اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''سو آپ باطل پرستوں سے کنارہ کش ہوکر اپنے آپ کو دینِ حنیف پر قائم رکھیں، (اے لوگو!) اپنے آپ کو اللہ کی بنائی ہوئی اُس خِلقت پر قائم رکھو جس پر اُس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی خِلقت میں کوئی تبدیلی نہیں ہے، یہی صحیح دین ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے، (دینِ حق پر قائم رہتے ہوئے) اُس (اللہ کی طرف) رجوع کرتے رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور نماز قائم رکھو اور مشرکین میں سے نہ ہوجائو،(الروم:30-31)‘‘۔ قرآن میں ملّتِ حنیف کے ساتھ ساتھ دینِ حنیف کے کلمات بھی آئے ہیں۔
''اور انہیں فقط اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ وہ تمام باطل ادیان سے اجتناب کرتے ہوئے اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اُس کی عبادت کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور یہی دین مستقیم ہے،(البیّنہ :5)‘‘۔ سو دینِ حنیف کے کچھ لازمی تقاضے بھی ہیں جن کی کسوٹی پرکسی فرد کے دین کو پرکھا جائے گا ،اُن میں چند ایک یہ ہیں:
(1): انسان اپنی خواہشاتِ نفس کا اسیر بن کر نہ رہے کہ حلال وحرام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے واضح احکام کو نظر انداز کر کے اور پسِ پشت ڈال کر اتباعِ نفس کرے ،ارشادِ باری تعالیٰ ہے(الف):''(اے رسول !)کیا آپ نے اُس شخص کو دیکھا ،جس نے اپنی خواہش کو معبود بنارکھا ہے اور اللہ نے اُسے علم کے باوجود گمراہ کردیا ہے اور (اُس کے کرتوتوں کی پاداش میں) اُس کے کانوں اور دل پر مہر لگادی اور اُس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا، پس اللہ کے بعد اُسے کون ہدایت دے گا، سو کیا تم نصیحت قبول نہیں کرتے، (الجاثیہ:23)‘‘۔ (ب): ''پس اگر یہ آپ کی دعوت قبول نہ کریں، تو جان لیجیے کہ یہ صرف اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں اور اُس سے زیادہ گمراہ کون ہوگا جو اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کی پیروی کرے ،(القصص: 50)‘‘۔ اللہ تعالیٰ کے صریح احکام کے برعکس خواہشاتِ نفس کی اتباع ایمان کی وہ کسوٹی ہے، جس سے ہر صاحبِ ایمان کو صبح سے لے کر شام تک واسطہ پڑتا ہے اور ہر ایک اپنے اندر جھانک کر اپنا جائزہ لے سکتا ہے۔
(2) اللہ تعالیٰ ،اُس کے رسولِ مکرّم ﷺ اور ضرورت کے وقت اُس کی راہ میں جہاد کوکائنات کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب جاننا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''(اے رسول !)
کہہ دیجیے: اگر تمہارے باپ دادا اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہاراخاندان اور تمہارے کمائے ہوئے اموال اور تمہاری تجارت جس کے گھاٹے میں جانے کا تمہیں کھٹکا لگا رہتا ہے اور تمہارے پسندیدہ مکانات (یہ سب چیزیں مل کر بھی)
تمہیں اللہ اور اُس کے رسول اور اُس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہوں تو تم انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا،(التوبہ:24)‘‘۔
اس آیت میں ایک انسان کے اُن تمام متعلِّقات (Belongings)کا ذکر ہے،جن کی طرف انسان کا دل ودماغ کھچا چلا جاتا ہے اور جن کی محبت سے مجبور ہوکر انسان بعض اوقات حلال وحرام کی حدود کو بھی پارکرلیتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے ان سب کی محبت کی نفی نہیں فرمائی،کیونکہ اپنے اپنے درجے میں ان سب کی محبت کا جواز موجود ہے اور انسان کی فطرت کا تقاضا بھی ہے۔ مگر جب ان سب چیزوں کی محبت اللہ اور اُس کے رسول کی محبت کے مُقابل آجائے تو محبوب ترین (Most beloved) صرف اور صرف اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول ﷺ کی ذواتِ اَقدس اوراللہ کی راہ میں جہاد ہونا چاہیے، اگر یہ نہیں ہے تو ایمان کا دعویٰ محلِّ نظر ہے۔ اسی حقیقت کو رسول اللہ ﷺ نے اِن کلمات میں بیان فرمایا ہے: ''تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومنِ (کامل)نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ مجھے اپنے والد، اپنی اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ جانے،(صحیح البخاری:15)‘‘۔ راوی بیان کرتے ہیں: ہم نبی ﷺ کے ساتھ تھے اور آپ ﷺ عمر بن خطاب کے ہاتھ کو پکڑے ہوئے تھے، حضرت عمر نے عرض کی: یارسول اللہ! اللہ کی قسم! آپ مجھے اپنی جان کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں، تو نبی ﷺ نے فرمایا: اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا تاوقتیکہ وہ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ جانے، حضرت عمر نے عرض کی: (یارسول اللہ!) اب آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عمر! اب ٹھیک ہے،(مسند احمد:18961)‘‘۔ لیکن محض زبان سے محبت کا دعویٰ کافی نہیں ہوتا، امتحان اور آزمائش کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے،تب جاکر انسان دعوائے ایمان میں سرخرو ہوتا ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسی امتحان کے مرحلے سے گزر کر سرخرو ہوئے ۔
اسلام میں مشکل صورتِ حال سے نکلنے کی دو صورتیں ہیں: ایک کوعزیمت کہتے ہیںکہ انسان جان قربان کردے لیکن کلمۂ کفر زبان پر نہ لائے، یہ اولوالعزم اور عظیم المرتبت انسانوں کا شِعار ہے،حضرت ابراہیم علیہ السلام نارِ نمرود کے موقع پر اِسی عزیمت کا پیکر بنے۔ دوسری صورت رخصت کی ہے، یہ اُن اہلِ ایمان کے لیے ہے جو اعلیٰ درجے کی عزیمت کے حامل نہ ہوں،مگر اُن کے دلوں میں ایمان راسخ ہو،تو انہیں برسبیلِ تنزُّل جان بچانے کی رخصت دی گئی ہے۔سورۂ النحل آیت 106تا109میں دونوں صورتیں بیان کردی گئی ہیں اور اُن پر جوحکم مرتّب ہوتا ہے،وہ بھی بیان فرمایا گیا ہے۔
صحابۂ کرام میں اہلِ عزیمت کی ایک طویل فہرست ہے جن میں حضرات بلال، یاسر،سُمیّہ ،خبّاب بن ارت،عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہم کے اسمائے گرامی آتے ہیں۔ اہلِ رخصت میں حضرت عمّار رضی اللہ عنہ کا نام آتا ہے جن کے والدین کریمین (یاسر وسُمیّہ رضی اللہ عنہما)کو انتہائی اذیّتیں پہنچاکر ظلماً شہید کردیا گیا ۔ایک روایت کی رُو سے حضرت سمیّہ رضی اللہ عنہا کو مخالف سَمت میں دواونٹوں سے باندھ کر دولخت کردیا گیا اور اُن کی شرمگاہ میں تیر مارا گیا۔ اپنے والدین کا انجام دیکھ کر حضرت عمّار ہمت ہار گئے اور رسول اللہ ﷺ کی شان میں نامناسب کلمہ کہہ کر اپنی جان بچائی اور پھر روتے ہوئے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ نے اُن کے آنسو پونچھے اور دریافت کیا :تمہارے دل کی کیفیت کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: دل میں ایمان راسخ ہے ،آپ ﷺ نے فرمایا:اگر آئندہ بھی تمہیں ایسی مشکل صورت پیش آئے تو اِسی طرح اپنی جان بچانا ،پھر آپ ﷺنے اُن کے ایمان کی ثابت قدمی کی شہادت دیتے ہوئے فرمایا:''عمّارکا وجود چوٹی کے بال سے لے کر پائوں تک ایمان سے معمور ہے اور ایمان اُن کے خون ،گوشت اور رَگ وپَے میں رَچ بس چکا ہے ‘‘۔
اہلِ عزیمت میں ایک عظیم مثال حضرت عبداللہ بن حذافہ کی ہے: انہیں شام کے نصرانیوں نے قید کر کے قیصرِ روم کے دربار میں پیش کیا۔ قیصر نے کہا:''نصرانی مذہب قبول کرلو ،میں انعام کے طور پر اپنی بیٹی تمہارے نکاح میں دوں گا اور اپنی بادشاہت میں تمہیں شریک کروں گا‘‘۔حضرت عبداللہ بن حذافہ نے جواب دیا:''جو دولت وسلطنت تمہاری مِلک میں ہے اور اس کے علاوہ جو پورے عالَم عرب میں ہے ،اگر یہ سب مجھے دے دی جائیں ،تب بھی میں ایک پلک جھپکنے کی مقدار بھی دینِ محمد سے رجوع نہیں کروں گا‘‘۔ قیصر نے کہا:'' پھر میں تجھے قتل کر ڈالوں گا‘‘۔انہوں نے جواب دیا:''جو تمہاری مرضی میں آئے کرو‘‘۔قیصر نے اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ اِسے سولی پر لٹکائو اور اس کے ہاتھ پائوں کے قریب تیر اندازی کرو،اس دوران وہ انہیں عیسائیت کی دعوت دیتے رہے اور یہ مسلسل انکار کرتے رہے ۔پھرحضرت عبداللہ کو سولی سے اتارا گیا اور ایک دیگ میں تانبے کو پگھلا کر جوش دیا گیا ،پھر مسلمان قیدیوں کو ایک ایک کر کے اُس میں ڈالا جاتا ،اُن کا گوشت جل جاتا اور ہڈیوں کا ڈھانچا رہ جاتا ۔پھر انہیں دیگ میں پھینکنے کے لیے ایک چرخی (Pulley, Bobbin) میں رکھا گیا ،تو آپ رونے لگے ،اس پر قیصر کو امید پیدا ہوئی کہ اب یہ گھبرا کر عیسائیت قبول کرلیں گے، سو اُس نے دعوت دی ۔حضرت عبداللہ بن حذافہ نے کہا:''میں تو اس لیے رو رہا ہوں کہ یہ صرف ایک جان ہے ،میری تمنا تو یہ تھی کہ میرے وجود کے ہر روئیںکے برابرمیری جانیں ہوتیں اور میں انہیں یکے بعد دیگرے اللہ کی راہ میں قربان کیے چلا جاتا۔ ایک روایت میں ہے : انہیں جیل میں ڈال دیا گیا اور ایک عرصے تک کھانا پینا بند کردیا گیا ،پھر قید سے نکال کر اُن کے سامنے شراب اور خنزیرکا گوشت رکھ دیاگیا، انہوں نے اِن چیزوں کو ہاتھ بھی نہیں لگایا ۔قیصر نے بلاکر پوچھا:تم نے اِن چیزوں سے اپنی جان بچانے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ انہوں نے جواب دیا:اگرچہ جان بچانے کے لیے ہماری شریعت میں بقائے حیات کی حد تک اِن حرام چیزوں سے استفادہ جائز ہے ،لیکن میں ایسا کر کے تمہیں خوشی کا موقع نہیں دوں گا۔قیصر نے کہا:میری پیشانی پر بوسا دو،میں تمہیں آزاد کردوں گا۔حضرت عبداللہ نے جواب دیا:میں اس شرط پر تمہاری پیشانی کو بوسا دوں گا کہ تم میرے تمام ساتھی قیدیوں کو رہا کردو،قیصر نے کہا: یہ شرط منظور ہے ،پھر حضرت عبداللہ نے اس کی پیشانی کو بوسا دیا اور اپنے تمام ساتھی قیدیوں کو رہا کرادیا ۔جب وہ لوٹ کر امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب کے پاس گئے اور انہیں سارا ماجرا سنایا ،تو حضرت عمر نے کہا:ہر مسلمان پر لازم ہے کہ عبداللہ بن حذافہ کی پیشانی کو بوسا دے اور میں اس کی ابتدا کرتا ہوں ،وہ اٹھے اور اُن کی پیشانی کو بوسا دیا،رضی اللہ عنہم: خدا رحمت کُند ایں عاشقان پاک طینت را
فیض احمد فیض نے کہا تھا ؎
جس دھج سے کوئی مَقتَل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے،اس جاں کی تو کوئی بات نہیں