ہم ایک عرصے سے چائنا پاکستان اقتصادی شاہراہ (CPEC) کے فضائل بیان کر رہے ہیں کہ یہ گیم چینجر ہے ، یعنی عالمی اقتصادیات میں ایک تاریخی سنگِ میل ثابت ہوگا ،عالمی معیشت میں ایک جہانِ نو پیدا ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے پاکستان اس کا مرکز بنے گا۔وسطی ایشیا سے لے کر روس تک امکانات کاایک نیا باب کھلے گااور غیر معمولی سرعتِ رفتار سے اس پر کام بھی ہورہا ہے ۔ موٹرویز کے بعض روٹ بن چکے ہیں اور بعض پر تیزی سے کام جاری ہے اور شاید دوہزار اٹھارہ کے آخر تک یہ نیٹ ورک پایۂ تکمیل تک پہنچ جائے۔اقوامِ عالَم بالخصوص بڑی اقتصادی طاقتوں اور حکومتوں کی دوستیاں اور دشمنیاں اپنے قومی مفادات کے تابع ہوتی ہیںاوراپنے قومی مفاد کی قیمت پر کوئی کسی سے دوستی کا رشتہ نہیں نباہتا۔ہم اس لیے خوش ہیں کہ موٹرویز کا جال ہماری سرزمین پر بچھ رہا ہے اور کم از کم اِسے تو کوئی اٹھاکر نہیں لے جائے گا۔
حال ہی میں مجھے ایک دن کے لیے ایبٹ آباد مانسہرہ جانے کا موقع ملا ،تو معلوم ہوا کہ سی پیک کی تعمیر پر مامور چینی انجینئرز اور ماہرین کے لیے پورے کا پورا ہوٹل مکمل حفاظتی انتظامات کے ساتھ بُک ہے ،اسی طرح اُن کی لیبرفورس کے لیے بھی محفوظ مقامات بنائے گئے ہیں ، اُن کے لیے تمام ضروریات اُن کی جائے رہائش پر فراہم کی گئی ہیں ،لہٰذا وہ عام طور پر بازاروں میں خریداری کرتے ہوئے نظر نہیں آتے،لیکن اگر کبھی اُن کے چند افراد اشیائے ضرورت خریدنے کے لیے بازار جائیں ،تو مکمل سکیورٹی فراہم کی جاتی ہے۔ البتہ سفر کے دوران بعض اوقات ائیر پورٹس پر کچھ لوگ نظر آجاتے ہیں ۔اُن کے عملے کو پوری حفاظت کے ساتھ ان کی اقامت گاہ سے کام کی جگہ پر لے جانے اور واپس پہنچانے کے لیے سکیورٹی کے معقول انتظامات کیے گئے ہیں ۔
اس بات کے شواہد نہیں ملے کہ آیا اس عظیم منصوبے کے کام کو جاری رکھنے کے لیے پاکستانی انجینئرز ،ماہرین اور لیبر کو شامل کیا گیا ہے ؟۔البتہ انٹرنیٹ پر اور اخبارمیں ایک اشتہار نظر سے گزرا ہے ،جس میں مختلف شعبہ جات کے لیے سول انجینئرز اور دیگر شعبوں کے ماہرین سے درخواستیں طلب کی گئی ہیں ،ان کی سلیکشن کے لیے فیڈرل پبلک سروس کمیشن ، پروونشل پبلک سروس کمیشن اور نیشنل ٹیسٹنگ سروس کو بھی شامل کیا گیا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ آگے چل کراس شاہراہ کی نگہداشت اور تعمیر ومرمت کے لیے خدمات پاکستانی عملے کے سپرد کی جائیں ۔تاہم اس شاہراہ کا وہ حصہ جونیم فوجی ادارے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کے حصے میں آیا ہے ،اُس میں یقینا پاکستانی انجینئرز،ماہرین اور لیبر کلاس کا استعمال ہورہا ہے۔ ایک تجزیہ نگار کے بقول چین کے صنعتکاروں کو ایک بڑا فائدہ تو یہ حاصل ہوگا کہ بیرونی دنیا تک مصنوعات کی ترسیل کے لیے فاصلہ چالیس فیصد رہ جائے گا اور اِسی تناسب سے وقت اور مصارف کی بچت ہوگی، واللہ اعلم بالصواب۔
ایک خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ امریکہ اپنے حلیفوں کی مدد سے بحرِ چین اور آبنائے ملاکا کے بحری تجارتی روٹ پر مستقبل میں چین کے لیے مشکلات پیدا کرسکتا ہے ۔دنیا کے مال بردار بحری جہازوں کے بیس تا پچیس فیصد حصہ کے علاوہ روزانہ کئی سو مِلین بیرل تیل بھی یہاں سے گزرتا ہے۔ سنگاپور کے قریب ایک مقام پر یہ بحری گزرگاہ سمٹ کر تین کلومیٹر سے کم رہ جاتی ہے ،جسے بوتل کی گردن سے تعبیر کرتے ہیں ۔اس کے قرب وجوار کے ممالک امریکہ کے زیرِ اثر ہیں اور کسی بھی وقت چین امریکہ تعلقات میں تنائو کی صورت میں امریکہ اس بحری روٹ پر چین کے لیے مشکلات پیدا کرسکتا ہے ، لہٰذا چین نے اپنے لیے متبادل آپشنز پر نہ صرف غور کیا بلکہ سی پیک کی صورت میں اُن پر عمل درآمد بھی شروع کردیا ۔
پاکستان کے لیے امکانات کی جس نئی دنیا کی بات ہورہی ہے ،وہ موٹرویز کے جال اورگوادر پورٹ کی فعالیت کی صورت میں وسطی ایشیا تک رسائی ہے ،جس کے ساتھ آگے چل کر روس بھی منسلک ہوسکتا ہے ۔پاکستان کے لیے دو طرفہ تجارت کے امکانات کے علاوہ راہداری کے فوائد اضافی ہیں۔لیکن یہ امکانات افغانستان کا بند قُفل کھلے بغیر روبہ عمل نہیں آسکیں گے اور اس راستے میں رکاوٹیں ڈالنے کے لیے بھارت اپنے تمام وسائل جھونک رہا ہے ۔ اُس نے اسے اپنے لیے حیات وموت کا مسئلہ بنا رکھا ہے اور اس میں اُسے کسی حد تک ایران کی معاونت اور مشرقِ وُسطیٰ کے بعض ممالک کی تائید بھی حاصل ہے۔
چین طالبان کے ساتھ بھی روابط قائم کر رہا ہے اور یقینا اشرف غنی حکومت کے ساتھ بھی روابط قائم ہوں گے تاکہ افغانستان میں امن قائم ہو اور چین نے متبادل امکانات کا جو خواب دیکھا ہے ، اُس کی تعبیر مل سکے۔لیکن ایک ناخوشگوار حقیقت یہ ہے کہ بالعموم اورخاص طور پر پاکستان کے حوالے سے افغانستان ہمیشہ ایک مشکل موضوع رہا ہے اور حالات نے چین کو بھی افغانستان کے دروازے پر لاکھڑا کیا ہے۔اس کے لیے غیر معمولی حکمت ودانش ، تدبر وفراست ،تحمُّل اور دور اندیشی کی ضرورت ہے ۔ ہمیں صرف حکمرانوں اور سیاست دانوں ہی کی نہیں بلکہ مُدَبِّرین کی ضرورت ہے اوراس شعبے میں امید کی کرن بظاہر کم نظر آتی ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کی تنگ نظری،فکری ژولیدگی ،ذہنی دیوالیہ پن ،قومی مفادات پر ذاتی وجماعتی مفادکو ترجیح دینا اور ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف کو شخصی عداوت تک لے جاناایک الَمیہ ہے ۔تاپی یعنی ترکمانستان ، افغانستان ،پاکستان اور انڈیا تک پھیلے ہوئے گیس کی ترسیل کے منصوبے کی کامیابی بھی افغانستان میں قیامِ امن پر موقوف ہے ۔اسی طرح ایران ،پاکستان اور انڈیا کی گیس پائپ لائن کا منصوبہ افغانستان اور ہمارے داخلی امن پر موقوف ہے ۔انڈیا بھی متبادل کے طور پرایران کی بندرگاہ چاہ بہار کو اس لیے ترقی دے رہا ہے کہ خدانخواستہ جنگ کی صورت میں پاکستان گیس سپلائی کو روک بھی سکتا ہے ،کیونکہ ترکمانستان اور ایران دونوں کی گیس کے روٹ پاکستان کی سرزمین سے گزرکر جائیں گے ، اس لیے شاید وہ ایران سے بحری راستے سے پائپ لائن لے جانے پر غور کررہا ہے، کیونکہ پاکستان کی طرح انڈیا کو بھی توانائی کا مسئلہ درپیش ہے ۔ اس کا بہتر اور آسان حل تو یہ ہے کہ انڈیا پاکستان کے ساتھ کشمیر سمیت تمام مسائل کو حل کرے تاکہ یہ تنائو ہمیشہ کے لیے ختم ہو ، مگر بظاہر یہ ممکن نظر نہیں آرہا۔الغرض پیچدگیاں ہی پیچدگیاں ہیں اور اس پورے خطے میں صاحبِ بصیرت قیادت کا فُقدان ہے ۔
ابھی تک اس راز سے بھی پردہ نہیں اٹھا کہ چین سی پیک پر جو سرمایہ کاری کر رہا ہے ،اُس میں قرض کتنا ہے اور اُس کی شرحِ سود کیا ہے ،وصولی کی مدت اور میکنزم کیا ہے ،نیز یہ کہ آیا اس میں کوئی گرانٹ بھی شامل ہے یا نہیں اور یہ بھی کہ آیا اُس کا کوئی حصہ چین سے گوادر تک مستقبل کی راہداری میں بھی ایڈجسٹ ہوگا یا نہیں ، معاملات واضح نہیں ہیں اور تفصیلات دستیاب نہیں ہیں ۔ مگر اس حد تک غنیمت ہے کہ اس منصوبے نے بہر حال پاکستان کے لیے امکانات کا ایک باب کھولا ہے اور ہمارے وطنِ عزیز کو کافی حد تک مرکزیت حاصل ہوگئی ہے ۔اس کے نتیجے میں شاید پاکستان کا امریکہ پر انحصار بھی کم ہوجائے اور اُس کی بلیک میلنگ سے بھی کافی حد تک نجات مل جائے ۔یہ بھی ظاہر ہے کہ ہماری ملٹری اسٹبلشمنٹ اس منصوبے کا حصہ بھی ہے اورکافی حد تک اس کی ضامن بھی ہے ، لہٰذا پاکستان میں مستقبل میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں پر چین کی بھی نظر رہے گی اور ہماری اسٹبلشمنٹ بھی اس پر گہری نظر رکھے گی تاکہ یہ سارے منصوبے پایۂ تکمیل تک پہنچیں ۔یہ امر بھی واضح ہے کہ ہمارا دفاعی بجٹ اور سکیورٹی کے مصارف بڑھتے چلے جائیں گے اور اُس کے لیے پاکستان کی معیشت کا توانا ہونا اور اس کے حجم کا بڑھنا لازمی تقاضا ہے ۔عالمی اداروں کے اشاریے پاکستان کی معیشت کی بہتری کی نشاندہی کر رہے ہیں ،ابھی یہ معلوم نہیں کہ معیشت کی یہ بہتری عارضی ہے یا دیرپا ثابت ہوگی ۔فوری علامات تو یہ ہیںکہ زرعی پیداوار اور برآمدات میں متوقع بہتری نہیں آسکی اور بیرونِ ملک سے پاکستانیوں کی ترسیلات میں بھی کمی کے آثار ہیں ۔لیکن اگر ہمارے انڈسٹریل زون حسبِ توقع بن جاتے ہیں اورسیاسی حکومتوں کی تبدیلیاں اُن پر اثر انداز نہیں ہوتیں ،تو ممکن ہے کہ بیرونِ ملک اہلِ ثروت پاکستانی اپنے وطن کا رُخ کریں اور پاکستان کا وہ سرمایہ جو دبئی ، ملائشیا اور سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں ہے ، اُس کے پاکستان آنے کے امکانات روشن ہوجائیں ۔سرِدست چونکہ جنابِ عمران خان کی توپوں کا سارا رُخ اسلام آباد اور پنجاب کی جانب ہے ،اس لیے حکومتِ سندھ سکھ کا سانس لے رہی ہے اور اُس کی بھی خواہش ہے کہ اُس کی طرف سے سب کی آنکھیں بند رہیں اور شاید ایسا ہی ہے ،ورنہ کراچی کی بربادصورتِ حال نظروں کے سامنے ہے۔اس لیے ملک کو سنگل ٹریک لیڈر شپ کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ایسی قیادت کی ضرورت ہے جس کی نظر عمیق اور کثیرالجہات ہو ،کسی ایک شعبے کو اپنی کمزوری بناکر دوسرے تمام شعبہ جات سے آنکھیں نہ پھیر لے۔الغرض ہمیں یک چشم قیادت کی ضرورت نہیں ہے ،بلکہ چار چار آنکھوں والی سیادت کی ضرورت ہے،دعا ہے اللہ ہمیں پردۂ غیب سے عطا فرمائے ۔