مجھے گزشتہ ہفتے اپنے ماموں جان غلام یحییٰ مفتیؒ کے انتقال پرفاتحہ وتعزیت کے لیے ایبٹ آباد/مانسہرہ جانے کا موقع ملا ۔میں نے وہاں پی ٹی آئی کی حکومت کے دور میں کارکردگی کے بارے میں غیر جانبدار لوگوں سے معلومات حاصل کیں ۔مجھے بتایا گیا کہ BHU ،RHCاور تحصیل وضلعی ہیڈکوارٹرز کے اسپتالوں میں ڈاکٹرز کا کافی تعداد میں تقرر کردیا گیا ہے اور ابھی بھرتیاں جاری ہیں،پروفیشنل ہیلتھ الائونس(PHA) کی صورت میں اُن کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کردیا گیا ہے۔ صوبے کو پسماندگی کے اعتبار سے تین درجات میں تقسیم کیا گیا ہے ۔اول درجہ میں صرف پشاور اور ایبٹ آباد ،دوسرے میں بارہ اضلاع اورتیسرے یعنی سب سے پسماندہ درجے میں گیارہ اضلاع ہیں۔ پسماندہ اضلاع میں PHA سب سے زیادہ رکھا گیا ہے، اُن میں بھی مقامات کے اعتبار سے تفاوُت ملحوظ رکھا گیا ہے ،دوسرے درجے کے اضلاع کاPHA تیسرے درجے سے کم ہے اور سب سے کم پہلے درجے کے اضلاع کا ہے اور ہر جگہ ملازمتوں میں مقامی لوگوں کوترجیح دینے کی کوشش کی گئی ہے۔اِن اقدامات سے ہسپتالوں میں اسٹاف کی حاضری میں بہت بہتری آئی ہے اور یقینا زیادہ لوگ مستفید ہورہے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ پختونخوا میں محکمۂ مال کے نظام میں بھی بہتری لائی گئی ہے اور کرپشن کے مواقع کم کردیے گئے ہیں،پنجاب کے بعض اضلاع میں بھی یہ دعویٰ کیا جارہا ہے۔
سکولوں اورکالجوں میں اسٹاف کی حاضری کے لیے بائیو میٹرکس مشینیں نصب کی گئی ہیں اور اُن کو سینٹرل ڈائریکٹریٹ سے مربوط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ،اس کے علاوہ معائنہ ٹیمیں بھی مقرر کی گئی ہیں۔ اساتذہ کو تنخواہوں کے گریڈ میں مناسب ترقی دی گئی ہے ۔الغرض ظاہری نظم میں بہتری آئی ہے، لیکن معیار کی بہتری کی منزل کا حصول ابھی باقی ہے ، تاہم اِن اقدامات کوصحیح سَمت میں ایک مثبت کاوش قرار دیا جاسکتا ہے،کیونکہ تعلیمی اداروں میں پہلے سے موجود تدریسی عملے کو نیشنل ٹیسٹنگ سروس کا امتحان پاس کرنے کے لیے کہاجائے تو وہ اس کی مزاحمت کرتے ہیں ۔اس کی ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اُن کو آپشن دیا جائے اور جو ٹیسٹ پاس کردے، اُس کے لیے پرکشش خصوصی الائونس رکھا جائے یا اگلے گریڈ میں ترقی دے دی جائے ،اس سے معیار میں اگر کُلّی نہیں تو جزوی بہتری لائی جاسکتی ہے۔اسی طرح بلدیاتی سطح پر ضلعی وصوبائی ناظمین ونائب ناظمین،یوسی چیئرمین ونائب چیئرمین کا بھی مشاہرہ مقرر کیا گیا ہے اور اُن کو چھوٹے پیمانے پر ترقیاتی کاموں کے لیے کچھ رقوم دی گئی ہیں۔جنابِ عمران خان پختونخوا کی پولیس کو غیر سیاسی بنائے جانے کا ذکر بڑے افتخار کے ساتھ کرتے رہتے ہیں ، میں نے اس کی بابت بھی متعدد لوگوں سے پوچھا : انہوں نے بتایا: پختونخوا پولیس کا اخلاقی رویّہ پہلے بھی دوسرے صوبوں سے بہتر تھا ، نہ وہ لوگوں کو گالی گلوچ سے مخاطب کرتے اور نہ بلاسبب تذلیل کرتے تھے ،تاہم جرائم کی تفتیش کے حوالے سے نمایاں بہتری کے شواہد نہیں ملے ، البتہ ٹریفک پولیس کی کارکردگی پہلے سے بہتر نظر آتی ہے۔اگرچہ کسی بھی حکمت عملی کو ہرلحاظ سے نقائص سے پاک قرار نہیں دیا جاسکتا،تاہم ہر اچھی کاوش کی کھلے دل سے تحسین کی جانی چاہیے۔یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بعض ضلعوں میں ماڈل پولیس اسٹیشن قائم کیے گئے ہیں اور اُن میں مقامی کمیونٹی کو شامل کیا گیا ہے،اسی طرح دہشت گردی کے مقابلے کے لیے مرد وخواتین پولیس کمانڈو ز تیار کیے گئے ہیں، بعض جگہ پولیس نے خود کش حملہ آوروں کو اِقدام سے پہلے نشانہ بنایااور بڑی تباہی سے بچ گئے ،یہ قابلِ تحسین مثال ہے۔
دوسری جانب برسرِ زمین ترقیاتی کام نظر نہیں آرہے ۔ہری پور ایبٹ آباد اور مانسہرہ میں ٹریفک کا ہجوم بہت بڑا مسئلہ ہے۔ صوبائی وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک نے ایبٹ آباد میں بائی پاس بنانے کا اعلان کیا تھا ،لیکن اُس کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔ سو اگر ترقیاتی کاموں میں مقابلہ ہو تو پنجاب بہت آگے نظر آئے گااورقومی انتخابات کے موقع پر یہ چیزیں منظر پر نظر آتی ہیں،جب کہ نظام میں اصلاح کی کاوشوں کو صرف باشعورلوگ اور اُس کے مستفیدین ترجیحِ اول دیتے ہیں۔جنابِ عمران خان کایہ فلسفہ اپنی جگہ درست ہے کہ پیسا انسانوں پر لگنا چاہیے ،لیکن آخرِ کارانہیں ماننا پڑا کہ ترقیاتی کاموں پر لگا ہوا پیسا بھی عوام کی فلاح کے لیے ہوتا ہے ، چنانچہ دیر سے سہی ، انہیں پشاور میں فلائی اور پلوں ،میٹرو اور مردان سوات ہائی وے کی طرف آنا پڑا۔آج لوگ لاہور ، راولپنڈی ، اسلام آباداور ملتان میں بیس روپے کرایہ دے کرباوقار انداز میں ائیر کنڈیشنڈ بسوں میں بیٹھ کر سفر کرتے ہیں ۔مجھے جب بھی ان شہروں میں جانا ہوتا ہے ، عام آدمی سے بات کرتاہوں اور سب سے مثبت تاثّر ملتا ہے۔اُس کے مقابل کراچی میں لوگ انتہائی کرب کے ساتھ تیس چالیس سال پرانی ٹوٹی پھوٹی بسوں میں بدترین حالت میں سفر کرتے ہیں ،اُن کی حالت دیکھ کر دکھ ہوتا ہے ، شدید گرم اور سرد موسم میں انہیں بسوں کی چھتوں پر بھی بیٹھ کر سفر کرنا پڑتا ہے، ان بسوں میں دروازے ، کھڑکیاں ، شیشے اور سیٹیں کوئی بھی چیز درست حالت میں نہیں ہے اور سڑکوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ،بلکہ تکلیف دِہ ہے۔ فلسفیانہ تقریروں کی اہمیت بجا،لیکن سامنے نظر آنے والی حقیقت کا انکار بھی ممکن نہیں ہوتا۔
میں نے ایک ملاقات میں جنابِ عمران خان سے عرض کی:یہ ایک حقیقت ہے کہ قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک مجموعی طور پرتقریباًپچاسی تا ستاسی فیصد عرصہ پختونخوا کے وزرائے اعلیٰ یا بااختیار گورنر صاحبان کی غالب اکثریت کا تعلق صوبے کے مرکزی اضلاع یعنی پشاور ، مردان اورنوشہرہ سے رہا ہے،اِس سے ملتی جلتی صورتحال صوبائی سیکرٹریٹ میں گریڈ سولہ اور اُس سے اوپر کی بیوروکریسی کی ہے۔ لہٰذا ہزارہ ڈویژن اور جنوب کے اضلاع کوکبھی بھی سالانہ ترقیاتی پروگرام میں آبادی کے تناسب سے حصہ نہیں ملا ، حتیٰ کہ ایم ایم اے اور اے این پی کے دور میں بھی ترقیاتی بجٹ کا بیشتر حصہ انہی اضلاع پر خرچ کیا گیا، سوا ئے اس کے کہ مولانا فضل الرحمن اور جناب سراج الحق نے اپنے حلقے یا ضلع کے لیے کچھ برکات زیادہ حاصل کرلیں۔ جنابِ اکرم درانی کو ایم ایم اے کی حکومت میں موقع ملا تو انہوں نے بنوں میں بہت ترقیاتی کام کیے۔ جس طرح گوجر خان میں وزیرِ اعظم جناب راجہ پرویز اشرف نے 2013ء کے انتخاب سے پہلے داد ودہش کی انتہا کردی تھی، اُس موقع پر جنابِ امیر حیدر نے مردان میں مدارس ومساجد تک کو نوازا ۔ مولانا سمیع الحق کے ادارے کے لیے صوبائی ترقیاتی بجٹ میں تیس کروڑ روپے کی بھاری گرانٹ کا سبب یہی ہے کہ جنابِ پرویز خٹک کا تعلق ضلع نوشہرہ سے ہے۔
میں نے جنابِ عمران خان سے کہا : آپ ماضی کے سالوں کی اے ڈی پی اور بجٹ کے دیگر مصارف کا تقابلی مطالعہ کرنے کے لیے ایک کمیٹی قائم کریں تاکہ آپ کے سامنے صحیح تجزیہ آئے۔پنجاب میں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور جنوبی پنجاب کو آبادی کے تناسب سے حصہ نہ ملنے کی شکایات بجا ہیں ،مگر ناانصافی کہیں بھی نہیں ہونی چاہیے ۔ یہی شکایت 2008ء سے اب تک اہلِ کراچی کو ہے ،مانا کہ سابق صدر جنابِ پرویز مشرف کے دور میں بعض نا انصافیاں ہوئی ہیں ،لیکن کسی نا انصافی کا ازالہ جوابی نا انصافی سے نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ ہمیںایک قوم کی حیثیت سے حقوق کی تقسیم میں انصاف کو فروغ دینا چاہیے ،دستور کا تقاضا اور اسلام کی تعلیمات یہی ہیں۔ اِسی طرح وفاق کے زیرِ اہتمام قبائلی علاقہ جات کو الگ صوبہ بنانا حکمت کے منافی ہے ،کیونکہ وہ علاقے جغرافیائی اعتبار سے آپس میں ملے ہوئے نہیں ہیں ،انہیں باہم رابطے کے لیے پختونخوا کے بندوبستی علاقوں سے گزرنا پڑتا ہے، جیسے ہزارہ ڈویژن کے لوگ پنجاب کے ضلع اٹک سے گزرکر ہی اپنے صوبائی دارالحکومت پشاورجاسکتے ہیں،براہِ راست کوئی رُوٹ نہیں ہے۔
سیاستدان اپنی ترجیحات کی بناپر کیا کیا غضب ڈھاتے ہیں، اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ پختونخوا کاایک علاقہ ''تورغر‘‘ ہے، جو مانسہرہ تک پھیلے ہوئے حلقہ NA-21کا ایک جزوی حصہ ہے، گزشتہ دور میں اے این پی کی حکومت نے اُسے ضلع کا درجہ دے دیا، کیا ایک صوبائی حلقے کو ضلع بنانے کا کوئی جواز ہے ۔اسی طرح ضلع کوہستان قومی اسمبلی کے ایک حلقے پر مشتمل ہے، اُسے جنابِ پرویز خٹک نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے دو ضلعوں میں تقسیم کردیا ہے اور لوگ سراپا احتجاج ہیں، کیا اس میں کوئی معقولیت ہے، ان تینوںعلاقوں کے پاس اپنے ضلعی ہیڈکوارٹرز کے لیے مناسب جگہ بھی دستیاب نہیں ہے ،الغرض صوبائی اسمبلی کے حلقے کو ضلع بنانے کی حکمت سمجھ سے بالاتر ہے۔ جنابِ عمران خان کی خدمت میں گزارش ہے کہ اِن امور پر بھی توجہ دیں، کیونکہ جب انتظامی ڈھانچہ کسی حکمت اور ضرورت کے بغیر اتنا پھیلادیا جائے گا تو صوبائی بجٹ میں ترقیاتی کاموں کے لیے کیا بچے گا۔ماضی کا ضلع ہزارہ اب تقریباً سات اضلاع پر مشتمل ہے،اسی طرح سابق اضلاع پشاور اور مردان کوپانچ اضلاع میں تقسیم کردیا گیا ہے، پچپن فیصد آبادی والے پنجاب میں 36اور سندھ میں 29اضلاع ہیں ۔پس آبادی میں تیسرے اور رقبے میں سب سے چھوٹے صوبے پختونخوا میں 25اضلاع کا کیا جواز ہے۔ایک ذریعے نے بتایا کہ پختونخوا کے ممبرانِ اسمبلی کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص کردہ رقوم میں پی ٹی آئی ارکان کا حصہ اپوزیشن جماعتوں کے مقابلے میں دس گنا ہے،ہوسکتا ہے اس میں مبالغہ ہو،لیکن انصاف لازم ہے۔