جب سے پاناما لیکس کا مسئلہ سامنے آیا ہے ،ہماری سیاست کا مرکزی موضوع یہی ہے ۔در اصل یہ آف شورکمپنیاں ہیں ، جنہیں عالمی سطح پر ابھی تک خلافِ قانون قرار نہیںدیا گیا ۔ان کے ذریعے قانونی اعتبار سے جائز اور ناجائزدولت بیرونِ ملک منتقل کی جاتی ہے اور ٹیکس کی چھوٹ سے استفادہ کرتے ہوئے سرمایہ کاری کی جاتی ہے ۔اس پر اس لیے پردہ ڈالا جاتا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کا سرمایہ مغربی ملکوں کے کام آتا رہے ۔فی الحال جزوی طور پر یہ پردہ اٹھایا گیا ہے اورکچھ پردہ نشینوں کے نام آئے ہیں ، ظاہر ہے صاحبِ اقتدارکودبائو میں لانے کے لیے یہ ایک اچھا حربہ ہے۔ یقینا اس انکشاف کے پیچھے عالمی سیاست ومعیشت کو کنٹرول کرنے والی طاقتوں کی آشیر باد کارفرما ہوتی ہے ۔ ابتدا میں بعض سیاست دانوںنے یہ تاثر دیا کہ آف شور کمپنی بنانا ہی جرم ہے، لیکن بعد میں جب انہیں احساس ہوا کہ یہ ملامت خود اُن کی ذات پر اور اُن کے گِردوپیش موجودپاک دامن لوگوں پر بھی لگی ہوئی ہے، تو انہوں نے کہا:''ہم نے آف شور کمپنی کو کبھی خلافِ قانون نہیں کہا،ہم نے تودولت کی بیرونِ ملک غیر قانونی منتقلی یعنی منی لانڈرنگ کو جرم سمجھتے ہوئے ہدف بنایا ہے اور اِس میں وزیرِ اعظم نواز شریف اور اُن کا خاندان ملوّث ہے، لہٰذا وہ ثابت کریں کہ یہ دولت بیرونِ ملک کیسے منتقل ہوئی ؟الغرض یہ ناٹک ابھی چل رہا ہے اورآئندہ انتخابات یا نظام کی بساط لپٹنے تک چلتا رہے گا۔
میں نے اس دوران بڑے قومی اخبارات کے تقریباً تمام معروف کالم نگاروں کے تاثرات اورتجزیے پڑھے ،بعض نے تو ایک پوزیشن لے رکھی ہے۔میں صرف اُن حضرات کے تاثرات اور تجزیوں کو زیادہ دلچسپی سے پڑھتا ہوں ،جن پر کسی سیاسی جماعت سے غیر مشروط وابستگی کی ملامت نہیں ہے اور جو کسی حد تک اپنی ساکھ کو قائم رکھتے ہوئے اس مسئلے کو قومی قیادت کے اخلاقی زوال کی علامت اور قومی حمیّت کے منافی سمجھتے ہوئے بات کرتے ہیں ۔
اس قضیے کے دو پہلو ہیں:ایک اَخلاقی اور دوسرا قانونی۔اس میں دو آراء نہیں ہیں کہ پاناما لیکس کے اِفشا کے نتیجے میں وزیرِ اعظم کی اَخلاقی پوزیشن کوناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے ۔لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ووٹ اَخلاقیات کی بنیاد پر نہیں دیے جاتے،مفادات اور وابستگیوں کی بنیاد پر دیے جاتے ہیں۔حال ہی میں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ جنابِ ڈاکٹر علامہ طاہر القادری نے ایک ٹیلی ویژن چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: ''آج میں ایک انکشاف کر رہا ہوں، وہ یہ کہ عوام کا ایک مفاد پرست طبقہ غیر مشروط طور پر اہلِ اقتدار سے جڑا ہوا ہے اور دوسرا طبقہ وہ ہے جو بے حس ہے اور لا تعلق ہے‘‘۔اُن کے بقول سانحۂ ماڈل ٹائون کے موقع پر علاقے کے رہائشی لوگوں نے اُن کے زخمیوں پر اپنے دروازے بند کردیے تھے کہ کہیں وہ گرفت میں نہ آجائیں اورصرف اُن کے اپنے کارکن میدانِ عمل میں ڈٹے رہے ۔
پس چند مستثنیات کے زیادہ ترکرپشن زدہ لوگ ہی بار بار جیت کر آتے ہیں ۔جنابِ آصف علی زرداری کا پانچ سال تک اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صدارت پر فائز رہنا ، اس بات کی سب سے روشن دلیل ہے اوریہ ہماری قومی سیاست کاعجوبہ ہے کہ آج جنابِ بلاول بھٹو کرپشن کے خلاف مہم چلا نے کادعویٰ کر رہے ہیں،اس تناظر میں بہتر ہوگا کہ لغت میں کرپشن کے معنی بدل دیے جائیں۔ یہاں میں کرپشن کے الزامات کی بات کر رہا ہوں،کیونکہ ہمارے ضابطۂ قانون میں اس کا ثابت ہونا چنداں آسان بات نہیں ہے ۔پس اگر کسی کی خواہش یہ ہے کہ وزیرِ اعظم اَخلاقی بنیاد پر وزارتِ عظمیٰ کی مَسند سے دستبردار ہوجائیں ، تویہ خواہش یقینانہایت دلکش اورخوبصورت سہی، لیکن حقیقت کی دنیا سے بہت بعید ہے۔اس حوالے سے ہماری سیاست کے تمام کھلاڑیوں کی اَخلاقی پوزیشن کم وبیش یکساں ہے ۔مشرف دور میں جنابِ شیخ رشیدوزیرِ ریلوے تھے ، اُن کے عہدِ وزارت میں ریل کا حادثہ ہوگیا ، اُن سے ایک اخبار نویس نے سوال کیا:'' کیا آپ اس حادثے کی اَخلاقی ذمے داری قبول کرتے ہوئے مستعفی ہوجائیں گے،کیونکہ جمہوری ممالک میں یہ روایت موجود ہے‘‘۔انہوں نے کہا:'' میں کیوں استعفیٰ دوں ، میں ٹرین کا ڈرائیور تو نہیں ہوں‘‘۔
ہماری سیاست میں اَخلاقی اعتبار سے جماعتِ اسلامی کی پوزیشن کوبہترقرار دیا جاتا ہے اوریہ کافی حد تک درست ہے۔ جب خیبر پختونخوا کی مخلوط حکومت میں اُن کی جماعت کے وزیرِ خزانہ جناب مظفر سید کے خلاف خیبر بینک کے صدر اور ایم ڈی جنابِ شمس القیوم کا اشتہارشائع ہوا اوروزیرِ محترم نے جوابی اشتہار شائع کیا ،تواُن کے وزیرِ خزانہ مستعفی نہیں ہوئے ،بلکہ بدستورمنصبِ وزارت پر متمکن رہے۔پھرصوبائی کابینہ میں جنابِ آفتاب شیر پائو کی قومی وطن پارٹی کے ایک ایسے وزیرپر مشتمل یک نفری انکوائری کمیشن بنایا گیا ،جنہیں ماضی میں بدعنوانی کے الزام میں برطرف کیا گیا تھا۔ پھرانہوں نے صوبائی کابینہ میں اپنے رفیقِ کار وزیر کو کردار کی پاکیزگی کی سند عطا کردی۔اسی طرح جنابِ عمران خان اور اُن کے گِردوپیش موجود لوگوں میں سے آف شور کمپنی بنانے کے الزام پر کوئی بھی مستعفی نہیں ہوا، پس ہماری سیاست کا اَخلاقی معیار یہی ہے۔ سو اپنے اُن سیاسی رقیبوں کے لیے جو تحقیقات کے دوران اُن سے مستعفی ہونے یااختیارات سے دست بردار ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں ،جنابِ نواز شریف کا پیغام یہی ہوگا:کاین گناہیست کہ در شہر شما نیز کنند
یعنی جب آپ ایک صوبائی وزارت سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہ ہوپائے ،تو میں وزارتِ عظمیٰ کی اعلیٰ ترین مَسند سے آپ کی خواہش کی تکمیل کرتے ہوئے کیوں دستبردار ہوجائوں؟،کیونکہ ہم دونوں کی اَخلاقی پوزیشن یکساں ہے ۔
دوسرا پہلو قانونی ہے:سوجو نظامِ قانون ہم نے برطانیہ سے وراثت میں پایا ہے ،اُس کا فلسفہ یہ ہے کہ انسان بے قصور ہے تاوقتیکہ اُس کا جرم عدالت میں ثابت نہ ہوجائے اور اسلام کا اصول بھی تقریباً یہی ہے ،رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: ''الزام کا بارِ ثبوت مدعی پر ہے اور عدمِ ثبوت کی صورت میں مدعیٰ علیہ کو قسم دی جائے گی،(سنن ترمذی:1341) ‘‘۔ جنابِ عمران خان نے جنابِ ہارون الرشید کے کالم سے استفادہ کرتے ہوئے ''تلاشی دینے کا نعرہ لگارکھا ہے‘‘۔یہ ایسا ہی ہے کہ کسی پر چوری کا الزام لگایا جائے اور پھر کہا جائے کہ تم ثابت کرو کہ تمہارے گھر میں جو بھی سامان ہے وہ جائز طور پر تمہاری ملکیت ہے ، ورنہ وہ سب چوری کا ہے ۔حالانکہ چوری کا الزام لگانے والے کو ثابت کرنا پڑتا ہے کہ اس گھر میں فلاں چیز میرے ہاں سے چوری کر کے لائی گئی ہے۔ سو فلسفۂ قانون وانصاف کے تحت منی لانڈرنگ کے الزام کا بارِ ثبوت مدّعیان پر ہے اور اس سلسلے میں عدالت کو موردِ الزام قرار دینا یا عدالت پر دبائو ڈالنا مناسب نہیں ہے۔ عدالت قانون کے تحت انصاف کرنے کی پابند ہوتی ہے ،چنانچہ جنابِ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے دورانِ سماعت کہا:''ہم انصاف کے لیے قانون کا قتل نہیں کرسکتے ‘‘،یعنی ہمیں قانون کے تابع رہ کر انصاف دینا ہوتا ہے۔ اِسی بات کو چیف جسٹس جنابِ انور ظہیر جمالی نے اِن الفاظ میں بیان کیا: ''ہم دبائو میں آکرفیصلے نہیں کرسکتے‘‘۔اِس کا مفہومِ مخالف بھی یہی ہے کہ عدالت کے باہر فریقِ مخالف کو مجرم اور اپنے آپ کو فاتح قرار دے کرقبل از وقت فیصلے صادر کیے جارہے ہیں اور یہی عدالت کو دبائو میں لانے کا حربہ ہے ، چنانچہ انہوں نے اپنی سربراہی میں قائم بینچ کی ساری کارروائی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے یہ معاملہ اپنے جانشین پر چھوڑ دیا۔
لیڈی ڈیاناکا ٹریفک حادثہ چونکہ فرانس کی حدود میںہوا تھا، اس لیے اُس وقت کہا گیا تھا : فرانس کا فلسفۂ قانون یہ ہے کہ آپ مجرم ہیں تاوقتیکہ آپ اپنے آپ کو الزام سے بری ثابت نہ کردیں۔مجھے اس کا علم نہیں ہے ،کوئی ماہرِ آئین وقانون ہی بتاسکتا ہے کہ آیایہ درست ہے ۔ہمارے نظام آئین وقانون اور نظامِ عدل میں توبرطانوی فلسفۂ قانون ہی رائج ہے اور آئے دن عدالتیں اسی کے تحت مقدمات کے فیصلے کرتی ہیں۔ جنابِ اعتزاز احسن سمیت سارے نامی گرامی وکلاء اِنہی خدماتِ جلیلہ کے عوض ناقابلِ یقین حد تک بھاری فیسیں وصول کرتے ہیں ۔الغرض جو کچھ عدالت کے باہر میڈیا پر ارشادات نشر ہوتے ہیں ،اگر یہ عدالتی اصول بن جائے تو ہمارے ان ماہرینِ آئین وقانون کا کاروبار ٹھپ ہوجائے۔ حقیقت یہی ہے ، باقی سب کچھ وزنِ شعر ، ٹیلی ویژن کے ٹِکرز اور اخبارات کی سرخیوں کے لیے ہوتا ہے ، عربی کا مقولہ ہے: ''سچ کڑوا ہوتا ہے اگرچہ وہ ہیرا ہوتا ہے‘‘ اور ہم'' میٹھا میٹھا ہَپ ہَپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو‘‘کے عادی ہیں ۔
بہتر ہوگا کہ پارلیمنٹ کے اندر سب جماعتیں اتفاق رائے سے ایک آئینی ترمیم منظور کریں کہ عوامی نمائندگی اور حکومتی مناصب پر صرف وہی شخص فائز ہوسکے گا ،جس کے پورے خاندان کا بیرون ملک کاروباراورجائیدادنہ ہواور جن کا کاروبار یا جائیداد بیرونِ ملک موجود ہے، انہیں پابند کیا جائے کہ اپنی پوری تفصیل فراہم کریں اور چھ ماہ سے ایک سال کے اندر وہ اپنا تمام سرمایہ پاکستان لے کر آئیں۔جب کہ ہمارا حال یہ ہے کہ امریکی شہری جنابِ معین قریشی کو وزیرِ اعظم پہلے بنایا گیا اور اُن کا پاسپورٹ اور قومی شناختی کارڈ دورانِ سفر بعد میں بنا۔یہی وجہ ہے کہ کرپشن کے نام پر تمام تر شوروغوغا کے باوجود پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی ساری جماعتیں مکمل اتفاقِ رائے سے بے لاگ احتساب کا ایک جامع قانونی پیکیج بنانے پر آمادہ نہیں ہیں۔سپریم کورٹ آف پاکستان پلی بارگین کے نام پر قومی احتساب بیورو کو آئے دن ہدفِ تنقید بناتی رہتی ہے ،اَخلاقی اعتبار سے اور انصاف کی روح کے مطابق عدالتِ عظمیٰ کا یہ تبصرہ سو فیصد درست ہے ۔لیکن نیب جنابِ جنرل پرویز مشرف کا بنایا ہوا قانون ہے ،سترہویں آئینی ترمیم میں اِسے تحفظ حاصل ہے ، اِسے پلی بارگین کہیں یا ''اِستدعا برائے مُک مُکا‘‘ ،یہ بہرحال ''لاآف دی لینڈ‘‘ ہے۔نیب کے چیئرمین وقتاً فوقتاً دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے تقریباًدو سو پینسٹھ ارب روپے کی ناجائز دولت برآمد کی ہے، یعنی عدالتوں کے ذریعے کچھ بھی برآمد نہیں ہوا اور چند مستثنیات کے سوا بالآخر جلد یا بدیر تمام ملزمان باعزت بری ہوتے رہے ہیں۔اب جب کہ عارضی طور پر سپریم کورٹ نے پلی بارگین پر پابندی لگائی ہے ،تو خود پتا چل جائے گا کہ عدالت کے ذریعے کیا کچھ برآمد ہوتا ہے۔