1977ء میں پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کے دوران اُس وقت کے وزیرِ اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے دینی طبقات کو مطمئن کرنے کے لیے چند اسلامی اقدامات کا اعلان کیا :اُن میں شراب کے کاروبارکی ممانعت کا حکم بھی تھا۔بعد میں حکومتوں نے غیر مسلموں کی آڑ میں محدود پیمانے پر شراب کے اجازت نامے دینے شروع کیے ، کہاجاتا ہے کہ یہ پرمٹ بظاہرغیر مسلموں کے نام پر لیے جاتے رہے ،لیکن کاروبار کے اصل مالکان مسلمان تھے۔ حال ہی میں سندھ ہائی کورٹ میں ایک مسلمان ،ہندو ،مسیحی اور سکھ کی جانب سے ان اجازت ناموں کو منسوخ کرنے کے لیے ایک پٹیشن دائر ہوئی ۔سندھ ہائی کورٹ نے عارضی حکمِ امتناعی جاری کیا،لیکن بعد میں سپریم کورٹ نے حتمی فیصلہ آنے تک اس عارضی حکم امتناعی کو معطل کردیا۔
اس کے بعد ہمارے پاس یہ حضرات سوال لے کر آئے کہ آپ شراب کے کاروبار کی ممانعت کا فتویٰ جاری کریں۔میں نے اُن کے سوال کو دیکھاتو اُ س میں شراب کے کاروبار کی ممانعت کی بجائے سوال یہ تھا کہ آیاشراب کے کاروبار کی آمدنی پر ٹیکس لینا جائز ہے ؟۔ اس سے مجھ پر یہ عقدہ کھلا کہ اس کا مقصدپرمٹ ہولڈرزپر ضرب لگانا اوراس کاروبارسے حاصل ہونے والی آمدنی پر ٹیکس کی چھوٹ کا راستہ نکالنا تھا۔
میں نے اسلامی ریاست میں شراب کے کاروبار کی تمام صورتوں کی ممانعت کا قرآن وسنت کی روشنی میں فتویٰ مرتّب کیا اور یہ جامع فتویٰ سائلین کے سپرد کیا تو انہوں نے اِسے لینے سے انکار کردیا اور کچھ لوگوں سے کہا: ''مفتی منیب الرحمن نے شراب کی حرمت کا فتویٰ دینے سے انکار کردیا ‘‘۔یہ سراسر کذب وبہتان تھا ، میں نے اپنے جواب میں لکھا:
دستورِ پاکستان کا آرٹیکل :2 قرار دیتاہے :'' اسلام پاکستان کا ریاستی مذہب ہوگا‘‘۔آرٹیکل :2 Aمیں قراردادِ مقاصد کوریاست کے اساسی قانون کا درجہ دے دیاگیا ہے،اس میں کہاگیاہے :'' اقتداراعلیٰ اور حاکمیتِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہے اور مسلمان اللہ کی زمین پر اُس کے نائب کی حیثیت سے شریعت ِ اسلامی کو نافذ کرنے کے پابندہیں ‘‘۔آرٹیکل:227میں ہے : ''قرآن وسُنّت کے مُنافی کوئی قانون سازی نہیں ہوگی اور تمام موجودہ قوانین کو قرآن وسُنّت کے مطابق بنایا جائے گا ‘‘۔یعنی اگر ریاست میں نافذ کوئی قانون یااُس کا کوئی حصہ قرآن وسنت کے خلاف ہے ،تواُسے تبدیل کر کے قرآن وسنت کے مطابق بنایاجائے گا۔ آرٹیکل:31ریاست کو اس بات کا پابندبناتاہے :''پاکستان کے مسلمانوں کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور نظریات کے مطابق گزارنے کے لیے ریاست تمام ضروری اقدامات کرے گی ‘‘۔
خنزیر اور شراب اسلام میں حرامِ قطعی ہیں ، اسلام کے تمام مکاتبِ فکر کے نزدیک یہ اِجماعی اور مُسلّمہ اَمرہے ،لہٰذا ریاست کی ذمے داری ہے کہ پاکستان کے اندر خنزیراور شراب کی ممانعت کے لیے ضروری قانون سازی کرے اور اُسے سختی سے نافذ کرے ۔یہ اسلامی ریاست کا قانونِ عام ہے اور اِس کا اِطلاق مسلم اور غیر مسلم تمام شہریوں پربلا امتیاز ہونا چاہیے ۔بلاشبہ اسلام کی روایت رہی ہے کہ ریاست اپنے غیرمسلم شہریوں کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت دیتی ہے ،وہ اپنی عبادت گاہوں میں اپنے مذہب کے مطابق عبادات اداکرسکتے ہیں اور ریاست اُن کے اِس حق کا تحفظ کرے گی ۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیت المقدس کے نصاریٰ کو جو امان اور ضمان باقاعدہ تحریری شکل میں عطاکی تھی ،وہ ایک رہنما اصول ہے ، اُس کا متن یہ ہے :''یہ وہ امان ہے جو اللہ کے بندے امیر المؤمنین عمر نے ایلیا کے لوگوں کو عطا کی ، یہ امان اُن کی جان ومال ،اُن کے کلیسائوں و صلیبوں، اُن کے ہر بیمار وتندرست اور پوری ملتِ نصاریٰ کے لیے ہے ۔ اُن کے کلیسائوں میں نہ کوئی قیام کرے گا ،نہ اُنہیں ڈھایا جائے گا ،نہ ہی اُن کی صلیبوں اوراموال میں کچھ کمی کی جائے گی ، نہ دینی معاملات میں اُن پر جبر کیا جائے گا، نہ اُن میں سے کسی کو نقصان پہنچایا جائے گااور نہ ہی کوئی یہودی اُن کے ساتھ بیت المقدس میں رہائش اختیار کرسکے گا۔اس امان کے عوض اہلِ ایلیا پر لازم ہوگا کہ وہ اہل مدائن کی طرح جزیہ دیں ۔اُن میں سے جو روم جانا چاہیں ،انہیں اپنی منزل ِ مقصود پر پہنچنے تک جان ومال کا تحفظ حاصل ہوگا۔اُن کے کلیسائوںو صلیبوں کے لیے امان ہے اور اُن میں سے جو بیت المقدس میں رہنا چاہیں ،انہیں وہاں کے دیگر باشندوں کے مساوی حقوق ملیں گے ۔ اس تحریری معاہدے پر اللہ تعالیٰ ، اُس کے رسولِ مکرم ﷺ ،خلفائے کرام اور اہلِ ایمان کی اُس وقت تک ضمانت ہے ،جب تک کہ وہ جزیہ دیتے رہیں گے ۔اس معاہدے پر خالد بن ولید ،عمرو بن العاص ، عبدالرحمن بن عوف اور معاویہ بن ابی سفیان (رضی اللہ عنہم )کو گواہ بنایا گیا اور یہ معاہدہ 15ہجری میں طے پایا‘‘۔
ہماری نظر میں ہماری اعلیٰ عدلیہ کی آئینی ،قانونی اور شرعی ذمے داری ہے کہ اوّلین فرصت میں اس پٹیشن کی سماعت کرے ، اسلام اور دستورِ پاکستان کی روشنی میں اپنا فیصلہ صادر فرمائے ۔
اسلام کی رُوسے خَمر وخنزیر کی تجارت ،اُس سے انتفاع اور اُس میں معاون ومددگار بننا ،یہ تمام صورتیں ناجائز ہیں ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :(1):''اللہ نے تم پر جن چیزوں کوحرام کیاہے ،وہ صرف مردار ،(ذبح کے وقت بہنے والا)خون ، سور کا گوشت اوروہ جانور ہے جس پر ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام لیاگیا ہو ، (بقرہ:173)‘‘۔(2):'' اے ایمان والو!بے شک شراب، جوا، بتوں کے پاس نصب شدہ پتھر اورفال کے تیر محض ناپاک ،شیطانی کام ہیں، سو اِن سے اجتناب کرو تاکہ تم فلاح پاؤ ۔ شیطان صرف یہ چاہتاہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعہ تمہارے درمیان بغض اور عداوت پیداکرے اورتمہیں اللہ کے ذکر اور نمازوں سے روک دے ،توکیا اب تم باز آجائو گے؟ ، (المائدہ:90-91)‘‘۔ اِس آیت میں متعددمحرمات کے ساتھ ملاکر شراب کی حُرمت کو بیان کیاگیاہے تاکہ اس کی سنگینی اہلِ ایمان پر واضح ہوجائے ۔
علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ''شیخ محمد بن عبداللہ بن تمر تاشی الغزّی نے کہا : اس آیت میں شراب کی حُرمت پر دس دلائل ہیں : (1): شراب کا ذکر جوئے ، بت اورفال کے تیروں کے ساتھ کیا ہے اوریہ سب حرام ہیں ،(2): ان چیزوں کورِجس فرمایااور ناپاک چیز حرام ہے، (3):ان چیزوں کو شیطانی عمل قراردیااورہرشیطانی عمل حرام ہے،(4): شراب سے اجتناب کاحکم فرمایا اورجس سے اجتناب فرض ہو ،اس کا ارتکاب حرام ہے،(5):فلاح کو شراب سے اجتناب پر معلق کیا،پس فلاح کے حصول کے لیے شراب سے اجتناب فرض اور اس کاارتکاب حرام ہے، (6):شیطان شراب نوشی کے ذریعے اہلِ ایمان میںعداوت پیداکرتاہے اور عداوت حرام ہے اور حرام کا سبب بھی حرام ہے،(7): شراب نوشی کے ذریعے شیطان اہلِ ایمان میں بغض پیدا کرتاہے ،پس بغض اور اس کا سبب حرام ہے،(8): شیطان شراب نوشی کے ذریعے اللہ کے ذکر سے روکتاہے اوریہ فعل حرام ہے ،(9):شیطان شراب نوشی کے ذریعے نماز سے روکتا ہے اور فرض سے روکنے کا سبب حرام ہے،(10):اللہ تعالیٰ نے استفہام کے صیغے کے ساتھ (شراب نوشی سے) بلیغ اندازمیں نہی فرمائی اوراتنے بلیغ انداز میں تہدید محرمات سے روکنے کے لیے ہوتی ہے ،(رَدُّ الْمحتار علی الدر المختار، جلد10،ص:27،بیروت)‘‘۔
احادیثِ مبارکہ میں ہے :(1) : رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: اے لوگو!اللہ تعالیٰ نے شراب (کی حرمت) کا اشارۃً ذکرفرمایا ہے اوروہ عنقریب اس کے متعلق کوئی حکم نازل فرمائے گا،سو جس شخص کے پاس کچھ شراب ہو وہ اس کو فروخت کرکے اس (کی قیمت) سے فائدہ اٹھالے ،راوی کہتے ہیں: چند روزہی ہوئے تھے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے شراب کو حرام فرمادیاہے ،سوجس شخص کو یہ حکم معلوم ہوجائے ،وہ نہ اس کو پیے ،نہ فروخت کرے ،وہ کہتے ہیں: پھرجن لوگوں کے پاس شراب تھی ،اُنہوں نے اس کو لاکر مدینہ کے راستوں پر بہادیا،(صحیح مسلم:1578)‘‘۔ (2):''حضرت عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں :جب سورۂ بقرہ کی آخری آیات نازل ہوئیں تو نبی کریم ﷺ باہر نکلے اور فرمایا: ''خمر کی تجارت حرام فرمادی گئی ہے، (صحیح مسلم:1580)‘‘۔ (3): رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے سال فرمایا:اللہ اور اس کے رسول نے خَمر ،مردار،خنزیر اور بتوں کی بیع کوحرام فرمادیاہے ، (صحیح مسلم: 1581)‘‘۔(4):آپ ﷺ نے فرمایا:''اللہ نے شراب ، اُس کے پینے اورپلانے والے ،اُس کے خریدنے اور فروخت کرنے والے ،اُس کے تیار کرنے والے ،اُس کی نقل وحمل کرنے والے اور جس کے لیے اٹھاکر لائی گئی ہے ،سب پر اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے ، (سُنن ابو داؤد:3669)‘‘۔مسند احمد کی روایت میں شراب کی قیمت سے فائدہ اٹھانے والے پر بھی لعنت آئی ہے۔
مسلمانوں کے لیے مال کمانے اور خرچ کرنے کے لیے اس کاحلال اور جائز ہونا شرط ہے ، نہ حرام طریقے سے مال کمانا جائز ہے اور نہ حرام مال کو ثواب کی نیت سے خرچ کرنا جائز ہے ، جب کہ غیر مسلم پر یہ پابندی عائد نہیں ہے ، لہٰذا اُس کی کمائی پر ٹیکس عائد ہوگا، ٹیکس کے عائد ہونے کے لیے اُس کی کمائی کا حلال ہونا شرط نہیں ہے ۔لیکن غیر مسلم پر بھی اسلامی ریاست کے قانونِ عام کی پابندی لازم ہے اور اب تو وہ خود مدّعی بن کر سامنے آئے ہیں کہ اُن کے مذہب میں شراب پینا ضروریاتِ مذہب میں سے نہیں ہے ،اور اس پابندی کے قبول کرنے میں اُن کا مذہب رکاوٹ نہیں بنتا ،پس عدالتِ عالیہ کو قرآن وسنت اور آئین کی پابندی کرتے ہوئے شراب کے کاروبار کی ممانعت کابلا امتیاز اور دو ٹوک فیصلہ صادر کرنا چاہیے۔