دام کے معنی ہیں:''جال،پھندا‘‘اوردامِ تَزوِیر کے معنی ہیں:''مَکْر کا جال ،فریب کا پھندا‘‘۔دامِ ہمرنگِ زمیں سے مراد یہ ہے کہ شکاری اپنے پسندیدہ شکار کو پھنسانے کے لیے زمین پر ایسا جال بچھاتا ہے جوزمین کے رنگ سے ملتا ہو ،جسے ہم مَٹیالا یا خاکستری رنگ کہتے ہیں ۔شکار اپنے رزق کی تلاش میں گھومتا پھرتا ہے او ر اچانک جال میں پھنس جاتا ہے ۔ہمیں جس دہشت گردی کا سامنا ہے ، یہ ہمارا کھلا دشمن نہیں ہے کہ میدانِ جنگ میں براہِ راست آمنا سامنا ہو اورمعرکہ آرائی کے بعد فتح وشکست کا فیصلہ ہوجائے۔یہ عَدُوِّمَسْتُوْر ہے اور دہشت گردی کے سانحات میںاِقدام یا پہل اُس کے ہاتھ میں ہوتی ہے،وہ اپنے ہدف کا تعیُّن کرتا ہے، اُس کے لیے اپنی کمین گاہ اور سہولت کارتلاش کرتا ہے ،اپنے ہدف پر فیصلہ کُن ضرب لگانے کے لیے مسلسل جائے واردات کی ریکی کرتا ہے اور پھر اچانک حملہ کردیتا ہے، یہ ایک ناخوشگوار حقیقت ہے ۔الغرض یہ ''دامِ ہمرنگِ زمیں‘‘ ہے اوراِن کے ہمدرد ہر جگہ موجود ہیں، خواہ نظریاتی ہوں یا وہ جن کا دین وایمان صرف پیسا ہے۔
اس جال سے بچنے کے لیے بَلند بانگ دعوے کرنا یا رَدِّعمل میں آکر حکمت وتدبیر سے عاری کارروائیاں بعض اوقات منفی نتائج کی حامل ہوتی ہیں اور اس کے ردِّ عمل میں مزید نفرت جنم لیتی ہے۔اس کا طریقہ ایک مؤثّر ،جامع اور سَرِیْعُ الْحَرکت انٹیلی جنس نیٹ ورک ہے کہ دہشت گردی کی کسی بھی کارروائی کا منصوبہ بنانے والوں پراُن کے اِقدام سے پہلے ضرب لگائی جاسکے اور اُس کا قَلَع قَمَع کیا جاسکے ۔دہشت گردی کی منصوبہ بندی کے مراکز افغانستان میں ہیں، یہ ایک ابلیسی سلسلۂ واردات ہے، افغان حکومت کی پشت پناہی ، بھارت کی تیکنیکی مہارت اور سرمایہ بھی انہیں وافر مقدار میں میسر ہے ، یہ نیٹ ورک صرف افغانستان یا قبائلی علاقہ جات تک محدود نہیں ہے ،بلکہ ملک کے اندر دور دور تک پھیلا ہوا ہے۔ہم سے ماضی میں بے تدبیری بھی ہوئی ہے، سوات مالاکنڈ آپریشن کے اعلان سے پہلے ان دہشت گردگروپوں اور اس مافیا کے سرغنوں کے ارد گرد دفاعی حصار قائم کرنا ضروری تھاتاکہ وہ وہاں سے بھاگ کر نہ جاسکتے ۔ہم نے ایک بڑا آپریشن بھی کیا ،لوگوں کو بے گھر اور دربدر بھی کیا ،لیکن جولوگ مالاکنڈ اورسوات میں فساد برپا کرنے والے تھے ،اُن کی پوری لیڈر شپ محفوظ طریقے سے افغانستان منتقل ہوگئی اور وہاں انہوں نے اپنے مستقل اڈے قائم کردیے، کیا ہم نے کبھی اس کا جائزہ لے کر اپنی حکمت عملی کی ناکامی کا اعتراف کیا ہے ؟۔
نیکٹا کے ادارے کے فعال نہ ہونے کا سبب بھی کوئی سربستہ راز نہیں ہے ۔نیکٹا کے معنی ہیں:''قومی ادارہ برائے انسدادِ دہشت گردی‘‘۔نیکٹا کی بنیادی روح تو یہ تھی کہ تمام انٹیلی جنس ادارے ایک چھت کے نیچے آجائیں ،سب طرف سے معلومات یکجا ہوں ،ان کی چھان بین کی جائے اور پھر اُس کے سَدِّباب کے لیے ایک جامع اورمربوط حکمتِ عملی وضع کی جائے جس میں رازداری کا بھی پورا اہتمام ہو۔مگر ایسا نہیں ہوسکا اور شاید مستقبلِ قریب میں بھی نہ ہوسکے، سوائے اس کے کہ اِسے ایک آزاد وخود مختار اتھارٹی بنادیا جائے اور کسی حاضر سروس یا ریٹائرڈ جنرل کو اس کا سربراہ بنایا جائے۔لیکن پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیاآئی ایس آئی کے ہوتے ہوئے ایک متبادل ادارے کی ضرورت ہے یا آئی ایس آئی کے اعلیٰ ذمے داران اِس کی چھتری تلے جانا پسند فرمائیں گے ۔ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو سعیِ لا حاصل کی کیا ضرورت ہے اور ایک بے مقصدادارے پر اتنے مالی وسائل صَرف کرنے کا ماحَصَل کیا ہے، کیا اداروں پر ادارے بنائے چلے جانا ہی ہماری اجتماعی دانش کی معراج ہے ۔ایسا ادارہ آگے چل کر مفید ثابت ہو یا نہ ہو،اُس کے انتظامی ڈھانچے پرایک وقیع رقم صَرف ہوجاتی ہے اور آخر میں یہ دفاتر اور افسران کا ایک مجموعہ اور چند لوگوں کے روزگار کا ذریعہ بن کر رہ جاتا ہے،آفات سے تحفظ اور بحالی کے قومی ادارے NDMCکی مثال ہمارے سامنے ہے۔خالص فوجی سربراہی میں قائم اداروں کی بابت ہر دورمیں سیاسی حکمرانوں کو یہ خدشات لاحق رہتے ہیں کہ یہ ادارے اپنے اصل مینڈیٹ سے انحراف کرکے سِول حکومتوں کو عدمِ استحکام سے دوچار کرنے اور گرانے کے مشاغل میں مصروف ہوجاتے ہیں،''اس کا بھی کوئی علاج ،اے چارہ گراں!ہے کہ نہیں‘‘۔
امریکہ میں نائن الیون کے بعدملک کی داخلی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ہوم لینڈ سیکورٹی کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا اور ملک کے تمام ادارے اُس کے ساتھ نیٹ ورک میں منسلک ہوگئے ۔ملک میں داخل ہونے والے یا ویزے کے لیے درخواست دینے والے ہر شخص کے کوائف سینٹرل پوسٹ میں جمع ہوتے ہیں اور تمام اداروں سے کلیئرنس لی جاتی ہے۔اسی طرح شینگن کے نام سے یورپ کے 26ممالک پرمشتمل ایک مرکزی ویزا سسٹم بنایا گیا ، کوئی شخص اُن میں سے کسی ایک ملک کے ویزے کے لیے درخواست دے تو اُس کی مکمل معلومات تمام رکن ممالک کوفراہم کی جاتی ہیں ، پھر سب طرف سے این او سی ملنے کے بعد ویزا جاری کیا جاتا ہے اوراس کے بعد اس ویزے کا حامل شنگن ممالک میں ایک مقامی مسافر کی طرح بغیر کسی امیگریشن چیک کے سفر کرسکتا ہے ۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ دہشت گردی اوراقتصادی ترجیحات کے حوالے سے ہمارا کوئی مشترکہ قومی ایجنڈا نہیں ہے،سِول عدالتوں کی بوجوہ ناکامی کے باوجود فوجی عدالتوں کے قیام پر پارلیمانی قیادت کے اتفاقِ رائے میں دشواری کا سامنا ہے ۔دہشت گردی کی حالیہ لہر کا آغاز لاہور سے ہوا ،پنجاب پولیس کے دو اعلیٰ رینک کے افسران شہید ہوئے اور ابھی اُن کی تدفین بھی نہیں ہوئی تھی کہ ہمدردی کے دو بول بولنے کی بجائے ہمارے ایک رہنما نے پنجاب پولیس کو اپنے نشانے پر رکھ لیا ،حالانکہ یہ فریضہ وہ پہلے بھی انجام دیتے رہے ہیں اوراس سانحے کے بعد بھی ایسا کرسکتے تھے ،مگر انہوں نے اپنے سیاسی حریف پر حملہ آور ہونے کے لیے شاید اِسے بہترین موقع سمجھا۔ اُس سے اگلے روز صوبۂ خیبر پختونخوا میں جج صاحبان کو دہشت گردوں نے ہدف بنایا ،تو کیا اُن کے سیاسی حریف بھی انہی کے شِعار کو اپناتے ہوئے پختونخوا حکومت یا پولیس پر حملہ آور ہوجاتے ،پھر صوبہ بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائی ہوئی اور ہمارے سلامتی کے اداروں کے ذمے داران کو نشانہ بنایا گیا اور آخر میں سہون شریف میں حضرت عثمان مروندی رحمہ اللہ تعالیٰ کی درگاہ کو نشانہ بنایا گیا اور اس میں سب سے زیادہ جانی نقصان ہوا ۔
ہم آپس میں تقسیم ہوجاتے ہیں ،لیکن دہشت گرداپنی ذہنی نہاد اور حکمتِ عملی کے اعتبار سے باہم مربوط رہتے ہیں ۔ ہمیں یکسو ہونا چاہیے کہ دہشت گرد ہم سب کے دشمن ہیں ،وہ اسلام ،انسانیت، ملک ووطن اورپوری قوم کے دشمن ہیں اور کسی رُو رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ ایک قومی اخبار میں ایک نامور صاحبِ قلم نے دھمال کے فضائل پر لکھا ہے ۔ہمارے نزدیک دھمال اورمردوزن کے مخلوط رقص کا ہماری دینی روایات سے نہ کوئی تعلق ہے اور نہ اس کا کوئی شرعی جواز ہے۔ اس کلچر کی وجہ سے آوارہ منش اور نشے کے عادی لوگ وہاں آتے ہیں اور اس کا تصوُّف وروحانیت اورعرفان واحسان سے کوئی تعلق نہیں ہے،بلکہ یہ اس کی ضد ہے۔ اسی طرح اکابر علمائے احناف کے نزدیک عورتوں کو مزارات پر نہیں جانا چاہیے اورموجودہ خرابیوں کو دیکھا جائے ،تو پابندی کی حکمت سمجھ میں آتی ہے۔محکمۂ اوقاف اس لیے قائم کیا گیا تھا کہ مزارات پر بے اعتدالیاں ہورہی تھیں اور بعض جگہ سجادگان اور مزارات کے متولّی اپنے مفادات کے لیے اِن غیر شرعی بے اعتدالیوں کا سَدِّباب نہیں کرتے تھے ۔ لیکن اب اوقاف کے ذمے داران نے ان کی جگہ لے لی ہے اور صورتِ حال پہلے سے ابتر ہوچکی ہے۔ محکمۂ اوقاف کی بہت سی مساجد میں محکمے کی طرف سے مقرر ہ امام ڈیوٹی پر موجود نہیں ہوتے اور وہاں لوگوں کو الگ سے امام کا انتظام کرنا ہوتا ہے،اسی طرح اوقاف کے زیرِ اہتمام مساجد کی تزئین وآرائش اور دیگر ضروریات کا اہتمام بھی لوگوں کے چندے سے ہوتا ہے۔سو مزارات کے نظام میں اصلاح کی شدید ضرورت ہے اور اس کے لیے اہلسنت وجماعت کے ثقہ علماء کا ایک نگران بورڈ بنانا چاہیے ۔اگر کوئی وقف اہلِ تشیُّع کا ہے ،تو اُس کا انتظام اُن کے علماء کی نگرانی میں دیا جاسکتا ہے۔
کراچی میں رینجرز کے آپریشن کی وجہ سے اِغوابرائے تاوان اور بڑے پیمانے پر بھتہ پرچیوں کا تو کافی حد تک سَدِّباب ہواہے، یعنی عمودی اعتبار سے بہتری آئی ہے ،لیکن اس مافیا کے کارندے جا بجا پھیل گئے ہیں اور اب گلی کوچوں میں موٹر سائیکل ، پرس ، موبائل اور لوگوں سے رقم چھِننے کی وارداتیں زیادہ ہونے لگی ہیں۔میں نے ایک ذمے دارپولیس افسر سے پوچھا کہ اس کا سبب کیا ہے؟، انہوں نے بتایا کہ مفت خوری اور حرام خوری کے عادی لوگوں نے اب اسے اپنا روزگار بنالیا ہے۔ دوسری جانب صوبائی حکومت رینجرز کو اختیارات دینے میں ہمیشہ تحفظات کا شکار رہتی ہے۔سابق مدت ختم ہونے کے بعد دوماہ سوچ بچار میں لگ جاتے ہیں اور پھر مارے باندھے دوماہ کا اختیار دیا جاتا ہے،ایسے عارضی اور نیم دلی کے اقدامات سے دیرپا امن کیسے قائم ہوسکتا ہے۔