''نَقضِ غَزْل‘‘کے معنی ہیں: سوت کات کرپارہ پارہ کرنا۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''اور جب تم عہد کرو تو اللہ کے عہد کو پورا کرو اور قسموں کو پکا کرنے کے بعد نہ توڑوجب کہ تم اللہ کو اپنے (عہد کے)اوپر ضامن بناچکے ہو،بے شک اللہ تمہارے کاموں کو جانتا ہے ۔اوراُس عورت کی طرح نہ ہوجائو جس نے اپنا سُوت مضبوطی سے کاتنے کے بعد اسے ریزہ ریزہ کرکے توڑدیا ہو۔تم اپنی قسموں کو اپنے درمیان دھوکا دہی کا ذریعہ بناتے ہوکہ ایک گروہ دوسرے گروہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے والا بنے ،پس اللہ اس کے ذریعے تمہیں آزماتا ہے اور جن چیزوں میں تم آپس میں اختلاف کرتے ہو ، اُن کی حقیقت (اللہ )قیامت کے دن تم پر ضرورواضح فرمادے گا۔اور اپنی قسموں کو آپس میں دھوکا دینے کا ذریعہ نہ بنائو کہ (راستی پر)قدم جمنے کے بعد پھسل جائیں اور اس بنا پر کہ تم نے (لوگوں کو)اللہ کے راستے سے روکا ہے ،تم اس کے برے انجام کا مزا چکھو اورتمہارے لیے بڑا عذاب ہے ،(النحل:91-92,94)‘‘۔
مفسرین نے لکھا ہے: اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ عرب کا کوئی قبیلہ کسی قبیلے کے ساتھ دوستی اور تعاون کا معاہدہ کرتا اور اس کے بعد جب کسی اور ایسے قبیلے سے اس کا تعلق ہوتا، جس کو پہلے قبیلے پر عددی اور مالی اعتبار سے برتری حاصل ہوتی ،تو وہ اس پہلے قبیلے سے کیا ہوا عہد توڑ دیتا اور اس دوسرے قبیلے سے عہدوپیمان کرلیتا،پس خود غرضی اور حیلہ سازی کے اس شِعار کی مذمت میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ عہد کی پابندی کی قرآن وسنت میں بار بار تاکید آئی ہے اور یہ مُسلَّمہ انسانی اقدار میں سے ہے۔ ایک فریق کو حلیف (Ally) بنانے کے بعد کوئی دوسرا فریق مادّی اعتبار سے زیادہ طاقت ورنظر آئے تو کسی جواز کے بغیر پہلے فریق سے کیے ہوئے عہد کو توڑ کر دوسرے سے پیمان باندھ لینا ،خود غرضی اور مطلب براری کے سوا کچھ نہیں ۔اللہ تم کو اُن کی عددی اور مالی برتری دکھاکر آزماتا ہے کہ کون ان کی کثرت اور طاقت سے مرعوب ہوتا ہے اور کون اپنے عہد پر قائم رہتا ہے ۔
عربی زبان میں قسم کو'' حَلَف‘‘ اور معاہدے کو'' حِلْف‘‘ کہتے ہیں۔آفتابِ اسلام کے طلوع ہونے سے پہلے قریشِ مکہ کے درمیان ''حِلف الفضول ‘‘ کے نام سے ایک معاہدہ ہوا تھا، اس کا یہ نام اس لیے قرار پایا کہ معاہدے کے تمام فریقوں کے ناموں میں لفظِ فضل آتا ہے ،یعنی فضل بن فُضَالہ،فضل بن وُداعہ اورفضل بن حارث ۔ یہ معاہدہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے تقریباً بیس سال پہلے منعقد ہوا۔آپ ﷺ نے فرمایا:'' اگر آج بھی مجھے ''حِلفُ الفضول‘‘کے نام پر مدد کے لیے پکارا جائے تو میں لبیک کہوں گا‘‘، اس معاہدے میں طے پایا تھا :
ہم سب متحد ہوکر ظالم کے خلاف مظلوم کی مدد کریں گے یہاں تک کہ ظالم مظلوم کو اس کا حق لوٹادے،ہم معاش میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے اور ہم اُس وقت تک عہد کے پابند رہیں گے جب تک کہ سمندرمیں پانی کا ایک قطرہ بھی باقی ہے اور حرااور ثبیرپہاڑ اپنی جگہ پر قائم ہیں،(سبل الھدیٰ والرشاد، ج:2،ص:154-55)‘‘۔یعنی اس معاہدے کوکسی خاص مدت تک محدود نہیں رکھا گیا تھا،بلکہ اسے دائمی حیثیت دی گئی تھی۔
آٹھ ہجری میں مکہ فتح ہوا اور نو ہجری میں حج فرض ہوااور اُس سال رسول اللہ ﷺ خود حج پر تشریف نہیں لے گئے بلکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیرالحج بناکر بھیجا اور پھر انہی دنوں میں سورۂ برأت کی ابتدائی آیاتِ مبارکہ نازل ہوئیں ،تو آپﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا خصوصی نائب بناکربھیجاتاکہ سورۂ برأت کی ابتدائی آیاتِ مبارکہ پر مشتمل اعلامیہ جاری کردیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''جن مشرکین سے تم نے (ماضی میں )معاہدہ کیا تھا ،اُن سے اللہ اور اس کے رسول کا اعلانِ برأت ہے،سو (اب تمہارے لیے اتنی مہلت ہے کہ )چار مہینے تک (آزادی سے )چلو پھرو اور جان لو کہ تم اللہ کوبے بس نہیں کرسکتے اور اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے ،اور حجِ اکبر کے دن سب لوگوں کے لیے یہ اعلان ہے کہ اللہ اور اُس کا رسول مشرکوں سے بے زار ہیں ،پس اگر تم توبہ کرلو تو تمہارے لیے بہتر ہے اور اگر تم (توبہ سے )اعراض کرتے ہو،تو جان لو کہ تم اللہ کو بے بس کرنے والے نہیں ہو اور کافروں کو دردناک عذاب کی وعید سنادیجیے،ماسوا اُن مشرکوں کے جن سے (ماضی میں) تم نے معاہدہ کررکھا تھا ،پھر انہوں نے اُس کی پاس داری میںتمہارے ساتھ کوئی عہد شکنی نہیں کی اور نہ ہی تمہارے خلاف کسی دشمن کی مدد کی ،سو مقرر ہ مدت تک تم بھی اس عہد کی پاس داری کرو ، بے شک اللہ تعالیٰ اہلِ تقویٰ کو پسند فرماتا ہے ، (التوبہ:1-4)‘‘۔
ان مشرکوں نے رسول اللہ ﷺ کی عداوت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی ،ان سے اعلانِ برأت کے باوجود اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا کہ جن مشرکوں نے تم سے کیے ہوئے عہد کی پاس داری کی ہے ،عہد شکنی نہیں کی ،تمہارے خلاف دشمن کی مدد نہیں کی ،تو تم یک طرفہ اُس عہد کو نہ توڑو اور مدتِ مقررہ تک اُس کی پاس داری کرو،کیونکہ اسلام اعلیٰ انسانی اَقدار کا دین ہے ۔ اسی طرح جب حدیبیہ کا معاہدہ ہوچکا اور اُس میں یہ قرار پایا کہ اپنے سرپرست کی اجازت کے بغیر مکہ مکرمہ سے اگرکوئی شخص اسلام قبول کر کے مدینہ منورہ آیا تواُسے واپس لوٹادیا جائے گا۔اسی موقع پر ابوجَنْدَل ، جنہیں اُن کے باپ سہیل نے بیڑیاں پہناکر قید کر رکھا تھا ،قید سے نکل کر بچتے بچاتے حدیبیہ پہنچے اورمسلمان اُنہیں خوش آمدید کہنے کے لیے اٹھے ۔کفارِمکہ کے سفیر اوراُن کے باپ سہیل نے دیکھا توانہیں مارا پیٹا اور گریبان سے پکڑ کر کہا:اے محمد!یہ پہلا کیس ہے جو میں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:''ہم عہد کو نہیں توڑیں گے۔ ابوجندَل نے کہا: میں اسلام قبول کر کے آیا ہوں ، اے مسلمانو!تم مجھے مشرکین کے حوالے کردو گے، انہوں نے میرا جو حال کیا ہے،تم دیکھ رہے ہو۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے ابوجندل! صبر کرو اور اللہ سے اجر کی امید رکھو ، یقینا اللہ تمہارے اور تمہاری طرح دیگر کمزور طبقات کے لیے کشادگی اور نجات مقدّر فرمائے گا،اِس وقت ہم معاہدہ کرچکے ہیں اور ہم عہد شکنی نہیں کریں گے، (سبل الھدیٰ والرشاد،ج:5،ص:56)‘‘۔
اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ ہم امریکا اور اہل مغرب کو تو ان کی جفا پر کوستے رہتے ہیں ،لیکن ہم نے کبھی اپنے گریبان میں جھانک کر بھی دیکھا۔ آج کل پاکستان ،امریکا، افغانستان اور بھارت الغرض ہر فریق کا دوسروں سے مطالبہ ہے کہ دہشت گردوں کو ایک ہی درجے کا مجرم سمجھ کر بلا امتیاز کارروائی کی جائے۔ لیکن ہر فریق یہ مطالبہ دوسرے سے کر رہا ہے ،خود کو اس ضابطے سے مستثنیٰ سمجھ رہا ہے اور یہی چیز سارے فساد کی جڑ ہے۔ تقریباً ہر ملک دوسروں کے خلاف ان عناصر کو استعمال کرتا رہا ہے اور کر رہا ہے ، سب کا یہی طرزِ عمل اعتماد کے بحران کا سبب ہے اور الزامات وجوابی الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔
جفا کے اسی شِعار کا گلہ طالبان اور مختلف جہادی گروپوں کو پاکستان سے ہے ۔نائن الیون کے بعد سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف نے ''سب سے پہلے پاکستان ‘‘کا نعرہ لگایااورنفع ونقصان کاتخمینہ لگائے بغیر اپنا وطن، تمام ذرائع نقل وحمل ، بندرگاہیں اور بعض ہوائی اڈے کسی تحریرے معاہدے اور شرائط کے بغیر امریکا کے حوالے کردیے اور اب تک ملک اس کے نتائج بھگت رہا ہے ۔اس خود سپردگی کے بعد 2002ء میںمجھے شیخ زید اسلامک سینٹر پشاور میں اساتذہ وطلبہ سے خطاب کے لیے مدعو کیا گیا اور سوال وجواب کی نشست منعقد ہوئی ۔اُس میں سب سے اہم سوال یہی تھا: آیااسلامی تعلیمات کے مطابق حکومت پاکستان کا یہ اقدام درست ہے؟میں نے کہا: ''شریعت کی رُو سے مجھے اپنی جان بچانے کے لیے ہر حیلہ وتدبیر اور حکمت عملی اختیار کرنے کا حق ہے ،لیکن یہ حق حاصل نہیں کہ میں اپنی جان بچانے کے لیے دوسرے مسلمان کی جان پیش کردوں۔ یہی اصول مسلم ممالک پر بھی لاگو ہونا چاہیے کہ ہمیں دوسرے مسلم ملک کو برباد کرنے میں معاون نہیں بننا چاہیے، کیونکہ اسلام نے خیر کے کاموں میں تعاون کا حکم دیا ہے اور نا حق کاموں میں تعاون سے منع فرمایا ہے ‘‘۔اس پالیسی کے نتیجے میں طالبان ہمارے دشمن ہوگئے ،کچھ نے اپنی مجبوریوں کے تحت اس نفرت کو دل کے کسی گوشے میں سنبھال کر رکھ لیا اور کچھ کھلے دشمن بن گئے ،جنہیں طالبانِ پاکستان کہاجاتا ہے اور وہ مختلف گروپوں میں منقسم ہیں ۔
ہم نے سیٹو اور سینٹو کے معاہدات سے لے کر دوسروں کی خاطر دشمنیاں پالنا اور آلۂ کار بننا اپنا شِعار بنالیا اور دنیا نے ہمیں بحیثیتِ قوم ہمیں Taken for grantedیعنی '' برائے خدمت دستیاب ‘‘کے طور پر لیا اورہر شخص جانتا ہے کہ ایسے لوگوں کی حیثیت کیا ہوتی ہے ۔سو ہماری تاریخ یہی ہے کہ ہم ہر دور میں سوت کات کر اسے ریزہ ریزہ کرتے رہے ہیں، اپنے حلیفوں اور پڑوسی مسلم ممالک کے لیے قربانیاں دیتے ہیں ،پھر جزا میں ملامتیں ہمارے حصے میں آتی ہیں۔ اس مسئلے کا کوئی مستقل حل سنجیدگی سے تلاش کرنا چاہیے ،ہم صرف وقت گزاری کے لیے آئی بلا کو ٹالنے کا کام کرتے ہیں اورپالیسی بناتے وقت اُس کے عواقب پر غورنہیں کرتے ۔ ہاں! سعودی عرب کی خواہش پر یمن کی جنگ میں فوجیں بھیجنے کے موقع پر چونکہ پاکستان میں ایک منتخب سول حکومت تھی،لہٰذا پارلیمنٹ نے اس موقع پر اپنا کردار ادا کیا اور قرار دیا کہ ہم یمن کی جنگ میں فریق نہیں بنیں گے ،اپنی فوجیں وہاں نہیں بھیجیں گے ، کیونکہ یہ سعودی عرب کی ایک اِقدامی جنگ ہے ۔البتہ اگر سعودی عرب پر حملہ ہوا تو اُسے ہم پاکستان پر حملہ تصور کریں گے اور حرمینِ طیبین کے دفاع کے لیے ہمارے تمام وسائل دستیاب ہوں گے۔ اُس وقت بھی اگر کوئی فوجی حکومت ہوتی جو اپنے آپ کو کسی کے سامنے جواب دہ نہیں سمجھتی ،تو خاکم بدہن ہمارے فوجی اِس وقت خدانخواستہ یمن کے ریگستانوں میں کن حالات سے دوچار ہوتے ۔افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف کردار ادا کرنے کا مسئلہ آج تک ہمارے ہاں مختَلَف فیہ (Controversial) ہے،ستّر کے عشرے کے بائیں بازو کے دانشور اورآج کے لِبرل اس اقدام کو پاکستان کے مفاد کے خلاف کہتے ہیں ،جب کہ دینی طبقات اور دائیں بازو کے سیاسی عناصر اس اقدام کو پاکستان کے دفاع کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہیں،تاہم اس کی شروعات سابق وزیرِ اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور میں ہوئی تھیں ۔ایک اور فرق یہ ہے کہ امریکہ اپنے آلۂ کار ڈاکٹر شکیل آفریدی کا تحفظ اپنی ذمے داری سمجھتا ہے ،جب کہ ہم اپنے محسنوں کو فراموش کردیتے ہیں ،جیساکہ پاکستان کی حمایت کے ''جرم‘‘ میں بنگلہ دیش میں پھانسیاں دی گئیں اور ریاستی سطح پر ہم مہر بہ لَب رہے ۔