گزشتہ سال اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان نے قرار دیا کہ DNA کی فارنزک لیبارٹری رپورٹ کو حد ّزنا جاری کرنے کے لیے حتمی اور قطعی شہادت (Absolute Evidence)کے طورپر تسلیم نہیں کیا جا سکتا، اس کے لیے عینی شہادت (Eye Witness)کا مطلوبہ شرعی معیار لازمی ہے،البتہ اسے ظنّی شہادت ، قرائن کی شہادت اور تائیدی شہادت کے طورپر لیا جا سکتا ہے اور عینی شہادت کی عدم دستیابی کی صورت میں عدالت مطمئن ہو تو تعزیراً سزا دے سکتی ہے۔ اس پر ہمارے آزاد الیکٹرانک میڈیا، لبرل عناصر نے کہرام مچا دیا، ان میں حقوق نسواں اور حقوق انسانی کے نام پر تنظیمیں چلانے والی NGOs اور دیگر فعال عناصرسب شامل ہیں۔ چونکہ مغربی ممالک کی اقدارکے پرچارک ان طبقات کو زنا بالرضا (Adultery) پرکوئی اعتراض نہیں ہے، اس لیے ان کا اصرار ہے کہ زنا بالجبر (Rape)کے ثبوت کے لیے DNA کا لیبارٹری ٹیسٹ اگر مثبت آجائے تواسے حتمی اور قطعی شہادت قرار دے کر اس جرم کے مرتکب پر سزائے موت جاری کردی جائے۔
میں 12تا 30 جنوری امریکہ کے دورے پرتھا اور مختلف ریاستوں میں دوستوں نے دینی پروگرام ترتیب دے رکھے تھے، نیو جرسی اسٹیٹ سے جماعت اہلسنت نارتھ امریکا کے رہنما علامہ مقصود احمد قادری یہ پروگرام ترتیب دیتے ہیں، ا ن میں ایک پروگرام ٹینیسی اسٹیٹ کے شہر نیو جانسن سٹی میں جناب ڈاکٹر شہرام ملک کے مکان پر ہوتا ہے، جو دین دار،علم دوست اور مہمان نواز شخص ہیں۔ یہ ڈاکٹر صاحبان اور اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات کا ایک حلقہ احباب ہے جو کافی دور دور سے سفر کرکے یکجا ہوتے ہیں۔ چونکہ تعلیم وتعلّم ہمارا مشن ہے، اس لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات کے ساتھ مجلس کا انعقاد اور تبادلۂ خیال بے حد مفید ثابت ہوتا ہے، ان میںکئی احباب میاں بیوی دونوںڈاکٹر ہوتے ہیں۔ ممتاز عالمی شہرت یافتہ آئی سرجن جناب ڈاکٹرخالد اعوان اس حلقۂ احباب کا نقطۂ اتصال ہیں۔ ڈاکٹرصاحب کا قرآن و حدیث کا وسیع مطالعہ، یادداشت اور استدلال قابل رشک ہے۔ وہ راسخ العقیدہ ہیں، محض روایتی اور نسلی مسلمان نہیں ہیں کہ مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے اور وراثت میں اسلام کی نعمت بھی مل گئی، بلکہ اُس خوش نصیب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے اسلام کو پڑھا، سمجھا اور شعوری طور پر قبول کیا اورعمل بھی کیا۔ ان کے اپنے شعبۂ طب Opthalmology میں ان کے 250 سے زیادہ ریسرچ پیپرز معتبر عالمی طبی جرائدمیںطبع ہو چکے ہیں۔ امراضِ چشم کے علاج کے حوالے سے ان کی ایک تحقیق ''Awan Syndrome‘‘ کے عنوان سے ان کے نام سے منسوب ہے اور بلاشبہ یہ ایک بڑا اعزازہے، اسی طرح لیزر ٹیکنالوجی سے جو آنکھوں کا علاج ہوتا ہے، اس میں سے بھی ایک خاص'' لیزر‘‘ کے موجد چونکہ ڈاکٹر خالد اعوان ہیں،اس لیے یہ بھی ان کے نام سے منسوب ہے۔ امریکا اور دیارِمغرب میں مقیم قابل فخر کارنامے انجام دینے والے ایسے پاکستانیوں کو قومی اعزازکے لیے منتخب کیا جانا چاہیے اورامریکا میں مقیم پاکستانی صحافیوں کو ایسے لوگوں کی نشاندہی کرنی چاہیے۔
میں ایک عرصے سے متلاشی تھا کہ آیا امریکا اور یورپی ممالک میں DNA ٹیسٹ کی مثبت رپورٹ کو ایسے جرائم کے ثبوت کے لیے، جن کی سزا موت ہے، قطعی اور حتمی شہادت کے طورپرتسلیم کیا جاتا ہے یا اسے زیادہ سے زیادہ ہمارے فقہائے کرام کے اقوال کے مطابق ایک ظنّی اور مشتبہ شہادت یا تائیدی شہادت کے طور پر ہی لیا جا سکتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنے عہد مبارک میں مختلف مواقع پر قرائن کی شہادت کو اپنے قیاس کی بنیاد بھی بنایا اور اسے تائیدی شہادت کے طور پر استعمال بھی فرمایا، لیکن اسے کسی بھی وقوعے کے بارے میں قطعی اور حتمی شہادت کا درجہ نہیں دیا کہ اس کی بنا پر شرعی حد جاری کی جاسکتی ہے۔ ذیل میں ہم اس کی مثالیں پیش کر رہے ہیں:
ابورافع سَلَّام بن ابوالحُقَیق ایک مشہور دشمنِ رسول تھا، وہ آپ کو ایذا پہنچاتا تھا۔ آپ ﷺ نے عبداللہ بن عَتِیْک کی قیادت میں انصار کے پانچ افراد کو اُسے قتل کرنے کے لیے بھیجا۔ عبداللہ بن اُنَیس بیان کرتے ہیں کہ ہم نے واپس آ کر رسول ا للہ ﷺ کو اُس کے قتل کی خبر دی۔ ہم میں اختلاف پیدا ہوا کہ وہ شخص کس کی ضرب سے قتل ہوا ہے ،کیونکہ ہم میں سے ہر ایک اس اِعزاز کا دعوے دار تھا، پس رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''سب اپنی تلواریں لے آئو‘‘، چنانچہ ہم اپنی اپنی تلواریں لے آئے۔ آپ ﷺ نے سب تلواروں کو دیکھا اور عبداللہ بن اُنَیس کی تلوار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ''وہ اِس تلوار سے قتل ہوا ہے ،کیونکہ مجھے اس پر خوراک کے ذرّات نظر آ رہے ہیں، ( سیرتِ ابن ہشام، ج:2،ص:275،روایت کا خلاصہ)‘‘۔
آپ ﷺ کے اس ارشادکامطلب یہ تھا کہ عبداللہ بن اُنیس کی تلوار ابن ابوالحُقیق کے بدن میں زیادہ گہرائی یعنی معدے تک گئی ہے اوراس کا ثبوت یہ ہے کہ اس پر لگے ہوئے خون کے دھبوں میں خوراک کے ذرات کی آمیزش نظر آتی ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ ان کا وار زیادہ گہرائی تک گیا اور جان لیوا ثابت ہوا۔ یہ فراستِ نبوت کا فیضان تھا کہ آپ ﷺنے قرائن کی شہادت (Circumstantial Evidence)کا اعتبار کیا اور اسے کسی وقوعے کے ثبوت کے لیے تائیدی شہادت اور قرینے کے طور پر استعمال فرمایا۔
حدیث پاک میں ہے: ''ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: یارسول اللہ! (صلی اللہ علیک وسلم)، میرے ہاں ایک سیاہ فام بیٹے نے جنم لیا ہے (غالباً وہ شخص سفید رنگ کا تھا اور اس بنا پر اُسے اپنے بیٹے کے نسب کے بارے میں شبہ لاحق ہوا)،آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ اُس نے جواب دیا: جی ہاں ! آپ ﷺ نے پوچھا: اُن کے رنگ کیسے ہیں ؟ اُس نے عرض کی: سرخ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا اُن میں کوئی خاکستری رنگ کا بھی ہے؟ اُس نے عرض کی: جی ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا: تو وہ (یعنی سرخ اونٹوں میں خاکستری رنگ کا اونٹ)کہاں سے آگیا؟ اُس نے عرض کی: شاید (اُس کے نسبی آباء میں سے) کسی کی رگ نے اُسے کھینچ لیا ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا: شاید تمہارے بیٹے کو بھی (تمہارے آباء کی )کسی رگ نے کھینچ لیا ہو، (بخاری: 5305)‘‘۔ یہاں رسول اللہ ﷺ نے قیاس کو صحیح نسب کے لیے تائید کے طور پر استعمال فرمایا۔ اس کومندرجہ ذیل حدیث سے مزید تقویت ملتی ہے:
علی بن ابی رباح اپنی سند کے ساتھ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے اُن سے پوچھا: تمہارے ہاں کیا پیدا ہوا؟ اُس نے جواب دیا: میرے ہاں جو بھی پیدا ہوگا بیٹا ہوگا یا بیٹی۔ آپ ﷺ نے پوچھا: وہ بچہ (صورت میں )کس سے مشابہ ہوگا؟ اُس نے عرض کی: یارسول اللہ! (صلی اللہ علیک وسلم) یقیناً اپنے باپ یا ماں میں سے کسی کے مشابہ ہوگا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ذرا رکو، اس طرح نہ کہو (بات یہ ہے کہ ) جب نطفہ ماں کے رحم میں قرار پاتا ہے، تو اللہ تعالیٰ (اپنی قدرت سے ) اُس کے اور آدم علیہ السلام کے درمیان تمام رشتوں (یعنی اُن کی صورتوں) کو حاضر فرما دیتا ہے (اور وہ اُن میں سے کسی سے مشابہت اختیار کرلیتا ہے)، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں پڑھا: ''وہ جس صورت میں چاہتا ہے، تمہارے وجود کی تشکیل فرما دیتا ہے،(المعجم الکبیر للطبرانی: 4624)‘‘۔ اس کی مزید تائید اس حدیث پاک سے ہوتی ہے:
ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں: ایک دن رسول اللہ ﷺ میرے پاس اس حال میں تشریف لائے کہ آپ بہت خوش تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: (عائشہ!) تمہیں معلوم ہے کیا ہوا؟ مُجَزِّز مُدْلِجی میرے پاس داخل ہوا، اُس نے دو اشخاص (زید بن حارثہ اور اسامہ بن زیدرضی اللہ عنہما)کو چادر اوڑھ کر لیٹے ہوئے اس طرح دیکھا کہ اُن کے سر (اور بدن کا بالائی حصہ) ڈھکا ہواتھا اور پائوں کھلے تھے۔ اُس نے کہا: یہ پائوںایک دوسرے سے ہیں (یعنی یہ دونوں اشخاص آپس میںباپ بیٹا ہیں)،(صحیح بخاری:6771)‘‘۔ حضرت اسامہ بن زیدکا نسب اپنے باپ زید بن حارثہ سے ثابت تھا، لیکن باپ بیٹے کے رنگ میں تفاوُت کی وجہ سے کسی منافق نے اُن کے نسب پر طعن کیا تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے قیافے کے ماہر مُجَزِّزمُدلِجی کے اس مشاہدے کو تائیدی شہادت کے طور پر لیا اور خوشی کا اظہار فرمایا کہ ایک غیر جانبدار ماہر شخص نے ان دونوں کے حقیقی باپ بیٹا ہونے کی تصدیق کردی۔
اب جاکر سائنس اورجدید علم نے اس کی توثیق کی ہے۔ چنانچہ اب فارنزک لیبارٹری کی مثبت رپورٹ اور وڈیو ریکارڈنگ یعنی مُتحرک تصاویر کو کسی جرم کے ثبوت کے لیے ایک حد تک قبول کیا جا رہا ہے۔ لیکن کسی سنگین نوعیت کے جرم ، جس کی قانون اور شریعت میں سزا موت مقرر ہے،کے ثبوت کے لیے ڈی این اے کی مثبت لیبارٹری رپورٹ اور ویڈیو ریکارڈنگ کو، خواہ وہ کتنی ہی معیاری ہو، واحد حتمی اور قطعی ثبوت مان کر سزائے موت کا فیصلہ نہیں دیاجاسکتا۔ یعنی محض اس مثبت فارنزک رپورٹ کی بنا پر شریعت کی مقرر کی ہوئی ''حَدِّ زنا‘‘جاری نہیں کی جاسکتی ،کیونکہ اس میں ملاوٹ اورکسی چیز کی آمیزش کا امکان موجود ہے۔ اسی طرح وڈیو ریکارڈنگ اور متحرک تصاویر میں بھی ایڈیٹنگ کے امکان کو کلی طور پر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تو ہمارے ہاں روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ ٹیلیویژن کوریج کرنے والے اپنے کسی من پسند سیاسی رہنما یا پارٹی کے جلسے کو بڑا کرکے دکھاتے ہیں اور ناپسندیدہ لیڈر یا پارٹی کے اُتنے ہی یا اُس سے بھی بڑے اجتماع کو چھوٹا کرکے دکھاتے ہیں، اِسے ہمارے مُحاورے میں کیمرے یا ہاتھ کا کمال کہتے ہیں۔ یعنی ذاتی پسند و ناپسند ، ترغیب وتحریص، دباؤ اور تعصُّب کی بنا پر حقائق و واقعات میں تَغیُّر و تبدُّل یا کمی بیشی یا مؤثر یا غیر مؤثر بناکر پیش کرنا ممکن ہے۔ اسی طرح تمام تر دیانت اورنیک نیتی کے باوجود بشری خطا کے امکان کو بھی کلی طورپر رَد نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر کیس میں ایساہو، لیکن خطا کا امکان قطعیت کی نفی کے لیے کافی ہے۔ ہمارے ہاں میڈیکولیگل رپورٹ اور میّت کے پوسٹ مارٹم میں ردّوبدل کے شواہد بہت ہیں۔(جاری)