مولانا الطاف حسین حالی نے1914ء میں وفات پائی۔ انہوں نے اپنے دور کے مطابق ملّتِ اسلامیہ کا مرثیہ پڑھا اور دردِ دل کو الفاظ کے قالب میں ڈھالتے ہوئے مندرجہ ذیل اشعار کہے ،یہ دراصل امت کی زبوں حالی وناکامی اور حالات کی ستم ظریفی کا اعتراف ہے اور رسالت مآب ﷺ کی بارگاہ میں استغاثہ بھی ہے :
اے خاصۂ خاصان رُسُل! وقتِ دعا ہے
امت پہ تری آکے، عجب وقت پڑا ہے
جو تفرقے اقوام ، کے آیا تھا مٹانے
اس دین میں خود تَفرِقہ، اب آ کے پڑا ہے
جس دین نے ،دل آکے تھے غیروں کے ملائے
اس دین میں خود بھائی سے، اب بھائی جدا ہے
جو دین، کہ ہمدردِ بنی نوعِ بشر تھا
اب جنگ و جدل چار طرف، اس میں بپا ہے
جس دین کا تھا ، فَقر بھی اکسیر ، غِنا بھی
اس دین میں اب فقر ہے باقی ، نہ غِنا ہے
جس دین کی حُجّت سے، سب اَدیان تھے مغلوب
اب مُعترض، اُس دین پہ ہر ہرزہ سرا ہے
ہے دین تیرا اب بھی، وہی چشمہ صافی
دیں داروں میں ، پر آب ہے باقی، نہ صَفا ہے
آج ہم اِن اشعار کو پڑھتے ہیں تو لگتا ہے کہ جیسے انہوں نے امت کی موجودہ صورتِ حال کی تصویر کشی کی ہے اورامت بدستورابتلاسے دوچار ہے ۔گزشتہ چند دنوں میں مسلم ممالک کے درمیان باہمی آویزش خطرے کی لائن کو عبور کرچکی ہے ،یہ صورتِ حال انتہائی الم ناک اور روح فرسا ہے ،ایران کے رہبرجناب علی خامنہ ای نے کہا ہے :
''دنیائے اسلام کو حج کے معاملات اور مقاماتِ مقدَّسہ کے انتظام کے معاملے پر بنیادی طور پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے ،یہ دوسرا موقع ہے کہ آیت اللہ خامنہ ای نے حج کے انتظامات پر تنقید کی ہے۔ گزشتہ برس حج کے دوران بھگدڑ مچنے سے ایرانیوں سمیت سینکڑوں حجّاج کی اموات ہوئیں۔اُس کے بعد بھی انہوں نے تجویز دی تھی کہ مسلمان ممالک حج پر سعودی اختیار کو ختم کرنے کے بارے میں سوچیں ۔خیال رہے کہ رواں برس ایرانی شہری حج کی سعادت حاصل نہیں کر رہے ،( خبر،6ستمبر2016ء)‘‘۔یہ صورتِ حال دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات کے اِنقطاع کے سبب پیدا ہوئی ہے ۔
اس کے ردِّ عمل میں مفتیٔ اعظم سعودی عرب شیخ عبدالعزیز آلِ شیخ نے فرانسیسی اور امریکی خبر ایجنسی کے مطابق مکہ کے اخبار میں شائع ہونے والے بیان میں کہا:''خامنہ ای کا بیان ہمارے لیے حیرت انگیز نہیں ہے ،کیونکہ ایرانی پارسیوں کی نسل سے ہیں، جو آگ کو پوجتے تھے‘‘۔انہوں نے کہا: ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ مسلمانوں اور خصوصاً سنّیوں سے اُن کی دشمنی بہت پرانی ہے۔ انہوں نے کہا:سعودی حکومت مقاماتِ مقدّسہ کی حفاظت اور وہاں آنے والے مسلمانوں کو ہر طرح کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے تمام ممکنہ کوششیں کرتی ہے ۔دنیا بھر کے مسلمانوں کو سعودی حکومت پر اعتماد ہے ،سازشی عناصر اس حوالے سے ناکام رہیں گے ، (خبر،7ستمبر2016ء)‘‘۔
سوئٹزر لینڈ کے شہر جنیوا میں امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری اور روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاروف کے درمیان بارہ گھنٹے جاری رہنے والے طویل مذاکرات کے بعد یہ اعلامیہ جاری ہوا :'' شام میں جنگ بندی پر اتفاق ہوگیا ہے اور اس کی رُو سے فریقین نے اتفاقِ رائے سے یہ طے کیا ہے کہ جنگ کی خلاف ورزی کی صورت میں ''النصرہ فرنٹ ‘‘پر حملہ کیا جائے گا،( خبر، 11 ستمبر 2016ء )‘‘۔
افغان صدارتی محل سے یہ بیان جاری ہوا:'' وسط ایشیائی ریاستوں میں جانے والی پاکستانی مال گاڑیوں کو ملک سے گزرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ بی بی سی کے مطابق بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان صدر اشرف غنی نے یہ اعلان پاکستان کی جانب سے افغانستان کی اشیاء خاص طور پربھارت کے لیے میوہ جات کو واہگہ بارڈر سے لے جانے کی اجازت نہ دینے کے ردِ عمل میں کیا ہے،(خبر،10ستمبر2016ء )‘‘۔کسی چینل پر ٹِکر چل رہا تھا:''بھارت افغانستان کے پھلوں کو انڈیا لے جانے کے لیے ائیرکارگو کی سہولت دینے کے لیے تیار ہے ‘‘۔
پاکستانی دفترِ خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے یہ وضاحت کی ہے : ''پاکستان نے اپنی بندرگاہوں پر افغانستان کی ٹرانزٹ رسائی نہیں روکی، وہ ہفتہ کو افغان صدر اشرف غنی کے بیان پر رد عمل دے رہے تھے ۔ ترجمان نے کہا:پاکستان افغان عوام کے ساتھ کیے گئے وعدے کے احترام میں افغانستان کے لیے ٹرانزٹ ٹریڈ کی سہولت جاری رکھے گا۔ انہوں نے کہا: اگرچہ دو طرفہ ٹرانزٹ ٹریڈ کے معاہدے (APTTA) کے تحت افغانستان سے بھارت اور بھارت سے افغانستان ٹرانزٹ ٹریڈ شامل نہیں ہے،تاہم پاکستان خیر سگالی کے جذبے کے تحت واہگہ بارڈر کے ذریعے افغان فروٹ کو بھارت جانے کی اجازت دینے کا سلسلہ جاری رکھے گا، (خبر ، 11 ستمبر 2016ء )‘‘۔
مسلمانانِ عالم نے حج ،عیدالاضحی اور قربانی کی مُقدَّس عبادات انجام دینے کی سعادت تازہ تازہ حاصل کی ہے ، امام الحج نے اپنے خطبے میں ، دنیا بھر میں میڈیا پر اور ہر جگہ خطبائے اسلام نے فلسفۂ حج بیان کیا ،اِسے زبان، رنگ ،نسل اورقوم ووطن کی تمیز سے بالاتر امّت کی وحدت وجمعیت اور شوکت وسَطوت کا مظہر قرار دیا ،فلسفۂ قربانی بیان کرتے ہوئے حضرت ابراہیم واسماعیل وسیدنا محمد رسول اللہ علیٰ نبیّنا وعلیہم الصلوٰۃ والتسلیم کی سنّتِ مبارکہ کا اِحیاء اور ایثار کی معراج قرار دیا،مگر یہ سب اکیڈمک اور فلسفیانہ خیالات ہیں، اگر ہم برسرِ زمین موجود حقائق سے چشم پوشی اور صَرفِ نظر کرتے ہوئے بات کریں تو بلا شبہ یہ سارے فلسفے ،حکمتیں اور مقاصد درست ہیں ،بلکہ اِن کی روحانیت اور معنویت اِس سے بھی سِوا اور بدرجہا زائد ہے ،شاید کوئی بڑے سے بڑاقادرالکلام خطیب بھی کماحقہٗ اِن کا احاطہ نہ کرسکے۔
لیکن اگر آپ سطورِ بالا میں باحوالہ درج اقتباسات پر ایک بار پھر نظر ڈالیں ،تو حقائق انتہائی مایوس کُن اور اَلم ناک ہیں ۔ مسلم ممالک کی جمعیت کے واحد علامتی ادارے ''اسلامی کانفرنس کی تنظیم (OIC)‘‘کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ کسی مسلم مُلک کی قیادت نے ان تنازعات کو حل کرنے یا اِن کی شدت کو کم کرنے کی جانب کوئی معمولی سی پیش رفت بھی نہیں کی ،کم از کم منظر پر تو یہی نظر آرہا ہے۔پس ضرورت اس امر کی ہے کہ اوّلین فرصت میں اس آگ کو بجھانے کی کوشش کی جائے ورنہ اس کی تپش اور سوزش سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہ پائے گا۔ہمارا مشورہ ہے کہ ترکی کے صدر جنابِ رجب طیب اردوان اور پاکستان کے وزیرِ اعظم جنابِ نواز شریف دونوں اکٹھے ایران اور سعودی عرب کا دورہ کریں ، دونوں ممالک کے درمیان دوریوں کو کم کرنے اور سفارتی تعلقات کو بحال کرنے کی کوشش کریں ۔ مشرقِ وُسطیٰ میں دونوں ممالک کے مابَین مفادات یا حلقۂ اثر کی توسیع کے حوالے سے جو ٹکرائو ہے ،اُسے یکسر ختم کرناتو یقینا فوری طور پر ممکن نہیں ہے، مگر پرخلوص مساعی سے اُس کی شدت کا گراف نیچے لایا جاسکتا ہے ۔
سعودی عرب کے لیے بھی عالمی سطح پر مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے ، شام کے سربراہِ مملکت جنابِ بشارالاسد کے اقتدار کو ختم کرنے کے لیے ''النصرہ فرنٹ‘‘ کئی سالوں سے مصروفِ عمل ہے، اس کے مُقابل ایران کی حکومت اور لبنان میں حسن نصر اللہ کی جماعت ''حزب اللہ‘‘بشارالاسد کی حکومت کو قائم رکھنے اور بچانے کی کوششوں میں مصروف رہے ہیں اور تاحال وہ اس میں اگر مکمل طور پر نہیں تو کافی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں ۔گزشتہ کچھ عرصے سے روس بھی بشارالاسد کی حکومت کو بچانے کے لیے اس جنگ میں فریق بن گیا ہے اور اِس بناپر ایران سے اُس کی کافی قربت ہوچکی ہے ۔امریکہ اور اہلِ مغرب کی خواہش تھی کہ داعش کو نشانہ بنایا جائے ،مگر روس نے اپنے فضائی حملوں میں زیادہ تر النصرہ فرنٹ کو نشانہ بنایا ہے ۔اب تازہ ترین صورتِ حال میں امریکا اور روس شام کے مسئلے میں ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں اور امریکا کا ''النصرہ فرنٹ‘‘کو نشانہ بنانے پر آمادہ ہونا اس بات کی واضح دلیل ہے۔ترکی اس سے پہلے بشارالاسد کی حکومت کو گرانے والوں میں صفِ اول میں شامل تھا ، مگر اپنی حالیہ داخلی مشکلات کے سبب اُسے بھی روس سے تعلقات بحال کرنے پڑے اور شام میں حکومت کی تبدیلی کی خواہش کے باوجود بشارالاسد کو اب وہ مسئلہ سمجھنے کی بجائے مسئلے کے حل کا حصہ ماننے پر آمادہ ہوگئے ہیں ۔سعودی عرب پر ایک اور نوازش حال ہی میں یہ ہوئی کہ امریکی کانگریس نے نائن الیون کے واقعے کے بارے میں سعودی عرب کو مجرم(Guilty) قرار دیا ہے اور امریکی شہریوں کو سعودی عرب کے خلاف امریکی عدالتوں میں مقدّمہ دائر کرنے اور تاوان طلب کرنے کا اختیار دیا ہے ،اگرچہ صدر اوباما نے اِسے ویٹو کرنے کی بات کی ہے ،مگر پیش رفت کاانتظار کرنا پڑے گا۔اس سے معلوم ہوا کہ ہر مُلک کے لیے اپنی داخلی اور خارجی سلامتی اور قومی مفاد مقدم ہوتا ہے اور اُس کے خارجہ اور بین الممالک تعلقات بھی اِسی مفاد کے تابع ہوتے ہیں ۔ سعودی عرب کے نکتۂ نظر سے یہ امریکہ کا یوٹرن ہے ۔پاکستان تو امریکا کے اس طرح کے یوٹرن کے صدمے سہتا چلا آیا ہے اور امریکہ کے لیے توتے کی طرح آنکھیں پھیر لینا اور اپنے کل کے حلیفوں کو آج کا رقیب بنالینا اور کچوکے لگانا ہمیشہ اُس کا شِعار رہا ہے ،سعودی عرب پہلی بار اس تجربے سے گزر رہا ہے ۔
آج کل بھارت پاکستان کو گھیرنے اور داخلی طور پر غیر مستحکم کرنے کے لیے ساری حدوںکو عبور کر رہا ہے اور سفارتی آداب کو پامال کر رہا ہے ،ایران اور افغانستان میں اُس کے نفوذ میں غیر معمولی اضافہ ہوچکا ہے ،اسی طرح متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں بھی اُسے پذیرائی مل رہی ہے ،یہ ساری صورتِ حال پاکستان کے لیے بے حد اذیت ناک اور نقصان دہ ہے۔اس کی ایک علامت یہ ہے کہ گزشتہ چند سالوں سے حجِ حرمین طیبین کے خطبات کی دعائوں میں کشمیر کا ذکر تک نہیں ہورہا،لیکن ملّتوں اور قوموں پر ایسے ادوار آتے رہتے ہیں ،ہمارے الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا میں فروکش بہت سے اہلِ فکر اس کو انتہا کی طرف لے جانا چاہتے ہیں ،لیکن کسی بھی مسئلے میں توازن ،صبرواستقامت ،دانش وبصیرت اور حکمت وتدبّر پر مبنی حکمتِ عملی ہی بہترین شِعار ہے۔پاکستان اور افغانستان کی ایک دوسرے سے مکمل لاتعلقی عملاً ممکن نہیں ہے ۔ افغانستان کی قیادت پربھی لازم ہے کہ اتنا مغلوب الغضب اور جذبات کے تابع نہ ہو، بلکہ فریقین کومذاکرات کے ذریعے باہمی مسائل کا قابلِ عمل حل تلاش کرنے کا شِعار اپنانا چاہیے ۔ہمارے ہاں ایک مشکل یہ ہے کہ داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کے حوالے سے فیصلے کا مرکز ایک نہیں ہے ،ان پالیسیوں کی تشکیل کے لیے ایک مشترکہ فورم ہونا چاہیے ،جس میں وزیرِ اعظم ،وزیر یا مشیر خارجہ،وزیرِ داخلہ ،قومی سلامتی کے مشیر ،دفاعی وحسّاس اداروں کے ذمے داران اور قائدِ حزبِ اختلاف بھی مشاورت میں شریک ہوں۔