اِس عنوان کا خیال مجھے اس لیے آیا کہ حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ نے حکومتِ پنجاب کی اورنج ٹرین اسکیم کے مجوَّزہ روٹ پر پابندی لگادی اور چوبرجی لاہور کے علاقے سے حکومت نے جو این او سی جاری کیا تھا ،اُسے منسوخ کردیا۔اس کا سبب یہ ہے کہ سِول سوسائٹی ،جوہمارے وطنِ عزیزکے اَشرافیہ کا کلب ہے، نے اِسے آثارِ قدیمہ کی تقدیس کے منافی قرار دیا ہے ، یعنی اُن کاجوں کا توں رہنا ضروری ہے ،کیونکہ انہیں ماہرینِ آثارِ قدیمہ یا جدید دنیا کی اَقدارکی رُو سے تقدیس کا درجہ حاصل ہے، ایسی ہی اہمیت کی حامل دوسری اہم چیز ماحول ہے ۔ماہرینِ آثارِ قدیمہ کے نزدیک اِن چیزوں کواصل حالت میں قائم رکھناچاہیے اور اِس کے لیے اقوامِ متحدہ کا ادارہ یونیسکو بھی کام کر رہا ہے۔ماہرینِ آثارِ قدیمہ کے نزدیک اِن آثار کا باقی رہنا ضروری ہے تاکہ اُس عہد کے لوگوں کے نظام، رہن سہن ،تہذیب وتمدّن،زبان ولباس اور دیگر چیزوں کے بارے میں تحقیق کی جاسکے۔ ہمارے ملک میں موہن جودڑو، ہڑپہ اورگندھارا تہذیب کے آثار موجود ہیں ۔مغلیہ دور کی عالی شان عمارات ،قلعے ، مساجد اور باغات وغیرہ بھی ہیں ۔
اسلام بھی ماضی کی فنا شدہ امتوں کے آثار واحوال کو اہمیت دیتا ہے ،لیکن قرآن اور اسلام کا اندازِ نظر مختلف ہے ۔اسلام اس جہت سے ذی شعور انسانوںکو متوجہ کرنا چاہتا ہے کہ ماضی کی امتوںکے عروج کے اسباب کیا تھے اورجب اُن کا نام ونشان صفحۂ ہستی سے مِٹ گیا تو زوال کے اسباب کیا تھے ،تاکہ اُن کے عروج کے اسباب کو اختیار کیا جائے اور زوال کے اسباب سے اجتناب کیا جائے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(1) ''اور آسمانوں اور زمینوں میں کتنی ہی ایسی نشانیاں ہیں ،جن سے لوگ منہ پھیرتے ہوئے گزر جاتے ہیں ،(یوسف: 105)‘‘۔(2)''کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ اپنے سے پہلے لوگوں کا انجام دیکھ لیتے ، (یوسف:109)‘‘۔ (3)'' سو (اے فرعون !) آج ہم تیرے (بے جان)جسم کو بچالیں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لیے نشانِ عبرت بن جائے اور بے شک بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں ،(یونس:92)‘‘۔(4)''کیا وہ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ اپنے سے پہلے لوگوں کا انجام دیکھ لیتے ،حالانکہ وہ ان سے زیادہ طاقت ور تھے اور اللہ کی یہ شان نہیں ہے کہ آسمانوں اور زمین میں کوئی چیز اس کو عاجز کردے، (فاطر: 44)‘‘۔ (5)''اور کتنی ہی ایسی بستیاں ہم نے تباہ کردیں کہ وہ ظالم تھیں اور اُن کے بعد ہم نے دوسری قوم پیدا کی ،سوجب انہوں نے ہمارے عذاب کو محسوس کیا تو فوراً اس سے بھاگنے لگے ،(اُن سے کہا گیا:)اب مت بھاگو اور اسی جگہ لوٹو جہاں تمہیں آسودگی عطا کی گئی تھی اور اپنی رہائش گاہوں کی طرف تاکہ تم سے پوچھ گچھ کی جائے ،انہوں نے کہا: ہائے افسوس!بے شک ہم ظلم کرنے والے تھے ،وہ یہی پکارتے رہے:یہاں تک کہ ہم نے اُن کو کاٹی ہوئی فصل کی طرح کردیا، اُن کی شمعِ حیات گل ہوگئی، (الانبیاء :11-15)‘‘۔ (6)''اور ہم نے اِن (اہلِ مکہ )سے پہلے کتنی ہی قومیں ہلاک کردی تھیں جن کی گرفت اِن سے بہت سخت تھی ،انہوں نے ملکوں کو چھان ماراکہ کہیں جائے پناہ مل جائے ،بے شک اس میںضرور نصیحت ہے اُس کے لیے جو صاحبِ دل ہو یا وہ توجہ سے سنے ،(ق:36-37)‘‘۔
مصری فرعونوں کی حنوط شدہ لاشیں آج بھی ذی ہوش انسانوں کے لیے عبرت کا سامان ہے ،کاش کہ اہلِ فکرونظراور اہلِ عقل وخِرد اِن نشانیوںسے عبرت حاصل کریں۔آج ہمارا حال یہ ہے کہ اگر کسی کو مصری فرعونوں کی حنوط شدہ لاشوں کو دیکھنے کا موقع ملے ،تو وہ ان کے پاس کھڑے ہوکر اپنے موبائل سے سیلفی بنائے گا،نگاہِ عبرت سے دیکھنا اور عبرت پکڑنا تو بہت دور کی بات ہے،اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔آج کل لوگ اپنے عزیزوں کے جنازے کی مسہری کے پاس کھڑے ہوکر اور قبر میں رکھی ہوئی اُن کی میتوں کی تصویریں بناتے ہیں۔الغرض جو مقاماتِ عبرت ہیں ، انہیں ہم نے تفریحِ طبع کا ذریعہ بنادیا ہے ،موت ،قبر ،احوالِ قبر اور قیامت کا یاد آنا تو بہت دور کی بات ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''میں نے (ابتدا میں)تمہیں قبرستان جانے سے منع کیا تھا،مگر اب تم جایا کرو ، کیونکہ اس کے سبب دل میں نرمی پیدا ہوتی ہے ، آنکھیں اشک بار ہوتی ہیں اور آخرت کی یاد آتی ہے اور بے ہودہ کلام نہ کرو، (المستدرک :1393)‘‘۔اب تو حال یہ ہے کہ عین طواف کے دوران بھی سیلفیاں بنائی جاتی ہیں اور انہیں سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا جاتا ہے ،سوعبادت تفریح بن گئی اور اُسے تشہیر کا ذریعہ بنایا جانے لگا۔
رسول اللہ ﷺ نے صحابۂ کرام کوانتہائی حدتک عذاب یافتہ قوموں کے آثار سے نفرت دلائی ،اس کا اندازہ اِن احادیثِ مبارکہ سے ہوتا ہے:(1)''حضرت عبداللہ بن عمربیان کرتے ہیں:رسول اللہ ﷺجب غزوۂ تبوک (کے موقع پر)الحِجر کی وادی میں پہنچے ،تو آپ نے (صحابہ کو)حکم دیا :ان کے کنویں سے خو د بھی پانی نہ پیو اور اپنے جانوروں کوبھی نہ پلائو،صحابہ نے عرض کی:(یارسول اللہ!)ہم تو اس کے پانی سے آٹا گوندھ چکے ہیں اور پانی نکال چکے ہیں ،تو آپ ﷺ نے حکم فرمایا:اس گندھے ہوئے آٹے اورپانی کو گرادو، (بخاری: 3378)‘‘۔ (2):''آپ نے گندھا ہوا آٹا اونٹوں کو کھلانے کی اجازت دی اور فرمایاکہ جس کنویں پر صالح علیہ السلام کی اونٹنی آتی تھی ،اُس سے پانی نکالو،(صحیح البخاری:3379 ) ‘‘۔(3)''جب نبیﷺ( قومِ ثمود کی )وادیٔ حِجر سے گزرے ، تو آپ نے صحابہ سے فرمایا:تم اُن لوگوں کے گھروں میں داخل نہ ہو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا ،کہیں ایسا نہ ہو کہ تم پر بھی وہی عذاب آئے جو اُن پر آیا تھا ،اگرتمہارا وہاں سے گزر ہو تو روتے ہوئے گزرو، پھر آپ نے اپنے سر پر کپڑا ڈال لیا اور رفتار تیز کرلی یہاں تک کہ اس وادی سے گزر گئے،(صحیح البخاری: 4419)‘‘۔جب کہ ہمارے ہاں اب ہر سال موہن جودڑو کے کھنڈرات پر رقص وموسیقی کا جشن منایا جاتا ہے ،غور کا مقام ہے کہ کیا ہم موت کو یک سر بھول چکے ہیں؟۔
قرآنِ مجیدمیں جا بہ جا اس طرح کی آیاتِ عبرت وبصیرت موجود ہیں اوراپنے جرائم کی پاداش میں صفحۂ ہستی سے مٹ جانے والی امتوں کے کھنڈرات غالب کے الفاظ میںاپنے عہد کے غافل لوگوں کومتوجہ کر رہے ہیں:
اے تازہ واردانِ بساطِ ہوائے دل
دیکھو مجھے !جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
زنہار! اگر تمھیں ہوسِ نائے و نوش ہے
میری سنو! جو گوشِ نصیحت نیوش ہے
مفہوم:'' خواہشات ِ نفس کی بساط بچھانے والو!تم پر مَے ونشہ اگربہت ہی غالب ہے ،تب بھی میرا مشورہ ہے کہ رک جائو۔اگر تم نگاہِ عبرت رکھتے ہو تو میرا انجام دیکھو اور اگر تم نصیحت سننے والے کان رکھتے ہو ،تو مجھ سے میری داستانِ اَلم سنو اور غفلت کی زندگی ترک کر کے ہوش وخِرَد کی زندگی اختیار کرو‘‘۔
ہاں!حرمت وتقدیس کے حامل کچھ آثار ایسے ہوتے ہیں کہ جنہیں باقی رکھا گیا ہے اور باقی رہنے چاہییں ،اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:(1) ''بے شک سب سے پہلا گھر جو (اللہ کی عبادت کے واسطے )لوگوں کے لیے بنایا گیا ،وہی ہے جو مکہ میں ہے، برکت والا اور تمام جہانوں کے لیے ذریعۂ ہدایت ہے، اس میں (ہدایت کی )واضح نشانیاں ہیں ،مقامِ ابراہیم ہے اور جو شخص اس میں داخل ہوا ،وہ بے خوف ہوگیا ،(آل عمران:97)‘‘۔ (2)''اور (یاد کیجیے!)جب ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے رجوع کی جگہ اور مقامِ امن بنادیا اور(حکم دیاکہ )مقامِ ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بنادو اور ہم نے ابراہیم واسماعیل کو تاکید فرمائی کہ وہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں،اعتکاف کرنے والوں اور رکوع وسجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھیں ، (البقرہ:125)‘‘۔
حضرت انس ؓبیان کرتے ہیں: حضرت عمر نے کہا:میں نے اپنے رب کی تین چیزوں میں موافقت کی ہے ،(اُن میں سے ایک یہ ہے کہ) میں نے عرض کی:یارسول اللہ!کاش ہم مقامِ ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بنالیں ،تو یہ آیت نازل ہوگئی: وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاھِیْمَ مُصَلّیٰ‘‘، (بخاری: 402)‘‘۔ایسی ہی آیات واحکام کو''مُوَفَّقَاتِ عُمَر‘‘کہاجاتا ہے۔
اسی طرح صفا ومروہ کے درمیان سعی حضرت ہاجَرکی یاد گار ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں ،سو جو حج یا عمرہ کرے ،تو اس پر ان دونوں کا طواف کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے ، (البقرہ:158)‘‘۔
حرمین طیبین میں عہدِ نبوت اور عہدِ صحابہ کے بہت سے آثار مٹاد یے گئے ہیں ،جو ذاتِ رسالت مآب ﷺ سے اہلِ عقیدت کی والہانہ محبت کومہمیز دیتے تھے ،اُن آثار کو دیکھ کر اُس مبارک عہد کی یاد تازہ ہوتی تھی ۔لیکن اس کے برعکس سلطنتِ آلِ سعود کے بانی ملک عبدالعزیز کی تلوار ، خنجر، لباس ،الغرض ہرچیز کو ریاض کے عجائب گھر میں یادگار کے طور پر سجا کر رکھا ہوا ہے :''بہ بیں تفاوت ،از کُجاتا بہ کُجا‘‘۔
مولانا حسن رضاخان نے کہاہے:
وہاں کے سنگ ریزوں سے حسن کیا لعل کو نسبت
وہ اُن کی رہگزر میں ہیں اور یہ پتھر ہیں بدخشاں کے
علامہ اقبال نے کہا:
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
زبان وبیان:وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خاں نے کہا:اردو بولنے والے ''مُحِبِّ وطن ترین‘‘ لوگ ہیں ۔تفضیلِ کُلی کو ظاہر کرنے کے لیے لفظِ'' ترین ‘‘مفرد کی صفت ہوتا ہے،مرکب کی نہیں، جب کہ ''مُحِبِّ وطن ‘‘مرکب کلمہ ہے ۔اس کی بجائے انہیں یہ کہنا چاہیے تھا :''اردو بولنے والے سب سے زیادہ محبِ وطن لوگ ہیں ‘‘۔