ہم نے آسمانوں کا جائزہ لیا تو ہم نے اُسے سخت پہرے داروں اور آگ کے گولوں سے بھرا ہوا پایا ،اور (اس سے پہلے )ہم سُن گُن لینے کے لیے گھات لگا کر بیٹھ جاتے تھے ، سو اب جو کوئی بھی (عالَمِ بالا کی باتیں )سننے لگے تو وہ اپنے لیے آگ کا شعلہ تیار پاتا ہے ،اور ہمیں معلوم نہیں کہ (اس بندش سے) زمین والوں کے ساتھ کسی برائی کا ارادہ کیا گیا ہے یا اُن کے رب نے اُن کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کیا ہے اور بے شک ہم میں سے کچھ لوگ نیک ہیں اور کچھ اس کے برعکس ،ہماری راہیں جدا جدا ہیں، (الجنّ: 8-11)‘‘۔پھر فرمایا: ''اوربے شک ہم میں سے چند اطاعت گزار ہیں اورکچھ سرکش ہیں ،(الجنّ:14)‘‘۔
رسول اللہ ﷺ کے حضورجنّات کی آمد کی تفصیل حدیث پاک میںموجود ہے:''حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جنّات پر قرآن مجید نہیں پڑھا تھا اور نہ ان کو دیکھا تھا، نبی ﷺ اپنے اصحاب کی جماعت کے ساتھ عُکاظ کے بازار میں گئے اور آسمان کی خبر اور شیاطین کے درمیان کوئی چیز حائل ہوگئی تھی اور ان کے اوپر آگ کے شعلے پھینکے جاتے تھے، پس شیاطین اپنی قوم کی طرف گئے اور انہوں نے کہا: ہمارے اور آسمان کی خبر کے درمیان کوئی چیز حائل ہوگئی ہے اور ان کے اوپر آگ کے شعلے پھینکے جاتے تھے؟۔ انہوں نے کہا: ضرور کوئی نئی بات ہوئی ہے،زمین کے شرق وغرب میں سفر کرو اور تلاش کرو کہ ہمارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان کیا چیز حائل ہوگئی ہے، پھر انہوں نے زمین کے مشارق اور مغارب میں سفر کیا، ان کی ایک جماعت تہامہ کی طرف گئی اور وہاں نبی ﷺ عُکاظ کے بازار میں اپنے اصحاب کو صبح کی نماز پڑھا رہے تھے ،جب انہوں نے قرآن کو سنا تو انہوں نے کہا: یہی وہ چیز ہے جو ہمارے اور آسمان کے درمیان حائل ہوگئی ہے، پھر وہ اپنی قوم کے پاس گئے اور کہا: اے ہماری قوم!ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے جو سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتا ہے ،ہم اُس پر ایمان لے آئے اور ہم ہرگز کسی کو اپنے رب کا شریک قرار نہیں دیں گے ،(صحیح البخاری:4921)‘‘۔
اس مضمون کو سورۃ الاحقاف میں بیان کیا ہے :''اور یاد کیجیے !جب ہم نے جنّات کی ایک جماعت کو آپ کی طرف متوجہ کیا جو توجہ سے قرآن سنتے تھے ،پس جب وہ وہاں حاضر ہوگئے ،تو آپس میں کہا:خاموش رہو، پھر جب قرآن پڑھا جاچکا ،تو وہ اپنی قوم کی طرف ڈر سناتے ہوئے پلٹے، آپس میں کہا: اے ہماری قوم!ہم نے ایک ایسی کتاب سنی ہے جو موسیٰ (علیہ السلام )کے بعد نازل کی گئی ہے ،جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے ،حق اور سیدھی راہ کی طرف ہدایت دیتی ہے ،(الاحقاف: 29-30)‘‘۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے ماننے والے تھے۔
سو جنّات کا وجود ایک حقیقت ہے ،اس پر ہمارا ایمان ہے اور قرآن اس پر شاہد ہے ۔ان میں مسلمان بھی ہیں اور کفار بھی، صالح بھی ہیں اور فاسق وفاجر بھی۔لیکن آج کل عجیب وغریب ہیئت کے حامل لوگ اورجنّات کے عامل ہونے کے دعویدار سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کر رہے ہیں ، لوٹ رہے ہیں، بلیک میل کر رہے ہیں اور بعض صورتوں میں توَہُّم پرست عورتوں کو پھنسا کر اُن کی آبروریزی کرتے ہیں اور میڈیا بھی اپنے کاروبار کے لیے ایسے لوگوں کو پروموٹ کر رہا ہے ،ان جعلی عاملوں کے لیے سخت تعزیری قوانین کی ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں