3اور4دسمبر2016ء کو بھارت کے شہر امرتسر میں ''ہارٹ آف ایشیاکانفرنس‘‘منعقد ہوئی ۔اس کانفرنس کا مستقل چیئرمین افغانستان ہے ۔امرتسر کانفرنس کاافتتاح افغانستان کے صدر اشرف غنی اور بھارتی وزیرِ اعظم نریندر سنگھ مودی نے مشترکہ طور پر کیا۔ بھارت کے وزیرِ خزانہ ارون جیٹلی اور افغانستان کے وزیرِ خارجہ صلاح الدین ربانی اس کے شریک چیئرمین تھے۔اس میں پاکستان کی نمائندگی وزیرِ اعظم کے مشیربرائے امورِ خارجہ جناب سرتاج عزیز نے کی ۔افغانستان کو اس کانفرنس کا مستقل چیئرمین بنانے کا مقصد ہی یہی ہے کہ اس کانفرنس کا مرکزی موضوع افغانستان ہے ۔اس کانفرنس کے شریک ممالک آذربائیجان، چین، بھارت، ایران ، قزاقستان، کرغیزستان ، پاکستان ،روس، سعودی عرب ،تاجکستان ،ترکی ،ترکمانستان اور متحدہ عرب امارات ہیں ۔اس کے حامی ممالک میں آسٹریلیا، کینیڈا، ڈنمارک، مصر، یورپین یونین، فرانس، فِن لینڈ ،جرمنی ،عراق ،اٹلی ،جاپان، ناروے ،پولینڈ ،اسپین، سویڈن، برطانیہ اور امریکہ ہیں۔اس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہ ایک بڑا عالمی فورم ہے ۔
بھارت ایک عرصے سے پاکستان کو کھیلوں اور سفارت کاری سمیت تمام شعبوں میں تنہا کرنے یعنی دنیا سے کاٹ کر رکھنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے اوراُس نے اپنے مقصد میں کسی حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔ہمارا مقبول قومی کھیل کرکٹ ہے اور بھارت نے کرکٹ میں بگ تھری کا نظریہ متعارف کراکر پاکستان کو کافی عرصے سے اس کھیل میں کُلّی نہیں تو جزوی طور پردنیا سے الگ تھلگ کر رکھا ہے ۔کافی عرصے سے دہشت گردی کے الزام کے سبب غیر ملکی ٹیمیں پاکستان کا دورہ نہیں کررہیں۔ جب دبئی ،شارجہ اور ابوظبی میں ہماری قومی ٹیم کسی غیر ملکی ٹیم کے ساتھ ''ہوم سیریز‘‘ کھیل رہی ہوتی ہے ،تو دکھ بھی ہوتا ہے اور ہنسی بھی آتی ہے کہ ہماری ٹیم بیرونِ ملک کھیلتے ہوئے بھی میزبان ٹیم کہلاتی ہے۔2009ء میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کے حادثے کے بعد ہم کرکٹ کھیلنے والے ممالک میں صرف دنیا کی آخری درجے کی ٹیم زمبابوے کوکافی ناز برداری کر کے لاہور لانے میں کامیاب ہوسکے ہیں۔مزید یہ کہ پاکستان سپر لیگ بھی،جس کے آرگنائزر اور میزبان ہم خود ہیں ،متحدہ عرب امارات میں کھیلی جارہی ہے ۔پاکستان کے ساتھ کرکٹ کھیلنے والے ممالک کی یہ بہت بڑی ستم ظریفی ہے ۔دولت کی خاطر پاکستان سپر لیگ میں انفرادی حیثیت سے کھیلنے والے غیر ملکی کھلاڑی بھی تاحال پاکستان میں آکر کھیلنے پر آمادہ نہیں ہوئے، پاکستان کرکٹ بورڈ اس کے لیے کوشاں ہے اور پاکستان سپر لیگ کے انعقاد کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ بین الاقوامی کرکٹ کو پاکستان لایا جائے۔
اسلام آباد میں منعقد ہونے والی سارک کانفرنس کو بھارت نے ناکام بنادیا ،کیونکہ سارک کے رکن دیگرممالک بھارت کے زیرِ اثر ہیں اور وہ بھارت کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ اس تناظر میں ''ہارٹ آف ایشیا کانفرنس‘‘ میں شرکت نہ کرنا ، بھارت کے مقاصد کو تقویت دینے کے مترادف ہوتا ۔سو ہماری نظر میں حکومت کا شرکت کا فیصلہ درست تھا ،اس میں پاکستان کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقع ملا اور چند اہم ممالک نے بھارت کی سرزمین پرپاکستان کے موقف کے بارے میں مثبت تاثرات بھی دیے، اِسے ہم ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں پاکستان کی شرکت کا ایک ثمر قرار دے سکتے ہیں۔
ہمارے بعض عقابی دانشوروں اور پریشر گروپس کا یہ شکوہ ہے کہ پاکستان نے امرتسر میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کیوں کی اور بعض فریاد کُناں ہیں کہ پاکستان نے افغانستان پرچڑھائی کیوں نہ کردی۔عالمی حقائق سے آنکھیں بند کر کے اپنے آپ کوحب الوطنی کا اجارہ دار ثابت کرنے اورجائز یا ناجائز طور پر حکومتِ وقت کو طعن وتشنیع کا ہدف بنانے کا یہ بہترین حربہ ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک مشکل حالات میں اپنے لیے گنجائش پیدا کرنا ہی بہتر حکمتِ عملی ہے ۔کامیاب سفارت کاری صرف جارحیت ہی کا نام نہیں ہے ، بلکہ صورتِ حال کے مطابق حکمتِ عملی اختیار کرنے کا نام ہے ۔ تلخ حقیقت یہی ہے کہ اس وقت چین کے علاوہ ہمارے تمام پڑوسی ممالک یعنی ایران اور افغانستان بھارت کے زیرِ اثر ہیںاور خلیجی ممالک کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات کچھ زیادہ قابلِ رشک نہیں ہیں ۔ہم روس کے ساتھ روابط کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور روس بھی اپنے قومی اور عالمی مفاد میں کسی حد تک لچک دکھارہا ہے ۔اُس کا سبب یہ ہے کہ بھارت ماضی میں سامانِ حرب کے حوالے سے مکمل طور پر روس کا تجارتی شراکت دار اور حلیف تھا، لیکن اب بھارت کا جھکائو واضح طور پر امریکہ کی جانب دکھائی دے رہا ہے اور اب جدید ترین سامانِ حرب کے لیے امریکہ اور فرانس وغیرہ کے ساتھ اربوں ڈالر کے سودے ہوئے ہیں، F-16کی ٹیکنالوجی کی منتقلی کی بات چل رہی ہے اورامریکہ بھی چین کا محاصرہ کرنے کے لیے بھارت کی ناز برداری میں مصروف ہے ۔اس لیے روس کی بھارت سے علامتی دوری یا پاکستان کی طرف جھکائو قابلِ فہم ہے۔اگرچہ روس کی ترجیح یہی ہوگی کہ بھارت کی سامانِ حرب کی مارکیٹ کو ہاتھ سے نہ جانے دے ،لیکن عالمی سفارت کاری میں اپنے حلیف کو یہ دکھانا ہوتا ہے کہ اگر تم آنکھیں پھیر لوگے تو ہمارے پاس بھی متبادل آپشن موجود ہیں ۔ہمارے محبِ وطن دانشورا وردفاعِ پاکستان کونسل کے قائدین تو ہمیشہ اندھے کی لاٹھی چلانے کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں یا اس کی خواہش ظاہر کرتے ہیں ،لیکن سفارت کاری فراست اور دانش کا تقاضا کرتی ہے ۔زمانۂ قبل از اسلام یعنی عہدِ جاہلیت میں شاعری ایک بہت بڑا افتخار اور اپنے اپنے قبائل کی تشہیر کا ذریعہ تھا،اُس کی حیثیت آج کل کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا جیسی تھی ۔عہدِ جاہلیت کے نامی گرامی شعراء کے قصائد کا مجموعہ ''مُعَلَّقَات‘‘ کے نام سے معروف ہے اور ''اَلْمُعَلَّقَاتُ السَّبْع‘‘اور ''اَلْمُعَلَّقَاتُ الْعَشْر‘‘ مشہور ہیں ۔ان کو ''مُعَلَّقَات‘‘ اس لیے کہا جاتا ہے کہ تَحَدِّی (Challange)کے طور پربیت اللہ میں آویزاں کیا جاتا تھا،اسی لیے انہیں ''مُعَلّقَۃ‘‘ (Hanged) کہاجاتا تھا۔ چنانچہ عہدِ جاہلی کامشہورِ زمانہ شاعر امرؤالقیس اپنے گھوڑے کی خوبی بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:
مِکَرٍّ مِفَرٍّ مُقْبِلٍ مُدْبِرٍ مَعاً
کَجُلْمُوْدِ صَخْرٍ حَطّہُ السَّیْلُ مِنْ عَلٖ
ترجمہ:''(میرا گھوڑا جنگ کے دوران صورتِ حال کی مناسبت سے اورموقع دیکھ کر )آگے بڑھ کر حملہ کرتا ہے اور (موقع کی نزاکت دیکھ کر) پیچھے ہٹ جاتا ہے، الغرض وہ دشمن کے مقابل پیش قدمی بھی کرتا ہے اور جنگی حکمت عملی کے تحت پیچھے بھی ہٹ جاتا ہے (یعنی وہ اتنا ذہین اور ہوشیار ہے کہ موقع کی مناسبت سے جنگی تدبیریں اختیار کرتا ہے )،اُس کی مثال اُس بڑی چٹان کی سی ہے جسے سیلاب نے بلندی سے گرادیا ہو‘‘۔اس شعر میں امرؤالقیس یہ کہنا چاہتا ہے :'' اُس کا گھوڑا اپنے سوار کے اشارے یا نیت کو سمجھتا ہے ،وہ اپنی قوت اور ارادے کو مجتمع رکھتا ہے ، حاضر دماغ رہتا ہے ،جنگ کی ہولناکی سے وہ مخبوطُ الحواس یعنیd Mentaly Disturbe نہیں ہوتا ،وہ موقع کی مناسبت سے حکمتِ عملی اختیار کرتا ہے اور جب دشمن پر حملہ آور ہوتا ہے تواُس کے حملے میں اتنی طاقت ہوتی ہے ، جیسے تندوتیز سیلاب نے بھاری چٹان کو بلندی سے گرادیا ہو اور جنگی مہارت میں وہ پتھر کی مضبوط چٹان کی طرح مستحکم ہوتا ہے‘‘۔سو حب الوطنی کے اجارہ داراہلِ دانش سے ہماری مؤدّبانہ گزارش ہے کہ جنگی اور سفارتی حکمت عملی سمجھنے کے لیے ہمیں کم از کم امرؤالقیس کے گھوڑے ہی سے دانش سیکھ لینی چاہیے ۔میدانِ جنگ ہو یا سفارتی محاذ ، جنگ بہر حال حاضر دماغی ، شجاعت اور فراست کی متقاضی ہوتی ہے ۔اگر اس شعر کے مفہوم کو بیان کرنے میں مجھ سے کوئی معنوی کمی رہ گئی ہویا فہم میں خطا واقع ہوئی ہو، تو جنابِ اظہار الحق سے گزارش ہے کہ اصلاح فرمادیں۔
یہ امرمُسلَّم ہے کہ تکنیکی اعتبار سے پاکستان کا وزیرِ خارجہ نہیں ہے اور یہ منصب خود وزیرِ اعظم نے سنبھال رکھا ہے۔لیکن وزیرِ اعظم کے مشیر برائے امورِ خارجہ جنابِ سرتاج عزیز سابق بیوروکریٹ ہیں،اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص ہیں ، پاکستان کے وزیرِ خارجہ رہ چکے ہیں، پختہ کارسیاست دان ہیں، کیا وزیرِ خارجہ کے لیے پہلوان یا جوان ہونا ضروری ہے؟۔ کیا بھارتی وزیرِ خارجہ سُشما سوراج پہلوان ہیں، وہ تو سرتاج عزیز صاحب کے مقابلے میں بھی نحیف ونزار نظر آتی ہیں۔اپنی ہرچیز کو حقیر جاننا ہمارا شعار بن گیا ہے ، اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ سرتاج عزیز صاحب کوسکھوں کے تاریخی گردوارے ''گولڈن ٹیمپل ‘‘نہیں جانے دیا گیا یا انہیں پریس کانفرنس سے روک دیا گیا ،یہ بلاشبہ افسوس کی بات ہے ،لیکن اس قدر نہیں کہ ہمارے آزاد میڈیا کے پچیس سے زیادہ چینل ماہرین کومَسند پر براجماں کر کے'' شامِ غریباں ‘‘منانا شروع کردیں، آخر آپ دشمن ملک سے اس کے برعکس توقعات کیسے قائم کرسکتے ہیں۔
ہمارے ایک صاحبِ طرز کالم نگار جنابِ عبداللہ طارق سہیل کے بعض تبصرے شاہکار ہوتے ہیں ،اُن میں سے ایک یہ ہے کہ جنابِ پرویز مشرف کی چار ریٹائرڈ بیوائیں الیکٹرانک میڈیاپر مسلسل ماتم کناں رہتی ہیں۔جنابِ جنرل پرویز مشرف اپنے عہدِ اقتدار میں جنرل (ر) حمید گل مرحوم اور جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ کو خود ساختہ یا جعلی دانشور کہا کرتے تھے ،اُن کی انگریزی اصطلاح Pseudo Intellectual تھی۔سوالحمد للہ، ماشاء اللہ !ہمارے ہاں اہلِ فکر ونظر اور دانشوروں کی بہتات ہے ۔کسی زمانے میں صاحبِ طرز طنز نگار جنابِ ابنِ انشا مرحوم نے لکھا تھا:''قومی مردم شماری کے دوران لیاقت آباد کراچی کے دو محلّوں میں پچیس شعراء نکلے ،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں ماشاء اللہ شعرا ء کی بہتات ہے، اگر ان کی برآمد کی کوئی تدبیر کی جاسکے تو ملک کو کافی زرِ مبادلہ حاصل ہوسکتا ہے‘‘۔ سو آج کل جعلی عاملوں اور پیروں کے ساتھ ساتھ اصلی دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی بھی ماشاء اللہ ایسی ہی بہتات ہے ، ان کابھی کوئی قومی مصرف تلاش کرنا از حد ضروری ہے ۔