اسلام نہ صرف ایفائے عہد کی تعلیم دیتابلکہتاکید فرماتا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے(1): ''اور وعدے کی پاسداری کرو ،بے شک وعدے کے بارے میں باز پرس ہوگی ،(بنی اسرائیل:)‘‘،(2)سورۂ بقرہ ، آیت: 177میں نیکی کی جامع خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرمایا: ''اور جب وہ عہد کرلیں ،تو اپنے وعدوں کی پاسداری کرتے ہیں ‘‘۔(3)اسی طرح سورۂ المؤمنون میں فلاح یافتہ اہلِ ایمان کی متعدد صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا: ''اور وہ لوگ جو اپنی امانتوں اور عہد کی پاسداری کرنے والے ہیں، (المومنون:8)‘‘۔
عہدِ رسالت مآب ﷺ میں مشرکین سے کھلی جنگ تھی ، اس دوران رسول اللہ ﷺ نے اُن سے معاہدات بھی کیے ،وہ معاہداتِ بینَ الاقوام تھے ۔اُن میں سے ایک معاہدۂ حدیبیہ بھی تھا ، جس کی بعض شرائط بظاہر مسلمانوں کے حق میں نہیں تھیں اوران پر صحابہ کرام کو اضطراب بھی تھا ،لیکن رسول اللہ ﷺ نے اُن شرائط کی پاسداری کی۔اُن میں سے ایک شرط یہ تھی:قریش کا جو فرداپنے ولی کی اجازت کے بغیر سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے گا، اگرچہ وہ دینِ محمد پر ہو ،اُسے واپس اُس کے ولی کے پاس لوٹادیا جائے گااور جس شخص نے محمد رسول اللہ ﷺ کی اتباع کی ہو ،اگر وہ قریش کے پاس آئے گا،تو قریش اُسے واپس نہیں لوٹائیں گے ۔ ابھی معاہدے پر دستخط ہوئے ہی تھے کہ ابوجَندَل بن سہیل مسلمانوں کے پاس پہنچے، انہیں اُن کے باپ سہیل نے بیڑیاں پہناکر قید کر رکھا تھا، وہ قید خانے سے نکل کر بچتے بچاتے حدیبیہ پہنچے ۔مسلمان اُن کو خوش آمدید کہنے کے لیے کھڑے ہوئے ،جب اُن کے باپ سہیل نے انہیں دیکھا تو اٹھ کر انہیں لاٹھیوں سے مارنے لگا اور گلے سے پکڑکر کہا، اے محمد!میںیہ پہلا مقدمہ آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں، اِسے واپس لوٹادیجیے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس انتہائی تکلیف دِہ صورتِ حال میں فرمایا'' ہم عہد شکنی نہیں کریں گے ‘‘۔اس دوران صحابہ ابوجندل کو پناہ دے چکے تھے ، ابوجندل نے کہا: میں مسلمان ہوکر آیا ہوں ،کیااب مجھے بے یارومددگار کر کے مشرکوں کی طرف لوٹادیا جائے گا؟وہ اذیت ناک حالت میں تھے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا'' اے ابوجندل! صبر کرو ، اجر پائو گے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارے اور تمام بے بس لوگوں کے لیے کشادگی اور مشکل سے نجات کی صورت مقدر فرمائے گا۔ ہم نے ایک قوم سے معاہدہ کرلیا ہے اور شرائط طے کرلی ہیں ،ہم دھوکا نہیں دیں گے‘‘(سبل الھدیٰ والرشاد، ج:5،ص: 55-56)‘‘۔الغرض رسول اللہ ﷺ نے یک طرفہ طور پر اس معاہدے کو نہ توڑا ،پھر مشرکوں نے عہد شکنی میں پہل کی تو رسول اللہ ﷺ نے پہلے اُن کو وارننگ دی اور فرمایا''اب ہم پر اس عہد کی پاسداری لازم نہیں رہی‘‘ اور آپ فتحِ مکہ کے سفر پر روانہ ہوگئے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو تاریخی فتح عطا فرمائی، جس کا ذکر قرآنِ مجید میں موجود ہے۔
نوہجری کوحج فرض ہوا اور مسلمان حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی امارت میں حج کے لیے مکۂ مکرمہ تشریف لائے ۔پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ﷺ کے نمائندۂ خاص کے طور پر سورۂ برأ ت کی ابتدائی آیات کا اعلامیہ جاری کرنے کے لیے آئے اور میدانِ عرفات سے تاجدارِ رسالت ﷺ کی نیابت میں یہ اعلامیہ جاری ہوا:
''اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اُن مشرکوں سے بے زاری کا اعلان ہے، جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا ، سو (اے مشرکو!) اب تم چار ماہ (آزادی سے )چل پھر لو اور یقین رکھو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے اور یہ کہ اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حجِ اکبر کے دن تمام لوگوں کے لیے اعلانِ عام ہے کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے بریُ الذّمہ ہیں ، سو اگر تم توبہ کرلو تو وہ تمہارے لیے بہتر ہے اور اگر تم اعراض کرتے ہو تو یقین رکھو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو اور (اے رسول!) کافروں کو دردناک عذاب کی خوش خبری دیجیے، ماسوا اُن مشرکوں کے جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا ،پھر انہوں نے( اُس عہد کی پاسداری میں )تمہارے ساتھ کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد کی ، سو اُن سے کیے گئے معاہدے کی مدت پوری کرو ،بے شک اللہ تعالیٰ متقین کو پسند فرماتا ہے ،(التوبہ:1-4)‘‘۔
اندازہ لگائیے کہ حالتِ جنگ میں بھی اسلام نے عہد کی پاسداری کی تعلیم دی اور رسول اللہ ﷺ نے معاہداتِ بینَ الاقوام کے ایفا کی شاندار روایات قائم فرمائیں ۔پس جو دین حالتِ جنگ میں بھی عہد شکنی کی اجازت نہ دے ، وہ حالتِ امن میں اِسے کیسے گوارا کرسکتا ہے ۔یہ تمہیدی کلمات میں نے اس لیے لکھے کہ بلوچستان میں رکوڈک کے سونے کے ذخائر کے بارے میں غیرملکی کمپنی ٹی تھیان سے معاہدہ ہوا تھالیکن سپریم کورٹ آف پاکستان کی مداخلت کی بنا پر وہ معاہدہ منسوخ کرنا پڑا ۔ حال ہی میں عالمی عدالت نے یک طرفہ طور پر معاہدہ توڑنے کی بنا پر پاکستان پر بھاری جرمانہ عائد کیا ہے ۔ یہ صورتِ حال اس لیے پیش آتی ہے کہ ہماری حکومتیں عالمی معاہدات کرتے وقت انتہائی عجلت میں ہوتی ہیں اور بین الاقوامی قوانین کے ماہرین سے اُن معاہدات کی شرائط کا تجزیہ نہیں کراتیں اور اُس کے نتیجے میں وہ گلے گلے تک دھنس جاتی ہیں ۔
یہی غفلت انتہائی منفعت بخش ادارے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی نجکاری کے موقع پر ہوئی۔ایک عرب کی کمپنی سے معاہدہ کرلیا گیا اور 26فیصد کی ادائیگی پر پورا انتظامی کنٹرول انہیں دے دیا گیا ۔معاہدے میں حکومتِ پاکستان نے یہ ذمے داری قبول کی کہ پی ٹی سی ایل کی تمام املاک کی قبضے سمیت ملکیت خریدار کمپنی کے حوالے کی جائیگی ۔ہمارے ہاں کئی سرکاری املاک پر ناجائز تجاوزات ہوتی ہیں اور انہیں واگزار کرنا حکومت کے لیے دشوار ہوتا ہے ، کیونکہ قابضین کی طرف سے مزاحمت پر حکومت کیخلاف طوفان اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔اب حکومت بے بس ہے،ایک غیر ملکی موبائل کمپنی نے کئی ملین ڈالرکے بقایا جات ادا نہ کیے اور اب اُسے چین کی ایک کمپنی کو فروخت کردیا گیا ہے ، جو اِس عرصے میں بے تحاشا نفع کماکر لے گئی ہے۔
اسی طرح پاکستان سٹیل ملز کی نجکاری اکیس ارب میں ہونا قرار پائی تھی ،مگر سپریم کورٹ آف پاکستان نے اِسے روک دیا ،اس کے بعد پاکستان سٹیل ملز ایک مفلوج ادارہ بن چکا ہے اور ہر ماہ حکومت کروڑوں روپے تنخواہوں کی مد میں سرکاری خزانے سے ادا کررہی ہے لیکن اگر وہ نجکاری ہوچکی ہوتی ،تو پاکستان اسٹیل کی کھربوں روپے کی زمینی جائیداد خریدار کمپنی کے ہاتھ آجاتی اور وہ اُسے اوپن مارکیٹ میں بیچ کر غائب ہوجاتی ۔بہت سی صنعتیں جو قومیائے جانے کے بعد نجی ملکیت میں دی گئیں ، اُن کا یہی حشر ہوا ۔
پراپرٹی ڈویلپر جب کوئی ہائوسنگ اسکیم لانچ کرتے ہیں ،تو ماحول انتہائی زرق برق،لش پَش اورچکاچوند سے معمور ہوتا ہے۔ پلاٹوں یافلیٹوں کے خریدارمعاہدۂ خریداری کی دستاویز کو پڑھے اور سمجھے بغیر دستخط کردیتے ہیں اور جب وہ قسطیں ادا نہیں کرپاتے اور معاہدۂ خریداری کو منسوخ کرنے کے لیے ڈویلپر سے رابطہ کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ساری شرائط اُس کے حق میں ہیں ، وہ چند قسطیں ادانہ کرنے پر یک طرفہ طور پر معاہدہ منسوخ کرسکتا ہے ، اُن کی ادا کردہ اقساط کو ضبط کرسکتا ہے اور خریدار کے حقوق کے تحفظ کی کوئی شِق اُس معاہدے میں نہیں ہوتی'' اب پچھتائے کیا ہووت ،جب چڑیا ں چگ گئیں کھیت‘‘ کا منظر ہوتا ہے، یہی حال ہمارے حکمرانوں اور ہمارے نظامِ حکومت کا ہے ۔
چند سال پہلے ایک کانفرنس میں بین الاقوامی قانون کے ماہر جناب احمر بلال صوفی نے ہمیں بتایا تھا کہ ہم اہلِ پاکستان پر تقریباً نو ہزارملکی قوانین اور تیرہ ہزاربین الاقوامی قوانین حاکم ہیں ۔ جب عالَمی اداروں میں یہ قوانین بن رہے ہوتے ہیں ، تووہاں ہماری نمائندگی نہیں ہوتی یا جو نمائندہ بن کر جاتے ہیں ، وہ اُن خشک اجلاسوں میں شرکت کی بجائے ہوٹلوں میں آرام فرماتے یا سیر وتفریح کر رہے ہوتے ہیں ، جب کہ اس کے برعکس بیدارمغز قوموں کے نمائندے قانون کے ایک ایک لفظ اور ایک ایک شق پر طویل بحثیں کرتے ہیں۔ اِسی صورتِ حال کا سامنا ہمیں ہندوستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدے میں درپیش ہے ۔ ہندوستان معاہدے سے تجاوز کرکے ڈیم پہ ڈیم تعمیر کرکے پاکستان کے حصے کے پانی کو روک رہا ہے ، اُس کے نتیجے میں آنے والے وقت میں پاکستان خطرناک حد تک قلتِ آب کے خطرے سے دوچار ہوسکتا ہے ۔ پاکستان کو عالمی عدالت سے کوئی تحفظ ملنے کی امید نہیں ہے ، کیونکہ معاہدہ کرتے وقت ہم نے اُس معاہدے کی شقوں کا بغور جائزہ نہیں لیا تھا اورقانونِ بینَ الاقوام کے ماہرین سے رہنمائی حاصل نہیں کی تھی ، جس کا خمیازہ ہمیں اب بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اسی طرح سی پیک سے متعلق معاہدات کا بھی کسی کو علم نہیں ہے ، حالانکہ یہ معاہدات اشخاص کے درمیان نہیں بلکہ اقوام اور ممالک کے درمیان ہوتے ہیں اوراِن کے نتائج بھی اُن کو بھگتنے پڑتے ہیں۔ قطر سے ایل این جی کا معاہدہ بھی مستور ہے۔
ہمارے سِول حکمران اسٹبلشمنٹ کے دبائو پرخصوصی فوجی عدالتوں کے حق میں تو آئینی ترامیم منظور کرلیتے ہیں ، لیکن از خود کوئی ایسی آئینی ترمیم اتفاقِ رائے سے لانیپرتیار نہیں کہ ہمارے عالمی معاہدات کا طریقۂ کار کیا ہو ، ملکی اور قومی مفادات کا تحفظ کس طرح کیا جائے اور اس کے لیے آئینی اور قانونی Check Listکیا ہونی چاہیے ۔ماضی میں جو ہوچکا ، اُس کی تلافی تو اب ممکن نہیں ہے ، لیکن کم از کم آئندہ کے لیے ہمیں کوئی پیش بندی ضرور کرنی چاہیے ۔