الغرض ان اسباب کی بناپر ڈی این اے کی مثبت رپورٹ یا فارنزک شواہد ظنّی اور مشتبہ (Doubtful)قرار پاسکتے ہیں ،قطعی ہرگز نہیں ہوسکتے ،جبکہ حد زناجاری کرنے یا قتل کی سزا نافذ کرنے کے لیے ثبوت کا قطعی اورلاریب ہونا ضروری ہے اوروہ مطلوبہ عینی شہادت ہی سے ممکن ہے۔خون کے دھبے ،بندوق کی گولیاں اورانسانی دانت سے کاٹنا اسی زمرے میں آتاہے ،تاہم ان شواہد کی بناپر جج یا قاضی اگر مطمئن ہو توتعزیر کے طورپر سزادے سکتاہے اوراس سے کسی کو اختلاف نہیں ہے ۔امریکہ کے حالیہ سفر میں ڈاکٹر خالد اعوان صاحب نے امریکہ اور جرمنی کی عدالتوں اور تفتیشی اداروں کے حوالے سے ڈی این اے رپورٹ کے غیر یقینی ہونے کے بارے میں وہاں کے اخبارات کے حوالوں سے ہمیں یہ شواہد فراہم کیے،جوہمارے لبرل عناصر کے لیے یقینا حجت ہوں گے:
امریکہ کے نہایت مشہور ایتھلیٹ اوجے سمپسن پر اپنی بیوی اوراس کے آشنا کے دُہرے قتل کاالزام تھا ،وکیل صفائی نے موقف اختیار کیاکہ ڈی این اے کے حاصل کیے ہوئے نمونے میں لیبارٹری میں کسی آمیزش کے امکان کو رَد نہیں کیاجاسکتا ۔اسی طرح 2009ء میں ایک واضح ابہام رپورٹ کیاگیا ۔اس کی رُو سے محض ڈی این اے کی مثبت رپورٹ پر اس حد تک انحصار کو شک کی نظر سے دیکھاگیا کہ اسے قطعی شہادت مان کر مجرم پر سزائے موت نافذ کردی جائے۔
پندرہ سال تک جرمنی کی ایک اسٹیٹ کی پولیس ایک عادی قاتلہ خاتون کو شدت سے تلاش کرتی رہی،جس کی ڈی این اے کے مثبت شواہد چالیس جرائم کے وقوعوں میں پائے گئے ،ان میں سے چھ قتل کے جرائم تھے۔2007ء میں انہوں نے متبادل امکانات پر غور شروع کیا،پھر مارچ2009ء میں اسٹیٹ منسٹر نے اعلان کیا کہ کیس کو حل کرلیاگیا ہے،وہ یہ کہ جس فیکٹری سے نمونہ لینے کے لیے روئی کا پھایا لیاجارہاتھا،وہاں ایک خاتون ورکر کی لاپرواہی سے آمیزش(Contamination) ہورہی تھی ،(Kingport Times-News,Monday, May11 ,2009)‘‘۔
اسی طرح Amanda knoxنامی ایک امریکی خاتون کو اٹلی میں اپنے ساتھ کمرے میں رہنے والی دوسری خاتون کو قتل کرنے کے الزام میں 25سال کی سزا سنائی گئی ۔اس پر الزام ثابت کرنے کے لیے ڈی این اے لیبارٹری رپورٹ کو بطور ثبوت پیش کیاگیا ۔تقریباً ایک سال بعد اس فیصلے کو چیلنج کردیاگیا اورامریکہ کے ایک اخبار میں رپورٹ شائع ہوئی :'' Amanda knox- Romeکوایک فیصلہ کن فتح حاصل ہوئی ۔ ایک غیرجانبدار فارنزک رپورٹ نے بتایا کہ اس امریکی طالب علم اوراس کی ساتھی کے مقدمے میں جو ڈی این اے رپورٹ بطورشہادت استعمال کی گئی ،وہ قابل اعتماد نہیں تھی اوراس میں آمیزش تھی۔اس رپورٹ سے معلوم ہواکہ پہلے ٹرائل میں جوڈی این اے ٹیسٹ استعمال کیاگیا ،وہ بین الاقوامی معیار سے کم تر درجے کاتھا اوراس کے سبب اَمنڈا ناکس کی سزا کو ختم کرنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں،(Bristol Herald Courier,Thursday,June 30,2011)‘‘۔پس شرعی حد جاری کرنے کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کو حتمی اور قطعی ثبوت ماننے والوں کواس رپورٹ کا مطالعہ ضرورکرنا چاہیے ۔
ہمارے ہاں بعض لوگ قتل یا آبروریزی کے مقدمات ( یعنی ایسے جرائم جن کی سزا موت یا عمر قید ہے) میں صرف ڈی این اے کی مثبت لیبارٹری رپورٹ کو حتمی اور قطعی شہادت کے طور پر قبول کرنے پر مُصر ہیں اوراِسے حتمی اورقطعی ثبوت نہ ماننے والوں کو دقیانوسی فکر کا حامل قرار دیتے ہیں۔ایسے تمام لبرل حضرات سے گزارش ہے کہ وہ آبروریزی کے مقدمات میں ڈی این اے کی شہادت کو قطعی ثبوت نہ ماننے کی بابت Univercity of Michigans Innocene Clinicکے 56سالہ کارل ونسن کے مقدمے کا مطالعہ کریں، جسے جبری آبروریزی کے مقدمے میں25سال کی جیل گزارنے کے بعد اس بناپر رہاکردیاگیا کہ جج ایزن براؤن نے کہا:''عدالت سائنسی شواہد کی بجائے عینی شہادت پر انحصار کرے گی،(Kingport Times-News,Monday,July16,2011)‘‘۔
الغرض ڈی این اے ٹیسٹ کی مثبت رپورٹ کے قطعی ثبوت نہ ہونے کے بارے میں امریکہ اور مغربی ممالک کی عدالتیں یک آواز نہیں ہیں ، بعض اسے حتمی اور قطعی ثبوت مانتے ہیں اور بعض عدالتوں اور ایف بی آئی نے اسے تسلیم نہیں کیا۔اسی حقیقت کو علمِ نبوت نے چند الفاظ میں بیان فرمادیا:''جس قدر ہوسکے مسلمانوں سے حدود کو ساقط کردو،(سنن ترمذی:1424)‘‘۔امام ابن ماجہ نے اپنی سُنَن میں باب باندھا:''مومن کی پردہ پوشی اور حدود کو شبہات کے سبب دور کرنے کا بیان‘‘ ۔ امید ہے میری یہ عاجزانہ کاوش ان شاء اللہ جج صاحبان ،مفتیانِ کرام ،وکلاء حضرات اورقانون کے طلبہ کے لیے مفید ثابت ہوگی۔
میرے دورۂ امریکہ کا ایک سبب ٹیکساس اسٹیٹ کے شہر ہیوسٹن میں''النور اسلامک سنٹر آف گریٹر ہیوسٹن ‘‘میں دینی علوم کا نصاب مکمل کرنے والے مقامی طلبہ کے گریجویشن یعنی دستارِ فضیلت اور تقسیمِ اسناد کی تقریب میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شرکت تھی ،اس میں برطانیہ سے علامہ قمر الزماں اعظمی اور انڈیا سے مولانا بہاء المصطفیٰ بھی تشریف لائے ۔اس مرکز کی انتظامیہ نے میری تحریک پر یہ ادارہ قائم کیا تاکہ امریکہ کی ضروریات کے لیے مقامی علماء تیار ہوں ،کیونکہ وہ انگریزی زبان میں بہتر انداز میں اِبلاغِ دین کا فریضہ انجام دے سکیں گے۔علامہ مفتی قمر الحسن ،علامہ ضیاء المصطفیٰ ،علامہ غلام زرقانی اور دیگر مقامی علماء تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں ۔ جنابِ ظفر ہاشمی ،جنابِ اختر عبداللہ،جنابِ ڈاکٹر سلیم گوپلانی،جنابِ عمادالدین،جنابِ مارفانی اور دیگر حضرات اس ادارے کی انتظامیہ میںشامل ہیں۔اس کے علاوہ ڈیلس میں جنابِ الطاف نورکی دعوت پر مکہ مسجد اور ادارۂ برکات القرآن میں مسلمانوں کے اجتماعات سے خطابات کا موقع ملا ۔اِن شاء اللہ عنقریب وسیع قطعہ ٔ اراضی پراس ادارے کی مستقل عمارت کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوجائے گا ،چند قانونی مراحل باقی ہیں۔ڈیلس ہی میں اسلامک ایسوسی ایشن آف کولن کائونٹی کے زیرِ اہتمام ایک شاندار مسجد اور تعلیمی مرکز کے دورے کا موقع ملا۔وہاں الجزائر کے عالم ڈاکٹر شیخ مختار مغروئی اور دیگر علمائے کرام وذمے داران سے تبادلۂ خیال کی نشست ہوئی۔یہ مرکز پاکستان وعرب ممالک کے ڈاکٹر صاحبان ودیگر اعلیٰ تعلیم یافتہ
مسلمانوں کے زیرِ انتظام چل رہا ہے ۔ جنابِ شیخ مختار سے پاکستان کے نظامِ رؤیتِ ہلال کے بارے میں گفتگو ہوئی ،اِسے انہوں نے بہترین نظام قرار دیا اور انگریزی زبان میں اس موضوع پر اپنا تحریر کیا ہوا ایک مقالہ بھی مجھے دیا ،اُن کا موقف ہمارے نظام سے مطابقت رکھتا ہے ۔فرمانے لگے:''مجھے آپ اجازت لکھ دیں کہ میرا یہاں اس پر عمل درست ہے ‘‘۔پاکستان کے علامہ محمد اصیل اور قاری خالد محمود الازہری بھی اس مرکز سے وابستہ ہیں ،وہاں میں نے شیخ کے اصرار پر نمازِ ظہر کی امامت کی اور نماز کے بعد انگریزی میں مختصر خطاب کیا۔
نیو یارک میں میرا قیام سیالکوٹ کے جناب افضل باجوہ کے ہاں ہوتا ہے اور جنابِ خاور بیگ بھی مستقل خدمت میں رہتے ہیں ،یہ مخلص احباب کا ایک اچھا حلقہ ہے ۔نیو یارک میں اہلسنت کی سب سے بڑی جامع مسجد مکی میں جمعہ پڑھانے کا موقع ملا اور اس کے علاوہ مولانا مدثر حسین کی مسجد نورالہدیٰ ،علامہ شہباز احمد چشتی کی مسجدِ ضیاء القرآن اور جناب اصغر بھٹہ کی مسجدِ مصطفی میں خطابا ت ہوئے۔اس بار مِلواکی شہر میں جنابِ سلیم میمن ،جنابِ فاروق سیفی اور جنابِ عارف میمن کی قائم کردہ نئی مسجد واسلامی مرکز کے افتتاح اور وہاں خطاب کا موقع ملا ۔اسی طرح شکاگو میں ایک صوفی بزرگ سید شاہ تاج الدین قادری الگیلانی کے زیرِ اہتمام ہال میں ایک بڑے اجتماع سے خطاب کا موقع ملا ،جن میں بڑی تعداد میں ہندوستانی اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان بھی شامل تھے ۔کیلی فورنیا اسٹیٹ کے شہر وُڈ لینڈ میں مولانا قاری عامر حسین نے ایک مجلس کا اہتمام کیا اور اُس میں خطاب کے لیے مجھے مدعو کیا اور اس طرح وہاں پاکستانی مسلمانوں کے ساتھ تبادلۂ خیال کا موقع ملا۔
بعض مقامات پر اہلِ فکر ونظر کے ساتھ پاکستان ،امتِ مسلمہ اور امریکہ میں مسلمانوں کے احوال سے متعلق سوال وجواب کی نشستیں منعقد ہوئیں ،یہ ایک مفید تجربہ ثابت ہوا ۔ پاکستانی الیکٹرانک میڈیا اپنے جارحانہ پن ، سنسنی خیزی اور ریٹنگ کی مجبوری کے باعث بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو ہمیشہ مضطرب رکھتا ہے اور وہ اپنے وطن عزیز کے بارے میں غیر یقینی کیفیت سے دوچار رہتے ہیں ۔ میں نے اُن سے کہا:'' آپ حضرات خاطر جمع رکھیں ،الحمد للہ علیٰ اِحسانہٖ!پاکستان بیس کروڑ مسلمانوں کا ملک ہے ،یہ مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہے ، اِن شاء اللہ العزیز!یہ ہمارے رہنمائوں کی کمزوریوں کے باوجود قائم ودائم رہے گااور ایک وقت آئے گا کہ ہم ان کمزوریوں پر قابو پانے میں کامیاب ہوجائیں گے ‘‘۔امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی ایک مُعتَدبہ تعداد ہے جو ایک عرصے سے وہاں کامیابی کے ساتھ کاروبار کر رہے ہیں ،حکومت کو ٹیکس بھی دیتے ہیں ،نیو یارک میں سیالکوٹ اور اُس سے ملحق علاقوں سے تعلق رکھنے والے پاکستانی کافی تعداد میں مکانات کی تعمیر ومرمت کے شعبے سے وابستہ ہیں ۔ان لوگوں کے پاس قانونی دستاویزات نہیں ہیں اور اس کی بنا پر دس دس اور پندرہ پندرہ سال سے پاکستان میں اپنے خاندانوں سے بچھڑے ہوئے ہیں ۔اگر ہمارا سفارت خانہ امریکی پالیسی سازوں سے رابطہ کر کے کوئی ایسی صورت نکالے کہ فی کس دس ہزار ڈالر دے کر ان لوگوں کو ورک پرمٹ یا قانونی اقامت مل جائے ،تو بڑی تعداد میں لوگ اس سے استفادہ کرسکیں گے اور امریکی حکومت کو ایک بڑی رقم بھی مل جائے گی۔(ختم)